Ruh-ul-Quran - Al-Furqaan : 58
وَ تَوَكَّلْ عَلَى الْحَیِّ الَّذِیْ لَا یَمُوْتُ وَ سَبِّحْ بِحَمْدِهٖ١ؕ وَ كَفٰى بِهٖ بِذُنُوْبِ عِبَادِهٖ خَبِیْرَا٤ۚۛۙ
وَتَوَكَّلْ : اور بھروسہ کر عَلَي الْحَيِّ : پر ہمیشہ زندہ رہنے والے الَّذِيْ لَا يَمُوْتُ : جسے موت نہیں وَسَبِّحْ : اور پاکزگی بیان کر بِحَمْدِهٖ : اس کی تعریف کے ساتھ وَكَفٰى بِهٖ : اور کافی ہے وہ بِذُنُوْبِ : گناہوں سے عِبَادِهٖ : اپنے بندے خَبِيْرَۨا : خبر رکھنے والا
اور بھروسہ کیجیے اس زندہ خدا پر جسے کبھی موت نہیں آئے گی اور اس کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کرتے رہئے اور وہ اپنے بندوں کے گناہوں سے آگاہ رہنے کے لیے کافی ہے
وَتَوَکَّلْ عَلَی الْحَیِّ الَّذِیْ لاَ یَمُوْتُ وَسَبِّحْ بِحَمْدِہٖ ط وَکَفٰی بِہٖ بِذُنُوْبِ عِبَادِہٖ خَبِیْرَا۔ (الفرقان : 58) (اور بھروسہ کیجیے اس زندہ خدا پر جسے کبھی موت نہیں آئے گی اور اس کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کرتے رہئے اور وہ اپنے بندوں کے گناہوں سے آگاہ رہنے کے لیے کافی ہے۔ ) اشرافِ قریش نبی کریم ﷺ کو ہمیشہ اپنی افرادی قوت، اپنی طاقت و شوکت اور اپنی رفاہیت و ثروت سے ڈراتے رہتے تھے کہ آپ ﷺ اپنی دعوت سے رک جائیں ورنہ ہم جب چاہیں آپ کو بھی ختم کرسکتے ہیں اور آپ کی دعوت کو بھی۔ ہمارے جواب میں نہ آپ کے پاس افرادی قوت ہے اور نہ کوئی اور قوت کا سامان۔ ان کے جواب میں آنحضرت ﷺ کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا گیا ہے کہ اشرافِ قریش جن کے سہارے پر آپ کو دھمکیاں دیتے ہیں ان میں سے ہر سہارا فانی ہے۔ ان میں سے کسی چیز کو بقا حاصل نہیں۔ ان میں سے جو لوگ بڑھ چڑھ کر باتیں بناتے ہیں وہ اپنی زندگی کے بارے میں خود کچھ نہیں جانتے۔ اس لیے آپ ان سب کے مقابلے میں اس اللہ پر بھروسہ کریں جسے کبھی موت نہیں آئے گی۔ زندگی اس کا فیضان ہے۔ جہاں کہیں زندگی پائی جاتی ہے اس کی صفت تخلیق اور اس کی رحمت کا نتیجہ ہے۔ جس کا وہ مددگار ہوتا ہے دنیا کی کوئی طاقت اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی۔ غارِ ثور میں چونکہ اللہ تعالیٰ ہی کے بھروسے پر آپ پناہ گزین تھے۔ اس بےپناہ قدرتوں والے نے ایک مکڑی کے جالے اور کبوتری کے گھونسلے سے آپ کی حفاظت فرمائی۔ یہ انتہائی ناپائیدار چیزیں بڑے سے بڑے قلعے سے زیادہ مضبوط ثابت ہوئیں۔ جب ایک بدوی نے برہنہ تلوار آپ کے سر پر لہراتے ہوئے کہا کہ اب آپ کو مجھ سے کون بچا سکتا ہے تو آپ نے نہایت اطمینان سے فرمایا، اللہ۔ تلوار اس کے ہاتھ سے چھوٹ گئی۔ البتہ صبروتوکل کے حصول کا وسیلہ قرآن کریم اور آنحضرت ﷺ کے ارشادات کے مطابق اللہ تعالیٰ کی تسبیح وتحمید میں مشغول رہنا ہے۔ نماز جس کی عملی صورت ہے اس کا زیادہ سے زیادہ اہتمام رکھنا ہے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ بقدر استعداد طاقت بھی فراہم کرنی ہے، لیکن توکل اسلحے اور افرادی قوت پر نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی ذات پر ہونا چاہیے جسے تسبیح وتحمید سے اپنی طرف متوجہ کیا جاسکتا ہے۔ رہی یہ بات کہ دشمن کتنا سرکش، منہ زور اور بپھرا ہوا ہے، آپ اس کی ہرگز پرواہ نہ کریں، ان کا معاملہ اپنے رب کے حوالے کریں۔ وہ ان کے تمام جرائم اور کرتوتوں سے باخبر ہے۔ اور جب باخبر ہے تو ان کے ساتھ وہی کرے گا جو ایسے لوگوں کے ساتھ کیا جانا چاہیے۔
Top