Ruh-ul-Quran - Al-Furqaan : 73
وَ الَّذِیْنَ اِذَا ذُكِّرُوْا بِاٰیٰتِ رَبِّهِمْ لَمْ یَخِرُّوْا عَلَیْهَا صُمًّا وَّ عُمْیَانًا
وَالَّذِيْنَ : اور وہ لوگ جو اِذَا ذُكِّرُوْا : جب انہیں نصیحت کی جاتی ہے بِاٰيٰتِ رَبِّهِمْ : ان کے رب کے احکام سے لَمْ يَخِرُّوْا : نہیں گرپڑتے عَلَيْهَا : ان پر صُمًّا : بہروں کی طرح وَّعُمْيَانًا : اور اندھوں کی طرح
اور (عبادالرحمن) وہ لوگ ہیں کہ جب انھیں نصیحت کی جاتی ہے ان کے رب کی آیات کے ذریعے سے تو ان پر بہرے اور اندھے ہو کر نہیں گرتے
وَالَّذِیْنَ اِذَا ذُکِّرُوْا بِاٰیٰتِ رَبِّہِمْ لَمْ یَخِرُّوْا عَلَیْھَا صُمًّا وَّ عُمْیَانًا۔ (الفرقان : 73) (اور (عبادالرحمن) وہ لوگ ہیں کہ جب انھیں نصیحت کی جاتی ہے ان کے رب کی آیات کے ذریعے سے تو ان پر بہرے اور اندھے ہو کر نہیں گرتے۔ ) لَمْ یَخِرُّوْا عَلَیْھَا صُمًّا وَّ عُمْیَانًا … قرطبی اور بحرمحیط کی وضاحت کے مطابق لَمْ یَخِرُّوْاگر پڑنے کے مفہوم پر دلالت نہیں کرتا بلکہ اس کا مفہوم روگردانی اور سرتابی ہے۔ عبادالرحمن کا نصیحت سے شغف انسان میں بعض کمزوریاں ایسی ہیں کہ جب تک انسان نہایت ہوش مندی سے اپنا احتساب نہ کرے اسے ان کمزوریوں کا احساس نہیں ہوپاتا۔ انہی میں سے ایک کمزوری یہ ہے کہ جس شخص کو اللہ تعالیٰ بہت زیادہ نیکی اور عبادت کی توفیق دیتا ہے بالعموم اس کے اندر نیکی کا پندار پیدا ہوجاتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جب اسے کسی بھلائی کی نصیحت کی جاتی یا کسی حقیقت کی یاددہانی کرائی جاتی ہے تو وہ عموماً اس پندار کی وجہ سے اس یاددہانی کی طرف توجہ نہیں دیتا اور سمجھتا ہے کہ مجھے اس کی ضرورت نہیں۔ لیکن وہ لوگ جو اپنی تمام تر عبادت، ریاضت اور نیکی سے شغف کے باوجود نصیحت کی ہر بات کو اپنی متاع گم گشتہ سمجھتے ہیں حقیقت میں یہ لوگ ہیں جن پر اللہ تعالیٰ کا بےپایاں احسان ہوتا ہے۔ چناچہ ایسے ہی لوگوں کو یہاں عبادالرحمن کے نام سے یاد کیا گیا ہے اور ان کی یہ صفت بیان کی گئی ہے کہ جب انھیں قرآن کے ذریعے تعلیم و تذکیر کی جاتی ہے تو وہ اعراض کی بجائے لپکتے ہوئے اس کی طرف اس طرح متوجہ ہوتے ہیں جس طرح ایک پیاسا ٹھنڈے پانی کی طرف ہاتھ بڑھاتا ایک بھوکا کھانے کی ہر چیز کو اپنے لیے نعمت غیرمترقبہ سمجھتا اور تھکاوٹ سے چور آدمی جہاں بھی جگہ ملے بےقرار ہو کر سو جاتا ہے۔ اور ساتھ ہی ساتھ قرآن کریم کے مخالفین پر تعریض بھی کی گئی ہے کہ جب ان کے سامنے قرآن کریم پڑھا جاتا ہے تو وہ پڑھنے والے کو اس طرح دیکھتے ہیں جیسے اندھے ہوتے ہیں اور قرآن کریم کو اس طرح سنتے ہیں جیسے بہرے ہوتے ہیں لیکن عبادالرحمن کا شوق ایسے مواقع پر دیکھنے کے قابل ہوتا ہے۔ وہ قرآن کریم کی ہر بات سے گہرا اثر قبول کرتے، اس کی پیروی کرتے، اس کے فرائض کی پابندی کرتے اور اس کے نواہی سے اس طرح اجتناب کرتے ہیں جیسے مہلک چیزوں سے بچا جاتا ہے اور قرآن پاک کی تعلیم اور نصیحت ان کے لیے آب حیات سے بڑھ کر ہوتی ہے۔
Top