Ruh-ul-Quran - Al-Furqaan : 23
وَ قَدِمْنَاۤ اِلٰى مَا عَمِلُوْا مِنْ عَمَلٍ فَجَعَلْنٰهُ هَبَآءً مَّنْثُوْرًا
وَقَدِمْنَآ : اور ہم آئے (متوجہ ہونگے) اِلٰى : طرف مَا عَمِلُوْا : جو انہوں نے کیے مِنْ عَمَلٍ : کوئی کام فَجَعَلْنٰهُ : تو ہم کردینگے نہیں هَبَآءً : غبار مَّنْثُوْرًا : بکھرا ہوا (پراگندہ)
اور ہم ان کے ہر اس عمل کی طرف جو انھوں نے کیا ہوگا متوجہ ہوں گے اور اس کو پراگندہ غبار بنادیں گے
وَقَدِمْنَـآ اِلٰی مَا عَمِلُوْا مِنْ عَمَلٍ فَجَعَلْنٰـہُ ھَبَـآئً مَّنْثُوْرًا۔ (الفرقان : 23) (اور ہم ان کے ہر اس عمل کی طرف جو انھوں نے کیا ہوگا متوجہ ہوں گے اور اس کو پراگندہ غبار بنادیں گے۔ ) متکبرین کے اعمال کی حقیقت دنیا میں ایسے لوگ ہر دور میں گزرے ہیں جو خدا کے انکار اور رسالت و نبوت کو قبول نہ کرنے کے باوجود دنیا میں بعض بھلائی کے کام بھی کرتے رہے اور بعض لوگوں نے محض اپنی شہرت اور عظمت کو اجالنے کے لیے بڑے بڑے کارنامے بھی انجام دیئے اور اسی بنا پر اپنی اپنی قوم سے توقع باندھی کہ وہ انھیں اپنا ہیرو تسلیم کریں۔ ایسے لوگ اولاً تو قیامت کے وجود ہی کو نہیں مانتے لیکن اگر کبھی بحث کی خاطر تسلیم بھی کرلیں تو ساتھ ہی یہ دعویٰ بھی کرتے ہیں کہ اگر قیامت واقعی برپا ہوگئی تو اس روز بھی ہم اپنے کارناموں اور بھلائی کے کاموں کے باعث جنت کے مستحق ٹھہریں گے۔ ایسے لوگوں پر ضرب لگاتے ہوئے پروردگار ارشاد فرماتے ہیں کہ جن کارناموں اور کاموں پر ان لوگوں کو فخر ہے ہم سب سے پہلے ان کے انہی کارناموں کی طرف متوجہ ہوں گے اور انھیں ہوا میں ذروں کی طرح منتشر کردیں گے۔ کیونکہ جب تک عمل کرنے والے میں ایمان اور عمل میں اخلاص نہیں ہوگا اللہ تعالیٰ کے یہاں قبولیت کے مقام کو نہیں پہنچ سکتا۔ ھَبَـآئً ان ذروں کو کہتے ہیں جو روشن دان سے آنے والی دھوپ میں دکھائی دیتے ہیں۔ یہ نہایت باریک اور بےوزن ہوتے ہیں۔ مقصد یہ ہے کہ یہ متکبر لوگ اپنے جن اعمال اور کارناموں پر اتراتے اور یہ سمجھتے رہے کہ وہ قیامت کے دن ان کے کام آئیں گے ہم انھیں اس حد تک بےقدروقیمت بنادیں گے جس طرح ہوا میں منتشر ذرات ہوتے ہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ پروردگار نے ان کے اعمال کے بارے میں جو اسلوب اختیار کیا ہے وہ نہایت حقارت آمیز ہے جس سے یہ بتانا مقصود ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں بڑے سے بڑا عمل بھی کوئی قدر و قیمت نہیں رکھتا جب تک اسے اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے نہ کیا جائے۔ حضرت عائشہ صدیقہ ( رض) نے آنحضرت ﷺ سے پوچھا کہ ابن جدعان جو عرب بھر میں بھلائی کے کاموں میں مشہور گزرا ہے، کیا اپنے بھلائی کے کاموں کی وجہ سے بخشا جائے گا یا نہیں ؟ حضور ﷺ نے فرمایا، نہیں۔ کیونکہ اس نے کبھی یہ نہیں کہا تھا کہ یا اللہ تو مجھے بخش دے۔ آیت کے اسلوب کو دیکھتے ہوئے جہاں تحقیر کا پہلو نمایاں ہوتا دکھائی دیتا ہے وہیں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ پروردگار نہایت برہمی کا اظہار فرما رہے ہیں۔ کیونکہ آیت کے الفاظ بالکل اس طرح کے ہیں جیسے ہم اپنی زبان میں کہتے ہیں کہ میں تو اس بات کو پائوں کی ٹھوکر پر رکھتا ہوں۔
Top