Ruh-ul-Quran - An-Nisaa : 38
وَ الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَهُمْ رِئَآءَ النَّاسِ وَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَ لَا بِالْیَوْمِ الْاٰخِرِ١ؕ وَ مَنْ یَّكُنِ الشَّیْطٰنُ لَهٗ قَرِیْنًا فَسَآءَ قَرِیْنًا
وَالَّذِيْنَ : اور جو لوگ يُنْفِقُوْنَ : خرچ کرتے ہیں اَمْوَالَھُمْ : اپنے مال رِئَآءَ : دکھاوے کو النَّاسِ : لوگ وَ : اور لَا يُؤْمِنُوْنَ : نہیں ایمان لاتے بِاللّٰهِ : اللہ پر وَلَا : اور نہ بِالْيَوْمِ الْاٰخِرِ : آخرت کے دن پر وَمَنْ : اور جو۔ جس يَّكُنِ : ہو الشَّيْطٰنُ : شیطان لَهٗ : اس کا قَرِيْنًا : ساتھی فَسَآءَ : تو برا قَرِيْنًا : ساتھی
اور وہ لوگ جو اپنے مال لوگوں کو دکھانے کے لیے خرچ کرتے ہیں اور اللہ اور روز آخرت پر ایمان نہیں رکھتے اور جس کا ساتھی شیطان بن جائے وہ نہایت برا ساتھی ہے
وَالَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَھُمْ رِئَـآئَ النَّاسِ وَلَایُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَلاَ بِالْیَوْمِ الْاٰخِرِ ط وَمَنْ یَّـکُنِ الشَّیْطٰنُ لَـہٗ قَرِیْنًا فَسَآئَ قَرِیْنًا (اور وہ لوگ جو اپنے مال لوگوں کو دکھانے کے لیے خرچ کرتے ہیں اور اللہ اور روز آخرت پر ایمان نہیں رکھتے اور جس کا ساتھی شیطان بن جائے وہ نہایت برا ساتھی ہے) (النسآء : 38) 4 ان متکبروں کی چوتھی خصوصیت یہ ہے کہ وہ اللہ کے بندوں پر، اللہ کے راستے میں اور خیر اور بھلائی کے کسی کام کے لیے تو ایک دمڑی خرچ کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے لیکن ایسی جگہوں اور ایسے کاموں میں دل کھول کر خرچ کرتے ہیں جہاں لوگ دیکھیں ان کے نام کا چرچاہو ان کی شہرت پھیلے اور لوگ تعریفیں کریں کہ فلاں آدمی کا کیا کہناوہ تو بہت فیاض آدمی ہے۔ وہ تو اجتماعی کاموں کے لیے بڑھ چڑھ کر خرچ کرتا ہے۔ حکومت کسی کام کے لیے اگر امرا کو دعوت دیتی ہے کہ اس میں حکومت کی مدد کرے یا کسی ادارے کو قائم کرنے کے لیے حکومت کوئی سکیم منظور کرتی ہے یا کوئی وقتی آفت آنے پر حکومت کی طرف سے اپیلیں ہوتی ہیں تو یہ لوگ دوسروں سے آگے بڑھ کر حکمرانوں کے ساتھ تصویریں کھنچوائیں گے، وہاں بڑی بڑی رقموں کا اعلان کریں گے اور ساتھ ہی ساتھ پوری کوشش کریں گے کہ ان کا یہ اعلان قومی ذرائع ابلاغ کے ذریعے لوگوں تک پہنچ جائے تاکہ ان کی نیک نامی ہو اور حکومت کے بڑے بڑے لوگوں کے بھی علم میں آجائے تاکہ ان کی نگاہوں میں ان کی عزت پیداہو۔ جو کچھ وہ خرچ کرتے ہیں اس سے مقصود صرف یہ ہوتا ہے کہ لوگوں کی رائے اپنے حق میں ہموار کریں اور ساتھ ہی ساتھ حکمرانوں کی نگاہوں میں بھی اپنا ایک مقام پیدا کریں۔ لوگوں کی رائے بدلنے کا فائدہ الیکشن کی صورت میں نکلتا ہے۔ لوگ ان کی ان نیک نامیوں کے باعث انھیں ووٹ دیتے ہیں اور یہ انھیں چندوں اور فیاضیوں کی وجہ سے اسمبلیوں میں پہنچ جاتے ہیں اور وہاں جاکر مختلف ذرائع سے وہ ساری کمی پوری کرتے ہیں جو آج تک ان کی فیاضیوں کے نتیجے میں ان کی دولت میں واقع ہوئی ہے اور حکمرانوں کا اعتبار حاصل کرکے ان سے مصنوعی اداروں کے لیے فنڈز منظور کرواتے ہیں اور ایسی ایسی مراعات حاصل کرتے ہیں جس سے زیادہ سے زیادہ دولت جمع کرنے میں انھیں مدد ملتی ہے۔ قرآن کریم ہمیں بتاتا ہے کہ یہ لوگ سب کچھ محض لوگوں کو دکھانے کی خاطر اس لیے کرتے ہیں کہ وہ اللہ پر ایمان کا دعویٰ تو رکھتے ہیں لیکن حقیقت میں ان کے دلوں میں ایمان نہیں۔ وہ آخرت کا اقرار بھی کرتے ہیں لیکن انھیں ہرگز یقین نہیں کہ آخرت واقع ہوگی اور اس دن اپنے تمام اعمال کا جواب دینا پڑے گا۔ اللہ پر اس طرح کا ایمان کہ وہ آدمی کے ہر عمل کو دیکھتا ہے اس کی نیت کو جانتا ہے اس کے ارادوں سے واقف ہے، وہ ہرحال میں اس کانگران ہے، کوئی کام ہزار تنہائیوں میں کیا جائے وہ اس سے بھی واقف ہے۔ مزید یہ کہ اللہ کی قدرت بےپناہ ہے ہر چیز اس کے قبضے میں ہے، رزق کے خزانے بھی اسی کے پاس ہیں، وہ جسے چاہے خوشحالی دیتا ہے اور جسے چاہے بدحالی میں مبتلا کردیتا ہے، لیکن یہ خوشحالی اور بدحالی اس کی طرف سے بندے کی آزمائش ہے کہ وہ خوشحالی میں شکر گزار ہوتا ہے یانھیں اور بدحالی میں صبر کرتا ہے یانھیں اور ساتھ اس بات کا یقین رکھتا ہے یانھیں کہ رزق میں فراخی اور تنگی سراسر اللہ کے ہاتھ میں ہے اس لیے مجھے ہمیشہ اسی کے سامنے دست سوال پھیلانا چاہیے۔ اور دوسرا اس بات کا یقین اور ایمان کہ میں جو کچھ کررہا ہوں میرا ایک ایک عمل محفوظ کیا جارہا ہے، میرے دونوں کندھوں پر دو لکھنے والے بیٹھے ہیں جو نہایت دیانت داری اور احتیاط کے ساتھ میرے اعمال کو منضبط کررہے ہیں۔ قیامت کا دن آئے گا جب مجھ سے میرے ایک ایک عمل کا حساب مانگا جائے گا۔ مجھ سے پوچھا جائے گا تم نے دولت کیسے کمائی اور کہاں خرچ کی ؟ یہ ایمان کے دو پہلو ہیں جو انسان کو راہ راست پر رکھتے ہیں۔ جس آدمی کو یقین ہو کہ میں اللہ کی نگاہوں میں ہوں وہ سرکشی کیسے کرسکتا ہے ؟ اور جسے ایمان ہو کہ ایک نہ ایک دن مجھے اپنے اعمال کی جواب دہی بھی کرنی ہے وہ اعمال کے بارے میں بےفکر اور لاپرواہ کیسے ہوسکتا ہے ؟ اور وہ کس طرح اپنی دولت کو برے کاموں میں یا دکھاوے کے لیے خرچ کرسکتا ہے ؟ دکھاوے کے لیے تو عبادت بھی کی جائے تو شرک بن جاتی ہے چہ جائیکہ عام عمل اللہ کی رضا جوئی کے بجائے لوگوں کو خوش کرنے کے لیے کیا جائے۔ چناچہ جو لوگ ایمان کے ان دونوں پہلوئوں سے محروم ہوجاتے ہیں ان کی سوچ میں نہایت خطرناک تبدیلی آتی ہے۔ وہ پھر اسی دنیا کو سب کچھ سمجھتے ہیں ان کے نزدیک اسی دنیا کی خوشیاں اصل خوشیاں ہیں اور اسی کے غم حقیقی غم ہیں۔ جو آدمی اللہ پر ایمان کھودیتا ہے اور دولت اور اقتدار کو سب سے بڑی قوت سمجھتا ہے اور آخرت میں جواب دہی کے احساس سے بےنیاز ہوجاتا ہے اس کی دولت اللہ اور اس کے بندوں کی دولت نہیں بلکہ شیطان کی دولت بن جاتی ہے وہ مختلف سکیموں کے ذریعے دولت بھی کمائے گا اور سود کی لعنت بھی عام کرے گا۔ وہ مختلف اداروں پر خرچ کرے گا لیکن وہاں کسی خیر کا گزر نہیں ہوگا۔ وہاں ہر برائی اور ہر بےحیائی کو فروغ ملے گا۔ ہر وہ کام کرے گا جس سے اس کی دولت بڑھے اور اس کے ساتھ ساتھ شیطنت بھی پھیلے۔ اب اس کی خواہشات کی باگ دوڑ شیطان کے ہاتھ میں ہوگی۔ وہ جس راستے کی اسے ترغیب دے گا وہ ادھر چلے گا۔ اس کی مثال اس سوار کی ہوگی جو اپنے گھوڑے کے قابو میں آچکاہو اور لگام اس کے ہاتھ سے چھوٹ چکی ہو۔ اب گھوڑا اسے کھینچے پھرے گا۔ کچھ خبر نہیں کہ وہ اسے کس کھائی میں پھینکتا ہے۔ گھوڑا ایک جانور ہے جو اپنے مالک کو بچا بھی سکتا ہے اور مار بھی سکتا ہے۔ اس میں اگر بہیمیت کی وجہ سے نقصان رسانی کے پہلو ہیں تو اپنے مالک سے وفاداری کی وجہ سے بہتر امید بھی کی جاسکتی ہے۔ لیکن جو شخص شیطان کو اپنا دوست بنالے اور وہ ہر کام میں شیطان کی راہنمائی کو قبول کرلے اور شیطان کی انگیخت کو ہی اپنے نفس کا مطالبہ سمجھ بیٹھے اورا سی کے مطابق زندگی گزارنے کا فیصلہ کرلے تو ایسے شخص کی تباہی کے بارے میں دورائے نہیں ہوسکتیں کیونکہ شیطان ازل سے انسان کا دشمن ہے اس نے جنت میں حضرت آدم (علیہ السلام) سے دشمنی کی حضرت ِ آدم کو سجدہ کرنے سے انکار کیا ان کی برتری کو تسلیم نہ کرنے کے باعث اسے راندہ ٔ درگاہ قراردیا گیا اور ذلت سے اسے وہاں سے نکلناپڑا۔ اس نے آدم کی اولاد سے اس کا انتقام لینے کا فیصلہ کرلیا اور پھر اس نے اپنے اس ارادے کو چھپایا نہیں بلکہ اللہ کے سامنے اس کا اظہار بھی کیا اس لیے قرآن کریم نے انسانوں کو اس سے باخبر کرتے ہوئے بتایا : اِنَّہٗ لَکُمْ عَدُوٌّمُّبِیْن (یہ شیطان تمہارا کھلم کھلا دشمن ہے) ۔ ایسا خطرناک دشمن جس کا ساتھی بن جائے وہ یقینا اسے کسی ایک کھائی میں نہیں بلکہ زندگی کی ہر کھائی میں پھینکے گا اور جب تک اسے تباہ و برباد نہ کردے اسے چین نہیں آئے گا کیونکہ شیطان کی جو خصوصیات اور اس کے عزائم ہمیں قرآن وسنت سے معلوم ہوتے ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک تو وہ شیطان ہے جس کا نام ابلیس ہے اور ایک شیطانوں کی فوج ہے جو اس کی کمانڈ میں کام کرتی ہے اور جس کے سپاہی جنات میں سے بھی ہیں اور انسانوں میں سے بھی۔ یہ اس کا تمام لائو لشکر نہایت مستعدی کے ساتھ جن وانس کو بگاڑنے میں لگا رہتا ہے۔ اس کی چالیں اور گھاتیں اس قدر گہری اور اس قدر پراسرار ہیں کہ عام انسانوں کے لیے اس کا سمجھنا نہایت مشکل ہوتا ہے۔ وہ برائی کو برائی کی صورت میں اور برائی کا نام دے کر بہت کم متعارف کراتا ہے۔ بالخصوص ان لوگوں میں جو نیک ہونے کے باعث برائی کے نام سے چڑتے ہیں ان کے لیے تو ایسے خوبصورت قالب اور ٹائٹل کے ساتھ برائی کو پیش کرتا ہے کہ اس پر نیکی کا گمان ہوتا ہے اور پھر اس کام پر اس کی پوری فوج اس دیانت، اخلاص اور مستعدی سے کام کرتی ہے کہ انسانوں میں اس کا تصور بہت کم ہے۔ اس کے اور نیک لوگوں کے مقابلے کو دیکھتے ہوئے بعض دفعہ کچھوے اور خرگوش کی کہانی یاد آتی ہے، جو سکولوں میں بچوں کو پڑھائی جاتی ہے کہ دونوں نے آپس میں ریس لگائی۔ خرگوش یہ سوچ کر بےفکری سے سوگیا کہ میں چونکہ انتہائی تیز رفتار ہوں جب اٹھوں گا چھلانگتا پھلانگتا اس سے آگے نکل جاؤں گا اور کچھوا اپنی سست رفتاری کو محسوس کرکے مسلسل چلتارہا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ خرگوش اس وقت نیند سے جاگا جب کچھوا منزل پر پہنچ چکا تھا۔ اس کا حد سے بڑھا ہوا اعتماد اور اپنے مقصد سے لاپرواہی اور بےنیازی اسے لے بیٹھی۔ اسلامی اور شیطانی قوتوں کے مقابلے کو دیکھتے ہوئے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شیطانی قوتیں خرگوش کی مانند ہیں اور اسلامی قوتیں کچھوے کی طرح ہیں اور تشویشناک بات یہ ہے کہ کچھوا سو رہا ہے اور خرگوش جاگ رہا ہے۔ اس سے آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ جس کا دوست شیطان بن جائے اس کی دین سے بیزاری اور لادینیت سے محبت ہر خیر کے کام سے نفرت اور ہر شر کی طرف رغبت کا عالم کیا ہوگا ؟ یوں تو جو بھی شخص اللہ کے ذکر اور اس کی بندگی سے اعراض کرتا ہے، پروردگار فرماتے ہیں : ہم اس پر ایک شیطان مسلط کردیتے ہیں لیکن جو لوگ اپنا مال و دولت اللہ کے راستے میں اور اللہ کے بندوں پر خرچ کرنے کی بجائے اسراف اور تبذیر میں اڑاتے ہیں اور لوگوں کے دکھلاوے کے لیے خرچ کرتے ہیں ایسے تبذیر کرنے والوں کو تو قرآن کریم نے شیطان کا بھائی قرار دیا ہے۔ یہاں ایسے ہی لوگوں کو قرین اور دوست ٹھہرایا گیا ہے اور ساتھ ہی فرمایا جس شخص کا دوست شیطان بن جائے وہ نہایت برادوست ہے۔
Top