Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Ruh-ul-Quran - An-Nisaa : 101
وَ اِذَا ضَرَبْتُمْ فِی الْاَرْضِ فَلَیْسَ عَلَیْكُمْ جُنَاحٌ اَنْ تَقْصُرُوْا مِنَ الصَّلٰوةِ١ۖۗ اِنْ خِفْتُمْ اَنْ یَّفْتِنَكُمُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا١ؕ اِنَّ الْكٰفِرِیْنَ كَانُوْا لَكُمْ عَدُوًّا مُّبِیْنًا
وَاِذَا
: اور جب
ضَرَبْتُمْ
: تم سفر کرو
فِي الْاَرْضِ
: ملک میں
فَلَيْسَ
: پس نہیں
عَلَيْكُمْ
: تم پر
جُنَاحٌ
: کوئی گناہ
اَنْ
: کہ
تَقْصُرُوْا
: قصر کرو
مِنَ
: سے
الصَّلٰوةِ
: نماز
اِنْ
: اگر
خِفْتُمْ
: تم کو ڈر ہو
اَنْ
: کہ
يَّفْتِنَكُمُ
: تمہیں ستائیں گے
الَّذِيْنَ كَفَرُوْا
: وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا (کافر)
اِنَّ
: بیشک
الْكٰفِرِيْنَ
: کافر (جمع)
كَانُوْا
: ہیں
لَكُمْ
: تمہارے
عَدُوًّا مُّبِيْنًا
: دشمن کھلے
(اور جب تم سفر میں نکلو تو تم پر کوئی گناہ نہیں کہ نماز میں قصر کرو۔ اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ کافر تمہیں فتنہ میں ڈال دیں گے بیشک کافر تمہارے کھلے ہوئے دشمن ہیں
وَ اِذَا ضَرَبْتُمْ فِی الْاَرْضِ فَلَیْسَ عَلَیْکُمْ جُنَاحٌ اَنْ تَقْصُرُوْا مِنَ الصَّلٰوۃِ صلے ق اِنْ خِفْتُمْ اَنْ یَّفْتِنَکُمُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا ط اِنَّ الْـکٰفِرِیْنَ کَانُوْا لَـکُمْ عَدُوًّا مُّبِیْنًا ” اور جب تم سفر میں نکلو تو تم پر کوئی گناہ نہیں کہ نماز میں قصر کرو۔ اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ کافر تمہیں فتنہ میں ڈال دیں گے بیشک کافر تمہارے کھلے ہوئے دشمن ہیں۔ “ (النسآء : 101) آیت کا ربط جہاد اور ہجرت کا مضمون جاری ہے۔ اسی سیاق کلام میں نماز کا ذکر آگیا ہے۔ بظاہر وجہ تو یہ معلوم ہوتی ہے اور یہ بھی صحیح ہے کہ ہجرت بھی ایک سفر کا نام ہے اور جہاد میں سفر بھی ہوتا ہے اور دشمن کی طرف سے حملے کا اندیشہ بھی۔ اس لیے دونوں کے حوالے سے نماز قصر کا ذکر فرمایا گیا ہے کہ ہجرت کا سفر ہو یا کوئی اور تمہیں نماز قصر کرنے کی اجازت ہے اور اسی طرح اگر جنگ کے لیے بیشک لمبا سفر درپیش نہ ہو لیکن دشمن کی طرف سے حملے کے اندیشے کے باعث ایک خوف کی کیفیت ہو تو صلاۃ الخوف پڑھنے کی بھی اجازت ہے۔ اور صلاۃ الخوف میں نماز قصر کی جائے گی۔ لیکن اگر تدبر کی نگاہ سے دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ پیش نظر ہجرت ہو یا جہاد ‘ ان دونوں میں حقیقی روح پیدا کرنے اور صحیح معنی میں اسے ہجرت اور جہاد بنانے میں جو چیز سب سے زیادہ ضروری ہے وہ ایک بندے کا اللہ سے رشتہ ہے۔ جسے ہم بندگی کہتے ہیں یہ تعلق اور یہ رشتہ جتنا خالص اور جتنا مضبوط ہوتا جاتا ہے اتنا ہی وہ عمل اللہ کے ہاں زیادہ اجر وثواب کا مستحق ہوتا جاتا ہے۔ بلکہ جس عمل کی قبولیت کی امید کی جاسکتی ہے وہ صرف وہ عمل ہے جس میں اللہ کے ساتھ اخلاص پایا جاتا ہو۔ ہجرت میں اگر یہ روح باقی نہ رہے تو وہ صرف ایک نقل مکانی ہے اور اگر جہاد سے یہ روح نکل جائے تو وہ جہاد ” فساد فی الارض “ بن جاتا ہے۔ حالانکہ جہاد کا اصل مقصد اللہ کی زمین سے فساد ختم کرنا ہے۔ بظاہر یہ خونریزی ہے لیکن حقیقت میں خونریزی روکنے کا ایک ذریعہ ہے۔ نماز ہجرت اور جہاد کی روح ہے نماز ایک ایسی عبادت ہے جو انسان کا تعلق اللہ سے قائم کرنے میں سب سے موثر عامل ہے۔ آدمی نیت باندھتے وقت پھر رکوع و سجود کرتے وقت پھر قیام و قعود میں اللہ کے ذکر کے سوا اور کچھ نہیں کرتا۔ اسی کی تسبیح کرتا ہے ‘ اسی کی کتاب کی تلاوت کرتا ہے ‘ اسی سے دعائیں کرتا ہے ‘ اسی سے استغفار کرتا ہے اور اسی کے تصور میں ڈوبتا چلا جاتا ہے۔ یہ ایک ایسی مشق ہے جو اگر شعور کے ساتھ کی جائے تو کرنے والے کا دل و دماغ اللہ کے تعلق کے حوالے سے تقویٰ اور اخلاص کا سر چشمہ بن جاتا ہے۔ اور مزید یہ کہ یہاں ذکر صرف نماز کا نہیں بلکہ باجماعت نماز کا ہے۔ اس سے جماعت کا اہتمام اور جماعت کی پابندی کی اہمیت بھی واضح ہوتی ہے۔ اور یہی جماعت امت میں شیرازہ بندی کا ذریعہ بنتی ہے۔ اور یہی نماز کی صفیں فوج میں نظم و ضبط پیدا کرتی ہیں۔ اور فوج کی صفیں نماز کی صفوں کی یاد دلا کر دلوں میں سوزو گداز پیدا کرنے کا ذریعہ بنتی ہیں۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو نماز ‘ ہجرت اور جہاد دونوں کی روح پیدا کرنے کا سب سے اہم ذریعہ ہے۔ اس لیے ہجرت اور جہاد کے سیاق وسباق میں نماز کا ذکر اجنبی نہیں بلکہ روح کی مانند ہے۔ وَ اِذَا ضَرَبْتُمْ فِی الْاَرْضِ کا مفہوم وَ اِذَا ضَرَبْتُمْ فِی الْاَرْضِ (اور جب تم سفر میں نکلو) آیت کے یہ الفاظ جہاد کے سفر کے لیے مخصوص نہیں۔ بلکہ ہر سفر کے لیے یہی تعبیر اختیار کی جاتی ہے۔ البتہ جہاں صرف جہاد کا ذکر مقصود ہو وہاں ” ضربتم فی سبیل اللہ “ کہا جاتا ہے کہ جب تم اللہ کے راستے میں نکلو “ یعنی جب تم جہاد کے لیے نکلو۔ تو ضربتم فی الارض کا استعمال بجائے خود اس بات کی دلیل ہے ‘ کہ یہاں مقصود صرف جہاد کا سفر نہیں بلکہ ہر وہ سفر مراد ہے جو کسی بھی اردے سے کیا جائے اور جہاد کا سفر بھی اس میں شامل ہے۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ آگے نماز میں جو قصر کرنے کا حکم دیا جا رہا ہے اس کا تعلق صرف صلاۃ الخوف سے نہیں بلکہ ہر نماز سے ہے۔ اور احادیث اور امت کا تعامل بھی اس بات پر شاہد ہے کہ قصر صرف صلاۃ الخوف میں ہی جائز نہیں بلکہ ہر نماز میں قصر جائز ہے جو سفر کے دوران ہو۔ اس لیے ہم سب سے پہلے زمانہ امن کے سفر میں قصر کی تفصیل عرض کرتے ہیں۔ جو نمازیں چار رکعت پر مشتمل ہیں ان میں قصر کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ان میں دو رکعتیں پڑھی جائیں گی۔ اور جو نمازیں تین یا دو پر مشتمل ہیں ان میں قصر نہیں ہوگی۔ البتہ فرض رکعتوں کے علاوہ جہاں تک سنتوں اور نوافل کر تعلق ہے اس میں آنحضرت ﷺ کا معمول یہ تھا کہ فجر کی سنتیں اور عشاء کے وترتو آپ التزام سے ادا فرماتے تھے۔ مگر باقی نمازوں میں آپ ﷺ صرف فرض پڑھتے تھے ‘ سنتیں پڑھنا آپ ﷺ سے ثابت نہیں۔ البتہ نفل نمازوں کا جب بھی موقع ملتا پڑھ لیا کرتے تھے۔ حتیٰ کہ سواری پر بیٹھے ہوئے بھی نوافل پڑھتے رہتے تھے۔ اسی بناء پر حضرت عبداللہ بن عمر نے لوگوں کو سفر میں فجر کے سوا دوسرے اوقات کی سنتیں پڑھنے سے منع کیا ہے۔ مگر اکثر علماء ترک اور فعل دونوں کو جائز قرار دیتے ہیں اور اسے ہر شخص کے اختیار پر چھوڑتے ہیں کہ وہ چاہے تو پڑھے اور چاہے تو نہ پڑھے۔ حنفیہ کا مختار مذہب یہ ہے کہ مسافر جب راستہ طے کر رہا ہو تو سنتیں نہ پڑھنا افضل ہے اور جب کسی مقام پر جا کر ٹھہر جائے اور اطمینان میسر آجائے تو پھر سنتیں پڑھنا افضل ہے۔ بعض آئمہ کرام کا خیال یہ ہے کہ نماز قصر کرنے کے لیے ضروری ہے کہ سفر کرنے والے کا سفر فی سبیل اللہ ہو۔ یعنی وہ کسی جائز اور پسندیدہ مقصد کے لیے سفر کر رہا ہو۔ لیکن اگر کسی ایسے مقصد کے لیے سفر کر رہا ہو جو شرعاً ناجائز ہو تو اس میں قصر کی اجازت سے فائدہ اٹھانے کا اسے کوئی حق نہیں۔ لیکن حنفیہ کہتے ہیں کہ قصر ہر سفر میں کیا جاسکتا ہے۔ سفر کی نوعیت کا اس سے کوئی تعلق نہیں۔ سفر کا جائز یا ناجائز ہونا بجائے خود ایک عمل ہے جس کی الگ بازپرس ہوگی۔ اور نماز ایک الگ عمل ہے جس کے قصر ہونے کا دارومدار صرف اس بات پر ہے کہ آدمی مسافر ہو ‘ قطع نظر اس سے کہ اس کا سفر جائز ہے یا ناجائز۔ فَلَیْسَ عَلَیْکُمْ جُنَاحٌاس سے بعض اہل علم نے یہ سمجھا ہے کہ سفر میں قصر کرنا ضروری نہیں ہے۔ اگر ضروری ہوتا تو یہ نہ فرمایا جاتا کہ قصر کرنے میں تم پر کوئی گناہ نہیں۔ اس سے تو صرف اجازت معلوم ہوتی ہے۔ آدمی چاہے اس سے فائدہ اٹھائے چاہے نہ اٹھائے۔ امام ابوحنیفہ (رح) فرماتے ہیں کہ قصر کرنا واجب ہے۔ ان کی ایک دلیل تو یہ ہے کہ حدیث سے یہ بات ثابت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے سفر میں ہمیشہ قصر فرمایا اور کسی معتبر روایت میں یہ منقول نہیں کہ آپ نے کبھی سفر میں چار رکعتیں پڑھی ہوں۔ حضرت ابن عمر ( رض) فرماتے ہیں کہ میں نبی کریم ﷺ اور حضرت ابوبکر ‘ حضرت عمر اور حضرت عثمان ( رض) کے ساتھ سفروں میں رہا ہوں ‘ میں نے کبھی نہیں دیکھا کہ انھوں نے سفر میں قصر نہ کیا ہو اور دیگر صحابہ سے اس کی تائید میں بہت سی روایات ملتی ہیں۔ ان کثیر روایات کے خلاف دو روایتیں حضرت عائشہ ( رض) سے مروی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ قصر اور اتمام دونوں درست ہیں۔ لیکن یہ روایتیں سند کے اعتبار سے ضعیف ہونے کے علاوہ خود حضرت عائشہ ( رض) کے ثابت شدہ مسلک کے خلاف ہیں۔ دوسری دلیل امام ابوحنیفہ ( رح) کی یہ ہے کہ حضرت عمر ( رض) نے ” فلاجناح علیکم “ کے حوالے سے ہی نبی کریم ﷺ سے پوچھا تو حضور ﷺ نے فرمایا ” صدقۃ تصدق اللہ بہا علیکم فاقبلوا صدقتہ “ (یہ قصر کی اجازت ایک انعام ہے جو اللہ نے تمہیں بخشا ہے لہٰذا اس کے انعام کو قبول کرو) بادشاہوں کے انعام رد کردینا یا لوٹا دینا توہین سمجھا جاتا ہے اور ایسا کرنے والا گرفت میں آجاتا ہے۔ اللہ جیسے شہنشاہِ کائنات کے انعام کو تو دل و جان سے قبول کرنا چاہیے۔ اور اس پر شکر بھی ادا کرنا چاہیے کہ اللہ نے ہم کمزور لوگوں پر کیسے کیسے انعامات کیے ہیں۔ رہی یہ بات کہ آخر یہ جملہ کیوں ارشاد فرمایا گیا تو اس کی مثال اس سے پہلے بھی ہم اسی سورت میں پڑھ چکے ہیں۔ صفا اور مروہ کے درمیان سعی کے حوالے سے پروردگار نے ارشاد فرمایا کہ ” صفا اور اور مروہ شعائر اللہ میں سے ہیں تو تم پر کوئی حرج نہیں کہ تم ان دونوں کے درمیان سعی کرو۔ “ تو بعض صحابہ نے اس سے یہ سمجھا کہ سعی کرنا ضروری نہیں بلکہ ہمیں اختیار دے دیا گیا ہے کہ چاہیں تو سعی کریں چاہیں تو نہ کریں۔ لیکن حضرت عائشہ صدیقہ ( رض) نے انکی اصلاح کرتے ہوئے فرمایا کہ ” یہاں اختیار نہیں دیا گیا بلکہ ایک غلط فہمی کا ازالہ فرمایا گیا ہے۔ مسلمان جب عمرہ کی قضا کرنے کے لیے سات ہجری میں مکہ معظمہ میں آئے تو انھوں نے دیکھا کہ مشرکین مکہ نے صفا اور مروہ پر دو بت رکھے ہوئے تھے۔ ان میں سے ایک کا نام اساف اور دوسرے کا نام نائلہ تھا۔ ان کو خیال گزرا کہ اگر ہم نے صفا ومروہ کی سعی کی تو یہ دونوں بتوں کے طواف کے مترادف ہوگا۔ اس لیے بہتر ہے کہ ہم سعی نہ کریں کیونکہ بتوں کا طواف اسلام میں سب سے بڑا جرم ہے۔ اس پر یہ آیت کریمہ نازل ہوئی کہ ان بتوں کی موجودگی میں تمہارے لیے سعی کرنے میں کوئی ہرج نہیں۔ کیونکہ سعی مناسک حج میں سے ہے اور اس کی ادائیگی واجب ہے۔ یہاں بھی ایک اشتباہ کا ازالہ مقصود ہے۔ وہ یہ کہ بعض مسلمان یہ سمجھتے تھے کہ قصر کرنے کی اجازت اسے ہے جو پوری نماز نہ پڑھ سکتا ہو۔ یہ ایک سہولت ہے جو کمزوروں کو دی گئی ہے۔ لیکن جو پوری نماز پڑھ سکتا ہو اسے پوری نماز پڑھنی چاہیے۔ اور استطاعت کے ہوتے ہوئے قصر کرنا شاید گناہ کا باعث نہ ہو۔ ان کا اشتباہ دور کرنے کے لیے فرمایا گیا ہے کہ تم اگر قصر کرو تو تمہارے لیے کوئی گناہ کی بات نہیں ہوگی۔ یہ تو ایک حکم کی تعمیل ہے اسلام تو تعمیلِ حکم کا نام ہے۔ اور اپنے آپ کو پوری طرح سے اللہ کے سپرد کردینے کا نام ہے۔ وہ دو کا حکم دے تو دو پڑھو اور چار کا حکم دے تو چار پڑھنا اسلام کے حکم کا تقاضا ہے۔ مقصود رکعتوں کی تعداد نہیں ‘ مقصود تو وہ اطاعت ہے جو مکمل خشوع و خضوع سے کی جائے۔ حالتِ سفر میں قصر کے حوالے سے ایک اہم مسئلہ یہ بھی ہے کہ کتنے سفر پر قصر کیا جائے۔ یعنی مقدارِ سفر کیا ہو ؟ َظاہریہ کے نزدیک تو ہر سفر میں قصر کیا جاسکتا ہے چاہے وہ چند میل پر مشتمل کیوں نہ ہو۔ البتہ احناف کے نزدیک ایسے سفر پر قصر کرنے کی اجازت ہے جس کی مسافت میں پیدل یا اونٹ کی سواری سے تین دن صرف ہوتے ہوں۔ اس کا اندازہ 54 میل لگایا گیا ہے ‘ لیکن فتویٰ 48 میل پر ہے۔ یہی غالباً امام مالک (رح) کا بھی موقف ہے۔ ایک بحث یہ ہے کہ مسافر کب تک مسافر رہتا ہے ؟ نبی کریم ﷺ سے اس بارے میں کوئی صریح حکم مروی نہیں۔ اس لیے اس میں فقہاء نے اختلاف کیا ہے۔ امام ابوحنیفہ (رح) پندرہ دن یا اس سے زیادہ کی نیت قیام پر پوری نماز پڑھنے کا حکم دیتے ہیں۔ اور اگر کسی جگہ آدمی مجبوراً رکا ہوا ہو مثلاً کہیں پہاڑوں پر گیا اور برف باری کی وجہ سے راستے بند ہوگئے یا اور کوئی ایسا حادثہ ہوگیا کہ وہ واپس آنا چاہتا ہے لیکن آ نہیں پاتا۔ لیکن روزانہ یہ کوشش کرتا ہے کہ موقع ملے تو چلا جاؤں۔ اس طرح سے چاہے کتنا بھی وقت گزر جائے نماز قصر ہی کی جائے گی۔ اِنْ خِفْتُمْ اَنْ یَّفْتِنَکُمُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا ( اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ کافر تمہیں فتنہ میں مبتلا کردیں گے) یعنی میدانِ جنگ میں ہر وقت اس بات کا اندیشہ ہوتا ہے کہ غنیم کہیں حملہ نہ کر دے۔ ایسی صورت میں لمبی نماز پڑھنا ممکن نہیں ہوتا۔ چناچہ قصر کرنے کا حکم دیا گیا۔ بعض لوگوں کا گمان یہ ہے کہ یہ صلاۃ الخوف صرف آنحضرت ﷺ کے زمانے میں مشروع تھی اب اس کی اجازت نہیں ہے۔ یہ بات بالکل غلط ہے کیونکہ نبی کریم ﷺ سے قریب قریب تواتر سے یہ بات ثابت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے امن اور خوف دونوں حالتوں میں قصر فرمایا۔ حضرت ابن عباس ( رض) کی روایت ہے ” ان النبی ﷺ خرج من المدینۃ الی مکۃ لا یخاف الا رب العالمین فصلی رکعتین “ ( نبی کریم ﷺ مدینہ سے مکہ تشریف لے گئے اور اس وقت رب العالمین کے سوا کسی کا خوف نہ تھا مگر آپ نے دو ہی رکعتیں پڑھیں)
Top