Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Ruh-ul-Quran - An-Nisaa : 156
وَّ بِكُفْرِهِمْ وَ قَوْلِهِمْ عَلٰى مَرْیَمَ بُهْتَانًا عَظِیْمًاۙ
وَّبِكُفْرِهِمْ
: ان کے کفر کے سبب
وَقَوْلِهِمْ
: اور ان کا کہنا (باندھنا)
عَلٰيُ
: پر
مَرْيَمَ
: مریم
بُهْتَانًا
: بہتان
عَظِيْمًا
: بڑا
اور بوجہ ان کے کفر کے اور بوجہ ان کے مریم پر ایک بہتانِ عظیم لگانے کے
وَّ بِکُفْرِہِمْ وَ قَوْلِہِمْ عَلٰی مَرْیَمَ بُہْتَانًا عَظِیْمًا لا وَّقَوْلِہِمْ اِنَّا قَتَلْنَا الْمَسِیْحَ عِیْسَی ابْنَ مَرْیَمَ رَسُوْلَ اللّٰہِ ج وَمَاقَتَلُوْہُ وَمَا صَلَبُوْہُ وَلٰـکِنْ شُبِّہَ لَہُمْ ط وَاِنَّ الَّذِیْنَ اخْتَلَفُوْا فِیْہِ لَفِیْ شَکٍّ مِّنْہُ ط مَالَہُمْ بِہٖ مِنْ عِلْمٍ اِلَّا اتِّبَاعَ الظَّنِّ ج وَمَا قَتَلُوْہُ یَقِیْنًا م لا بَلْ رَّفَعَہُ اللّٰہُ اِلَیْہِ ط َوکَانَ اللّٰہُ عَزِیْزًا حَکِیْمًا ” اور بوجہ ان کے کفر کے اور بوجہ ان کے مریم پر ایک بہتانِ عظیم لگانے کے اور ان کے اس دعویٰ کے سبب سے کہ ہم نے مسیح ابن مریم اللہ کے رسول کو قتل کیا۔ حالانکہ نہ تو انھوں نے اس کو قتل کیا نہ سولی دی۔ بلکہ معاملہ ان کے لیے مشتبہ ہوگیا اور جو لوگ اس کے بارے میں اختلاف کر رہے ہیں وہ اس کے معاملہ میں شک میں پڑے ہوئے ہیں۔ ان کو اس بارے میں کوئی قطعی علم نہیں۔ بس گمان کی پیروی کر رہے ہیں۔ انھوں نے اس کو ہرگز قتل نہیں کیا ‘ بلکہ اللہ نے اسے اپنی طرف اٹھا لیا۔ اور اللہ غالب اور حکیم ہے۔ “ (النسآء : 156 تا 158) سابقہ آیت کریمہ میں یہود کی تاریخ کے بڑے بڑے واقعات کو بیان کر کے یہ بتلایا گیا ہے کہ اس قوم کی سرشت میں یہ بات شامل رہی ہے کہ انھوں نے اللہ کے نبیوں کے بڑے بڑے معجزات دیکھے ‘ لیکن اس کے باوجود ہدایت قبول کرنے یا ہدایت پر ثابت قدم رہنے کے لیے تیار نہ ہوئے۔ اور اللہ سے سرکشی اور دین سے بغاوت ان کی اس انتہا کو پہنچی کہ بالآخر اللہ کی لعنت کا کوڑا ان پر برسا اور ہدایت سے محروم کردیے گئے۔ یہود کے کفر پر ولادتِ مسیح سے استدلال اب اس آیت کریمہ میں ان کے اسی بدترین قومی مزاج اور قابل نفرت رویہ کا ذکر حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے حوالہ سے کیا جا رہا ہے۔ کہ ان بدبختوں نے اللہ کے کسی نبی اور کسی رسول کے ساتھ بھی کبھی شرافت کا رویہ اختیار نہیں کیا۔ اور اس پر حیرت کی بات یہ ہے کہ انھوں نے اللہ کے پیغمبروں کے ساتھ قتل جیسے سنگین جرائم کا ارتکاب اور بڑے بڑے الزامات لگانے کی جرأت اس حال میں کی کہ یہ اس پیغمبر کے بارے میں یقین کے ساتھ جانتے تھے کہ وہ اللہ کے رسول ہیں۔ بیخبر ی میں کوئی شخص یا کوئی قوم کسی جرام کا ارتکاب کرے تو کہا جاسکتا ہے کہ اس نے بیخبر ی میں ایسا کیا ‘ اگر اسے حقیقت کا علم ہوتا تو وہ کبھی ایسا نہ کرتے۔ لیکن ان بدبختوں کا حال تو یہ ہے کہ انھوں نے جو کچھ بھی کیا جان بوجھ کر اور علم کی پوری روشنی میں کیا۔ عیسیٰ (علیہ السلام) کی ولادت ان کے سامنے ہوئی۔ اور ان کی والدہ اور ان کے خاندان کی شرافت نسبی اور کرامت حسبی سے یہ پوری طرح آگاہ تھے۔ حضرت مریم سے بچپن سے جوان ہونے تک جو حیرت انگیز کرامات ظہور میں آتی رہیں یہ اس سے بھی واقف تھے۔ حضرت مریم ان کی نگاہوں میں ایک پاکیزہ عفیفہ اور مقدس خاتون تھیں۔ وہ جیسے ہی ان کے سامنے ایک نوازائیدہ بچے کو لے کے آئیں اور انھیں معلوم ہوا کہ یہ ان کا اپنا بچہ ہے تو ان کی حیرت کی انتہا نہ رہی ‘ کیونکہ یہ لوگ جانتے تھے کہ مریم کنواری لڑکی ہیں۔ انھوں نے انتہائی تعجب اور برہمی کے انداز میں کہا ” یَٓا اُخْتَ ہَارُوْنَ مَاکَانَ اَبُوْکِ امَرأَ سوئٍ وَمَاکَانَتْ اُمُّکِ بَغْیاً “ (اے ہارون کی بہن ! نہ تیرا باپ برا آدمی تھا اور نہ تیری ماں بدچلن تھی) تو نے یہ کیا حرکت کی ؟ اور کنوار پن میں یہ کس کے بچے کو جنم دیا۔ حضرت مریم نے بچے کی طرف اشارہ کیا کہ اسے ہی پوچھ لو۔ انھوں نے حیران ہو کر کہا کہ ایک نومولود سے ہم کیسے بات کریں ؟ اس پر قرآن کریم کہتا ہے ‘ جس سے زیادہ سچی کتاب دنیا میں کوئی نہیں کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) گویا ہوئے اور اپنے پنگوڑھے سے بولے ” اِنِّیْ عَبْدُاللّٰہِ اٰتَانِیَ الْکِتَابَ وَجَعَلَنِیَ نَبِیاً “ (میں اللہ کا بندہ ہوں ‘ مجھے اللہ نے کتاب دی ہے اور مجھے نبی بنایا ہے) اس حیرت انگیز گواہی کے بعد زبانیں بند ہوگئیں اور لوگوں کو یقین ہوگیا کہ اس بچے کی پیدائش بغیر باپ کے ایک غیر معمولی معجزہ ہے۔ یہ بچہ نہ صرف کہ پاکیزہ ہے اور اس کی ماں ہر طرح کے گناہ سے پاک ہے بلکہ یہ اللہ کی ایک غیر معمولی نشانی ہے جسے اللہ نے بچپن میں نبوت دی ہے اور کتاب سے نوازا ہے اور اس کی ذات اور اس کی کتاب آگے چل کر دنیا کی ہدایت کا سامان بنے گی۔ چناچہ اسی یقین اور اطمینان کے باعث تیس سال تک قوم یہود نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) پر کوئی الزام نہیں لگایا۔ لیکن جیسے ہی انھوں نے اللہ کی طرف بلانا شروع کیا اور اپنی نبوت کی دعوت دینا شروع کی اور یہود کے احبارو رحبان کو ان کی غلطیوں پر ٹوکا اور ان کے علماء و فقہاء کو ان کی ریاکاریوں اور بد اعمالیوں پر ملامت اور ان کی عوام و خواص سب کو اس اخلاقی زوال پر متنبہ کیا جس میں وہ مبتلا ہوگئے تھے تو تب قوم یہود نے اپنے بدنما داغوں کا علاج کرنے اور اپنی بد اعمالیوں کی اصلاح کرنے کی بجائے اس آئینے پر تھوکنا شروع کردیا اور اسے توڑ ڈالنا چاہا جو انھیں ان کی اصل شکل دکھا رہا تھا۔ چناچہ وہ طرح طرح کے گھٹیا حربوں اور ناپاک ہتھیاروں سے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی ذات مبارک پر حملہ آور ہوئے اور اس وقت انھوں نے آپ کی والدہ پر نعوذ باللہ زانیہ ہونے کا الزام لگایا اور آپ (علیہ السلام) کو معاذ اللہ ولد الزنا کہنے لگے۔ ان کا یہ بہتان چونکہ کسی حقیقی شبہ کا نتیجہ نہ تھا ‘ کیونکہ وہ جانتے تھے کہ اصل حقیقت کیا ہے اور وہ دل میں حضرت مریم اور ان کے صاحبزادے کی پاکیزگی کا یقین رکھتے تھے۔ اس لیے قرآن کریم نے اس الزام کو بہتانِ عظیم قرار دیا۔ رسول اللہ کی توجیہ اور دوسرا جرم جس کا اس آیت کریمہ میں ذکر کیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ انھوں نے سینہ بجا کر یہ کہا کہ ہم نے مسیح عیسیٰ ابن مریم رسول اللہ کو قتل کیا ہے۔ اس میں مفسرین کی ایک رائے تو یہ ہے کہ یہ مسیح اور رسول اللہ کا لفظ ان کا نہیں ‘ بلکہ پروردگار کی جانب سے اضافہ ہے تاکہ ان کے جرم کی شناعت کو لوگوں کو سامنے پوری طرح نمایاں کردی جائے کہ یہ وہ بدترین قوم ہے جو مسیح ابن مریم کے قتل کا دعویٰ کرتی ہے جب کہ دل سے اس بات کو سمجھتی ہے کہ وہ مسیح بھی ہیں اور رسول اللہ بھی۔ بعض دیگر مفسرین یہ کہتے ہیں کہ یہ رسول اللہ انہی کا قول ہے۔ یعنی جب انھوں نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے قتل کا دعویٰ کیا تو انھوں نے صرف یہ نہیں کہا کہ ہم نے ابن مریم کو قتل کیا ہے۔ بلکہ یہ کہا کہ ہم نے رسول اللہ کو قتل کیا ہے۔ بظاہر یہ بات بڑی عجیب معلوم ہوتی ہے کہ کوئی قوم کسی شخص کو نبی جانتے اور مانتے ہوئے بھی قتل کر دے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ بگڑی ہوئی قوموں کے انداز واطوار ہوتے ہی کچھ عجیب ہیں۔ وہ اپنے درمیان کسی ایسے شخص کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے جو ان کی برائیوں پر انھیں ٹوکے اور ناجائز کاموں سے انھیں روکے۔ تلمود میں لکھا ہے کہ بخت نصر نے جب بیت المقدس فتح کیا تو وہ ہیکل سلیمانی میں داخل ہوا اور اس کی سیر کرنے لگا۔ عین قربان گاہ کے سامنے ایک جگہ دیوار پر اسے ایک تیر کا نشان نظر آیا۔ اس نے یہودیوں سے پوچھا یہ کیسانشان ہے ؟ انھوں نے جواب دیا یہاں زکریا نبی کو ہم نے قتل کیا تھا۔ وہ ہماری برائیوں پر ہمیں ملامت کرتا تھا۔ آخر جب ہم اس کی ملامتوں سے تنگ آگئے تو ہم نے اسے مار ڈالا۔ تاریخ ہمیں اور بھی انبیائِ کرام کے ایسے واقعات سے باخبر کرتی ہے کہ جن کی قوموں نے محض ان کی ہدایت اور تنقید سے تنگ آ کر انھیں قتل کر ڈالا یا ملک سے نکال دیا۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے قتل یا صلیب دینے کی تردید قرآن کریم نے یہود کے اس دعوے (کہ ہم نے مسیح ابن مریم کو قتل کیا ہے) کی صاف صاف تردید فرمائی۔ اور آپ کی موت کے چونکہ دو امکان ظاہر کیے جاتے تھے کہ آپ کو صلیب پر چڑھایا گیا یا آپ کو قتل کیا گیا۔ اور یا قتل کے اضافے کا شاید مفہوم یہ ہے کہ صلیب پر صرف چڑھایا ہی نہیں گیا ‘ بلکہ باقاعدہ آپ کو صلیب دیا گیا اور صلیب پر ہی آپ کی موت واقع ہوئی۔ تیسرا آپ کی موت کا امکان طبعی موت کی صورت میں ہوسکتا ہے اس کا یہودیوں یا عیسائیوں میں کوئی بھی قائل نہیں رہا۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے دونوں امکانات کی تردید کرتے ہوئے فرمایا کہ نہ انھوں نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو قتل کیا اور نہ انھوں نے آپ کو صلیب دیا۔ بلکہ اصل حقیقت کیا ہے ؟ اسے آگے چل کر بیان فرمایا کہ اللہ نے مسیح ابن مریم کو زندہ آسمانوں پر اٹھا لیا۔ اور یہ لوگ ان کا کچھ نہ بگاڑ سکے۔ رہی یہ بات کہ انھوں نے یہ دعویٰ کیوں ہے کہ انھوں نے انھیں قتل کیا ہے یا صلیب دیا ہے ؟ اور عیسائی بھی عقیدت کے باوجود انتہائی نادانی کے ساتھ ان کے اس دعوے کی تائید کرتے ہیں۔ البتہ ان کی تاویلیں اپنی ہیں۔ لٰـکِنَّ شُبِّہَ لَہُمْ کا مفہوم قرآن کریم نے اس کی وجہ یہ بیان فرمائی کہ درحقیقت معاملہ ان پر مشتبہ ہوگیا۔ اس اشتباہ کی اصل حقیقت کیا ہے ؟ یقینی علم تو اللہ کے پاس ہے ‘ ہمارے مفسرین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ یہود حضرت مسیح کے دھوکے میں کسی اور کو سولی پر چڑھا گئے اور حضرت مسیح بچ نکلے۔ لیکن یہ شخص کون تھا ؟ اور اس دھوکے کی صورت کیا ہوئی ؟ اس کا تصریحی جواب نہ قرآن مجید میں ہے ‘ نہ کسی صحیح حدیث میں۔ اب اس کے چارہ نہیں رہتا کہ تاریخ کی روشنی میں واقعہ کی جزئیات کو ایک ایک کر کے لایا جائے اور اس وقت کے پس منظر کو سامنے رکھا جائے اور جو صورت واقعہ نسبتاً زیادہ قرین قیاس اور مطابق مقتضائے حال ہو اسی کو ترجیحی طور پر اختیار کیا جائے۔ تفسیر ماجدی کے مصنف محترم کی تحقیق اس معاملے میں یہ ہے : ” پہلی بات اس سلسلہ میں یہ یاد رکھنے کے قابل ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) یروشلم کے لوگوں سے ملتے جلتے کم تھے۔ نتیجہ یہ تھا کہ عوام تو عوام خواص بھی آپ کو پوری طرح پہچانتے نہ تھے۔ چناچہ جب آپ کی گرفتاری کا وقت آیا تو اس کے لیے اکابر یہود اور متعدد سپاہیوں کا ایک پورا گروہ اس ضرورت کے لیے کافی ثابت نہ ہوا۔ بلکہ آپ کی شناخت کے لیے آپ ہی کی مختصر سی پارٹی کے ایک منافق و غدار کو ساتھ لینا پڑا۔ یہ ایک خالص تاریخی حقیقت ہے امام المفسرین امام رازی اس راز سے بھی واقف ہیں۔ فرماتے ہیں ” والناس ماکانوا یعرفون المسیح الا بالاسم بانہ کان قلیل المخالطۃ للناس “ (کبیر) متی اور مرقس دونوں انجیلوں میں ہے کہ گرفتار کرنے والی پارٹی میں سردار کاہنوں اور قوم کے بزرگوں کی طرف سے ایک بڑی بھیڑ تلواریں اور لاٹھیاں لیے ہوئے سپاہیوں کی شامل تھی۔ اس پر بھی گرفتاری اور شناخت کے لیے انھیں یہوداہ منافق کا سہارا ڈھونڈنا پڑا اور انجیل یوحنا میں ہے کہ جب یہ پلٹن اور پیادے وہاں پہنچے تو ” یسوع نے ان سے پھر پوچھا کہ تم کسے ڈھونڈھتے ہو ؟ وہ بولے یسوع ناصری کو۔ یسوع نے جواب دیا میں تم سے کہہ تو چکا ہوں کہ میں ہی ہوں “ (18: 3۔ 8) حضرت مسیح کا تعظیمی تخیل تو بہت بعد کی پیداوار ہے ‘ معاصر مخالفین و معاندین کی نظر میں آپ کی حیثیت صرف یسوع ناصری نامی ایک بدنام وغیر معروف مجرم کی تھی۔ وہ سامنے موجود تھا اور پھر بھی کوئی پہچان نہیں رہا تھا۔ حالانکہ سب آئے تھے اسی کی تلاش میں۔ دوسری بات خیال رکھنے کی یہ ہے کہ حضرت کو یا بالفاظ دیگر یسوع ناصری کو تبدیل ہیئت میں خاص ملکہ تھا۔ انجیلوں میں حضرت کی اسی قدرت کو بہ طور معجزہ بیان کیا گیا ہے۔ ” چھ دن کے بعد یسوع نے پطرس اور یعقوب اور اس کے بھائی یوحنا کو ہمراہ لیا اور انھیں ایک اونچے پہاڑ پر الگ لے گیا۔ اور ان کے سامنے اس کی صورت بدل گئی اور اس کا چہرہ سورج کی مانند چمکا۔ “ (متی 17: 1۔ 2) ” جب وہ دعا مانگ رہا تھا تو ایسا ہوا کہ اسکے چہرے کی صورت بدل گئی اور اس کی پوشاک سفید براق ہوگئی۔ “ (لوقا 9: 29‘ نیز مرق 9: 2) یہ معجزہ تھا یا نہ تھا۔ یہ ایک الگ بحث ہے بہرحال آپ کو نفس قدرت اس پر حاصل تھی۔ تیسرے اس تاریخی حقیقت کا استحضار ذہن میں کرلیا جائے کہ ملک (شام و فلسطین) کی آبادی اس وقت اسرائیلیوں ‘ یہودیوں کی تھی اور اس برادری کے ایک فرد آپ بھی تھے۔ لیکن ملک پر حکومت رومیوں کی تھی اور اعلیٰ عہدہ دار اور پولیس اور فوج رومیوں پر مشتمل تھی۔ اور یہ رومی نہ صرف مشرک یعنی دین و عقیدہ میں اسرائیلیوں سے مختلف تھے ‘ بلکہ صورت ‘ شکل ‘ وضع و لباس ‘ زبان و معاشرت وغیرہ میں بھی ان سے ایسے ہی الگ تھے جیسے آج انگریز ‘ ہندوستانیوں سے مختلف و ممتاز ہیں اور جس طرح آج ہندوستانیوں کو سب فوجی گورے یکساں اور گوروں کو سارے ” کالے “ ایک سے معلوم ہوتے ہیں ‘ بدیسی رومی سپاہیوں اور فوجیوں کی نظر میں سب یہود یہود اور اسرائیلی اسرائیلی بھی ایک ہی تھے۔ چوتھی کڑی اس سلسلہ کی یہ ملایئے کہ جس مقام پر رومی عدالت تھی وہاں سے سرکاری سولی گھر فاصلہ پر تھا ‘ اور سولی یا صلیب جس کی شکل انگریزی چھاپہ کے بڑے حرف ٹی (T) کے مشابہ یا ریلوے سگنل سے ملتی جلتی ہوتی تھی ‘ وہ سولی گھر میں پوری گڑی ہوئی نہیں ہوتی تھی ‘ صرف اس کا سیدھا اور کھڑا مستون زمین میں گڑا ہوا رہتا تھا۔ باقی جو لکڑی اس کے اوپر آڑی آڑی پڑتی تھی اس کے لیے قاعدہ یہ تھا کہ وہ مجرم کو عدالت سے اپنے اوپر لاد کر سولی گھر تک لانی پڑتی تھی۔ یہاں تک جو کچھ عرض ہوا اس پر ایک نظر دوبارہ کر کے امور ذیل کو بھی نظر کے سامنے لے آیئے : 1… حکم جب سنایا گیا ہے جمعہ کا دن تھا اور دن آخر ہو رہا تھا اور یہود کو جلدی تھی کہ ہر طرح فراغت پا کر شاموں شام گھر واپس آجائیں۔ جمعہ کی شام ہی سے ان کا یوم السبت شروع ہوجاتا تھا اور یوم السبت کے حدود کے اندر مجرم کی سزا دہی وغیرہ بھی ممنوع تھی اور پھر یہود کا اہم تہوار ‘ عید فسح بھی شروع ہو رہی تھی۔ غرض یہود کو اس کی بہت ہی عجلت تھی کہ کسی طرح ان کا یہ مجرم جلد سے جلد سولی پا کر شام سے قبل ہی دفن ہوجائے۔ 2… لاغر و ناتوان مجرم (یعنی خود حضرت مسیح) کے لیے ممکن نہ تھا کہ اتنی وزنی لکڑی لاد کر اتنا فاصلہ یہود کی خاطر خواہ تیزی سے طے کرسکیں۔ خصوصاً جب کہ یہودی بچے اور شریر قسم کے یہود خود بھی قدم قدم پر انھیں چھیڑتے جاتے اور ان کا رستہ کھوٹا کرتے جاتے۔ اب اس ساری صورت حال کو اس تفصیل کے ساتھ پیش نظر رکھ کر فرمایئے کہ رومی سپاہی جو مجرم ‘ بلکہ مجرموں کو (آپ کے ساتھ سولی کے لیے دو مجرم اور بھی تھے) حراست میں لیے ہوئے تھے اور یہ بھی معلوم ہوچکا ہے کہ وہ رعایا میں سے نہیں بلکہ حاکم قوم کے افراد تھے ایسے موقع پر کیا کرتے ؟ خود تو اپنے اوپر وہ سولی والی لکڑی کا بوجھ لادنے سے رہے۔ انھوں نے وہی کیا جو ان کی جگہ پر کوئی بھی ان جیسا انسان کرتا۔ انھوں نے مجمع ہی میں سے کسی بدتمیز یہودی کو پکڑ لیا اور صلیب کی لکڑی اسی پر لاد دی… انگریز گارد ایسے موقع پر یعنی کسی ہندوستانی مجرم کو حراست میں لیے جاتا ہوتا تو کیا کرتا ؟ یہی کرتا کہ بھیڑ میں کسی ہندوستانی ہی کو پکڑ لیتا اور اس پر لاد دیتا۔ یہ محض قیاس و قرینہ نہیں ‘ انجیلوں میں اتنے جزو کی تصریح موجود ہے۔ ” انھیں شمعون نام ایک کرینی آدمی ملا ‘ اسے بیگار میں پکڑا کہ اس کی صلیب اٹھائے۔ “ (متی۔ 27: 32) ” اور شمعون نام ایک کرینی آدمی اسکندر اور روقس کا باپ دہات سے آتے ہوئے ادھر سے گزرا۔ انھوں نے اسے بیگار میں پکڑا کہ اس کی صلیب اٹھائے “ (مرقس۔ 15: 21) ” اور جب اس کو لیے جاتے تھے تو انھوں نے شمعون نام ایک کرینی کو جو دہات سے آتا تھا پکڑ کے صلیب اسی پر رکھ دی کہ یسوع کے پیچھے پیچھے چلے “ (لوقا 23: 26) جب یہ مجمع (جو یقینا کوئی باقاعدہ و منظم، مجمع نہیں ‘ بلکہ عوام کی ایک بھیڑ تھا) اس افراتفری کے ساتھ ایک دوسرے کو ریلتا پیلتا مجرم سے چھیڑ چھاڑ کرتا ‘ اس سے تمسخر کرتا ہوا ‘ سولی گھر کے پھاٹک پر پہنچا تو رومی پولیس گارڈ جو ساتھ تھا ‘ اب اس کی ڈیوٹی ختم ہوگئی۔ اب یہاں سے جیل کے سنتریوں کا عمل و دخل شروع ہوتا ہے۔ وہ کیا جانیں کہ یسوع ناصری کس کا نام ہے۔ وہ اپنے حسب دستور مجرم اسی کو سمجھے جس کے اوپر صلیب لدی ہوئی تھی… ایک مرتبہ پھر اس حقیقت کو مستحضر کر لیجیے کہ جیل کے رومی سپاہیوں کے لیے سب یہودی اجنبی ہی تھے اور اس لیے باہم دگرہم شکل اور یکساں۔ انھیں ایک اسرائیلی (یسوع ناصری) اور دوسرے اسرائیلی (شمعون کرینی) کے درمیان اشتباہ نہایت آسان تھا۔ انھیں دونوں کے درمیان کوئی نمایاں فرق ہی نہیں نظر آسکتا تھا۔ شمعون نے یقینا واویلا مچایا ہوگا لیکن ادھر مجمع کا شور و ہنگامہ ادھر جیل کے سپاہیوں کی اسرائیلیوں کی زبان سے ناواقفیت ‘ اور پھر سولی پر لٹکا دینے کی جلدی ‘ اسی افراتفری کے عالم میں اسی شمعون کو پکڑ کر سولی پر چڑھا دیا گیا اور وہ چیختا چلا تا رہا۔ حضرت مسیح قدرۃً اس ہڑبونگ میں دشمنوں کے ہاتھ سے رہا ہوگئے اور دشمن دھوکے میں پڑے ہوئے ٹامک ٹویاں مارتے رہ گئے ” وَلٰکِنَّ شُبِّہَ لَہُمْ “ یہ عقیدہ نو ایجاد نہیں۔ خود مسیحیوں ہی کا ایک قدیم ترین فرقہ باسلیدیہ کے نام سے گزرا ہے۔ (بانی فرقہ کا سال وفات 120 ء) وہ اسی عقیدہ کا قائل تھا اور کھلم کھلا کہتا کہ مصلوب حضرت مسیح (علیہ السلام) نہیں ہوئے ‘ بلکہ شمعون کروینی ہوا ہے۔ قرآن مجید نے اسی عقیدہ کی تصویب کی طرف اشارہ کیا ہے۔ “ (ماخوذ از : تفسیر ماجدی) اِنَّ الَّذِیْنَ اخْتَلَفُوْا فِیْہِ لَفِیْ شَکٍّ مِّنْہُ کا مفہوم ” وَاِنَّ الَّذِیْنَ اخْتَلَفُوْا فِیْہِ لَفِیْ شَکٍّ مِّنْہُ “ یہاں اختلاف کرنے والوں سے مراد عیسائی ہیں۔ ان کا حال یہ ہے کہ ایک طرف تو یہ یہود کے دعویٰ کی تائید کرتے ہوئے تسلیم کرتے ہیں کہ عیسیٰ (علیہ السلام) کو صلیب دیا گیا اور دوسری طرف ان کا حال یہ ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) کے مصلوب ہونے کے بارے میں کسی ایک قول پر متفق نہیں ہیں۔ ان کا کسی ایک قول پر متفق نہ ہونا بجائے خود اس بات کی دلیل ہے کہ اصل حقیقت ان پر مشتبہ ہے۔ اور وہ اس اشتباہ سے آج تک نہیں نکل سکے۔ ان میں سے کوئی کہتا ہے کہ صلیب پر جو شخص چڑھایا گیا وہ مسیح نہ تھا ‘ بلکہ مسیح کی شکل میں کوئی شخص تھا۔ کوئی کہتا ہے کہ صلیب پر چڑھایا تو مسیح ہی کو گیا تھا مگر ان کی وفات صلیب پر نہیں ہوئی۔ بلکہ اتارے جانے کے بعد ان میں جان باقی تھی۔ کوئی کہتا ہے کہ انھوں نے صلیب پر وفات پائی اور پھر وہ جی اٹھے اور کم و بیش دس مرتبہ اپنے مختلف حواریوں سے ملے اور باتیں کیں۔ کوئی کہتا ہے کہ صلیب کی موت مسیح کے جسم انسانی پر واقع ہوئی اور وہ دفن ہوا مگر الوہیت کی روح جو اس میں تھی وہ اٹھا لی گئی۔ اور کوئی کہتا ہے کہ مرنے کے بعد مسیح (علیہ السلام) جسم سمیت زندہ ہوئے اور جسم سمیت اٹھائے گئے۔ ان تمام اقوال کو دیکھتے ہوئے یہ تسلیم کیے بغیر چارہ نہیں کہ اگر ان لوگوں کے پاس حقیقت کا علم ہوتا تو اتنی مختلف باتیں ان میں مشہور نہ ہوتیں۔ قرآن کریم کہتا ہے کہ ان کے ان مختلف اقوال کا سبب یہ ہے کہ ان کے پاس حقیقت کا علم نہیں بلکہ ان کے سارے علم کلام کی بنیاد ظن و گمان پر ہے۔ یقینی علم صرف یہ ہے کہ یہود حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو قتل نہیں کرسکے۔ یعنی وہ ان کی جان لینا چاہتے تھے لیکن وہ اس میں کامیاب نہ ہو سکے۔ بلکہ اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو اپنی طرف اٹھا لیا۔ اور اللہ تعالیٰ کے لیے یہ بات کوئی مشکل نہیں کہ وہ ایک زندہ انسان کو آسمانوں پر اٹھا لے یا کائنات کے کسی گوشے میں صدیوں تک زندہ موجود رکھے اس لیے کہ وہ عزیز اور غالب ہے اور حکمت والا ہے۔ جہاں تک اپنی طرف اٹھانے کا تعلق ہے بعض لوگوں نے اسے محض ترقی درجات و مراتب کے معنی میں لیا ہے۔ حالانکہ یہ بات عربیت کے خلاف ہے۔ کیونکہ عربی زبان میں جہاں رفع کے لفظ کو ترقی درجات کے معنی میں استعمال کرنا ہو وہاں اس کو صلہ کے بغیر استعمال کیا جاتا ہے۔ جیسے حضرت ادریس (علیہ السلام) کے بارے میں فرمایا گیا ” ورفعناہ مکاناً علیاً “ (ہم نے اسے بلند مرتبے پر اٹھایا) لیکن جب رفع کو جسم مع الروح کے اٹھانے کے معنی میں استعمال کیا جائے تو پھر اس کے ساتھ الیٰ کا کا صلہ آتا ہے جیسے پیش نظر آیت میں ہم دیکھ رہے ہیں۔ آیت کے آخر میں عزیز حکیم کی صفات کا ذکر یہ بتلانے کے لیے کافی ہے کہ یہ ایک غیر معمولی واقعہ تھا جو دنیا میں اس سے پہلے کبھی پیش نہیں آیا اور غیر معمولی واقعہ کیا تھا کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو زندہ آسمانوں پر اٹھا لیا گیا۔ وَاِنْ مِّنْ اَہْلِ الْکِتَابِ اِلَّا لَیُؤْمِنَنَّ بِہٖ قَبْلَ مَوْتِہٖ ج وَیَوْمَ الْقِیٰمَۃِ یَکُوْنُ عَلَیْہِمْ شَہِیْدًا ج ” اور اہل کتاب میں سے کوئی ایسا نہیں جو اس کی موت سے پہلے اس پر ایمان نہ لے آئے اور قیامت کے دن وہ ان پر گواہ ہوگا۔ “ (النسآء : 159) آیت کے مختلف تراجم کی وضاحت اس آیت کریمہ کے پہلے فقرے کا ایک ترجمہ تو وہ ہے جو آپ متن کے نیچے دیکھ رہے ہیں اور دوسرا ترجمہ اس کا یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ” اہل کتاب میں سے کوئی ایسا نہیں جو اپنی موت سے پہلے اس پر ایمان نہ لے آئے۔ “ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ اہل کتاب سے کون مراد ہیں ؟ سلسلہ کلام کو دیکھتے ہوئے تو یہ کہنا چاہیے کہ اس سے مراد یہود ہیں۔ لیکن جملہ معترضہ میں چونکہ نصاریٰ کا بھی ذکر آیا ہے اس حوالے سے یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہاں اہل کتاب سے مراد یہود و نصاریٰ دونوں ہیں۔ آیتِ کریمہ کا مفہوم پہلے ترجمہ کے اعتبار سے تو یہ ہے کہ ” کوئی یہودی یا عیسائی ایسا نہیں جو عیسیٰ (علیہ السلام) کی موت سے پہلے ان پر ایمان نہ لے آئے۔ “ اس صورت میں مراد اس سے یہ ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) قربِ قیامت میں دوبارہ تشریف لائیں گے ‘ دجال سے آپ کا معرکہ ہوگا ‘ دجال آپ کے ہاتھوں قتل ہوگا ‘ یہودی یا تو ایمان لے آئیں گے یا قتل کردیے جائیں گے اور عیسائیوں پر چونکہ اصل معاملہ کھل جائے گا اس لیے وہ سب ایمان لے آئیں گے۔ پھر چند سال تک عیسیٰ (علیہ السلام) دنیا میں زندہ رہیں گے اور آپ عادل حکمران کی طرح حکومت کریں گے۔ جب آپ کی طبعی موت کا وقت آئے گا تو اس سے پہلے پہلے کوئی یہودی یا عیسائی ایسا نہیں ہوگا جو آپ پر ایمان نہ لا چکا ہو اور اس وقت آپ پر ایمان لانے کا مطلب محمد رسول اللہ ﷺ پر ایمان ہے۔ کیونکہ جو شخص بھی عیسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ کا نبی مانے گا وہ یقینا آنحضرت ﷺ کو خاتم النبیین ﷺ بھی مانے گا۔ دوسرے ترجمے کے حوالے سے آیت کا مفہوم یہ ہے کہ ” اہل کتاب میں سے کوئی شخص بھی ایسا نہیں ہوگا جسے موت کے وقت رسالت مسیح کے بارے میں حقیقت سے آگاہ نہ کردیا جائے۔ “ چناچہ اہل کتاب میں سے جس شخص کو بھی موت آئے گی اس وقت اس پر یہ حقیقت منکشف ہوجائے گی کہ میں جو کچھ حضرت مسیح (علیہ السلام) کے بارے میں کہتا رہا ہوں وہ سب غلط تھا۔ وہ ایک پاک دامن عفیفہ کے بیٹے ‘ صحیح النسب اللہ کے نبی تھے ‘ وہ اپنی ذات میں ایک انسان تھے ‘ وہ نہ خدا تھے نہ خدا کے بیٹے تھے ‘ ان کی حیثیت صرف یہ تھی کہ وہ باقی رسولوں کی طرح ایک رسول تھے۔ یہ حقیقت موت کے وقت ہر ایک پر کھول دی جائے گی ‘ لیکن چونکہ موت کے وقت جب عالم برزخ کی چیزیں نظر آنے لگیں اور آنے والے حالات منکشف ہونے لگیں تو اس وقت کا ایمان معتبر نہیں ہوتا۔ اگرچہ اہل کتاب اصل حقیقت سے آگاہ ہوجائیں گے اور اس پر ایمان بھی لے آئیں گے ‘ لیکن یہ ایمان ان کے کام نہیں آئے گا۔ یہ وہ مفہوم ہے جو متعدد صحابہ ‘ تابعین اور اکابر مفسرین سے منقول ہے۔ بعض اہل علم ایک تیسرا مفہوم مراد لیتے ہیں۔ ان کا خیال یہ ہے کہ ” لَیُؤْمِنَنَّ “ سے ایمان مراد نہیں ‘ بلکہ یقین مراد ہے۔ جس طرح قرآن کریم میں سورة النمل میں متکبر کافروں کے بارے میں فرمایا ہے کہ وہ اپنے ظلم اور گھمنڈ کے سبب سے اللہ کے رسول کے معجزات کا انکار کرتے ہیں ‘ لیکن ان کے دل اس پر یقین رکھتے ہیں۔ یہاں بھی اسی طرح کا یقین مراد ہے اور آیت میں جو ضمیریں آئی ہیں ان کے مرجع میں اختلاف ہے۔ وہ ” بہٖ “ کی ضمیر کا مرجع قرآن مجید کو اور ” مَوْتِہٖ “ کی ضمیر کا مرجع آنحضرت ﷺ کو قرار دیتے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ آج یہ اہل کتاب قرآن اور نبی کریم ﷺ کی صداقت تسلیم کرنے کے لیے یہ شرط ٹھہراتے ہیں کہ وہ آسمان سے کتاب اتار کے دکھائیں۔ لیکن وہ وقت دور نہیں جب یہ لوگ قرآن اور پیغمبر کی کہی ہوئی ایک ایک بات کو واقعات کی شکل میں اپنی آنکھوں سے دیکھیں گے اور قرآن ان کے لیے جس رسوائی و نامرادی اور جس ذلت و شکست کی خبر دے رہا ہے وہ پیغمبر کے دنیا سے اٹھنے سے پہلے پہلے اس طرح ان کی آنکھوں کی سامنے آجائے گی کہ اس کو جھٹلانا ان کے لیے ممکن نہیں رہے گا۔ اگرچہ ایمان کی سعادت انھیں پھر بھی نصیب نہیں ہوگی لیکن دل سے ماننے پر مجبور ہوجائیں گے۔ آیت کے دوسرے جملے کا مفہوم پہلے دونوں ترجموں کے حوالے سے یہ ہوگا کہ ” حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) یہودیوں اور عیسائیوں کے بارے میں گواہی دیں گے اور بتلائیں گے کہ آپ اللہ کی طرف سے جو پیغام ہدایت ان کے لیے لے کے آئے تھے انھوں نے اس کے ساتھ کیا سلوک کیا اور خود عیسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھ ان کی زندگی میں کیا سلوک کیا اور یہی وہ گواہی ہے جس کا تفصیلی ذکر سورة مائدہ کے آخری رکوع میں ہے۔ اور تیسرے ترجمے کی صورت میں اس جملے کا مفہوم یہ ہوگا کہ نبی کریم ﷺ قیامت کے دن ان تمام لوگوں پر گواہی دیں گے اور آپ بتلائیں گے کہ انھوں نے یہودونصاریٰ پر اللہ کے دین کی ایک ایک بات کی گواہی دی تھی اور انھیں کھول کے بتایا تھا کہ تم حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں جس عناد یا جس غلو میں مبتلا ہوگئے ہو وہ سرا سر غلط ہے۔ اگرچہ تمام انبیاء اپنی اپنی امتوں پر شہادت دیں گے لیکن آنحضرت ﷺ چونکہ خاتم الانبیاء ہیں اس لیے آپ ﷺ کی شہادت ایک اجتماعی شہادت ہوگی جس سے تمام امتوں پر حجت قائم ہوجائے گی۔
Top