Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Ruh-ul-Quran - An-Nisaa : 11
یُوْصِیْكُمُ اللّٰهُ فِیْۤ اَوْلَادِكُمْ١ۗ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَیَیْنِ١ۚ فَاِنْ كُنَّ نِسَآءً فَوْقَ اثْنَتَیْنِ فَلَهُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَكَ١ۚ وَ اِنْ كَانَتْ وَاحِدَةً فَلَهَا النِّصْفُ١ؕ وَ لِاَبَوَیْهِ لِكُلِّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا السُّدُسُ مِمَّا تَرَكَ اِنْ كَانَ لَهٗ وَلَدٌ١ۚ فَاِنْ لَّمْ یَكُنْ لَّهٗ وَلَدٌ وَّ وَرِثَهٗۤ اَبَوٰهُ فَلِاُمِّهِ الثُّلُثُ١ۚ فَاِنْ كَانَ لَهٗۤ اِخْوَةٌ فَلِاُمِّهِ السُّدُسُ مِنْۢ بَعْدِ وَصِیَّةٍ یُّوْصِیْ بِهَاۤ اَوْ دَیْنٍ١ؕ اٰبَآؤُكُمْ وَ اَبْنَآؤُكُمْ لَا تَدْرُوْنَ اَیُّهُمْ اَقْرَبُ لَكُمْ نَفْعًا١ؕ فَرِیْضَةً مِّنَ اللّٰهِ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلِیْمًا حَكِیْمًا
يُوْصِيْكُمُ
: تمہیں وصیت کرتا ہے
اللّٰهُ
: اللہ
فِيْٓ
: میں
اَوْلَادِكُمْ
: تمہاری اولاد
لِلذَّكَرِ
: مرد کو
مِثْلُ
: مانند (برابر
حَظِّ
: حصہ
الْاُنْثَيَيْنِ
: دو عورتیں
فَاِنْ
: پھر اگر
كُنَّ
: ہوں
نِسَآءً
: عورتیں
فَوْقَ
: زیادہ
اثْنَتَيْنِ
: دو
فَلَھُنَّ
: تو ان کے لیے
ثُلُثَا
: دوتہائی
مَا تَرَكَ
: جو چھوڑا (ترکہ)
وَاِنْ
: اور اگر
كَانَتْ
: ہو
وَاحِدَةً
: ایک
فَلَھَا
: تو اس کے لیے
النِّصْفُ
: نصف
وَلِاَبَوَيْهِ
: اور ماں باپ کے لیے
لِكُلِّ وَاحِدٍ
: ہر ایک کے لیے
مِّنْهُمَا
: ان دونوں میں سے
السُّدُسُ
: چھٹا حصہ 1/2)
مِمَّا
: اس سے جو
تَرَكَ
: چھوڑا (ترکہ)
اِنْ كَانَ
: اگر ہو
لَهٗ وَلَدٌ
: اس کی اولاد
فَاِنْ
: پھر اگر
لَّمْ يَكُنْ
: نہ ہو
لَّهٗ وَلَدٌ
: اس کی اولاد
وَّوَرِثَهٗٓ
: اور اس کے وارث ہوں
اَبَوٰهُ
: ماں باپ
فَلِاُمِّهِ
: تو اس کی ماں کا
الثُّلُثُ
: تہائی (1/3)
فَاِنْ
: پھر اگر
كَانَ لَهٗٓ
: اس کے ہوں
اِخْوَةٌ
: کئی بہن بھائی
فَلِاُمِّهِ
: تو اس کی ماں کا
السُّدُسُ
: چھٹا (1/6)
مِنْۢ بَعْدِ
: سے بعد
وَصِيَّةٍ
: وصیت
يُّوْصِيْ بِھَآ
: اس کی وصیت کی ہو
اَوْ دَيْنٍ
: یا قرض
اٰبَآؤُكُمْ
: تمہارے باپ
وَاَبْنَآؤُكُمْ
: اور تمہارے بیٹے
لَا تَدْرُوْنَ
: تم کو نہیں معلوم
اَيُّھُمْ
: ان میں سے کون
اَقْرَبُ لَكُمْ
: نزدیک تر تمہارے لیے
نَفْعًا
: نفع
فَرِيْضَةً
: حصہ مقرر کیا ہوا
مِّنَ اللّٰهِ
: اللہ کا
اِنَّ اللّٰهَ
: بیشک اللہ
كَانَ
: ہے
عَلِيْمًا
: جاننے والا
حَكِيْمًا
: حکمت والا
(اللہ تمہاری اولاد کے بارے میں تمہیں حکم دیتا ہے کہ لڑکے کا حصہ دو لڑکیوں کے حصے کے برابر ہے، اگر لڑکیاں دو سے زائد ہیں تو ان کے لیے ترکے کا دوتہائی ہے اور اگر ایک ہے تو اس کے لیے نصف ہے اور میت کے ماں باپ کے لیے ان میں سے ہر ایک کے لیے اس کا چھٹا حصہ ہے جو مورث نے چھوڑا، اگر میت کے اولاد ہو اور اگر اس کے اولاد نہ ہو اور اس کے وارث ماں باپ ہی ہوں تو اس کی ماں کا حصہ ایک تہائی اور اگر اس کے بھائی بہنیں ہوں تو اس کی ماں کے لیے چھٹاحصہ ہے، یہ حصے اس وصیت کی تعمیل یا ادائے قرض کے بعد ہیں جو وہ کرجاتا ہے، تم اپنے باپوں اور بیٹوں کے متعلق یہ نہیں جان سکتے کہ تمہارے لیے سب سے زیادہ نفع دینے والا کون ہوگا ؟ یہ اللہ کا ٹھہرایا ہوا فریضہ ہے، بیشک اللہ ہی علم اور حکمت والا ہے
یُوْصِیْکُمُ اللّٰہُ فِیْٓ اَوْلاَدِکُمْ ق لِلذَّکَرِِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَیَیْنِ ج فَاِنْ کُنَّ نِسَآئً فَوْقَ اثْنَتَیْنِ فَلَھُنَّ ثُلُثَا مَاتَرَکَ ج وَاِنْ کَانَتْ وَاحِدَۃً فَلَھَا النِّصْفُ ط وَلِاَبَوَیْہِ لِـکُلِّ وَاحِدٍ مِّنْھُمَا السُّدُسُ مِمَّا تَرَکَ اِنْ کَانَ لَـہٗ وَلَـدٌ ج فَاِنْ لَّمْ یَـکُنْ لَّـہٗ وَلَـدٌ وَّوَرِثَـہٗٓ اَبَوٰہُ فَلِاُمِّہِ الثُّـلُثُ ج فَاِنْ کَانَ لَـہٗٓ اِخْوَۃٌ فَلِاُمِّہِ السُّدُسُ مِنْ م بَعْدِ وَصِیَّۃٍ یُّوْصِیْ بِھَآ اَوْدَیْنِ ط اٰبَـآؤُکُمْ وَاَبْنَـآؤُ کُمْ ج لاَ تَدْرُوْنَ اَیُّھُمْ اَقْرَبُ لَـکُمْ نَفْعًا ط فَرِیْضَۃً مِّنَ اللّٰہِ ط اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلِیْمًا حَکِیْمًا (اللہ تمہاری اولاد کے بارے میں تمہیں حکم دیتا ہے کہ لڑکے کا حصہ دو لڑکیوں کے حصے کے برابر ہے، اگر لڑکیاں دو سے زائد ہیں تو ان کے لیے ترکے کا دوتہائی ہے اور اگر ایک ہے تو اس کے لیے نصف ہے اور میت کے ماں باپ کے لیے ان میں سے ہر ایک کے لیے اس کا چھٹا حصہ ہے جو مورث نے چھوڑا، اگر میت کے اولاد ہو اور اگر اس کے اولاد نہ ہو اور اس کے وارث ماں باپ ہی ہوں تو اس کی ماں کا حصہ ایک تہائی اور اگر اس کے بھائی بہنیں ہوں تو اس کی ماں کے لیے چھٹاحصہ ہے، یہ حصے اس وصیت کی تعمیل یا ادائے قرض کے بعد ہیں جو وہ کرجاتا ہے، تم اپنے باپوں اور بیٹوں کے متعلق یہ نہیں جان سکتے کہ تمہارے لیے سب سے زیادہ نفع دینے والا کون ہوگا ؟ یہ اللہ کا ٹھہرایا ہوا فریضہ ہے، بیشک اللہ ہی علم اور حکمت والا ہے) (النسآء : 11) وصیت کا مفہوم اس آیت کریمہ کا آغاز یُوْصِیْکُمُ کے لفظ سے ہوا ہے۔ جس کا معنی ہے اللہ تعالیٰ تمہیں وصیت کرتا ہے۔ اردو اور پنجابی زبان میں بالعموم وصیت کا مطلب یہ سمجھا جاتا ہے کہ جب کوئی آدمی برلب مرگ ہوتا ہے تو وہ آخری وقت میں اپنے بچوں اور قریبی عزیزوں کو جو نصیحتیں کرتا ہے یا بعض معاملات کے بارے میں ہدایات دیتا ہے، انھیں وصیت کہا جاتا ہے۔ لیکن عربی زبان میں اس کا مفہوم یہ نہیں ہوتا۔ یہ صحیح ہے کہ یہ لفظ آخری نصیحتوں کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے اور مرنے والا بھی اس لفظ کے حوالے سے نصیحت کرتا ہے۔ لیکن زندگی میں بھی جس بات کو زیادہ اہتمام اور تاکید سے کہنا مقصود ہوتا ہے، اس کے لیے بھی وصیت کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے بلکہ اس سے بھی آگے بڑھ کر یہ کہا جاسکتا ہے کہ وصیت کے مفہوم میں دو مفہوم جمع ہیں۔ ایک مفہوم تو وہ ہے جس کا تعلق وصیت کرنے والے سے ہے اور ایک مفہوم وہ ہے جس کا تعلق اس بات سے ہے جس کی وصیت کی جارہی ہے۔ پہلے مفہوم کے لحاظ سے اس کا مطلب یہ ہے کہ وصیت کا سننے والا کہنے والے کے بارے میں یہ یقین رکھتا ہے کہ مجھ سے جو کچھ کہا جارہا ہے اس میں کہنے والے کی خیرخواہی، شفقت، ہمدردی، حتی کے پیش بینی، تدبر اور دور اندیشی سب کچھ شامل ہے۔ زندگی بھر کا تجربہ اور گہری بصیرت نے میری طرف متوجہ ہو کر میری ہمدردی میں ڈوب کر کچھ کہا ہے اور دوسرے مفہوم کے لحاظ سے اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ کہنے والا اس بات کے حوالے سے جو مجھ سے کہی جارہی ہے درحقیقت مجھ سے ایک عہد لے رہا ہے اور مجھ پر ایک ذمہ داری ڈال رہا ہے کہ جب بھی کبھی تمہیں ایسا موقعہ پیش آئے جس کے حوالے سے میں نصیحت کررہا ہوں تو یہ تمہارے ذمہ داری ہے کہ اس وقت تم اس نصیحت کو پیش نظر رکھو۔ وصیت کے لفظ نے ان وسیع الاطراف مطالب کو اپنے اندر سمیٹ لیا ہے۔ مشکل یہ ہے کہ اردو زبان سمیت کسی زبان میں ایسا لفظ نہیں پایا جاتا جو ان تمام معانی پر حاوی ہو۔ اور ان تمام مضمرات کو ادا کرنے کی صلاحیت رکھتاہو۔ لڑکا اور لڑکی کی میراث کے حکم میں اسلوبی حکمت سب سے پہلے میراث کے حوالے سے جن ورثا کے حصوں کا ذکر کیا گیا ہے وہ لڑکا اور لڑکی یا مرد اور عورت ہیں۔ لیکن اس کے لیے جو اسلوب اختیار کیا گیا ہے وہ توجہ طلب ہے۔ بجائے اس کے کہ یہ کہا جاتا کہ مذکر کے لیے دو حصے ہوں گے اور مؤنث کے لیے ایک حصہ یا یہ کہا جاتا کہ مذکر کا حصہ جتنا ہوگا مؤنث کا حصہ اس کا نصف ہوگا۔ لیکن یہاں فرمایا گیا لِلذَّکَرِِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَیَیْن ” لڑکے کا حصہ دو لڑکیوں کے حصے کے برابر ہے “۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اصل مقصود تو لڑکیوں کے حصے کو ذکر کرنا ہے اس کے ضمن میں لڑکے کے حصے کو ذکر کیا گیا ہے۔ اس اسلوب اور تعبیر سے شائد اس طرف توجہ دلانا مقصود ہے کہ دنیا میں آج تک عورتوں کو میراث سے محروم رکھ کر جو ظلم کیا گیا ہے قرآن کریم کے نزول اور آنحضرت ﷺ کی بعثت کے بعد اسلامی حدود میں یہ ظلم نہیں ہوگا۔ مسلمانوں کو اچھی طرح یہ بات ذہن نشین کرلینی چاہیے کہ مذکر اور مؤنث دونوں میراث میں برابر کے شریک ہیں بلکہ ذکر میں عورت پہلے ہے۔ اگر عورت کا حصہ نہیں دیا جاتا تو مرد کے حصے کا بھی کوئی جواز نہیں۔ صنفِ نازک کے حق میں جدید تاریخ کی یہ سب سے پہلی اور مضبوط آواز ہے جو قران کریم نے بلند کی ہے اور جو رفتہ رفتہ صنف نازک کو وہ عزت و حرمت عطا کرگئی جس سے قرآن وسنت کے اوراق معمور ہیں۔ لیکن ساتھ ہی ایک اور بڑی حقیقت کی طرف توجہ دلائی کہ صنف نازک کو حصہ تو ضرور ملے گا لیکن وہ مرد کے برابر نہیں ہوگا بلکہ اس سے نصف ہوگا۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ اسلام کے نظام معاشرت میں تمام کفالتی ذمہ داریاں اللہ تعالیٰ نے مرد پر ڈالی ہیں۔ وہ شوہر ہے تو بیوی کی تمام ذمہ داریوں کا کفیل ہے، وہ باپ ہے تو تمام اولاد کی ذمہ داریوں کا ضامن ہے، ماں کو اللہ نے بےپناہ مرتبہ دیا ہے لیکن اولاد کی کفالت کے حوالے سے اس پر کوئی ذمہ داری نہیں ڈالی ہے۔ شوہر کے ادب واحترام کے حوالے سے بیوی کو مکلف بنایا گیا ہے۔ لیکن شوہر کی ضروریات کے لیے اس پر کوئی ذمہ داری نہیں ڈالی گئی۔ وہ اپنے والدین کی طرف سے بیشک دولت وامارت کی مالک ہو، اس کے حق ملکیت میں چاہے کیسی ہی وسعت ہو، لیکن وہ شوہر اور بچوں کے حوالے سے کوئی پابندی نہیں رکھتی۔ وہ اگر ان کے لیے کچھ خرچ کرے تو تبرع اور احسان ہے، ذمہ داری نہیں ہے۔ عقل اور انصاف کی بات ہے کہ جس پر ذمہ داریاں ڈالی گئی ہیں میراث میں حصہ بھی اس کا زیادہ ہونا چاہیے اور بھی بعض حقوق میں اسے ترجیح ملنی چاہیے۔ اسی ترجیح کے پیش نظر مرد کو عورت سے دونا حصہ دیا گیا ہے اور یہ ایک ایسا اٹل اصول ہے جس میں سوائے کلالہ کی میراث کے کہیں بھی تبدیلی نہیں کی گئی۔ لڑکیوں کی میراث کی تفصیل لڑکیوں کے حقوق میراث کے حوالے سے مزید تفصیل بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر کسی شخص کی نرینہ اولاد نہ ہو صرف لڑکیاں ہی لڑکیاں ہوں، تو اگر لڑکیاں ایک سے زائد ہیں، چاہے دو ہیں یا دو سے زیادہ، تو ان کو وراثت سے دو تہائی حصہ ملے گا، جس میں سب لڑکیاں برابر کی شریک ہوں گی اور باقی ایک تہائی دوسرے ورثا مثلاً میت کے والدین، بیوی یا شوہر وغیرہ میراث کے حق داروں کو ملے گا۔ قرآن کریم نے دو لڑکیوں سے زیادہ کے بارے میں یہ حکم دیا ہے۔ لیکن اگر لڑکیاں دو سے زیادہ نہیں بلکہ دو ہوں تو اس کا حکم بھی یہی ہے۔ البتہ قرآن کریم نے اسے ذکر نہیں کیا آنحضرت ﷺ نے اس کے مطابق فیصلہ فرمایا ہے۔ حدیث شریف میں آتا ہے عن جابر بن عبداللّٰہ قال خرجنا مع رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ و سلم حتی جئنا امرئۃ من الانصار فی الاسواف فجاءت المرء ۃ بابنتین لھا فقالت یارسول اللّٰہ ھاتان بنتاثابت بن قیس معک یوم احد وقد استفاء عمھما مالھما ومیراثھما کلہ ولم یدع مالا الا اخذہ فما تری یارسول اللّٰہ فواللّٰہ لاتنکحان ابدا الا ولھما مال فقال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ و سلم یقضی اللّٰہ فی ذالک وقال نزلت سورة النساء یوصیکم اللّٰہ فی اولادکم الایۃ فقال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ و سلم ادعوا الی امرء ۃ وصاحبھا فقال لعمھما اعطھما الثلثین واعط امھما الثمن وما بقی فلک (ابو دؤد کتاب الفرائض، وبمعناہ فی الترمذی ابواب الفرائض) (حضرت جابر ( رض) سے روایت ہے۔ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ ہم آنحضرت ﷺ کے ہمراہ باہر نکلے اتنے میں ہمارا گزر اسواف میں ایک انصاری عورت پر ہوا وہ عورت اپنی دو لڑکیوں کو لے کر آئی اور کہنے لگی کہ اے اللہ کے رسول ! یہ دونوں لڑکیاں ثابت ابن قیس (میرے شوہر) کی ہیں جو آپ کے ساتھ غزوہ احد میں شہید ہوگئے ہیں ان لڑکیوں کا چچا ان کے پورے مال اور ان کی پوری میراث پر خود قابض ہوگیا ہے اور ان کے واسطے کچھ باقی نہیں رکھا۔ اس معاملہ میں آپ کیا فرماتے ہیں، خدا کی قسم اگر ان لڑکیوں کے پاس مال نہ ہوگا تو کوئی شخص ان کو نکاح میں رکھنے کے لیے بھی تیار نہ ہوگا۔ رسول اللہ ﷺ نے یہ سن کر فرمایا کہ اللہ تعالیٰ تیرے حق میں فیصلہ فرمادے گا۔ حضرت جابر فرماتے ہیں کہ پھر جب سورة نساء کی یہ آیت یوصیکم اللّٰہ فی اولادکم نازل ہوئی تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اس عورت اور اس کے دیور کو (لڑکیوں کا وہ چچا جس نے سارے مال پر قبضہ کرلیا تھا) بلائو، آپ نے لڑکیوں کے چچا سے فرمایا کہ لڑکیوں کو کل مال کا دوتہائی حصہ دو ، ان کی ماں کو آٹھواں حصہ اور جو بچے، وہ تم خود رکھ لو) اس حدیث میں آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ آنحضرت ﷺ نے دو لڑکیوں کو بھی دو تہائی حصہ دیا۔ جس کا حکم قرآن کریم میں دو سے زیادہ لڑکیوں کے لیے دیا ہے۔ اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ لڑکیاں دو ہوں یا دو سے زیادہ ان کو میراث میں سے دو تہائی حصہ ملے گا۔ اس کے بعد ارشاد فرمایا : وان کانت واحدۃ فلھا النصف ” اگر مرنے والے کی ایک لڑکی ہو تو اسے نصف ملے گا “۔ یعنی کل ترکہ کے نصف کی وہ حق دار ہوگی اور بقیہ نصف حصہ میں اگر اولاد نرینہ نہ ہو تو دوسرے ورثا حصہ پائیں گے۔ لیکن اگر دوسرے وارث موجود نہ ہوئے تو پھر وہ نصف بھی اسی لڑکی کی طرف لوٹ کر آئے گا۔ اولاد کے لیے وراثت کی تقسیم کی تفصیل بیان کرنے کے بعد والدین کی میراث کا ذکر فرمایا کیونکہ مرنے والے کے سب سے قریب رشتہ دار اولاد اور والدین ہی ہیں باقی سب کا مقام ان کے بعد ہے۔ وہ کبھی وارث ہوتے ہیں کبھی وارث نہیں ہوتے۔ لیکن اولاد اور والدین کمی اور بیشی کے ساتھ ہمیشہ وارث بنتے ہیں۔ مرنے والے نے اگر ماں اور باپ دونوں زندہ چھوڑے تو ان کی وراثت کی تین صورتیں ہیں۔ 1 والدین بھی زندہ ہوں اور ان کے ساتھ مرنے والے کی اولاد بھی زندہ ہو۔ ولد کا لفظ واحد جمع، مذکر مؤنث سب کے لیے بولا جاتا ہے۔ اس لیے مرنے والے کی اولاد چاہے مذکر ہو یا مؤنث ایک ہو یا زیادہ ہر صورت میں ماں اور باپ ہر ایک کو چھٹا چھٹا حصہ ملے گا۔ اور باقی جو وراثت بچے گی وہ دوسرے وارثوں کو ملے گی۔ بعض حالات میں کچھ بچا ہوا پھر والد کو پہنچ جاتا ہے جو اس کے لیے مقررہ حصے کے علاوہ ہے۔ علم فرائض کی اصطلاح میں اس طرح کے استحقاق کو استحقاقِ تعصیب کہتے ہیں۔ 2 دوسری صورت یہ ہے کہ مرنے والے کے والدین تو ہوں لیکن اس کی اولاد کوئی نہ ہو۔ اور نہ کوئی بہن بھائی ہو۔ اس صورت میں مال موروث کا تہائی ماں کو اور باقی دوتہائی والد کو ملے گا۔ یہ اس صورت میں ہے جب کہ مرنے والے کے وارثوں میں اس کا شوہر یا اس کی بیوی موجود نہ ہو۔ اگر شوہر یا بیوی موجود ہے تو سب سے پہلے ان کا حصہ الگ کیا جائے گا۔ باقی میں 1/3 ماں کو اور 2/3 والد کو مل جائے گا۔ 3 تیسری صورت یہ ہے کہ مرنے والے کی اولاد تو نہ ہو لیکن بھائی بہن ہوں۔ جن کی تعداد دو ہو۔ خواہ دو بھائی ہوں یا دو بہنیں ہوں، یا دو سے زیادہ ہوں۔ اس صورت میں ماں کو چھٹا حصہ ملے گا اور اگر کوئی اور وارث نہیں تو بقیہ 5/6 حصہ باپ کو مل جائے گا۔ بھائیوں اور بہنوں کی موجودگی سے ماں کا حصہ کم ہوگیا۔ لیکن بھائی بہن کو بھی کچھ نہ ملے گا کیونکہ باپ بہ نسبت بھائی بہن کے اقرب ہے۔ جو بچے گا باپ کو مل جائے گا۔ اس صورت میں ماں کا حصہ 1/3 کی بجائے 1/6 ہوگیا۔ فرائض کی اصطلاح میں اس کو حجب نقصان کہتے ہیں۔ اور یہ بہن بھائی جن کی وجہ سے والدین کا حصہ کم ہوا ہے خواہ حقیقی ہوں، خواہ باپ شریک ہوں، خواہ ماں شریک ہوں، ہر صورت میں ان کے وجود سے ماں کا حصہ گھٹ جائے گا۔ بشرطیکہ ایک سے زیادہ ہوں۔ اولاد اور والدین کے مقررہ حصوں کو بیان کرنے کے بعد فرمایا : اٰبَآؤُ کُمْ وَاَبْنَـآؤُ کُمْ ج لاَ تَدْرُوْنَ اَیُّھُمْ اَقْرَبُ لَـکُمْ نَفْعًا ط فَرِیْضَۃً مِّنَ اللّٰہِ ط اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلِیْمًا حَکِیْمًا ” اس میں تین باتیں ارشاد فرمائی گئی ہیں۔ پہلی بات یہ فرمائی گئی ہے کہ انسان ہمیشہ نارسائی فکر کا شکار رہا، کوشش کے باوجود عموماً حقیقت تک نہیں پہنچ پاتا۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ مزید مصیبت یہ ہے کہ اس کی سوچ کبھی حرص کے احساس سے خالی نہیں ہوتی۔ یہ ہزار غیرجانبدار ہو کر سوچے تب بھی بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ حصول منفعت کا تصور اس کی سوچ میں دخل انداز نہ ہو۔ ورا ثت میں تو اس کا ہر وقت امکان ہے۔ یہاں یہ فرمایا جارہا ہے کہ اگر تقسیم میراث تم پر چھوڑ دی جاتی تو تم اسے ضرورت اور منفعت کی اساس پر اٹھانے کی کوشش کرتے۔ لیکن تمہارے پاس یہ جاننے کے لیے کوئی حتمی ذریعہ نہیں تھا جس سے تم یہ فیصلہ کرسکو کہ والدین اور اولاد میں تمہارے لیے زیادہ منفعت بخش کون ہے۔ تمہاری فکری تاریخ ہمیشہ اس میں الجھی رہتی کہ دونوں اساسی رشتوں میں سے کسے زیادہ منفعت بخش قراردیاجائے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے تمہاری آسانی اور بہتری کے لیے منفعت اور ضرورت کو اساس بنانے کی بجائے قرابت میں اقرب ہونے کو بنیاد بنایا۔ یہ ایک ایسا اصول ہے جو حالات کے بدلنے سے بھی کبھی نہیں بدلتا۔ دوسری بات یہ ارشاد فرمائی جارہی ہے کہ میراث کے جو حصے اللہ تعالیٰ نے مقرر فرمادئیے ہیں ان میں کسی عقل کو دخل دینے اور کسی کمی بیشی کے لیے کوئی گنجائش نہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے وہ حتمی فیصلے ہیں جس میں انسانی عقل کے لیے دخل دینے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اور جس میں حالات کے بدلنے سے کسی کمی بیشی کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ جس طرح زندگی اور موت کا قانون اٹل ہے جس میں حالات کے بدلنے سے کوئی تبدیلی نہیں ہوتی۔ اسی طرح موت کے نتیجے میں جو حقوق مقرر کردئیے گئے ہیں وہ بھی ایسے محکم اور اٹل ہیں کہ ان میں کسی تبدیلی کا وہم بھی نہیں ہوسکتا۔ تیسری بات یہ ارشاد فرمائی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے میراث کے جو اصول مقرر فرمائے ‘ جو حقوق متعین کیے اور جو احکام دئیے ہیں یہ اللہ تعالیٰ کے ہمہ گیر علم اور گہری حکمت کا نتیجہ ہیں۔ اس لیے ان میں کسی طرح کی تبدیلی کرنے کی کوشش کرنا اپنے آپ کو علم اور حکمت سے محروم کرنا ہے یا ان کے مقابلے میں اور اصول میراث وضع کرنا اللہ تعالیٰ کے علم و حکمت کو چیلنج کرنے اور غیر معتبر ٹھہرانے کے مترادف ہے۔ ایسی حرکت وہی شخص کرسکتا ہے جو اللہ تعالیٰ کی صفات علم و حکمت پر یقین نہیں رکھتا اور اپنے بارے میں نہائیت غلط اندازہ رکھتا ہے۔
Top