Ruh-ul-Quran - An-Nisaa : 5
وَ لَا تُؤْتُوا السُّفَهَآءَ اَمْوَالَكُمُ الَّتِیْ جَعَلَ اللّٰهُ لَكُمْ قِیٰمًا وَّ ارْزُقُوْهُمْ فِیْهَا وَ اكْسُوْهُمْ وَ قُوْلُوْا لَهُمْ قَوْلًا مَّعْرُوْفًا
وَلَا : اور نہ تُؤْتُوا : دو السُّفَھَآءَ : بےعقل (جمع) اَمْوَالَكُمُ : اپنے مال الَّتِىْ : جو جَعَلَ : بنایا اللّٰهُ : اللہ لَكُمْ : تمہارے لئے قِيٰمًا : سہارا وَّارْزُقُوْھُمْ : اور انہیں کھلاتے رہو فِيْھَا : اس میں وَاكْسُوْھُمْ : اور انہیں پہناتے رہو وَقُوْلُوْا : اور کہو لَھُمْ : ان سے قَوْلًا : بات مَّعْرُوْفًا : معقول
اور اپنے وہ مال جنھیں اللہ نے تمہارے لیے قیام اور بقا کا ذریعہ بنایا ہے نادان لوگوں کے حوالہ نہ کروالبتہ انھیں کھانے اور پہننے کے لیے فراغت کے ساتھ دو اور دستور کے موافق ان کی دل داری کرتے رہو
وَلاَ تُؤْتُوا السُّفَھَآئَ اَمْوَالَکُمُ الَّتِیْ جَعَلَ اللّٰہُ لَـکُمْ قِیٰـمًاوَّارْزُقُوْھُمْ فِیْھَا وَاکْسُوْھُمْ وَقُوْلُوْا لَھُمْ قَوْلاً مَّعْرُوْفًا (اور اپنے وہ مال جنھیں اللہ نے تمہارے لیے قیام اور بقا کا ذریعہ بنایا ہے نادان لوگوں کے حوالہ نہ کروالبتہ انھیں کھانے اور پہننے کے لیے فراغت کے ساتھ دو اور دستور کے موافق ان کی دل داری کرتے رہو) (النسآء : 5) سُفَہَآئَ سے مراد اور مال کی اہمیت سابقہ آیت کریمہ میں یتیموں کے حقوق کے سلسلے میں حکم دیا گیا تھا کہ جن سرپرستوں کی تحویل میں یتیم ہوں جب وہ بالغ ہوجائیں اور اس قابل ہوجائیں کہ ان کے بزرگوں نے جو ان کے لیے مال وراثت چھوڑا تھا اسے سنبھال سکتے ہوں تو وہ مال ان کے سپرد کردو۔ اس آیت کریمہ میں اس حکم پر عمل کرنے کے سلسلے میں جن احتیاطوں اور نزاکتوں کا ملحوظ رکھنا ضروری ہے ان کا ذکر فرمایا جارہا ہے۔ سب سے پہلی یہ ہدایت دی جارہی ہے کہ ولی اور سرپرست کا کام چونکہ یتیموں کی بھلائی اور خیرخواہی ہے۔ اس لیے جب تک یتیم اپنے معاملات کو سنبھالنے کے قابل نہیں ہوتا اس وقت تک اس کی تربیت کرنا ولی اور سرپرست کی ذمہ داری ہے۔ لیکن جب وہ بڑا ہوجائے اور اس کے بزرگوں کا چھوڑا ہوا مال وراثت اگر واقعی اس کے سرپرست کے پاس موجود ہے تو سرپرست کی ذمہ داری ہے کہ جس طرح وہ اس بات کا پابند ہے کہ وہ مال یتیم کے سپرد کرے اسی طرح وہ اس بات کا بھی پابند ہے کہ وہ مال سپرد کرنے میں پوری احتیاط سے کام لے۔ کیونکہ مال کوئی ایسی چیز نہیں ہے جس میں بےاحتیاطی یا لاپرواہی سے کام لیا جاسکتا ہو۔ مال و دولت کی زندگی میں ایک اہمیت ہے بلکہ یہ ایک ایسی بنیادی ضرورت ہے جس کے بغیر زندگی نہیں گزرتی۔ اس لیے اس آیت میں مال کو زندگی کے قیام وبقا کا ذریعہ فرمایا گیا ہے۔ تو جو چیز قیام وبقا کا سبب ہے اس کے بارے میں کسی طرح کی غفلت مال کو بھی نقصان پہنچا سکتی ہے اور نظام تمدن کو بھی تباہ کرسکتی ہے۔ مال و دولت کے بارے میں چونکہ ہمیشہ افراط وتفریط ہوتی رہی ہے اس لیے اسلامی شریعت نے اس کی اصلاح کے لیے خصوصی احکام دیئے ہیں۔ لیکن ان تمام احکام کے باوجود آج بھی ہم دیکھتے ہیں کہ افراط وتفریط پر مبنی طریقہ بدستور جاری ہے۔ جن لوگوں کا دین سے واجبی سا رشتہ ہے اور وہ اپنی زندگی کا اصل مقصد دنیا کمانا ہی سمجھتے ہیں انھوں نے تو دنیا اور دولت دنیا کو مقصد زندگی اور دل کا محبوب سمجھ رکھا ہے۔ وہ اسی کے لیے جیتے اور اس کے چھن جانے سے اس کے غم میں مرجاتے ہیں۔ ان کے ہاں عزت وذلت کے معیارات اسی دولت ہی کے حوالے سے بنتے اور بگڑتے رہتے ہیں۔ ان کے لیے یہ بات سمجھنا آسان نہیں کہ دولت دنیا کا حصول مقصد زندگی نہیں۔ یہ زندگی کی ایک ضرورت ہے جسے بقدر ضرورت اور بوقت ضرورت حاصل کرنا چاہیے۔ اس کی محبت میں ڈوب جانا ‘ یہ کسی طرح مناسب نہیں۔ جو لوگ شریعت کے پابند اور دین دار کہے جاتے ہیں وہ بھی بعض دفعہ افراط وتفریط کا شکار ہوتے ہیں۔ ان میں بطور ِ خاص وہ لوگ جن کو صوفیا کہا جاتا ہے وہ ہمیشہ دنیا اور دولت دنیا کی مذمت میں لگے رہتے ہیں وہ دنیا کو ایک مردار اور اس کے چاہنے والوں کو کتا قرار دیتے ہیں۔ ان کے یہاں دین کا تقاضا یہ ہے کہ جو کچھ تمہارے پاس آئے اسے فوراً اللہ کے راستے میں دے دو ۔ میں یہ نہیں کہتا کہ یہ رویہ بالکل غلط ہے لیکن اس میں کوئی شبہ نہیں کہ یہ رویہ غیر متوازن ہے۔ اگر شریعت کے احکام ایسے ہی ہوتے تو پھر احکامِ زکوٰۃ اور وراثت دینے کی کیا ضرورت تھی اور حق ملکیت کی بحثوں کا کیا فائدہ تھا نازک حالات میں آنحضرت نے ہمیشہ انفاق پر ابھارا ہے۔ کبھی یہ حکم نہیں دیا کہ لوگوں کے پاس ضرورت سے جو زیادہ ہو وہ سب چھین لیا جائے۔ مال کو خیر قرا ردیا اور ضرورت کے لیے اس کا کمانا فریضہ ٹھہرایا گیا۔ دیانت دار تاجر کے فضائل بیان فرمائے گئے، تجارت اور زراعت کو ترقی دینے کے لیے آنحضرت نے ہدایات جاری فرمائیں۔ اگر مال کے بارے میں مذکورہ بالا تصور صحیح ہوتا تو حضور کبھی یہ ہدایات جاری نہ فرماتے۔ مال نہ صرف کمانے کی اجازت دی بلکہ اس کی حفاظت کا بھی حکم دیا یہاں تک فرمایا : مَنْ قُتِلَ دُوْنَ مَالِہٖ فَہُوَ شَھِیْدٌ ” اپنے مال کی حفاظت کرتے ہوئے جو شخص قتل ہوجائے وہ شہید ہے “۔ حقیقت یہ ہے کہ مال ایک دودھاری تلوار ہے یہ زندگی کو رواں دواں رکھنے کے لیے نہایت ضروری ہے لیکن اس کو مقصد زندگی بنالینے سے صرف اخلاقی مفاسد ہی پیدا نہیں ہوتے بلکہ اسلامی تہذیب و تمدن کے لیے بھی خطرات لاحق ہوجاتے ہیں۔ اسلام نے اس کی ان دونوں حیثیتوں کو سامنے رکھتے ہوئے ایسے احتیاطی احکام دیئے ہیں جس سے اس کی افادیت میں اضافہ ہوجاتا ہے اور اس کے ضرر رساں پہلو کمزور پڑجاتے ہیں۔ آنحضرت ﷺ نے ارشاد فرمایا : لاَ بَأسَ بِالْغِنٰی لِمَنِ اتَّقُیَ اللّٰہَ عَزَّوَجَلَّ ” جو شخص اللہ عزوجل سے ڈرتاہو اس کی مال داری میں دین کا کوئی حرج نہیں “۔ جس طرح تلوار مجاہد کے ہاتھ میں اسلام کی قوت ہے اور ڈاکو اور ظالم کے ہاتھ میں انسانیت کی دشمن ہے۔ یہی حال دولت کا بھی ہے کہ اللہ سے ڈرنے والے کے ہاتھ میں خلق خدا کی ضرورت اور تمدن کی خادم ہے۔ لیکن اللہ کے خوف سے بےگانہ آدمی کے پاس اخلاق اور تمدن کے لیے تباہ کن ہے شیخ عبدالقادر جیلانی ( رح) نے ایک موقعہ پر مثال دیتے ہوئے فرمایا :” زندگی کشتی کی مانند ہے اور دنیا کا مال و دولت پانی کی مانند “۔ کشتی پانی کے بغیر نہیں تیر سکتی اس طرح زندگی بھی مال و دولت کے بغیر نہیں گزرتی۔ لیکن یہ پانی اس وقت تک کشتی کے لیے مفید اور اس کی قوت ہے جب تک کشتی کے نیچے ہے اگر خدانخواستہ پانی کشتی کے اندر داخل ہوجائے تو پھر یہ پانی کشتی کی قوت نہیں بلکہ اس کی ہلاکت اور تباہی کا باعث ہے۔ اسی طرح مال و دولت جب تک آدمی کے ہاتھ کی چھڑی ہے تو وہ انسانی تمدن کا ستون ہے۔ اور زندگی کی ضروریات کا سہارا۔ جب تک جیب کی گھڑی ہے تو وہ زندگی میں اعتدال کا ضامن اور خلق خدا کا معاون ہے۔ لیکن جب یہ دل کا محبوب بن جاتا ہے تو پھر یہ ناگ بن جاتا ہے اب اس سے نہ انسانیت بچتی ہے نہ رشتوں کا احترام باقی رہتا ہے نہ اخلاق سلامت رہتے ہیں اور نہ نظام تمدن و معیشت خرابی سے محفوظ رہتا ہے۔ مولانا عبیداللہ احرار ایک صاحب دل بزرگ گزرے تھے۔ ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے دولت و ثروت اور خوشحالی سے بھی نواز اتھا۔ مولانا عبدالرحمن جامی انھیں کے ہمعصر فارسی کے مشہور شاعر اور اپنے وقت کے جید عالم تھے۔ انھوں نے مولانا کی شہرت سنی تو اپنے تزکیہ اور اصلاح کے لیے ان سے ملنے کا فیصلہ کیا۔ ان کے گھرپہنچے تو مولانا گھر میں موجود نہیں تھے۔ انھوں نے گھر دیکھا نوکر چاکر دیکھے بدگمانی سی ہوئی کہ دنیا داروں جیسے ٹھاٹھ باٹھ اللہ والوں کے تو نہیں ہوتے۔ معلوم ہوتا ہے کہ میں غلط جگہ آگیا ہوں۔ شاعر تو تھے ہی ایک مصرعہ موزوں ہوا وہیں دیوار پر لکھ دیا ؎ نہ مرد آنست کہ دنیا دوست دارد وہ شخص مرد خدا نہیں جو دنیا کو دوست رکھتا ہے واپس پلٹے قریب کوئی مسجد تھی وہاں چلے گئے کہ ذرا آرام کرلوں تھک گیا ہوں تو پھر سفر شروع کروں گا۔ اتفاق کی بات آنکھ لگ گئی خواب میں دیکھا کہ دو فرشتوں نے آپکڑا۔ الزام یہ کہ تم نے فلاں کا قرض ادا نہیں کیا ہمیں حکم ملا ہے کہ تمہیں جیل بھیج دیاجائے۔ آپ شور مچا رہے ہیں کہ میں ایک پردیسی ہوں یہاں تو میرے پاس کچھ نہیں۔ اتنے میں کیا دیکھتے ہیں کہ سامنے بگھی پر سوار مولانا عبیداللہ احرار تشریف لارہے ہیں انھوں نے قریب آکر بگھی روکی پوچھا اس غریب کو کیوں پکڑ رکھا ہے بتایا کہ اس نے قرض ادا نہیں کیا پوچھا کہ کتنا قرض ہے۔ بتایا کہ اتنا قرض ہے۔ آپ نے اپنے خزانچی کو حکم دیا کہ قرض ادا کردو۔ قرض ادا ہوگیا تو انھوں نے مولانا عبدالرحمن جامی کو چھوڑ دیا۔ یہ سارا خواب کا ماجرا تھا آنکھ کھل گئی۔ سمجھ گئے کہ اللہ کی طرف سے کوئی اشارہ ہے میں نے لوٹنے میں جلد بازی کی ہے۔ دوبارہ گئے مولانا سے ملاقات ہوگئی، جو کچھ پیش آیا تھا کہہ سنایا۔ مولانا نے فرمایا جو مصرعہ تم نے لکھا تھا اب پڑھو۔ انھوں نے پڑھا ؎ نہ مرد آنست کہ دنیا دوست دارد مولانا عبیداللہ احرار نے فرمایا کہ دوسرا مصرعہ اس طرح لکھو ؎ اگر دارد برائے دوست دارد اگر وہ دنیا اپنے پاس رکھے تو اپنے لیے نہ رکھے دوست یعنی اللہ کے لیے رکھے۔ بس اتنا سا فرق ہے کہ صرف اپنے لیے رکھنے سے دنیا سرتاسر تباہی ہے اور اللہ کے لیے رکھنے سے اللہ کی رحمت بن جاتی ہے۔ اس آیت کریمہ میں یہ توجہ دلائی جارہی ہے کہ مال و دولت چونکہ زندگی کی ضرورت اور قیام وبقا کا ذریعہ ہے اس لیے ایسی مفید اور ضروری چیز کے بارے میں یہ بےاحتیاطی نہیں ہوسکتی کہ دینے سے پہلے یہ نہ سوچا جائے کہ جس کو دیا جارہا ہے وہ دیئے جانے کے قابل بھی ہے یا نہیں۔ سیاق کلام کا تقاضا تو یہ ہے کہ یہاں سُفَہَـآئَ سے یتیم ہی مراد لیے جائیں۔ اور آیت کا مطلب یہ متعین کیا جائے کہ بیوقوف یتیموں کو مال سپرد نہ کرو۔ لیکن حضرت عبداللہ ابن عباس اور حضرت ابو موسیٰ اشعری سے یہ منقول ہے اور امام تفسیر حافظ طبری نے بھی اسی کو اختیار کیا ہے کہ سُفَہَآئَ کا لفظ عام ہے جو تمام لوگوں کو شامل ہے چاہے وہ یتیم ہوں اور چاہے وہ اپنے بچے ہوں۔ وہ اَمْوَالَکُمْ سے استدلال کرتے ہیں کہ اگر یہاں صرف یتیم ہی مراد ہوتے تو پھر اَمْوَالَھُمْکہا جاتا بہرحال کہنے کا مقصد یہ ہے کہ اپنے بچے ہوں یا زیر تربیت یتیم بچے، ان میں اگر عقل اور سمجھ کی ایسی کمی ہے کہ وہ مال کو سنبھال نہیں سکتے بلکہ اندیشہ ہے کہ نقصان کردیں گے تو انھیں مال سپرد نہ کیا جائے۔ البتہ یہ ضرور ہے کہ انھیں کھلانے پلانے اور پہنانے میں جزرسی سے کام نہ لیا جائے۔ یعنی یہ سمجھ کر کہ یہ سیدھے سادھے بچے ہیں جیسا سیدھا سادھا کھلاپلا دیں گے انھیں کیا شکائت ہوگی۔ وَارْزُقُوْھُمْ فِیْھَاسے اس طرف اشارہ نکلتا ہے کہ انھیں کھانے پلانے میں وسعت و فراغت سے کام لیا جائے۔ اگر معمولی کھلانے کی اجازت ہوتی تو وَارْزُقُوْھُمْ مِنْھَا ہوتا۔ ایک ضروری ہدایت ممکن ہے آپ کے ذہن میں یہ خیال آئے کہ یتیم تو اپنے باپ کے مال کے وارث ہونے کی وجہ سے مال کے مالک ہوتے ہیں۔ اس لیے بالغ ہونے کے بعد انھیں مال حوالے کرنا یا ان کے کی طرف سے مال کا مطالبہ ان کا قانونی اور اخلاقی حق ہے۔ لیکن والدین کی جانب سے اپنی اولاد کو اپنی زندگی میں مال و دولت حوالے کرنے کی نہ کوئی اخلاقی مجبوری ہے نہ قانونی۔ تو پھر حضرت عبداللہ ابن عباس اور بعض دوسرے بزرگوں کا اس آیت کے مفہوم میں انھیں شامل کرنا چہ معنیٰ دارد۔ بات دراصل یہ ہے کہ ممکن ہے خیرالقرون میں یہ باتیں اجنبی معلوم ہوتی ہوں۔ لیکن آج کے دور میں تو یہ مشاہداتی حقیقتیں ہیں کہ بچے جیسے ہی جوان ہوتے ہیں وہ بجائے اس کے کہ یہ محسوس کریں کہ بالغ اور جوان ہونے کے بعد والدین اور گھر کی ذمہ داریوں کا بوجھ اٹھا نا ہماری ذمہ داری ہے۔ والدین اپنی ذمہ داریوں کا زمانہ گزار چکے ہیں۔ اب ہماری ذمہ داری کا دور شروع ہوا ہے اس لیے ہمیں دست وبازو اور دماغی قوتوں سے کام لے کر اپنا فرض انجام دینا ہے۔ لیکن دیکھنے میں یہ آتا ہے کہ اگر وہ کاروبار کرنا چاہتے ہیں تو اپنے والد کو مجبور کرتے ہیں کہ کاروبار کے لیے سرمایہ آپ مہیاکریں اور اگر ملازمت اختیار کرتے ہیں تو تنخواہ میں بجائے والدین کی خدمت کرنے اور اپنے آپ کو سمیٹ کر رکھنے کے والدین سے ان کے مطالبات جاری رہتے ہیں۔ ان کے ذہن میں یہ بات مسلسل گردش کرتی رہتی ہے کہ والدین کے پاس جو کچھ ہے وہ ہمارا ہے۔ اور ہم جتنی جلدی ان سے وصول کرلیں بہتر ہے۔ اور اس بات کو وہ غلطی سے بھی ماننے کو تیار نہیں کہ جو کچھ ہمارے پاس ہے یہ والدین کا بھی ہے بلکہ عموماً خوشحال گھرانوں تک میں دیکھا گیا ہے کہ بچے اپنے والد سے دوبدو شکوہ کرتے ہیں کہ آپ نے ہمارے لیے کیا بنایا ہے لیکن انھوں نے والدین کے لیے کیا کیا ہے۔ اس کے لیے وہ کوئی بات سننے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ حالانکہ اسلام نے والدین پر اولاد کی جو ذمہ داریاں ڈالی ہیں وہ بلوغ تک ہیں اور اس کے بعد والدین اولاد کے ساتھ جو حسن سلوک کرتے ہیں وہ تبرع اور احسان ہے۔ جس پر بچوں کو شکر گزار ہونا چاہیے۔ اور ساتھ ساتھ یہ بات ذہن میں مستحضر رکھنی چاہیے کہ جیسے جیسے والدین بوڑھے ہوتے جارہے ہیں ان کی تمام تر ذمہ داریاں اولاد کے سر ہیں۔ جس طرح اولاد والدین کے مال کو اپنامال سمجھتی ہے اسی طرح والدین کو بھی حق ہے کہ وہ اولاد کے مال کو اپنا مال سمجھیں بلکہ بڑھاپے میں اصل حقیقت یہی ہے۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ ایک صحابی اپنے جوان بیٹے کو ساتھ لے کر حضور کی خدمت میں آئے اور عرض کی کہ یہ میرا بیٹا ہے۔ بچپن میں اس کی ماں مرگئی تھی، میں نے اس کو اس طرح پالا کہ میں اس کا باپ بھی تھا اور اس کی ماں بھی۔ میں نے اس کو انگلی پکڑ کر چلنا سکھایا۔ اس کی تکلیف میں راتیں جاگ کرکاٹیں۔ اس کی ہر آسائش کے لیے بیش از بیش قربانی دی۔ اس کی ہر ضرورت کو پورا کرنے کے لیے اپنی ضرورتیں روکیں۔ اب جبکہ یہ جوان ہوگیا ہے اور میں بوڑھا ہوگیا ہوں یہ کمانے لگا ہے اور میں اس کی کمائی کا محتاج ہوگیا ہوں۔ تو یہ اپنی ایک ایک چیز کے بارے میں کہتا ہے کہ یہ میری ہے۔ اپنے مال و دولت کو اپنا سمجھتا ہے اور میرے لیے اس میں کوئی گنجائش محسوس نہیں کرتا۔ آنحضرت نے خاموشی سے باپ کی شکایت سنی۔ پھر اٹھے، اس جوان لڑکے کا ہاتھ پکڑا اور اس کے باپ کے ہاتھ میں دیتے ہوئے فرمایا : اَنْتَ وَمَالُکَ لِاَبِیْکَ ” تو اور تیرا مال تیرے باپ کا ہے “۔ اس حدیث سے آپ کو اندا زہ ہوسکتا ہے کہ اصل حقیقت کیا ہے۔ لیکن ہمارے یہاں الٹی گنگا بہتی ہے۔ بچے جوان ہوتے ہی باپ سے تقاضا کرنے لگتے ہیں کہ آپ کے پاس جو کچھ ہے اس میں ہمار احصہ ہمارے حوالے کردیجیے۔ چناچہ اس طرح کے دبائو کے تحت بعض دفعہ والدین اپنا مال اولاد کے سپرد کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ اور پھر ان کی ناتجربہ کاری یا نااہلیت سے نقصان اٹھاتے ہیں۔ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ بچوں کی طرف سے دبائو نہیں ہوتا لیکن خود والدین کی محبت ان سے اس طرح کے فیصلے کرواتی ہے۔ اور کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ بیویاں ایک سے زیادہ ہیں ایک بیوی کی اولاد جوان ہوگئی۔ کاروبار کرنے لگی۔ اپنے پائوں پر کھڑی ہوگئی۔ دوسری بیوی کے بچے ابھی اس عمر کو نہیں پہنچے کہ ان پر ذمہ داری کا بوجھ ڈالا جاسکے۔ لیکن بچوں کی ماں اپنے شوہر کو مجبور کرتی ہے کہ میرے بچے آپ کے دوسروں بچوں سے پیچھے رہ گئے ہیں اس لیے آپ سرمایہ ان کے حوالے کریں تاکہ وہ بھی اپنے سوتیلے بھائیوں کی طرح خوشحالی کے دن دیکھ سکیں۔ اور ان بچوں کی ماں یہ سمجھنے کے لیے بالکل تیار نہیں ہوتی کہ بچے ابھی نابالغ ہیں یا ان میں ابھی وہ صلاحیت پیدا نہیں ہوئی کہ وہ کامیابی سے کاروبار چلاسکیں لیکن باپ روز روز کے مطالبات سے تنگ آکر سرمایہ ان بچوں کے حوالے کرنے پر مجبور ہوجاتا ہے۔ اس لیے اس آیت کے تحت ایسے والدین کو بھی ہدایات دی جارہی ہیں کہ دیکھو تم اس طرح کی غلطی نہ کرنا۔ بچوں کی محبت اپنی جگہ لیکن دین اور عقل کے تقاضے اپنی جگہ تمہیں بہر حال دین اور عقل کے تقاضوں پر عمل کرنا چاہیے۔ بعض اہل علم کا خیال یہ ہے کہ سفہاء سے مراد صرف زیر تربیت یتیم بچے یا اپنے بچے ہی نہیں ہیں بلکہ یہ ایک جامع ہدایت ہے جس کی مخاطب تمام امت ہے۔ ہدایت یہ دی جارہی ہے کہ مال جو زندگی کے قیام کا ذریعہ ہے اسے ایسے نادان لوگوں کے اختیار اور تصرف میں نہ رہنا چاہیے جو اسے غلط طریقے سے استعمال کرکے نظام تمدن، معیشت اور بالآخر نظام اخلاق کو برباد کردیں۔ اسلام حق ملکیت کو تسلیم کرتا ہے۔ کسی بھی شخص کو جسے اپنی املاک پر حق حاصل ہے اس کا احترام ہونا چاہیے لیکن وہ ایسا غیر محدود نہیں ہونا چاہیے جس سے اجتماعی فساد برپا ہوجائے۔ ایک آدمی ذہین وفطین اور سمجھدا رہے، وہ انتہائی کامیابی سے اپنے کاروبار کو ترقی دے رہا ہے۔ لیکن اس کی دولت ملکی مصالح کے خلاف استعمال ہورہی ہے۔ ایسی تنظیموں کو وہ سپورٹ کررہا ہے جو ملک اور ملک کے نظریات کے لیے تباہ کن ہیں۔ اب اس شخص کو اس لیے نہ روکا جائے کہ وہ اپنے مال پر حقوق مالکانہ رکھتا ہے ریاست چونکہ اپنے شہریوں کی جان، مال، اور آبرو کے ساتھ ساتھ ان کے دین اور اخلاق کی بھی محافظ ہوتی ہے اسی طرح ملک کا دستور اس کے تقاضے اور ملک کے اساسی نظریات کی وہ سب سے بڑھ کر امین ہوتی ہے۔ اگر کسی کی دولت سے ان چیزوں کو نقصان پہنچ رہا ہے تو حق ملکیت کو راستے میں حائل نہیں ہونا چاہیے۔ البتہ یہ ضرور ہے کہ اس معاملے میں نہایت احتیاط اور خدا خوفی کی ضرورت ہے کیونکہ بعض دفعہ یہی جائز اور صالح محرکات حکومت کے ظلم کا باعث بن جاتے ہیں۔
Top