Ruh-ul-Quran - An-Nisaa : 134
مَنْ كَانَ یُرِیْدُ ثَوَابَ الدُّنْیَا فَعِنْدَ اللّٰهِ ثَوَابُ الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِ١ؕ وَ كَانَ اللّٰهُ سَمِیْعًۢا بَصِیْرًا۠   ۧ
مَنْ : جو كَانَ يُرِيْدُ : چاہتا ہے ثَوَابَ الدُّنْيَا : دنیا کا ثواب فَعِنْدَ اللّٰهِ : تو اللہ کے پاس ثَوَابُ : ثواب الدُّنْيَا : دنیا وَالْاٰخِرَةِ : اور آخرت وَكَانَ : اور ہے اللّٰهُ : اللہ سَمِيْعًۢا : سننے والا بَصِيْرًا : دیکھنے والا
جو دنیا کے صلے کا طلبگار ہے تو اللہ کے پاس دنیا اور آخرت دونوں کا صلہ موجود ہے۔ اللہ سننے والا اور دیکھنے والا ہے)
مَنْ کَانَ یُرِیْدُثَوَابَ الدُّنْیَا فَعِنْدَاللّٰہِ ثَوَابُ الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃِ ط وَکَانَ اللّٰہُ سَمِیْعًا م بَصِیْرًا ع ” جو دنیا کے صلے کا طلبگار ہے تو اللہ کے پاس دنیا اور آخرت دونوں کا صلہ موجود ہے۔ اللہ سننے والا اور دیکھنے والا ہے۔ “ (النسآء : 134) اس کی قدرت کا عالم تو یہی ہے کہ وہ جب تک چاہے کسی کو اس دنیا میں زندگی گزارنے دے اور جب چاہے انھیں مٹا کر ان کی جگہ کسی دوسری قوم کو لا بسائے۔ لیکن اس وقت اس نے اپنا رسول بھیج کر تمہارے سامنے دونوں راستے کھول دیے ہیں۔ اگر رسول کی دعوت کو قبول کرتے ہو تو اس میں دنیا بھی ہے اور آخرت بھی۔ اور اگر تم اس کا انکار کر کے صرف دنیا اور اس کی نعمتوں کے حصول کے طلبگار ہو تو تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ دنیا بھی اسی کے قبضے میں ہے اور آخرت بھی اسی کے قبضے میں۔ وہ چونکہ غنی ہے اس لیے اگر کوئی صرف دنیا طلبی کا راستہ اختیار کرتا ہے تو وہ فوراً اس کا رستہ نہیں روکتا بلکہ اسے دنیا کی طلب میں بڑھاتا چلا جاتا ہے۔ البتہ جو شخص اللہ کی رسول کا اتباع کر کے آخرت کا مسافر بنتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے دنیا اور آخرت دونوں سے نوازتے ہیں۔ تو کس قدر عجیب بات ہے کہ تہیں جس جگہ سے دنیا اور آخرت دونوں کی نعمتیں مل سکتی ہیں تم اس سے منہ پھیر چکے ہو۔ اور جو رویہ تمہیں آخرت سے محروم کر رہا ہے اس کی طرف بگٹٹ بھاگے جا رہے ہو۔ کاش تمہیں معلوم ہوسکتا کہ اس کا انجام کیا ہوگا ؟ کیونکہ تمہارا ہر عمل اور تمہاری ہر بات اللہ سن بھی رہا ہے اور دیکھ بھی رہا ہے۔
Top