Ruh-ul-Quran - An-Nisaa : 17
اِنَّمَا التَّوْبَةُ عَلَى اللّٰهِ لِلَّذِیْنَ یَعْمَلُوْنَ السُّوْٓءَ بِجَهَالَةٍ ثُمَّ یَتُوْبُوْنَ مِنْ قَرِیْبٍ فَاُولٰٓئِكَ یَتُوْبُ اللّٰهُ عَلَیْهِمْ١ؕ وَ كَانَ اللّٰهُ عَلِیْمًا حَكِیْمًا
اِنَّمَا : اس کے سوا نہیں التَّوْبَةُ : توبہ قبول کرنا عَلَي اللّٰهِ : اللہ پر (اللہ کے ذمے) لِلَّذِيْنَ : ان لوگوں کے لیے يَعْمَلُوْنَ : وہ کرتے ہیں السُّوْٓءَ : برائی بِجَهَالَةٍ : نادانی سے ثُمَّ : پھر يَتُوْبُوْنَ : توبہ کرتے ہیں مِنْ قَرِيْبٍ : جلدی سے فَاُولٰٓئِكَ : پس یہی لوگ ہیں يَتُوْبُ : توبہ قبول کرتا ہے اللّٰهُ : اللہ عَلَيْھِمْ : ان کی وَكَانَ : اور ہے اللّٰهُ : اللہ عَلِيْمًا : جاننے والا حَكِيْمًا : حکمت والا
اللہ پر توبہ قبول کرنے کی ذمہ داری تو انھیں کے لیے ہے جو کرتے ہیں برا کام جہالت سے پھر جلدی ہی توبہ کرلیتے ہیں۔ وہی ہیں جن کی توبہ اللہ قبول فرماتا ہے اور اللہ سب کچھ جاننے والا حکمت والا ہے
اِنَّمَا التَّوْبَۃُ عَلَی اللّٰہِ لِلَّذِیْنَ یَعْمَلُوْنَ السُّوْٓئَ بِجَھَالَۃٍ ثُمَّ یَتُوْبُوْنَ مِنْ قَرِیْبٍ فَاُولٰٓئِکَ یَتُوْبُ اللّٰہُ عَلَیْہِمْ ط وَکَانَ اللّٰہُ عَلِیْمًا حَکِیْمًا وَلَیْسَتِ التَّوْبَۃُ لِلَّذِیْنَ یَعْمَلُوْنَ السَّیِّاٰتِج حَتّٰیٓ اِذَا حَضَرَ اَحَدَھُمُ الْمَوْتُ قَالَ اِنِّیْ تُبْتُ الْئٰنَ وَلَا الَّذِیْنَ یَمُوْتُوْنَ وَھُمْ کُفَّارَ ط اُوْلٰٓئِکَ اَعْتَدْنَا لَھُمْ عَذَابًا اَلِیْمًا (اللہ پر توبہ قبول کرنے کی ذمہ داری تو انھیں کے لیے ہے جو کرتے ہیں برا کام جہالت سے پھر جلدی ہی توبہ کرلیتے ہیں۔ وہی ہیں جن کی توبہ اللہ قبول فرماتا ہے اور اللہ سب کچھ جاننے والا حکمت والا ہے اور ان لوگوں کی توبہ نہیں ہے جو کیے جاتے ہیں برے کام یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی کی موت سر پر آن کھڑی ہوئی تو بولا کہ اب میں نے توبہ کرلی اور نہ ان لوگوں کی توبہ ہے جو کہ مرتے ہیں حالت کفر میں، ان کے لیے ہم نے دردناک عذاب تیار کررکھا ہے) (النسآء : 17 تا 18) ربطِ کلام اور اصلاح میں توبہ کی اہمیت سابقہ دونوں آیات میں بداخلاقی میں مبتلا ہونے والوں کے لیے ایک عارضی قانون بھی دیا گیا ہے۔ لیکن اصل زور اس بات پر دیا گیا ہے کہ گناہ میں مبتلا ہونے والے اگر اللہ سے توبہ کرلیں اور اپنی اصلاح کرلیں تو پھر ان سے کوئی تعرض نہ کیا جائے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ گناہ کرنے والوں اور سزا دینے والوں کے سامنے اصلاح اور توبہ کی اہمیت اور افادیت واضح کی گئی کہ اسلامی قانون کا اصل مقصد اصلاح ہے، محض سزا دینا نہیں۔ سزا دینے سے مقصود بھی اصلاح کی طرف راغب کرنا ہے۔ البتہ سزا کے ذریعے ان لوگوں کو ختم کردیا جاتا ہے، جو اپنے آپ کو اصلاح سے محروم کرلیتے ہیں۔ اللہ کے نبی دنیا میں لوگوں کی اصلاح کے لیے آتے ہیں، لوگوں کو مسخر اور مغلوب کرنے کے لیے نہیں آتے۔ اس لیے آنحضرت ﷺ اور قرآن کریم کا زور تبلیغ توبہ اور اصلاح پر صرف ہوا اور ان دونوں آیتوں کے نزول کے وقت توبہ اور اصلاح کے جذبات پیدا کرنے کی اور بھی زیادہ ضرورت تھی کیونکہ ابھی اسلامی ریاست بہ ہمہ وجوہ قائم نہیں ہوئی تھی، تو اس لیے ان آیات کے بعد فوراً توبہ پر مشتمل آیات نازل کی گئیں اور توبہ کا صحیح طریقہ بھی بتایا گیا اور توبہ کی ترغیب بھی دی گئی۔ اسلام سے پہلے جتنے مذاہب تھے وہ اگرچہ دنیوی اور اخروی کامیابی کے دعوے دار تھے۔ لیکن عجیب بات یہ ہے کہ پوجا پاٹ کی چند ظاہری رسوم اور شریعت کے ایک بےجان ڈھانچے کے سوا اپنے پاس کچھ نہیں رکھتے تھے۔ ان کے دئیے ہوئے اعتقادات سے نہ تو انابت الی اللہ کے جذبات پیدا ہوتے تھے اور نہ کسی شخص کو اپنے اعمال کی اصلاح کی طرف توجہ ہوتی تھی اور اگر کبھی کسی شخص کو خیال پیدا ہو تاکہ میں ڈھیروں گناہ کرچکا ہوں اگر اللہ کے سامنے حاضری ہوئی تو کیا جواب دوں گا، مجھے اپنی زندگی میں تبدیلی پیدا کرنی چاہیے تو یہ مذاہب گناہوں سے نکل کر نیکی اور اطاعت کی زندگی اختیار کرنے کے لیے نہ صرف کہ اس کی کوئی مدد نہیں کرتے تھے بلکہ اسے مایوس کرتے تھے کہ ایک دفعہ گناہوں کی زندگی اختیار کرلینے سے آدمی اس کے نتائج سے بچ نہیں سکتا۔ اسے بہرصورت اس کی سزابھگتنا پڑے گی۔ یہ ایک ایسا تصور تھا جس نے انسان کی کمر پر بےانتہا بوجھ لاد دیا تھا اور اسے اپنی اصلاح سے اور اپنے مستقبل کی تعمیر سے مایوس کردیا تھا۔ ہندوئوں میں تناسخ اور آواگون کے تصورات اسی مایوسی کا نتیجہ تھے اور عیسائیوں نے اس کے لیے کفارہ کے نام سے ایک راستہ نکالا، جو نامعقولیت کے سوا کچھ بھی نہیں اور انھوں نے نجات کا سررشتہ مذہبی پروہتوں کے ہاتھ میں دے کر اصلاح اور توبہ کے عمل کو اور مشکل بنادیا اور انسان کی مایوسی کو اور گہرا کردیا۔ اسلام اہل دنیا کے لیے ایک نوید جاں فزا بن کر آیا۔ اس نے انسانوں کو امید کی ایک روشنی دی، انھیں بتلایا کہ انسان کی معنوی اخلاقی اور روحانی زندگی اسی قانون کے مطابق چل رہی ہے جو قانون ہم اپنے گردوپیش میں کارفرما دیکھتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ تکوینی اور تشریعی قوانین کا پیراہن جدا جدا ہے، لیکن ان کے اصل مزاج اور روح میں کوئی تضاد نہیں ہے۔ جس طرح ایک درخت بیمار ہوتا ہے اور علاج سے درست ہوجاتا ہے، چارپائے بیمار ہوتے ہیں اور علاج سے شفا پاجاتے ہیں۔ انسانی جسم بیماریوں کا شکار ہوتا ہے اور بروقت علاج سے درست ہوجاتا ہے بالکل اسی طرح انسانی روح کو بھی بیماریاں لگتی ہیں۔ اس کی بیماری کبھی عقیدے کی خرابی ہے، کبھی اخلاق کا بگاڑ ہے، کبھی معاملات کی بےاعتدالی ہے، کوئی وجہ نہیں ہے کہ باقی مخلوقات کی طرح اس کی بیماریوں کا علاج نہ ہوسکے اور وہ بروقت علاج سے شفا یاب نہ ہوسکیں۔ چناچہ جس طرح باقی اجسام کا علاج معالج کے پاس جانا اور اس کے بتائی ہوئی ادویہ کو استعمال کرنا ہے اسی طرح روحانی بیماریوں کا علاج بھی اللہ کی طرف پلٹنا اور اس کے پیغمبر کی ہدایات کے مطابق زندگی کے اعمال کو درست کرنا ہے۔ اللہ کی طرف پلٹنے کو توبہ کہتے ہیں کیونکہ توبہ کا معنی ہی ” پلٹنا اور رجوع کرنا “ ہے۔ ایک بندہ جو اللہ کی نافرمانی کرتا ہے وہ درحقیقت اللہ کا آستانہ چھوڑ دیتا ہے اور شیطان یا اپنے نفس کا راستہ اختیار کرلیتا ہے۔ پھر اسے احساس ہوتا ہے کہ میں اپنے آقا کا راستہ اور آستانہ چھوڑ کر بہت بڑی غلطی کرگیا ہوں اب وہ اپنے غلط رویہ اور معصیت سے اللہ کی اطاعت کی طرف پلٹتا ہے اور دوبارہ پھر اس آستانے پر جھک جاتا ہے جسے وہ چھوڑ گیا تھا۔ پھر وہ اپنے اعمال کا جائزہ لیتا ہے ان میں سے ہر وہ عمل جس سے اللہ کی نافرمانی جھلکتی ہے اسے وہ چھوڑ دیتا ہے اور بھلائیوں اور نیکی کے کاموں میں سبقت اپنا شعار بنالیتا ہے۔ وہ کوشش کرتا ہے کہ مجھ سے جو کو تاہیاں ہوئی ہیں اس کی معافی مانگ کر میں اپنے اللہ کو راضی کرلوں۔ یہی درحقیقت توبہ ہے۔ انسان جب بگاڑکا شکار ہوتا ہے تو وہ صرف گناہ گار ہی نہیں ہوتا بلکہ انسانیت کی سطح سے بھی گرجاتا ہے کیونکہ انسانیت اور اللہ کی معصیت دونوں ایک ساتھ نہیں چل سکتے۔ امام غزالی علیہ الرحمۃ نے اس کو اپنے خاص انداز میں خوبصورت تعبیر دی ہے۔ امام صاحب فرماتے ہیں کہ گناہوں پر اقدام کے تین درجے ہیں۔ پہلا یہ ہے کہ کسی گناہ کا کبھی ارتکاب نہ ہو یہ تو فرشتوں کی خصوصیت ہے یا انبیائے کرام کی۔ دوسرا درجہ یہ ہے کہ گناہوں پر اقدام کرے اور پھر ان پر اصرار جاری رہے کبھی ان پر ندامت نہ ہو اور نہ کبھی ان کے ترک کا خیال آئے یہ درجہ شیاطین کا ہے۔ تیسرا مقام بنی آدم کا ہے کہ گناہ سرزد ہو تو فوراً اس پر ندامت ہو اور آئندہ اس کے ترک کا پختہ عزم ہو۔ یہی وہ چیز ہے جس کا قرآن کریم نے باربار حکم دیا ہے اور آنحضرت ﷺ نے اس کے بیشمار فضائل بیان فرمائے ہیں۔ البتہ یہ ضروری ہے کہ اس توبہ میں حقیقت کا رنگ ہو محض الفاظ کا کھیل نہ ہو۔ آدمی زبان ہی سے توبہ نہ کرے بلکہ اس کا پورا سراپا توبہ کی تصویر بن جائے۔ اسی کو توبۃ النصوح کہا گیا ہے۔ علماء کہتے ہیں کہ ایسی توبہ کے تین ارکان ہیں۔ توبہ کے تین ارکان 1 اپنے کیے پر ندامت اور شرمساری، حدیث میں بھی آنحضرت ﷺ کا ارشاد ہے : انما التوبۃ الندم ” توبہ نام ہی ندامت کا ہے۔ “ آدمی اپنے گناہ پر اس حد تک نادم ہو کہ آنکھوں سے آنسوئوں کی برکھا برسے او دل اس تصور سے پگھلتا جائے کہ مجھ سے یہ جرم کیوں سرزد ہوا۔ 2 جس گناہ کا ارتکاب کیا ہے، اس کو فوراً چھوڑ دے اور آئندہ اس سے باز رہنے کا پختہ عزم کرے۔ 3 تلافیِ مافات کی فکر کرے یعنی جو گناہ ہوچکا ہے، اس کا جتنا تدارک ممکن ہو کرے۔ یعنی نمازیں چھوٹ گئی ہیں تو تمام چھوٹی ہوئی نمازوں کا حساب کرکے ان کی قضاکرے۔ روزے چھوٹ گئے ہیں تو ان کی بھی قضاکرے۔ جتنے سالوں کی زکوٰۃ ادا نہیں کی، حساب کرکے پوری زکوٰۃ ادا کرے۔ جتنے لوگوں کے حقوق اس کے ذمہ ہیں سب کے حقوق ادا کرنے کی کوشش کرے۔ جو لوگ مرچکے ہوں ان کی اولاد کو دے اور اگر کوئی بھی باقی نہ ہو تو پھر خیرات کردے اور اللہ سے معافی مانگے۔ جن کی دل آزاریاں کی ہیں عزتوں کو صدمہ پہنچایا ہے سب سے معافی مانگے اور اگر مالی حقوق ادا کرنے کی صلاحیت نہ رہی ہو تو پھر اہل حقوق سے معاف کرانے کی کوشش کرے اور اگر یہ بھی نہ ہوسکے تو زندگی بھر اللہ سے معافی مانگے۔ اللہ فرماتا ہے کہ اگر واقعی تم ایسی توبہ کرو تو اللہ اسے قبول کرنے والا ہے۔ بلکہ اس نے انسانوں کو سہارا دیتے ہوئے فرمایا : لاتقنطوا من رحمۃ اللہ ان اللہ یغفرالذنوب جمیعاً ” اللہ کی رحمت سے مایوس مت ہو اللہ سب گناہ بخش دے گا اس لیے کہ اللہ بخشنے والا مہربان ہے “۔ آنحضرت کا ارشاد ہے کہ اگر کسی کے گناہوں سے زمین اور آسمان کی فضا بھر جائے اور وہ سچے دل سے توبہ کرے اللہ اسے بھی معاف کردے گا کیونکہ ایں درگہ ما درگہِ نومیدی نیست صد بار اگر توبہ شکستی باز آ جہالت کا مفہوم پیشِ نظر آیات میں توبہ کے لیے چند شرائط کا ذکر فرمایا گیا ہے اور چند احتیاطیں سکھائی گئی ہیں۔ جن کے ملحوظ رکھنے اور پابندی کرنے پر اللہ تعالیٰ جیسے کریم نے وعدہ فرمایا ہے کہ ایسے لوگوں کی توبہ قبول کرنا میری ذمہ داری ہے، یعنی میں وعدہ کرتا ہوں کہ ایسے لوگوں کی توبہ ضرور قبول کروں گا۔ چناچہ اس سلسلے میں پہلی بات یہ ارشاد فرمائی کہ ان لوگوں کی توبہ قبول ہوگی جو جہالت سے گناہ کا ارتکاب کریں۔ سوال یہ ہے کہ جہالت کا کیا مفہوم ہے ؟ عام طور پر جہالت کا معنی بےعلمی، بیخبر ی، نہ جاننا اور نادانی سے کیا جاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص جان بوجھ کر قصداً اور عمداً گناہ کرے اس کا گناہ توبہ کرنے سے بھی معاف نہیں ہوگا۔ اکثر اہل علم کا خیال یہ ہے کہ اس آیت کا یہ مفہوم نہیں بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ ایک ایسا شخص جو گناہ تو قصد اور ارادے سے کرتا ہے لیکن اسے گناہ کرتے ہوئے اس بات کا احساس نہیں رہتا کہ اس گناہ کا نتیجہ کیا ہوگا، آخرت میں اس پر کتنی بڑی سزاملے گی ؟ اس انجامِ بد اور اخروی عذاب سے غفلت اس کے گناہ کا سبب بن جاتی ہے۔ تو اس آیت میں جہالت سے مراد یہی اخروی عذاب سے غفلت ہے۔ اسی سے ملتا جلتا معنی حماقت اور بےوقوفی بھی ہے۔ سورة یوسف میں یہ لفظ اسی معنی میں استعمال ہوا ہے۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) نے اپنے بھائیوں سے فرمایا تھا : ھل علمتم مافعلتم بیوسف واخیہ اذانتم جاہلون ” کیا تمہیں معلوم ہے جو تم نے یوسف اور اس کے بھائی سے کیا جبکہ تم جاہل تھے “۔ یہاں بھائیوں کو جاہل کہا گیا ہے حالانکہ انھوں نے جو کچھ کیا وہ جان بوجھ کر اور عمداً کیا تھا۔ مگر انھیں اس کا اندازہ نہ تھا کہ اس فعل کا انجام کیا ہوگا ؟ اور یہی بیوقوفی ہے اورا سی لیے ان کو جاہل کہا گیا۔ شائد اسی وجہ سے صحابہ کرام اس بات پر متفق تھے کہ بندہ جو گناہ کرتا ہے چاہے وہ بالقصد ہو یا بلاقصد وہ بہرحال جہالت ہے۔ ابو حیان نے تفسیر بحر محیط میں مثال سے سمجھایا کہ اس کو ایسا ہی سمجھو جیسے حدیث میں آتا ہے لایزنی الزانی وھو مومن ” زنا کرنے والا جب زنا کرتا ہے تو وہ مومن نہیں ہوتا “۔ یعنی وہ مومن ہونے کی حالت میں زنا نہیں کرتا کیونکہ جس وقت وہ اس فعل کا ارتکاب کرتا ہے، تو ایمان کی طرف سے اس کی توجہ ہٹ جاتی ہے یہی چیز جہالت ہے جو گناہ کا باعث بنتی ہے۔ لیکن بعض اہل علم اسی بات کو ایک اور انداز میں سلجھاتے ہیں وہ کہتے ہیں جہالت کا لفظ جس طرح نہ جاننے کے معنی میں آتا ہے اسی طرح جذبات سے مغلوب ہو کر کوئی شرارت یا ظلم یا گناہ کا کام کر گزرنے کے معنی میں بھی آتا ہے۔ ان کا خیال ہے یہ لفظ عام طور پر علم کی بجائے حلم کی ضد کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ معلقات کا مشہور شعر ہے الا لا یجھلن احد علینا فنجھل فوق جھل الجاہلینا (خبردار کوئی ہمارے خلاف جہالت کا اظہار نہ کرے کہ ہم بھی تمام جاہلوں سے بڑھ کر جہالت کرنے پر مجبور ہوجائیں) اس شعر میں دیکھ لیجیے جہالت کا لفظ حلم کے ضد کے طور پر استعمال ہوا ہے۔ شاعر اپنے مخالفوں سے کہہ رہا ہے کہ اپنے جذبات پر قابو رکھو اور اگر تم نے مشتعل ہو کر کوئی کام کیا تو پھر ہمارے اشتعال کو کوئی نہ روک سکے گا۔ تو اس کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص بھی کبھی جذبات سے مغلوب ہو کر ( جبکہ ارادہ کام نہیں کرتا) کوئی گناہ کرگزرے اور پھر فوراً اس پر ندامت کا اظہار کرے اور اللہ کی طرف پلٹے تو اللہ اس کے گناہ کو معاف کردے گا۔ میرا ناقص خیال یہ ہے کہ جہالت کو حلم کا ضد قرار دے لیں یا اسے حماقت کہہ لیں یا اخروی عذاب سے غفلت کی تعبیر اختیار کریں۔ مآل کار سب کا مفہوم ایک ہی ہے کہ آدمی گناہ ضرور اپنے ارادہ سے ہی کرتا ہے لیکن اس وقت اس کا ارادہ دوسرے احساسات سے مغلوب ہوتا ہے اور ایسا ہی گناہ گا رہے جسے توبہ کی توفیق نصیب ہوسکتی ہے اور جو شخص گناہ کو گناہ کے جذبے سے کرتا ہے ایسے شخص کے بارے میں بہت کم امید کی جاسکتی ہے کہ وہ کبھی گنہ سے پلٹنے کی کوشش کرے گا۔ اس آیت کریمہ میں دوسری شرط لگائی گئی ہے من قریب یعنی توبہ اس کی قبول ہوگی جو فوراً پہلی فرصت یعنی قریب زمانہ میں توبہ کرے۔ جن لوگوں نے اس لفظ کو عام معنی میں لیا ہے، وہ تو یہی سمجھتے ہیں کہ جس نے توبہ کرنے میں تاخیر سے کام لیا اس کی توبہ قبول نہیں ہوگی لیکن جب ہم احادیث کو دیکھتے ہیں تو یہ بات صحیح معلوم نہیں ہوتی کیونکہ توبہ کی قبولیت کے لیے آنحضرت کے بعض ارشادات بالکل واضح ہیں۔ معلوم ہوتا ہے من قریب کی یہی صحیح تعبیر ہے۔ آپ نے فرمایا : ان اللہ یقبل توبۃ العبد مالم یغرغر ” اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی توبہ اس وقت تک قبول فرماتے ہیں جب تک اس پر موت اور نزع روح کا غرغرہ طاری نہ ہوجائے “۔ ایک اور حدیث حضرت عبداللہ بن عمر ( رض) سے مروی ہے کہ انھوں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ” جو بندئہ مومن موت سے ایک مہینہ پہلے اپنے گناہ سے توبہ کرے یا ایک دن یا ایک گھڑی پہلے توبہ کرے اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول فرمائیں گے بشرطیکہ اخلاص کے ساتھ سچی توبہ کی جائے “۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب تک انسان پر نزع کی کیفیت طاری نہیں ہوتی اور انسان موت کو سامنے نہیں دیکھ لیتا اس وقت تک اس کے لیے توبہ کا موقعہ ہے اور اللہ کی صفت کریمی سے امید واثق ہے کہ جب بھی بندہ توبہ کرے گا اللہ اس کی توبہ قبول فرمائے گا۔ مولانا تھانوی نے تفسیر بیان القرآن میں ایک اور طرح سے اس کی وضاحت فرمائی ہے کہ موت کے قریب دو حالتیں پیش آتی ہیں ایک تو بأس کی جب کہ انسان ہر دوا و تدبیر سے عاجزہوکر یہ سمجھ لے کہ اب موت آنے والی ہے، اس کو حالت بأس سے تعبیر کیا گیا ہے۔ دوسری حالت اس کے بعد کی ہے، جبکہ نزع روح شروع ہوجائے اور غرغرہ کا وقت آجائے، اس حالت کو ” یاس “ کہا جاتا ہے۔ پہلی حالت یعنی حالت بأس تک تو من قریب کے مفہوم میں داخل ہے اور توبہ اس وقت کی قبول ہوتی ہے مگر دوسری حالت یعنی حالت یاس کی توبہ مقبول نہیں جبکہ فرشتے اور عالم آخرت کی چیزیں انسان کے سامنے آجائیں کیونکہ وہ من قریب کے مفہوم میں داخل نہیں۔ دوسری آیت کریمہ میں ان لوگوں کارویہ ذکر کیا گیا ہے جو زندگی کے بارے میں عملی طور پر اس غلط فہمی کا شکار ہیں کہ زندگی بہت دراز ہے، ابھی سے آخرت کی باتیں کرنا زندگی کو بےرنگ اور بےنمک بنانے والی بات ہے۔ جس زندگی میں خوشیاں نہ ہوں اور عیش و عشرت کی امنگ نہ ہو وہ زندگی تو بوجھ بن جاتی ہے۔ اس طرح کی زندگی جس میں آنے والی ناکامی کا خوف، جوابدہی کے اندیشے، موت کے لہراتے ہوئے سائے، بداعمالیوں کے پچھتاوے، طبیعتِ ثانیہ بن جائے، اس میں زندگی گزارنے کا کیا لطف رہ جاتا ہے۔ نیکی کی باتیں اچھی باتیں ہیں، آخرت کی فکر بھی بجا ہے، لیکن جب بڑھاپا آئے گا تو یہ باتیں بھی ہوجائیں گی۔ آخرت کی تیاری بھی کرلیں گے، گزری ہوئی زندگی کی بد اعمالیوں کا جائزہ لے کر توبہ کا بھی سوچ لیں گے، لیکن ابھی اتنی جلدی کیا پڑی ہے۔ یہ زندگی کا وہ رویہ ہے جس میں عام اہل دنیا گرفتار ہیں۔ مومن، مومن ہوتے ہوئے بھی اپنی بےفکر زندگی پر مطمئن ہے اور کافر اپنے کفر پر غور کرنے کے لیے تیار نہیں۔ جوانی کی دیوانگی کسی کو فرزانگی کی خبر نہیں لینے دیتی۔ دنیا ایک نشہ ہے، جس میں ہر آدمی مخمور نظر آتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس رویے پر تنقید کرتے ہوئے فرما رہے ہیں کہ توبہ کے لیے وہ رویہ درکار ہے جس کا ذکر گزشتہ آیت میں کیا گیا ہے۔ اسی رویہ کی وجہ سے توبہ کی دولت نصیب ہوسکتی ہے، ورنہ یہ رویہ جس کا ذکر اس آیت میں کیا جارہا ہے یہ تو سراسر بدقسمتی اور محرومی کا غماز ہے، جس میں آدمی برائیوں پر برائیاں کیے چلا جارہا ہے۔ لیکن اسے بالکل ہوش نہیں کہ میں کس طرح اپنی زندگی ضائع کررہا ہوں، مہلت عمل میرے ہاتھوں سے نکلی جارہی ہے۔ لیکن اچانک جب موت اس کے سر پر آکھڑی ہوتی ہے، تو پھر اسے احساس ہوتا ہے کہ اب میں اس دنیا کی طرف جانے لگا ہوں جس میں مجھے اپنی گزشتہ زندگی کا حساب دینا ہوگا۔ تو تب اسے خیال آتا ہے کہ اب میں اپنے اللہ سے معافی مانگوں اللہ فرماتا ہے کہ جب سکرات الموت طاری ہوجائیں اور آنے والی دنیا کی علامات ظاہر ہونے لگیں تو اس وقت کی توبہ اللہ قبول نہیں فرماتا۔ جس طرح جب فرعون ڈوبنے لگا تو اس نے فوراً اللہ پر ایمان لانے کا اعلان کیا۔ قرآن کریم بتاتا ہے کہ اسے جواب دیا گیا : اَلْئٰنَ وَقَدْ عصَیْتَ قَبْلُ وَکُنْتَ مِنَ الْمُفْسِدِیْنَ ” اب تجھے یاد آیا، اس سے پہلے تو نافرمانی کرتارہا ہے اور تو فساد پھیلانے والوں میں سے تھا “۔ اس کے بعد اس کو ڈبو دیا گیا۔ اسی طرح وہ آدمی جو کفر کی حالت میں ساری زندگی گزاردیتا ہے اور جب موت کی علامات ظاہر ہونے لگتی ہیں اور فرشتے تک نظر آنے لگتے ہیں تو پھر وہ ایمان لانے کی کوشش کرتا ہے تو اللہ فرماتا ہے کہ اس حال میں اس کا ایمان بھی قبول نہیں کیا جائے گا۔ کیونکہ یہ ایمان لانا ہی اس کی توبہ ہے۔ توبہ کا وقت دوسری زندگی کی سرحد میں داخل ہونے سے پہلے ہے۔ یا اس کا مطلب شائد یہ ہے کہ جب ایک آدمی کفر کی حالت میں مرجاتا ہے، تو موت کے بعد عالم برزخ یا عالم آخرت میں اللہ سے دعائیں کرتا ہے کہ یا اللہ ! مجھے دوبارہ دنیا میں بھیج میں تیرے فرمانبردار بندوں جیسی زندگی گزاروں گا۔ ظاہر ہے اب اسے دوبارہ دنیا میں آنے کا موقعہ نہیں دیا جائے گا۔ اسے بتایا جائے گا کہ توبہ کا وقت موت سے پہلے تھا جو تم نے ضائع کردیا۔ مختصر یہ کہ اللہ کا اپنے بندے پر کتنا بڑا انعام ہے کہ وہ زندگی کے آخری مرحلے میں داخل ہونے سے پہلے پہلے اگر کسی وقت بھی اللہ کی طرف پلٹ آئے، معصیت کی زندگی چھوڑ دے، گناہوں سے توبہ کرلے، تو اللہ تعالیٰ نہائیت رحمت کا سلوک فرماتے ہیں۔ نہ صرف گناہ معاف کیئے جاتے ہیں بلکہ گزشتہ گناہوں کو سرے سے مٹا دیا جاتا ہے۔ اگر توبہ اور استغفار میں اخلاص اور ندامت کا بھرپور اظہار کیا جائے اور بندگی کا پورا سرمایہ اس کے آستانے پر ڈھیر کردیا جائے تو کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ اللہ گناہوں کو نیکیوں کی شکل دے دیتا ہے اور گناہ گار کو اتنا نوازتا ہے کہ نوازشات کی انتہا ہوجاتی ہے۔ اس کی ندامت کے آنسوموتیوں کی طرح عزیز ہوجاتے ہیں اور اس کا پگھلتا ہوا دل اللہ کی رحمت وعنائت کا مورد بن جاتا ہے۔ موتی سمجھ کے شان کریمی نے چن لیے قطرے جو تھے میرے عرق انفعال کے حقیقت یہ ہے کہ نیکی ایک بڑی سعادت ہے۔ لیکن گناہوں پر ندامت سحر گا ہی کی آہیں اور نالہ ٔ نیم شب کا نیاز وہ سرمایہ ہے جس سے بندگی کو رفعتِ پرواز مل جاتی ہے۔ اس دل پہ خدا کی رحمت ہو جس دل کی یہ حالت ہوتی ہے اک بار خطا ہوجاتی ہے سو بار ندامت ہوتی ہے عورتوں کے حقوق کے تحفظ اور معاشرے میں ان کے مرتبہ اور مقام کے حوالے سے ہدایات جاری تھیں کہ توبہ کے مضمون کے لیے تقریب پیدا ہوئی، چناچہ دو آیتوں میں توبہ کے مضمون کو بیان کرنے کے بعد پھر اسی سلسلہ مضمون کو لے لیا گیا ہے۔
Top