Ruh-ul-Quran - Al-Furqaan : 63
وَ عِبَادُ الرَّحْمٰنِ الَّذِیْنَ یَمْشُوْنَ عَلَى الْاَرْضِ هَوْنًا وَّ اِذَا خَاطَبَهُمُ الْجٰهِلُوْنَ قَالُوْا سَلٰمًا
وَعِبَادُ الرَّحْمٰنِ : اور رحمن کے بندے الَّذِيْنَ : وہ جو کہ يَمْشُوْنَ : چلتے ہیں عَلَي الْاَرْضِ : زمین پر هَوْنًا : آہستہ آہستہ وَّاِذَا : اور جب خَاطَبَهُمُ : ان سے بات کرتے ہیں الْجٰهِلُوْنَ : جاہل (جمع) قَالُوْا : کہتے ہیں سَلٰمًا : سلام
اور رحمن کے بندے وہ ہیں جو زمین پر فروتنی سے چلتے ہیں اور جب جاہل لوگ ان کے منہ آئیں تو وہ ان کو سلام کرکے رخصت ہوجاتے ہیں
وَعِبَادُالرَّحْمٰنِ الَّذِیْنَ یَمْشُوْنَ عَلَی الْاَرْضِ ھَوْنًا وَّاِذَا خَاطَبَـھُمُ الْجٰھِلُوْنَ قَالُوْا سَلٰمًا۔ (الفرقان : 63) (اور رحمن کے بندے وہ ہیں جو زمین پر فروتنی سے چلتے ہیں اور جب جاہل لوگ ان کے منہ آئیں تو وہ ان کو سلام کرکے رخصت ہوجاتے ہیں۔ ) عبادالشیطان کے مقابلہ میں عبادالرحمن کا بیان گزشتہ رکوع کی آیت نمبر ساٹھ میں بتایا گیا ہے کہ جب قریش سے کہا گیا کہ رحمن کو سجدہ کرو تو انھوں نے نہایت تکبر سے جواب دیا، کون ہے رحمن ؟ رحمن کیا ہوتا ہے ؟ اور ان کے اس طرزعمل نے ان کے دلوں میں رحمن سے نفرت میں اضافہ کردیا۔ پیش نظر آیت کریمہ میں میں اللہ تعالیٰ کے وہ بندے جو نبی کریم ﷺ پر ایمان لائے اور آنحضرت ﷺ کی تربیت نے ان کے اندر وہ روحانی اور اخلاقی کمالات پیدا کیے کہ آج وہ مسلمانوں کی تاریخ کا قابل صد افتخار باب ہیں انھیں عبادالرحمن کے عنوان سے یاد کیا گیا اور ان کے وہ اوصاف بیان کیے گئے جو انسانیت کے جوہر ہیں۔ بتانا مقصود یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک اللہ اور رحمن میں کوئی فرق نہیں، دونوں اللہ تعالیٰ کے نام ہیں۔ تم جس ذات بزرگ و برتر کو اللہ تعالیٰ کے نام سے جانتے ہو وہی رحمن ہے، لیکن تم اس کے سامنے جھکنا اور اس کی طرف اپنا انتساب کرنا اپنے لیے باعث عار سمجھتے ہو، لیکن جن لوگوں پر انسانیت ہمیشہ ناز کرتی رہے گی ان کے لیے عبادالرحمن کا نام اور عنوان نہایت عزت و افتخار کی علامت ہے۔ عباد کا مفہوم رحمن کی طرف انتساب کے ساتھ ساتھ عباد کا لفظ بھی قابل توجہ ہے، یہ عبد کی جمع ہے جو غلام پر بولا جاتا ہے۔ آگے جن لوگوں کی صفات بیان کی جارہی ہیں ان صفات کے اصل سرچشمے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے کہ ان میں یہ صفات اس لیے آئی ہیں اور ان میں یہ حیرت انگیز تبدیلیاں اس لیے رونما ہوئی ہیں کہ انھوں نے دنیا بھر کی غلامیوں سے رشتہ توڑ کر اللہ تعالیٰ سے غلامی کا رشتہ جوڑا ہے، ان کا سر صرف اللہ تعالیٰ کے سامنے جھکتا ہے، وہ صرف اس سے ڈرتے اور اس سے امید باندھتے ہیں، اسی پر بھروسہ کرتے اور اسی کے سامنے ہاتھ پھیلاتے ہیں، ان کا قیام، رکوع، سجود اور قعود صرف اسی کے لیے ہیں۔ وہ اس شریعت کی پیروی کرتے ہیں جو اس نے اپنے رسول پر نازل کی ہے۔ اور وہ اس رسول کو اسوہ حسنہ سمجھتے ہیں جس پر وہ ایمان لائے ہیں۔ یہ اللہ اور رحمن کی بندگی ہے جس نے ان کے اندر وہ اوصاف پیدا کردیئے ہیں جن کا آگے ذکر کیا جانے والا ہے۔ بالکل سامنے کی بات ہے کہ جو شخص انسانوں کی بندگی کرے گا اس کے اندر وہ اوصاف پیدا نہیں ہوسکتے جو اس کی ذات کو رفعتِ پرواز دے سکیں۔ جو توہمات کو اپنا معبود بنائے گا اس کے اندر انسانیت کی حقیقت پیدا نہیں ہوسکتی۔ جو مظاہرقدرت کے سامنے جھکے گا اس کے اندر قوت تسخیر کبھی جنم نہیں لے سکتی۔ جو لکشمی دیوی کی پوجا کرے گا وہ حرص، بخل، خودغرضی اور نفسانی جذبات سے کبھی بلند نہیں ہوسکے گا۔ علیٰ ہذا القیاس ملکوتی صفات اور الٰہی اخلاق صرف اس شخص میں پیدا ہوسکتے ہیں جس کا سر اللہ تعالیٰ کے آستانے کے سوا کہیں اور نہ جھکتا ہو اور جس کی بندگی کا رشتہ اللہ تعالیٰ اور رحمن کے سوا کسی اور سے نہ ہو۔ سیرت و اخلاق کے دو نمونے ایک اور بات کی طرف بھی توجہ دلائی جارہی ہے وہ یہ کہ تمہارے سامنے سیرت و اخلاق کے دو نمونے ہیں۔ ایک وہ نمونہ ہے جو قرآن کریم کی دعوت کو قبول کرنے اور آنحضرت ﷺ کی پیروی کرنے کے نتیجے میں وجود میں آیا اور جسے اس رکوع میں تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔ اور ایک وہ نمونہ ہے جو صدیوں کے توہمات، تقلیدِآباء اور جاہلیت نے پیدا کیا ہے جو آج مکہ اور عرب بھر میں چاروں طرف نظر آتا ہے۔ نہایت خاموشی کے ساتھ قریش اور دیگر اہل مکہ کو دعوت دی گئی ہے کہ تم ان دونوں نمونوں میں تقابل کرکے دیکھو۔ ایک نمونے کا عکس تو تمہارے اندر موجود ہے اور دوسرا نمونہ اصحابِ ایمان کی شکل میں تمہیں چلتا پھرتا دکھائی دیتا ہے۔ اور ان آیات میں اسی کا عکس دکھایا گیا ہے۔ پھر خود فیصلہ کرو کہ ان دونوں نمونوں میں سے انسانیت کو کس نمونے کی ضرورت ہے، اور وہ کون سا نمونہ ہے جس سے نفرتوں کے اس جہنم کی آگ بجھائی جاسکتی ہے۔ عبادالرحمن کی پہلی صفت عاجزانہ رفتار روئے سخن چونکہ اشرافِ قریش کی طرف ہے جن کے کبروغرور اور تکبر کا عالم یہ ہے کہ خدا کا محبوب نام رحمن بھی انھیں گوارا نہیں۔ اس لیے ان کے کبر و غرور پر چوٹ لگانے کے لیے سب سے پہلے عبادالرحمن کی عاجزی اور فروتنی کو ذکر کیا جارہا ہے۔ کیونکہ انسانیت کی بقا اور اس کی ترقی و عروج کے لیے جباروں اور مفسدوں کی ضرورت نہیں بلکہ شریف الطبع، حلیم، بردبار اور ہمدرد و غمگسار لوگوں کی ضرورت ہے جو لوگوں کے کام آئیں اور ان کے زخموں پر مرہم رکھیں۔ لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ اس عاجزی اور فروتنی کے اظہار کے لیے عبادالرحمن کی رفتار اور چال کو حوالہ بنایا گیا ہے۔ اس لیے فرمایا کہ رحمن کے بندے جب چلتے ہیں تو نرم چال چلتے ہیں یعنی نہایت عاجزی اور فروتنی سے چلتے ہیں۔ جس طرح اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والا، طبیعت پر قابو رکھنے والا، غرور وتکبر سے دور اور تمام انسانوں کی بھلائی سوچنے والا چلتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا خوف اس کا سر اٹھنے نہیں دیتا، لوگوں سے برابری اس کے سینے میں ہوا بھرنے نہیں دیتی۔ عاجزی اور فروتنی اسے قدم پٹخنے کی اجازت نہیں دیتی۔ وہ ہوا کے جھونکے کی طرح آتا اور گزر جاتا ہے۔ لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اس کی رفتار میں کمزوری کا احساس ہوتا ہے۔ نرم چال سے مریضانہ چال مراد نہیں اور نہ وہ چال مراد ہے جس میں ریا کاری اور انکساری کی نمائش پائی جاتی ہے وہ نبی کریم ﷺ کی طرح مضبوط قدم رکھتے ہوئے اس طرح چلتا ہے گویا اس کے قدم نشیب کی طرف اتر رہے ہیں۔ حضرت عمرفاروق ( رض) کے متعلق روایات میں آیا ہے کہ انھوں نے ایک جوان آدمی کو مریل چال چلتے دیکھا، تو روک کر پوچھا کیا تم بیمار ہو ؟ اس نے عرض کیا جی نہیں۔ آپ ( رض) نے دُرہ اٹھا کر اسے دھمکایا اور بولے قوت کے ساتھ چلو، اسلام کو کمزوروں کی نہیں مضبوط نوجوانوں کی ضرورت ہے۔ ممکن ہے ذہن میں یہ خیال آئے کہ کسی شخص سے تعارف حاصل کرنے کے لیے یہ کبھی نہیں پوچھا جاتا کہ وہ چلتا کیسے ہیں۔ نہ کسی کا تعارف کراتے ہوئے بتایا جاتا ہے کہ وہ چلتا کیسے ہے، بلکہ ہمیشہ اس کی دیگر صفات، اس کی صلاحیتیں، اس کی مالی حالت یا اس کی علمی فتوحات کا ذکر کیا جاتا ہے۔ یہاں پروردگار نے عبادالرحمن کی صفات میں سب سے پہلے رفتار ہی کا ذکر کیوں فرمایا ؟ بات دراصل یہ ہے کہ آپ اگر کسی شخص کا اندازہ کرنا چاہتے ہیں تو اس کی ایک صورت تو یہ ہے کہ آپ اس کے ساتھ معاملات کرکے دیکھیں، ظاہر ہے کہ یہ صورت ہر ایک کے ساتھ پیش نہیں آتی۔ اور دوسری صورت یہ ہے کہ آپ اس سے گفتگو کرکے دیکھیں، کیونکہ گفتگو ایک ایسا آئینہ ہے جس میں بولنے والے کی شخصیت جھلکتی دکھائی دیتی ہے۔ سعدی نے ٹھیک کہا : شخصے کہ تانہ گفتہ باشد عیب و ہنرش نہفتہ باشد ہر بیشہ گماں مبر کہ خالی است شاید کہ پلنگ خفتہ باشد لیکن گفتگو کی نوبت بھی بہ اول مرحلہ نہیں آتی۔ تعلقات پیدا ہوتے ہیں اور، بےتکلفی تک نوبت پہنچتی ہے تو تب کھل کر بات کرنے کا موقع آتا ہے۔ لیکن چال اور رفتار ایک ایسی علامت ہے جس کے راستے میں کوئی چیز حائل نہیں۔ آپ ہر گزرنے والے کو پہلی نظر چلتے ہوئے دیکھ سکتے ہیں اور مزید یہ کہ آدمی کی چال صرف اس کے اندازِ رفتار ہی کا نام نہیں بلکہ درحقیقت وہ اس کے ذہن اور اس کی سیرت و کردار کی اولین ترجمان بھی ہوتی ہے۔ اگر آپ غور سے دیکھیں گے تو سیرت و کردار کے اعتبار سے مختلف افراد کے چلنے کا انداز آپ مختلف پائیں گے۔ ایک عیار آدمی کی چال، ایک غنڈے بدمعاش کی چال، ایک ظالم و جابر کی چال، ایک خودپسند متکبر کی چال، ایک باوقار مہذب آدمی کی چال، ایک غریب مسکین کی چال اور اسی طرح مختلف اقسام کے دوسرے انسانوں کی چالیں ایک دوسرے سے اس قدر مختلف ہوتی ہیں کہ ہر ایک کو دیکھ کر باآسانی اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ کس چال کے پیچھے کس طرح کی شخصیت جلوہ گر ہے۔ پس آیت کا مدعا یہ ہے کہ رحمن کے بندوں کو تم عام آدمیوں کے درمیان چلتے پھرتے دیکھ کر ہی بغیر کسی سابقہ تعارف کے الگ پہچان لو گے کہ یہ کس طرح کے لوگ ہیں۔ ان کے چہروں کا نور، ان کی جھکی ہوئی نگاہیں، ان کی خم کی ہوئی گردنیں، ان کے جمتے ہوئے مضبوط قدم، لوگوں سے بےنیاز اپنی دھن میں مصروف، دنیا کی دلچسپیوں سے بیگانہ اور مقصد کی لگن میں منہمک یہ ایسے لوگ دکھائی دیتے ہیں جو زمین پر بوجھ بن کر نہیں بلکہ زمین کا سہاگ بن کر جینا چاہتے ہیں۔ دوسری صفت مومنانہ گفتار وَاِذَا خَاطَبَـھُمُ الْجٰھِلُوْنَ قَالُوْا سَلٰمًا… عبادالرحمن کے تعارف میں سب سے پہلے ان کی چال اور رفتار سے منعکس ہونے والی عاجزی اور فروتنی کو ذکر کرنے کے بعد دوسری صفت یہ بیان فرمائی کہ جب جاہل لوگ ان کے منہ آئیں تو وہ سلام کہہ کے رخصت ہوجاتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پہلے عبادالرحمن کی رفتار کا ذکر فرمایا، اب ان کی گفتار کا ذکر فرمایا جارہا ہے۔ اس میں سب سے پہلی بات جو ہماری توجہ اپنی طرف مبذول کرتی ہے وہ یہ ہے کہ وہ لوگ بےضرورت بات کرنے والے نہیں ہوتے۔ اور بےمقصد بحث کرنا بھی ان کا کام نہیں۔ وہ بولتے اس وقت ہیں جب بولنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ جاو بےجا بولنا ان کا طریقہ نہیں، کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ منہ سے نکلا ہوا ہر بول قیامت کے دن ترازو کا تول بنے گا۔ ایک ایک بات کا جواب دینا پڑے گا اور یہ بھی جانتے ہیں کہ زبان جس لفظ کو اگلتی ہے کندھوں پر بیٹھے ہوئے نگران فوراً اسے لکھ لیتے ہیں۔ کوئی لفظ یا کوئی جملہ ایسا نہیں جس کو زبان ادا کرے اور وہ نامہ عمل کا حصہ نہ بنے اور پھر قیامت کے دن اس کے بارے میں جوابدہی نہ کرنا پڑے۔ یہ وہ تصورات ہیں جس نے انھیں کم سے کم بولنے پر مائل کر رکھا ہے۔ ان کی کوشش ہوتی ہے کہ بےضرورت قوت گویائی کو حرکت نہ دی جائے۔ اور مقصد سے ہٹ کر کوئی بات نہ کی جائے۔ اقبال مرحوم نے صحابہ کرام ( رض) کی تعریف کرتے ہوئے ان کی جن خصوصیات کا ذکر کیا ہے ان میں خاص طور پر اس خصوصیت کو نمایاں کیا ہے : نرم دم گفتگو، گرم دم جستجو رزم ہو یا بزم ہو پاک دل و پاکباز وہ فقرے باز، پھبتی کسنے والے، جملے پھینکنے والے اور تمسخر اڑانے والے لوگ نہیں ہوتے۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ وہ زبان آور نہیں ہوتے، یا طلاقتِ لسانی میں کمزور ہوتے ہیں بلکہ ان کا اصل مسئلہ یہ ہوتا ہے جیسے حضرت حسن بصری نے کہا تھا کہ اللہ تعالیٰ کے خوف نے ہماری زبانیں گنگ کر رکھی ہیں ورنہ ہم سے بہتر زبان آور کون تھا۔ کوئی ایسی ہی بات ہے کہ خاموش ہوں میں ورنہ کیا بات ہے کہ کر نہیں آتی البتہ ایک بات ہے کہ جب ظلم کا پہرہ شدید ہوجائے، جبر کی وجہ سے زبانوں کو لونی لگ جائے اور ہر شخص منقار زیرِپَر ہوجائے تو ایسے ہو کے عالم اور سناٹے میں یہی لوگ بولتے ہیں۔ کیونکہ وہ بولنے سے احتراز اس لیے کرتے ہیں کہ جانتے ہیں کہ ہر بات کا جواب دینا پڑے گا، لیکن جب احقاقِ حق اور ابطالِ باطل کے لیے کلمہ حق کہنا واجب ہوجائے تو پھر وہ اس لیے بولتے ہیں کہ جانتے ہیں کہ اب خاموشی کا جواب دینا پڑے گا۔ یہ گزارشات جو آپ کے سامنے کی گئی ہیں یہ دراصل وَاِذَا خَاطَبَـھُمُ الْجٰھِلُوْنَ کے اسلوب سے استنباط کی گئی ہیں۔ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ وہ بولنے اور بات کرنے میں پہل نہیں کرتے، لیکن جب ان سے دوسرے بات کرتے ہیں تو پھر ان میں دو طرح کے لوگ ہوں گے۔ ایک تو وہ لوگ جو معرفتِ حق، فہمِ دین، دریافتِ احوال، یا تبادلہ خیالات کے لیے بات کرنا چاہیں گے تو عبادالرحمن ان کے لیے ابریشم کی طرح نرم اور پھول کی طرح ملائم ہوتے ہیں اور وہ لوگ ان سے بات کرکے یوں محسوس کرتے ہیں : تم سے مل کر یہ تعجب ہے کہ اتنا عرصہ آج تک تیری جدائی میں یہ کیونکر گزرا جاہل کا مفہوم اور سلام سے مراد اور دوسری قسم کے لوگ وہ ہوں گے جنھیں یہاں جاہل کہا گیا ہے۔ اس سے مراد اَن پڑھ یا بےعلم لوگ نہیں بلکہ وہ لوگ ہیں جو جہالت پر اتر آئیں اور کسی شریف آدمی سے بدتمیزی کا برتائو کرنے لگیں اور یا وہ لوگ ہیں جو اپنے خیالات میں اسیر اور اپنے توہمات کے پرستار ہیں۔ وہ نہ عقل کے پیمانے کو مانتے ہیں، نہ دلیل انھیں اپیل کرتی ہے۔ وہ دوسروں سے بات سمجھنے کے لیے نہیں کرتے بلکہ محض الجھانے کے لیے کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے بارے میں عبادالرحمن کا طریقہ یہ ہے کہ وہ گالی کا جواب گالی سے اور بہتان کا جواب بہتان سے اور بےہودگی کا جواب بےہودگی سے نہیں دیتے۔ بلکہ جو ان کے ساتھ جہالت کا رویہ اختیار کرتا ہے وہ سمجھتے ہیں کہ وہ ایک لغو اور بےہودہ بات کا ارتکاب کررہا ہے، تو وہ سلام کہہ کے اس سے الگ ہوجاتے ہیں۔ یہ سلام نہ سلام محبت ہے، نہ سلام اجازت بلکہ یہ سلام مفارقت ہے۔ قرآن کریم نے دوسری جگہ عبادالرحمن کے اس طریقے کو کسی حد تک تفصیل سے بیان کیا ہے۔ ارشاد ہے کہ وَاِذَاسَمِعُوْا اللَّغْوَا اَعْرَضُوْا عَنْہُ وَقَالُوْا لَنَا اَعْمَالُنَا وَلَـکُمْ اَعْمَالُـکُمْ سَلاَ مٌ عَلَیْکُمْ لاَ نَبْتَغِی الْجَاہِلِیْنَ ۔ (القصص، آیت 55) (جب وہ کوئی بےہودہ بات سنتے ہیں تو اسے نظرانداز کردیتے ہیں، کہتے ہیں بھائی ہمارے اعمال ہمارے لیے ہیں اور تمہارے اعمال تمہارے لیے، سلام ہے تم کو ہم جاہلوں کے منہ نہیں لگتے۔ ) سلام کرکے رخصت ہوجانا کسی سے کنارہ کشی اختیار کرنے کا ایک شائستہ اور بابرکت طریقہ ہے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی سنت ہے، آپ ( علیہ السلام) اپنے والد سے اسی طرح الگ ہوئے تھے۔ اس طرح اگر کسی سے علیحدگی اختیار کی جائے تو توقع ہے کہ اگر اس کے اندر خیر کی کوئی رمق ہوگی تو وہ اپنے رویہ پر نظرثانی کرے گا، اور الجھنے اور الجھانے کی بجائے بات سننے اور سمجھنے کی طرف مائل ہوگا اور اگر کسی کے اندر خیر کی کوئی رمق ہی نہیں ہے اور وہ محض مجادلہ اور مناظرہ کے درپے ہے تو ایسے شخص کو منہ لگانا عبادالرحمن کے شایانِ شان نہیں۔
Top