Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Ruh-ul-Quran - An-Nisaa : 5
وَ لَا تُؤْتُوا السُّفَهَآءَ اَمْوَالَكُمُ الَّتِیْ جَعَلَ اللّٰهُ لَكُمْ قِیٰمًا وَّ ارْزُقُوْهُمْ فِیْهَا وَ اكْسُوْهُمْ وَ قُوْلُوْا لَهُمْ قَوْلًا مَّعْرُوْفًا
وَلَا
: اور نہ
تُؤْتُوا
: دو
السُّفَھَآءَ
: بےعقل (جمع)
اَمْوَالَكُمُ
: اپنے مال
الَّتِىْ
: جو
جَعَلَ
: بنایا
اللّٰهُ
: اللہ
لَكُمْ
: تمہارے لئے
قِيٰمًا
: سہارا
وَّارْزُقُوْھُمْ
: اور انہیں کھلاتے رہو
فِيْھَا
: اس میں
وَاكْسُوْھُمْ
: اور انہیں پہناتے رہو
وَقُوْلُوْا
: اور کہو
لَھُمْ
: ان سے
قَوْلًا
: بات
مَّعْرُوْفًا
: معقول
اور اپنے وہ مال جنھیں اللہ نے تمہارے لیے قیام اور بقا کا ذریعہ بنایا ہے نادان لوگوں کے حوالہ نہ کروالبتہ انھیں کھانے اور پہننے کے لیے فراغت کے ساتھ دو اور دستور کے موافق ان کی دل داری کرتے رہو
وَلاَ تُؤْتُوا السُّفَھَآئَ اَمْوَالَکُمُ الَّتِیْ جَعَلَ اللّٰہُ لَـکُمْ قِیٰـمًاوَّارْزُقُوْھُمْ فِیْھَا وَاکْسُوْھُمْ وَقُوْلُوْا لَھُمْ قَوْلاً مَّعْرُوْفًا (اور اپنے وہ مال جنھیں اللہ نے تمہارے لیے قیام اور بقا کا ذریعہ بنایا ہے نادان لوگوں کے حوالہ نہ کروالبتہ انھیں کھانے اور پہننے کے لیے فراغت کے ساتھ دو اور دستور کے موافق ان کی دل داری کرتے رہو) (النسآء : 5) سُفَہَآئَ سے مراد اور مال کی اہمیت سابقہ آیت کریمہ میں یتیموں کے حقوق کے سلسلے میں حکم دیا گیا تھا کہ جن سرپرستوں کی تحویل میں یتیم ہوں جب وہ بالغ ہوجائیں اور اس قابل ہوجائیں کہ ان کے بزرگوں نے جو ان کے لیے مال وراثت چھوڑا تھا اسے سنبھال سکتے ہوں تو وہ مال ان کے سپرد کردو۔ اس آیت کریمہ میں اس حکم پر عمل کرنے کے سلسلے میں جن احتیاطوں اور نزاکتوں کا ملحوظ رکھنا ضروری ہے ان کا ذکر فرمایا جارہا ہے۔ سب سے پہلی یہ ہدایت دی جارہی ہے کہ ولی اور سرپرست کا کام چونکہ یتیموں کی بھلائی اور خیرخواہی ہے۔ اس لیے جب تک یتیم اپنے معاملات کو سنبھالنے کے قابل نہیں ہوتا اس وقت تک اس کی تربیت کرنا ولی اور سرپرست کی ذمہ داری ہے۔ لیکن جب وہ بڑا ہوجائے اور اس کے بزرگوں کا چھوڑا ہوا مال وراثت اگر واقعی اس کے سرپرست کے پاس موجود ہے تو سرپرست کی ذمہ داری ہے کہ جس طرح وہ اس بات کا پابند ہے کہ وہ مال یتیم کے سپرد کرے اسی طرح وہ اس بات کا بھی پابند ہے کہ وہ مال سپرد کرنے میں پوری احتیاط سے کام لے۔ کیونکہ مال کوئی ایسی چیز نہیں ہے جس میں بےاحتیاطی یا لاپرواہی سے کام لیا جاسکتا ہو۔ مال و دولت کی زندگی میں ایک اہمیت ہے بلکہ یہ ایک ایسی بنیادی ضرورت ہے جس کے بغیر زندگی نہیں گزرتی۔ اس لیے اس آیت میں مال کو زندگی کے قیام وبقا کا ذریعہ فرمایا گیا ہے۔ تو جو چیز قیام وبقا کا سبب ہے اس کے بارے میں کسی طرح کی غفلت مال کو بھی نقصان پہنچا سکتی ہے اور نظام تمدن کو بھی تباہ کرسکتی ہے۔ مال و دولت کے بارے میں چونکہ ہمیشہ افراط وتفریط ہوتی رہی ہے اس لیے اسلامی شریعت نے اس کی اصلاح کے لیے خصوصی احکام دیئے ہیں۔ لیکن ان تمام احکام کے باوجود آج بھی ہم دیکھتے ہیں کہ افراط وتفریط پر مبنی طریقہ بدستور جاری ہے۔ جن لوگوں کا دین سے واجبی سا رشتہ ہے اور وہ اپنی زندگی کا اصل مقصد دنیا کمانا ہی سمجھتے ہیں انھوں نے تو دنیا اور دولت دنیا کو مقصد زندگی اور دل کا محبوب سمجھ رکھا ہے۔ وہ اسی کے لیے جیتے اور اس کے چھن جانے سے اس کے غم میں مرجاتے ہیں۔ ان کے ہاں عزت وذلت کے معیارات اسی دولت ہی کے حوالے سے بنتے اور بگڑتے رہتے ہیں۔ ان کے لیے یہ بات سمجھنا آسان نہیں کہ دولت دنیا کا حصول مقصد زندگی نہیں۔ یہ زندگی کی ایک ضرورت ہے جسے بقدر ضرورت اور بوقت ضرورت حاصل کرنا چاہیے۔ اس کی محبت میں ڈوب جانا ‘ یہ کسی طرح مناسب نہیں۔ جو لوگ شریعت کے پابند اور دین دار کہے جاتے ہیں وہ بھی بعض دفعہ افراط وتفریط کا شکار ہوتے ہیں۔ ان میں بطور ِ خاص وہ لوگ جن کو صوفیا کہا جاتا ہے وہ ہمیشہ دنیا اور دولت دنیا کی مذمت میں لگے رہتے ہیں وہ دنیا کو ایک مردار اور اس کے چاہنے والوں کو کتا قرار دیتے ہیں۔ ان کے یہاں دین کا تقاضا یہ ہے کہ جو کچھ تمہارے پاس آئے اسے فوراً اللہ کے راستے میں دے دو ۔ میں یہ نہیں کہتا کہ یہ رویہ بالکل غلط ہے لیکن اس میں کوئی شبہ نہیں کہ یہ رویہ غیر متوازن ہے۔ اگر شریعت کے احکام ایسے ہی ہوتے تو پھر احکامِ زکوٰۃ اور وراثت دینے کی کیا ضرورت تھی اور حق ملکیت کی بحثوں کا کیا فائدہ تھا نازک حالات میں آنحضرت نے ہمیشہ انفاق پر ابھارا ہے۔ کبھی یہ حکم نہیں دیا کہ لوگوں کے پاس ضرورت سے جو زیادہ ہو وہ سب چھین لیا جائے۔ مال کو خیر قرا ردیا اور ضرورت کے لیے اس کا کمانا فریضہ ٹھہرایا گیا۔ دیانت دار تاجر کے فضائل بیان فرمائے گئے، تجارت اور زراعت کو ترقی دینے کے لیے آنحضرت نے ہدایات جاری فرمائیں۔ اگر مال کے بارے میں مذکورہ بالا تصور صحیح ہوتا تو حضور کبھی یہ ہدایات جاری نہ فرماتے۔ مال نہ صرف کمانے کی اجازت دی بلکہ اس کی حفاظت کا بھی حکم دیا یہاں تک فرمایا : مَنْ قُتِلَ دُوْنَ مَالِہٖ فَہُوَ شَھِیْدٌ ” اپنے مال کی حفاظت کرتے ہوئے جو شخص قتل ہوجائے وہ شہید ہے “۔ حقیقت یہ ہے کہ مال ایک دودھاری تلوار ہے یہ زندگی کو رواں دواں رکھنے کے لیے نہایت ضروری ہے لیکن اس کو مقصد زندگی بنالینے سے صرف اخلاقی مفاسد ہی پیدا نہیں ہوتے بلکہ اسلامی تہذیب و تمدن کے لیے بھی خطرات لاحق ہوجاتے ہیں۔ اسلام نے اس کی ان دونوں حیثیتوں کو سامنے رکھتے ہوئے ایسے احتیاطی احکام دیئے ہیں جس سے اس کی افادیت میں اضافہ ہوجاتا ہے اور اس کے ضرر رساں پہلو کمزور پڑجاتے ہیں۔ آنحضرت ﷺ نے ارشاد فرمایا : لاَ بَأسَ بِالْغِنٰی لِمَنِ اتَّقُیَ اللّٰہَ عَزَّوَجَلَّ ” جو شخص اللہ عزوجل سے ڈرتاہو اس کی مال داری میں دین کا کوئی حرج نہیں “۔ جس طرح تلوار مجاہد کے ہاتھ میں اسلام کی قوت ہے اور ڈاکو اور ظالم کے ہاتھ میں انسانیت کی دشمن ہے۔ یہی حال دولت کا بھی ہے کہ اللہ سے ڈرنے والے کے ہاتھ میں خلق خدا کی ضرورت اور تمدن کی خادم ہے۔ لیکن اللہ کے خوف سے بےگانہ آدمی کے پاس اخلاق اور تمدن کے لیے تباہ کن ہے شیخ عبدالقادر جیلانی ( رح) نے ایک موقعہ پر مثال دیتے ہوئے فرمایا :” زندگی کشتی کی مانند ہے اور دنیا کا مال و دولت پانی کی مانند “۔ کشتی پانی کے بغیر نہیں تیر سکتی اس طرح زندگی بھی مال و دولت کے بغیر نہیں گزرتی۔ لیکن یہ پانی اس وقت تک کشتی کے لیے مفید اور اس کی قوت ہے جب تک کشتی کے نیچے ہے اگر خدانخواستہ پانی کشتی کے اندر داخل ہوجائے تو پھر یہ پانی کشتی کی قوت نہیں بلکہ اس کی ہلاکت اور تباہی کا باعث ہے۔ اسی طرح مال و دولت جب تک آدمی کے ہاتھ کی چھڑی ہے تو وہ انسانی تمدن کا ستون ہے۔ اور زندگی کی ضروریات کا سہارا۔ جب تک جیب کی گھڑی ہے تو وہ زندگی میں اعتدال کا ضامن اور خلق خدا کا معاون ہے۔ لیکن جب یہ دل کا محبوب بن جاتا ہے تو پھر یہ ناگ بن جاتا ہے اب اس سے نہ انسانیت بچتی ہے نہ رشتوں کا احترام باقی رہتا ہے نہ اخلاق سلامت رہتے ہیں اور نہ نظام تمدن و معیشت خرابی سے محفوظ رہتا ہے۔ مولانا عبیداللہ احرار ایک صاحب دل بزرگ گزرے تھے۔ ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے دولت و ثروت اور خوشحالی سے بھی نواز اتھا۔ مولانا عبدالرحمن جامی انھیں کے ہمعصر فارسی کے مشہور شاعر اور اپنے وقت کے جید عالم تھے۔ انھوں نے مولانا کی شہرت سنی تو اپنے تزکیہ اور اصلاح کے لیے ان سے ملنے کا فیصلہ کیا۔ ان کے گھرپہنچے تو مولانا گھر میں موجود نہیں تھے۔ انھوں نے گھر دیکھا نوکر چاکر دیکھے بدگمانی سی ہوئی کہ دنیا داروں جیسے ٹھاٹھ باٹھ اللہ والوں کے تو نہیں ہوتے۔ معلوم ہوتا ہے کہ میں غلط جگہ آگیا ہوں۔ شاعر تو تھے ہی ایک مصرعہ موزوں ہوا وہیں دیوار پر لکھ دیا ؎ نہ مرد آنست کہ دنیا دوست دارد وہ شخص مرد خدا نہیں جو دنیا کو دوست رکھتا ہے واپس پلٹے قریب کوئی مسجد تھی وہاں چلے گئے کہ ذرا آرام کرلوں تھک گیا ہوں تو پھر سفر شروع کروں گا۔ اتفاق کی بات آنکھ لگ گئی خواب میں دیکھا کہ دو فرشتوں نے آپکڑا۔ الزام یہ کہ تم نے فلاں کا قرض ادا نہیں کیا ہمیں حکم ملا ہے کہ تمہیں جیل بھیج دیاجائے۔ آپ شور مچا رہے ہیں کہ میں ایک پردیسی ہوں یہاں تو میرے پاس کچھ نہیں۔ اتنے میں کیا دیکھتے ہیں کہ سامنے بگھی پر سوار مولانا عبیداللہ احرار تشریف لارہے ہیں انھوں نے قریب آکر بگھی روکی پوچھا اس غریب کو کیوں پکڑ رکھا ہے بتایا کہ اس نے قرض ادا نہیں کیا پوچھا کہ کتنا قرض ہے۔ بتایا کہ اتنا قرض ہے۔ آپ نے اپنے خزانچی کو حکم دیا کہ قرض ادا کردو۔ قرض ادا ہوگیا تو انھوں نے مولانا عبدالرحمن جامی کو چھوڑ دیا۔ یہ سارا خواب کا ماجرا تھا آنکھ کھل گئی۔ سمجھ گئے کہ اللہ کی طرف سے کوئی اشارہ ہے میں نے لوٹنے میں جلد بازی کی ہے۔ دوبارہ گئے مولانا سے ملاقات ہوگئی، جو کچھ پیش آیا تھا کہہ سنایا۔ مولانا نے فرمایا جو مصرعہ تم نے لکھا تھا اب پڑھو۔ انھوں نے پڑھا ؎ نہ مرد آنست کہ دنیا دوست دارد مولانا عبیداللہ احرار نے فرمایا کہ دوسرا مصرعہ اس طرح لکھو ؎ اگر دارد برائے دوست دارد اگر وہ دنیا اپنے پاس رکھے تو اپنے لیے نہ رکھے دوست یعنی اللہ کے لیے رکھے۔ بس اتنا سا فرق ہے کہ صرف اپنے لیے رکھنے سے دنیا سرتاسر تباہی ہے اور اللہ کے لیے رکھنے سے اللہ کی رحمت بن جاتی ہے۔ اس آیت کریمہ میں یہ توجہ دلائی جارہی ہے کہ مال و دولت چونکہ زندگی کی ضرورت اور قیام وبقا کا ذریعہ ہے اس لیے ایسی مفید اور ضروری چیز کے بارے میں یہ بےاحتیاطی نہیں ہوسکتی کہ دینے سے پہلے یہ نہ سوچا جائے کہ جس کو دیا جارہا ہے وہ دیئے جانے کے قابل بھی ہے یا نہیں۔ سیاق کلام کا تقاضا تو یہ ہے کہ یہاں سُفَہَـآئَ سے یتیم ہی مراد لیے جائیں۔ اور آیت کا مطلب یہ متعین کیا جائے کہ بیوقوف یتیموں کو مال سپرد نہ کرو۔ لیکن حضرت عبداللہ ابن عباس اور حضرت ابو موسیٰ اشعری سے یہ منقول ہے اور امام تفسیر حافظ طبری نے بھی اسی کو اختیار کیا ہے کہ سُفَہَآئَ کا لفظ عام ہے جو تمام لوگوں کو شامل ہے چاہے وہ یتیم ہوں اور چاہے وہ اپنے بچے ہوں۔ وہ اَمْوَالَکُمْ سے استدلال کرتے ہیں کہ اگر یہاں صرف یتیم ہی مراد ہوتے تو پھر اَمْوَالَھُمْکہا جاتا بہرحال کہنے کا مقصد یہ ہے کہ اپنے بچے ہوں یا زیر تربیت یتیم بچے، ان میں اگر عقل اور سمجھ کی ایسی کمی ہے کہ وہ مال کو سنبھال نہیں سکتے بلکہ اندیشہ ہے کہ نقصان کردیں گے تو انھیں مال سپرد نہ کیا جائے۔ البتہ یہ ضرور ہے کہ انھیں کھلانے پلانے اور پہنانے میں جزرسی سے کام نہ لیا جائے۔ یعنی یہ سمجھ کر کہ یہ سیدھے سادھے بچے ہیں جیسا سیدھا سادھا کھلاپلا دیں گے انھیں کیا شکائت ہوگی۔ وَارْزُقُوْھُمْ فِیْھَاسے اس طرف اشارہ نکلتا ہے کہ انھیں کھانے پلانے میں وسعت و فراغت سے کام لیا جائے۔ اگر معمولی کھلانے کی اجازت ہوتی تو وَارْزُقُوْھُمْ مِنْھَا ہوتا۔ ایک ضروری ہدایت ممکن ہے آپ کے ذہن میں یہ خیال آئے کہ یتیم تو اپنے باپ کے مال کے وارث ہونے کی وجہ سے مال کے مالک ہوتے ہیں۔ اس لیے بالغ ہونے کے بعد انھیں مال حوالے کرنا یا ان کے کی طرف سے مال کا مطالبہ ان کا قانونی اور اخلاقی حق ہے۔ لیکن والدین کی جانب سے اپنی اولاد کو اپنی زندگی میں مال و دولت حوالے کرنے کی نہ کوئی اخلاقی مجبوری ہے نہ قانونی۔ تو پھر حضرت عبداللہ ابن عباس اور بعض دوسرے بزرگوں کا اس آیت کے مفہوم میں انھیں شامل کرنا چہ معنیٰ دارد۔ بات دراصل یہ ہے کہ ممکن ہے خیرالقرون میں یہ باتیں اجنبی معلوم ہوتی ہوں۔ لیکن آج کے دور میں تو یہ مشاہداتی حقیقتیں ہیں کہ بچے جیسے ہی جوان ہوتے ہیں وہ بجائے اس کے کہ یہ محسوس کریں کہ بالغ اور جوان ہونے کے بعد والدین اور گھر کی ذمہ داریوں کا بوجھ اٹھا نا ہماری ذمہ داری ہے۔ والدین اپنی ذمہ داریوں کا زمانہ گزار چکے ہیں۔ اب ہماری ذمہ داری کا دور شروع ہوا ہے اس لیے ہمیں دست وبازو اور دماغی قوتوں سے کام لے کر اپنا فرض انجام دینا ہے۔ لیکن دیکھنے میں یہ آتا ہے کہ اگر وہ کاروبار کرنا چاہتے ہیں تو اپنے والد کو مجبور کرتے ہیں کہ کاروبار کے لیے سرمایہ آپ مہیاکریں اور اگر ملازمت اختیار کرتے ہیں تو تنخواہ میں بجائے والدین کی خدمت کرنے اور اپنے آپ کو سمیٹ کر رکھنے کے والدین سے ان کے مطالبات جاری رہتے ہیں۔ ان کے ذہن میں یہ بات مسلسل گردش کرتی رہتی ہے کہ والدین کے پاس جو کچھ ہے وہ ہمارا ہے۔ اور ہم جتنی جلدی ان سے وصول کرلیں بہتر ہے۔ اور اس بات کو وہ غلطی سے بھی ماننے کو تیار نہیں کہ جو کچھ ہمارے پاس ہے یہ والدین کا بھی ہے بلکہ عموماً خوشحال گھرانوں تک میں دیکھا گیا ہے کہ بچے اپنے والد سے دوبدو شکوہ کرتے ہیں کہ آپ نے ہمارے لیے کیا بنایا ہے لیکن انھوں نے والدین کے لیے کیا کیا ہے۔ اس کے لیے وہ کوئی بات سننے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ حالانکہ اسلام نے والدین پر اولاد کی جو ذمہ داریاں ڈالی ہیں وہ بلوغ تک ہیں اور اس کے بعد والدین اولاد کے ساتھ جو حسن سلوک کرتے ہیں وہ تبرع اور احسان ہے۔ جس پر بچوں کو شکر گزار ہونا چاہیے۔ اور ساتھ ساتھ یہ بات ذہن میں مستحضر رکھنی چاہیے کہ جیسے جیسے والدین بوڑھے ہوتے جارہے ہیں ان کی تمام تر ذمہ داریاں اولاد کے سر ہیں۔ جس طرح اولاد والدین کے مال کو اپنامال سمجھتی ہے اسی طرح والدین کو بھی حق ہے کہ وہ اولاد کے مال کو اپنا مال سمجھیں بلکہ بڑھاپے میں اصل حقیقت یہی ہے۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ ایک صحابی اپنے جوان بیٹے کو ساتھ لے کر حضور کی خدمت میں آئے اور عرض کی کہ یہ میرا بیٹا ہے۔ بچپن میں اس کی ماں مرگئی تھی، میں نے اس کو اس طرح پالا کہ میں اس کا باپ بھی تھا اور اس کی ماں بھی۔ میں نے اس کو انگلی پکڑ کر چلنا سکھایا۔ اس کی تکلیف میں راتیں جاگ کرکاٹیں۔ اس کی ہر آسائش کے لیے بیش از بیش قربانی دی۔ اس کی ہر ضرورت کو پورا کرنے کے لیے اپنی ضرورتیں روکیں۔ اب جبکہ یہ جوان ہوگیا ہے اور میں بوڑھا ہوگیا ہوں یہ کمانے لگا ہے اور میں اس کی کمائی کا محتاج ہوگیا ہوں۔ تو یہ اپنی ایک ایک چیز کے بارے میں کہتا ہے کہ یہ میری ہے۔ اپنے مال و دولت کو اپنا سمجھتا ہے اور میرے لیے اس میں کوئی گنجائش محسوس نہیں کرتا۔ آنحضرت نے خاموشی سے باپ کی شکایت سنی۔ پھر اٹھے، اس جوان لڑکے کا ہاتھ پکڑا اور اس کے باپ کے ہاتھ میں دیتے ہوئے فرمایا : اَنْتَ وَمَالُکَ لِاَبِیْکَ ” تو اور تیرا مال تیرے باپ کا ہے “۔ اس حدیث سے آپ کو اندا زہ ہوسکتا ہے کہ اصل حقیقت کیا ہے۔ لیکن ہمارے یہاں الٹی گنگا بہتی ہے۔ بچے جوان ہوتے ہی باپ سے تقاضا کرنے لگتے ہیں کہ آپ کے پاس جو کچھ ہے اس میں ہمار احصہ ہمارے حوالے کردیجیے۔ چناچہ اس طرح کے دبائو کے تحت بعض دفعہ والدین اپنا مال اولاد کے سپرد کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ اور پھر ان کی ناتجربہ کاری یا نااہلیت سے نقصان اٹھاتے ہیں۔ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ بچوں کی طرف سے دبائو نہیں ہوتا لیکن خود والدین کی محبت ان سے اس طرح کے فیصلے کرواتی ہے۔ اور کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ بیویاں ایک سے زیادہ ہیں ایک بیوی کی اولاد جوان ہوگئی۔ کاروبار کرنے لگی۔ اپنے پائوں پر کھڑی ہوگئی۔ دوسری بیوی کے بچے ابھی اس عمر کو نہیں پہنچے کہ ان پر ذمہ داری کا بوجھ ڈالا جاسکے۔ لیکن بچوں کی ماں اپنے شوہر کو مجبور کرتی ہے کہ میرے بچے آپ کے دوسروں بچوں سے پیچھے رہ گئے ہیں اس لیے آپ سرمایہ ان کے حوالے کریں تاکہ وہ بھی اپنے سوتیلے بھائیوں کی طرح خوشحالی کے دن دیکھ سکیں۔ اور ان بچوں کی ماں یہ سمجھنے کے لیے بالکل تیار نہیں ہوتی کہ بچے ابھی نابالغ ہیں یا ان میں ابھی وہ صلاحیت پیدا نہیں ہوئی کہ وہ کامیابی سے کاروبار چلاسکیں لیکن باپ روز روز کے مطالبات سے تنگ آکر سرمایہ ان بچوں کے حوالے کرنے پر مجبور ہوجاتا ہے۔ اس لیے اس آیت کے تحت ایسے والدین کو بھی ہدایات دی جارہی ہیں کہ دیکھو تم اس طرح کی غلطی نہ کرنا۔ بچوں کی محبت اپنی جگہ لیکن دین اور عقل کے تقاضے اپنی جگہ تمہیں بہر حال دین اور عقل کے تقاضوں پر عمل کرنا چاہیے۔ بعض اہل علم کا خیال یہ ہے کہ سفہاء سے مراد صرف زیر تربیت یتیم بچے یا اپنے بچے ہی نہیں ہیں بلکہ یہ ایک جامع ہدایت ہے جس کی مخاطب تمام امت ہے۔ ہدایت یہ دی جارہی ہے کہ مال جو زندگی کے قیام کا ذریعہ ہے اسے ایسے نادان لوگوں کے اختیار اور تصرف میں نہ رہنا چاہیے جو اسے غلط طریقے سے استعمال کرکے نظام تمدن، معیشت اور بالآخر نظام اخلاق کو برباد کردیں۔ اسلام حق ملکیت کو تسلیم کرتا ہے۔ کسی بھی شخص کو جسے اپنی املاک پر حق حاصل ہے اس کا احترام ہونا چاہیے لیکن وہ ایسا غیر محدود نہیں ہونا چاہیے جس سے اجتماعی فساد برپا ہوجائے۔ ایک آدمی ذہین وفطین اور سمجھدا رہے، وہ انتہائی کامیابی سے اپنے کاروبار کو ترقی دے رہا ہے۔ لیکن اس کی دولت ملکی مصالح کے خلاف استعمال ہورہی ہے۔ ایسی تنظیموں کو وہ سپورٹ کررہا ہے جو ملک اور ملک کے نظریات کے لیے تباہ کن ہیں۔ اب اس شخص کو اس لیے نہ روکا جائے کہ وہ اپنے مال پر حقوق مالکانہ رکھتا ہے ریاست چونکہ اپنے شہریوں کی جان، مال، اور آبرو کے ساتھ ساتھ ان کے دین اور اخلاق کی بھی محافظ ہوتی ہے اسی طرح ملک کا دستور اس کے تقاضے اور ملک کے اساسی نظریات کی وہ سب سے بڑھ کر امین ہوتی ہے۔ اگر کسی کی دولت سے ان چیزوں کو نقصان پہنچ رہا ہے تو حق ملکیت کو راستے میں حائل نہیں ہونا چاہیے۔ البتہ یہ ضرور ہے کہ اس معاملے میں نہایت احتیاط اور خدا خوفی کی ضرورت ہے کیونکہ بعض دفعہ یہی جائز اور صالح محرکات حکومت کے ظلم کا باعث بن جاتے ہیں۔
Top