Ruh-ul-Quran - Az-Zumar : 27
وَ لَقَدْ ضَرَبْنَا لِلنَّاسِ فِیْ هٰذَا الْقُرْاٰنِ مِنْ كُلِّ مَثَلٍ لَّعَلَّهُمْ یَتَذَكَّرُوْنَۚ
وَلَقَدْ ضَرَبْنَا : اور تحقیق ہم نے بیان کی لِلنَّاسِ : لوگوں کے لیے فِيْ : میں ھٰذَا الْقُرْاٰنِ : اس قرآن مِنْ كُلِّ : ہر قسم کی مَثَلٍ : مثال لَّعَلَّهُمْ : تاکہ وہ يَتَذَكَّرُوْنَ : نصیحت پکڑیں
ہم نے اس قرآن میں لوگوں کے لیے ہر قسم کی مثالیں بیان کردیں تاکہ وہ دھیان کریں
وَلَقَدْ ضَرَبْنَا لِلنَّاسِ فِیْ ھٰذَا الْقُرْاٰنِ مِنْ کُلِّ مَثَلٍ لَّعَلَّھُمْ یَتَذَکَّرُوْنَ ۔ قُرْاٰنًا عَرَبِیًّا غَیْرَذِیْ عِوَجٍ لَّعَلَّھُمْ یَتَّقُوْنَ ۔ (الزمر : 27، 28) (ہم نے اس قرآن میں لوگوں کے لیے ہر قسم کی مثالیں بیان کردیں تاکہ وہ دھیان کریں۔ ایک عربی قرآن کی صورت میں جس میں کوئی ٹیڑھ نہیں تاکہ وہ برے انجام سے بچیں۔ ) قرآن کریم کا ایک خاص اسلوب ضربِ مثل کا معنی ہے مثال بیان کرنا۔ لیکن اس سے مراد بالعموم حکمت و مؤعظت کی کسی بات کو تمثیل کے انداز میں یا بغیر تمثیل کے بیان کرنا ہے۔ حکمت و مؤعظت تو تمام آسمانی کتابوں کا موضوع رہا ہے۔ البتہ تمثیل کا پیرایہ بھی آسمانی کتابوں میں ہمیں جابجا ملتا ہے۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے خطبات میں بھی بکثریت اس کا استعمال ہوا ہے۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے صحیفہ حکمت کا نام ہی امثال ہے۔ تمثیل کے اسلوب کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ جن باتوں کو عقلی پیمانوں سے بیان نہیں کیا جاسکتا کیونکہ ان کا تعلق ایک نادیدہ عالم سے ہوتا ہے انھیں تمثیل کے انداز میں بیان کرنا اور فی الجملہ ایک تأثر دل و دماغ میں بٹھا دینا آسان ہوتا ہے۔ اس لیے قرآن کریم اور دیگر آسمانی کتابوں نے ضرورت کے مطابق اس پیرایہ بیان کو اختیار کیا۔ مقصود چونکہ تمام آسمانی کتابوں کا لوگوں کو توجہ دلانا، یاددہانی کرانا اور نصیحت کرنا رہا ہے اس لیے اس صنف کلام سے کام لیا گیا تاکہ لوگ اس سے نصیحت حاصل کریں۔ قرآن کریم اس صنف کے ساتھ ساتھ بعض دوسری اصنافِ کلام اور اوصافِ کلام سے بھی کام لے کر لوگوں کے لیے اللہ تعالیٰ کے دین کو سمجھنے کے لیے آسان کردیتا ہے۔ کیونکہ قرآن کریم کو اللہ تعالیٰ نے ایک ایسی زبان میں نازل کیا ہے جو عربی ہے تاکہ اہل عرب اس کو بخوبی سمجھ سکیں اور مزید یہ کہ اس زبان میں کوئی ایچ پیچ نہیں، بلکہ نہایت فصیح اور بلیغ زبان ہے اور نہایت سادہ اسلوب میں تمام باتیں بیان کی گئی ہیں جن کا بیان کرنا ضروری تھا۔ قرآن کریم نے بعض مواقع پر مشکل علمی موضوعات کو بھی چھیڑا ہے اور پھر عالم برزخ، عالم آخرت اور عالم غیب کی باتیں بھی کی ہیں۔ لیکن کسی جگہ بھی ایسی زبان استعمال نہیں کی جو اہل زبان کی دسترس میں نہ آسکتی ہو۔ اور پھر لب و لہجہ ایسا دلآویز اور ایسا شیریں ہے کہ ایک معمولی سمجھ بوجھ کا آدمی بھی اس کی دلآویزی کے سحر سے محظوظ ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ بالخصوص زندگی کے معمولات کے بارے میں جو ہدایات دی گئی ہیں ان کا انداز نہایت سہل اور نہایت دلنشیں ہے۔ پیش نظر صرف یہ ہے کہ لوگ قرآنی دعوت کو اچھی طرح سمجھ لیں اور اس طرح سے اس برے انجام یعنی ہولناک انجام سے اپنے آپ کو محفوظ بنانے کی کوشش کریں جو انسان کو عالم آخرت میں بہرحال پیش آنے والا ہے۔
Top