Ruh-ul-Quran - Al-Furqaan : 56
وَ مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًا
وَمَآ : اور نہیں اَرْسَلْنٰكَ : بھیجا ہم نے آپ کو اِلَّا مُبَشِّرًا : مگر خوشخبری دینے والا وَّنَذِيْرًا : اور ڈرانے والا
اے پیغمبر ! ہم نے آپ کو ایک مبشر اور نذیر بنا کر بھیجا ہے
وَمَـآ اَرْسَلْنٰـکَ اِلاَّ مُبَشِّرًا وَّنَذِیْرًا۔ قُلْ مَـآ اَسْئَلُـکُمْ عَلَیْہِ مِنْ اَجْرٍ اِلاَّ مَنْ شَـآئَ اَنْ یَّـتَّخِذَ اِلٰی رَبِّہٖ سَبِیْلاً ۔ (الفرقان : 56، 57) (اے پیغمبر ! ہم نے آپ کو ایک مبشر اور نذیر بنا کر بھیجا ہے۔ ان سے کہہ دیجیے کہ میں اس کام پر تم سے کوئی اجرت نہیں مانگتا، میری اجرت بس یہی ہے کہ جس کا جی چاہے وہ اپنے رب کا راستہ اختیار کرلیے۔ ) آنحضرت ﷺ کو تسلی آنحضرت ﷺ کو تسلی دیتے ہوئے پروردگار ارشاد فرماتے ہیں کہ آپ ﷺ کی ذمہ داری صرف انذار وتبشیر ہے، لوگوں کو زبردستی مومن بنانا نہیں۔ جو لوگ ایمان لائیں، آپ انھیں بہتر مستقل کی بشارت دیں۔ اور جو لوگ ایمان لانے سے انکار کردیں اور کسی طرح بھی آپ کی دعوت کو قبول کرنے کے لیے تیار نہ ہوں تو آپ انھیں تکذیب کے نتائج سے اچھی طرح آگاہ کردیں۔ اس حد تک ذمہ داری ادا کرنے سے آپ اپنے فریضے سے فارغ ہوجاتے ہیں۔ اگر کوئی شخص ایمان لاتا ہے تو وہ اپنی عاقبت سنوارتا ہے، آپ پر کوئی احسان نہیں کرتا۔ اور اگر کوئی شخص انکار کرتا ہے تو وہ اپنی عاقبت برباد کرتا ہے، آپ کا کچھ نہیں بگاڑتا اور ان کے ایمان سے متعلق آپ سے کوئی سوال بھی نہیں کیا جائے گا۔ ایک بات یاد رہے کہ قرآن کریم میں جہاں بھی اس طرح کے ارشادات آئے ہیں ان کا اصل روئے سخن کفار کی طرف ہے۔ مقصود صرف انھیں یہ بتانا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا نبی ایک بےغرض مصلح ہے۔ وہ محض تمہاری بھلائی کے لیے اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچاتا ہے۔ اس کی اپنی ذاتی منفعت کوئی نہیں۔ وہ تمہارے سامنے ایمان کی برکات اور اس کے نتائج بھی واضح کردیتا ہے اور ایمان نہ لانے کی صورت میں تمہیں جس صورتحال سے دوچار ہونا پڑے گا، اسے بھی کھول کر بیان کردیتا ہے۔ لیکن جہاں تک تعلق صاحب ایمان لوگوں کا ہے ان کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے رسول کا معاملہ اسی بات پر ختم نہیں ہوتا، بلکہ ان کے ساتھ تعلق صرف انذار وتبشیر تک نہیں بلکہ ان کے لیے اللہ تعالیٰ کے رسول معلم بھی ہیں اور مزکی بھی۔ حاکم بھی ہیں اور قاضی بھی اور امیر بھی ہیں اور مطاع بھی۔ اس کی زبان سے نکلا ہوا ہر فرمان مسلمانوں کے حق میں حکم کا درجہ رکھتا ہے جس کی تعمیل کرنا اور قلب و نظر کی آمادگی کے ساتھ اس کا اتباع کرنا فرض اور واجب ہے۔ دوسری آیت میں ارشاد فرمایا کہ میں جو شب و روز تمہارے سامنے اللہ تعالیٰ کا دین پیش کررہا ہوں اور تم اس کے مقابلے میں دریدہ دہنی کا ثبوت دیتے ہو، کبھی اذیت پہنچاتے ہو، کبھی اس سے بھی آگے بڑھ کر قتل کے منصوبے باندھتے ہو۔ تو میں ان میں سے ہر بات پر صبر کرتا ہوں۔ کیونکہ میں یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لیے انجام دیتا ہوں۔ میں تم سے کوئی اجر نہیں مانگتا کیونکہ یہ کوئی دکانداری نہیں بلکہ ایک فریضے کی ادائیگی ہے۔ اگر تم اسے قبول کرلو گے تو اپنا بھلا کرو گے۔ اور اگر انکار کردو گے تو یہ کوئی کاروبار نہیں کہ میرا نقصان ہوجائے گا۔ میرا اجر صرف یہ ہے کہ تم میں جو لوگ حق کو قبول کرنے کی استعداد رکھتے ہوں وہ حق کو قبول کرلیں۔ تمہارا حق کو قبول کرلینا اور شیطان سے منہ پھیر کر اللہ تعالیٰ کی رضا کا طالب بن جانا، میری تمام جانکاہیوں اور مشقتوں کا بہترین صلہ ہے۔
Top