Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Ruh-ul-Quran - Al-Furqaan : 1
تَبٰرَكَ الَّذِیْ نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلٰى عَبْدِهٖ لِیَكُوْنَ لِلْعٰلَمِیْنَ نَذِیْرَاۙ
تَبٰرَكَ
: بڑی برکت والا
الَّذِيْ
: وہ جو۔ جس
نَزَّلَ الْفُرْقَانَ
: نازل کیا فرق کرنیوالی کتاب (قرآن)
عَلٰي عَبْدِهٖ
: اپنے بندہ پر
لِيَكُوْنَ
: تاکہ وہ ہو
لِلْعٰلَمِيْنَ
: سارے جہانوں کے لیے
نَذِيْرَۨا
: ڈرانے والا
بڑی ہی بابرکت ہے وہ ذات جس نے یہ فرقان اپنے بندے پر نازل کیا تاکہ وہ اہل عالم کے لیے ہوشیار کردینے والا بنے
تَبٰـرَکَ الَّذِیْ نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلٰی عَبْدِہٖ لِیَکُوْنَ لِلْعٰلَمِیْنَ نَذِیْرَانِ ۔ (الفرقان : 1) (بڑی ہی بابرکت ہے وہ ذات جس نے یہ فرقان اپنے بندے پر نازل کیا تاکہ وہ اہل عالم کے لیے ہوشیار کردینے والا بنے۔ ) تبارک کا معنی و مفہوم اس آیت میں متعدد الفاظ تشریح طلب ہیں۔ آیت کا سب سے پہلا لفظ تَبٰـرَکَ ایسا وسیع المعنی ہے جس کا پورا مفہوم کسی ایک لفظ تو درکنار، ایک فقرے میں بھی ادا ہونا مشکل ہے۔ اس کا مادہ ب ر ک ہے۔ اس سے دو مصدر مستعمل ہیں 1 بَرَکَۃٌ 2 بُرُوْکبرکت کے مفہوم میں رفعت و عظمت، افزائش اور فراوانی کے تصورات شامل ہیں۔ اور بُرُوْک میں ثبات، بقا اور لزوم کا تصور پایا جاتا ہے۔ پھر جب اس مصدر سے تفاعل کا صیغہ تَبٰرَکَ بنایا جاتا ہے تو اس میں باب تفاعل کی خصوصیت مبالغہ اور اظہارِ کمال بھی شامل ہوجاتی ہے۔ اس صورت میں اس کا مطلب یہ ہوجاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ وہ ذات ہے جو رفیع و عظیم ہے۔ وہ عظمتوں کا سرچشمہ ہے اور رفعتیں اس کے سامنے سجدہ ریز ہیں۔ خیرات و حسنات اسی کے فیض سے وجود میں آتی ہیں۔ ہر چیز میں اضافہ اور کثرت اسی کی عنایت کا ثمر ہے۔ وہ ذات ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گی۔ وہ اپنی بزرگی اور عظمت میں سب پر فائق ہے۔ اور اپنی ذات وصفات اور افعال میں ہر ایک سے بالاتر ہے۔ اس کی ربوبیت اور فیضان بےمثال اور بینظیر ہے۔ اس کے کمالات کو کبھی زوال نہیں۔ اس کے بےمثال فیضان اور بےانتہا لطف و کرم کا نتیجہ یہ ہے کہ اس نے اپنے بندے پر ایک ایسی کتاب اتاری جو حق و باطل کے درمیان امتیاز کے لیے حجت قاطع کی حیثیت رکھتی ہیں۔ فرقان کا معنی و مفہوم اس کتاب کے لیے اس آیت میں فرقان کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ فرقان مصدر ہےر قاس کا مادہ ہے۔ یہ تین معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ 1 اسم فاعل، یعنی فارق کے معنی میں۔ یعنی وہ کتاب فیصلہ کن حیثیت کی مالک، عدل و انصاف کا معیار، کھوٹے کھرے کی پرکھ کے لیے کسوٹی ہے۔ 2 اسم مفعول، یعنی مفروق کے معنی میں۔ اس صورت میں اس کا مفہوم یہ ہوگا کہ یہ کتاب الگ الگ اجراء پر مشتمل اور الگ الگ اوقات میں آنے والے اجزاء پر مشتمل ہے۔ یعنی یہ کتاب مختلف اوقات میں نجماً نجماً یعنی تھوڑا تھوڑا کرکے نازل ہوئی ہے تاکہ اسے مختلف الخیال مزاجوں اور ناموافق طبیعتوں میں رسوخ کا موقع ملے اور اس کے اجزاء باہم مربوط ہونے کے باوجود اس قدر الگ الگ ہیں کہ ہر ایک اپنی جگہ دلیل قاطع اور ہر طرح کے ابہام اور الجھائو سے مبرا اور باہم دگر ایک ہی جسدِ حقیقت کے مختلف اعضاء ہیں۔ 3 فرقان مبالغے کا صیغہ ہے۔ یعنی فرق کرنے کے معاملے میں اس کا کمال اتنا بڑھا ہوا ہے گویا وہ خود ہی فرق بن کر رہ گیا ہے۔ جیسے عربی زبان میں زیدعادل کی بجائے زیدعدل کہتے ہیں جب زید عدل کرنے کی شہرت میں انتہا کو پہنچ جائے۔ مختصر یہ کہ یہ کتاب اپنی افادیت، اپنی حجیت، اپنی حقانیت اور اپنی قطعیت میں اس حد تک بڑھی ہوئی ہے کہ دنیا کی کوئی کتاب بلکہ دنیا کا ذخیرہ علم اس کے مقابلے میں کسی حیثیت کا مالک نہیں۔ سعدی نے ٹھیک کہا : یتیمے کہ نا کردہ قرآں درست کتب خانہ چند ملت بشست انسانی زندگی کے ہر شعبے سے متعلق اس نے جو احکام اور ہدایات دی ہیں، انھیں دیکھ اور برت کر اندازہ ہوتا ہے کہ کس طرح صحیح اور غلط اور حق اور باطل کو آخری حد تک نمایاں کردیا گیا ہے۔ اور اس کی حکمت ایک ایسا خزانہ ہے کہ اس میں جب بھی تدبر کی نگاہ سے کوئی شخص محنت کرتا ہے تو اسے ہمیشہ نئے سے نئے موتی ہاتھ آتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا یہ بےپایاں فیضان ہے کہ اس نے ایسی عظیم کتاب جو انسانی قسمت سنوارنے کی ضمانت ہے انسانی ہدایت کے لیے نازل فرمائی۔ لوگوں کو چاہیے کہ وہ اس نعمت کی قدر اور اس کتاب کی روشنی میں اپنی گمراہیوں کی اصلاح کریں۔ وہ اگر چاہتا تو اس کتاب کی بجائے وہ اپنے رسول کو کسی تازیانہ عذاب سے مسلح کرکے بھیج سکتا تھا۔ عبدہ کا محل اس کا مزید فیضان یہ ہے کہ اس نے اس فرقان کو اپنے بندے پر اتارا ہے۔ یہاں عبدہ سے مراد رسول اللہ ﷺ ہیں۔ آپ ﷺ کو اس لفظ سے یاد کرنا ایک خاص التفات کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ جہاں تک عبدیت کا تعلق ہے، دنیا کی ہر مخلوق بالخصوص سب انسان اللہ تعالیٰ کی عبدیت میں جکڑے ہوئے ہیں۔ جو اس کا انکار کرتا ہے وہ اس کا بھی آقا اور مالک ہے اور وہ اس کا عبد ہے۔ لیکن عَبْدُہٗ میں صرف عبدیت کا اظہار نہیں بلکہ خصوصی تعلق اور التفات کا اظہار ہے۔ اسی لیے اقبال نے کہا : عبد دیگر عَبْدُہٗ چیزے دگر یہاں اس التفات کا ایک خاص محل بھی ہے، وہ یہ کہ آنحضرت ﷺ کو تبلیغ و دعوت کے سلسلے میں جن مخالفین کا سامنا تھا۔ وہ اگرچہ آپ ﷺ کے لیے اجنبی نہ تھے۔ کسی کے ساتھ قبیلے کا تعلق تھا اور کسی کے ساتھ شہر کا۔ لیکن انھوں نے مخالفت میں ہر تعلق توڑ ڈالا۔ آگے قرآن کریم نے ان کے جو اعتراضات نقل کیے ہیں، ان سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کا انداز کس قدر تحقیر آمیز تھا۔ اور یہ رویہ ان کا صرف اس لیے تھا کہ وہ اپنی دولت مندی پر نازاں تھے اور اپنی مالی برتری کے گھمنڈ میں نبی کریم ﷺ کی دنیوی اسباب و وسائل سے بےتعلقی پر طنز وتشنیع کے تیر برساتے تھے۔ چناچہ انھیں سنانے کے لیے کہا گیا ہے کہ نبی کریم ﷺ جو کچھ تمہیں سنا رہے ہیں اس کی حیثیت فرقان کی ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کا کلام ہے۔ اور آپ ﷺ کی حیثیت عبدہ کی ہے۔ یعنی وہ ہمارے خاص بندے ہیں جن کا ہمسر اور ہم مرتبہ نہ کوئی پہلے گزرا ہے اور نہ کوئی آئندہ ہوگا اور نہ لمحہ موجود میں ہے۔ وہ جس عظیم منصبی ذمہ داری کو ادا کررہے ہیں اس کے لیے انھیں درہم و دینار کے ٹھیکرے نہیں چاہئیں بلکہ کتاب و حکمت کی وہ دولت چاہیے جو ہم نے انھیں عطا کردی ہے۔ انذار کا معنی و مفہوم مزید فرمایا کہ حق و باطل میں فرق کرنے والی یہ کتاب ہم نے اپنے بندے پر اس لیے نازل کی ہے تاکہ وہ اہل عالم کو انذار کرنے والے بنیں۔ انذار کا معنی ہے، خبردار کرنا، متنبہ کرنا، غفلت اور گمراہی کے برے نتائج سے ڈرانا۔ انسان دنیا میں جن اسباب کے تحت اور جن نعمتوں کے ساتھ زندگی گزارتا ہے ان کے نفع و ضرر کے پیمانوں کو بہت جلد اپنی عقل سے معلوم کرلیتا ہے اور انسانوں کے وضعی علوم شب و روز اسی خدمت میں جتے ہوئے ہیں۔ لیکن جو کام وہ اپنی عقل و خرد اور جستجو اور تجسس سے کرنے پر قادر نہیں، وہ یہ ہے کہ وہ کبھی یہ معلوم نہیں کرسکتا کہ زندگی گزارنے کا وہ کون سا طریقہ اور وہ کون سا انداز ہے جس کے نتیجے میں عاقبت سنور سکتی اور اللہ تعالیٰ راضی ہوتا ہے۔ اور وہ کون کون سی برائیاں اور گمراہیاں ہیں جن کو اختیار کرنے سے قومیں اپنے مسائل سے دوچار ہوتی ہیں اور کبھی اللہ تعالیٰ کے عذاب کا شکار ہوجاتی ہیں۔ اس لیے خبردار کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ کے رسول آتے ہیں۔ اور یہ اللہ تعالیٰ کا وہ فیضانِ رحمت ہے جس سے وہ اپنے رسولوں کی معرفت انسانوں کو نوازتا ہے۔ دنیا میں جتنے رسول آئے وہ سب کسی ایک علاقے یا کسی ایک قوم کی طرف آئے۔ لیکن آنحضرت ﷺ کے بارے میں فرمایا گیا کہ بڑی ہی بابرکت ہے وہ ذات جس نے اپنے بندے پر حق و باطل کے درمیان امتیاز کردینے والی کتاب اتاری تاکہ وہ اہل عالم کے لیے نذیر بنے۔ تو اس کا مطلب یہ ہے کہ قرآن کی دعوت اور محمد ﷺ کی رسالت کسی ایک ملک کے لیے نہیں بلکہ پوری دنیا کے لیے ہے۔ اور اپنے ہی زمانے کے لیے نہیں بلکہ آنے والے تمام زمانوں کے لیے ہے۔ قرآن کریم میں متعدد جگہ اس مضمون کو بیان فرمایا گیا ہے۔ ارشاد ہے یٰااَیُّھَاالنَّاسُ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ اِلَیْکُمْ جَمِیْعًا ” اے انسانو ! میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول ہوں۔ “ (الاعراف آیت 158) سورة سبا آیت 38 میں ارشاد فرمایا : وَمَا اَرْسَلْنٰـکَ اِلاَّ کَافَـۃً لِّلنَّاسِ بَشِیْرًا وَّ نَذِیْرًا ” ہم نے تم کو سارے ہی انسانوں کے لیے بشارت دینے والا اور خبردار کرنے والا بنا کے بھیجا ہے۔ “ سورة الانبیاء آیت 107 میں اشاد ہے وَمَا اَرْسَلْنٰـکَ اِلاَّ رَحْمَۃً لِّلعَالَمِیْن ” اور ہم نے آپ کو تمام دنیا والوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔ “ اسی مضمون کو نبی کریم ﷺ نے مختلف مواقع پر مزید وضاحت کے ساتھ بیان فرمایا ہے۔ بُعِثْتُ اِلٰی الاَحْمَرِ وَالْاَسْوَدِ ” میں کالے اور گورے سب کی طرف بھیجا گیا ہوں۔ “ کَانَ النَّبِیُّ یُبْعَثُ اِلٰی قَوْمِہٖ خَاصَّۃً وَبُعِثْتُ اِلٰی النَّاسِ عَامَّۃً ” پہلے ایک نبی خاص طور پر اپنی ہی قوم کی طرف بھیجا جاتا تھا اور میں عام طور پر تمام انسانوں کی طرف بھیجا گیا ہوں۔ “ (بخاری و مسلم) مزید فرمایا وَاُرْسِلْتُ اِلٰی الْخَلْقِ کَافَّـۃً وَخُتِمَ بِیَ النَّبِیُّوْن ” میں ساری خلقت کی طرف بھیجا گیا ہوں اور مجھ پر تمام نبی ختم کردیئے گئے ہیں۔ “ الَّذِیْ لَہٗ مُلْکُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَلَمْ یَتَّخِذْ وَلَدًا وَّلَمْ یَکُنْ لَّہٗ شَرِیْکٌ فِی الْمُلْکِ وَ خَلَقَ کُلَّ شَیْ ئٍ فَـقَدَّرَہٗ تَقْدِیْرًا۔ (الفرقان : 2) (وہ ذات جس کے قبضہ قدرت میں آسمانوں اور زمین کی بادشاہی ہے اور جس نے اپنے لیے کوئی اولاد نہیں بنائی اور جس کے ساتھ بادشاہی میں کوئی شریک نہیں ہے، جس نے ہر چیز کو پیدا کیا اور اس کی ایک تقدیر مقرر کی۔ ) قرآن کی حقیقت و اہمیت آنحضرت ﷺ اور آپ ﷺ پر نازل ہونے والی کتاب کی حقیقت اور اہمیت کو واضح کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ کتاب اس ذات کا کلام ہے اور اس نے اسے نازل کیا ہے جو آسمانوں اور زمین کی بادشاہی کا مالک ہے۔ ارض و سماء کی ہر چیز اس کے قبضہ قدرت میں ہے۔ اس لیے یہ کسی کو غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے کہ ہم اس کتاب اور کتاب کے پیش کرنے والے سے کیسا ہی سلوک کریں ہمیں پوچھنے والا کوئی نہیں۔ اس کتاب کو کسی سائل کی درخواست نہ سمجھا جائے بلکہ وہ اس کائنات کے بادشاہِ حقیقی کا فرمان واجب الاذان ہے۔ دنیا میں اگر اس نے ڈھیل دی ہوئی ہے تو اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ وہ انتقام لینے پر قادر نہیں۔ اس نے یہاں انسانوں کو مہلت دے رکھی ہے۔ لیکن وہ جب انتقام کا فیصلہ کرلیتا ہے تو پھر کوئی اس کا ہاتھ نہیں پکڑ سکتا۔ یہ بھی معلوم رہنا چاہیے کہ اس کا کسی سے کوئی نسلی تعلق نہیں۔ نہ اس نے کسی کو متبنیٰ بنایا۔ اس کی ذات یکتائے محض ہے کوئی اس کا ہم جنس نہیں اور کوئی خدائی خاندان نہیں ہے۔ اس لیے اگر کسی نے یہ سمجھ کر کسی کو خدا کا بیٹا بنا رکھا ہے یا کسی خاندان میں خدائی خون تصور کرکے اس خاندان کے ایک ایک فرد کو دیوتا یا اوتار بنا رکھا ہے۔ یا کسی میں ایسی خصوصیات تسلیم کرلی گئی ہیں جو صفاتِ خداوندی ہیں تو یہ سب گمراہی کی باتیں ہیں۔ ایسا کوئی تصور اللہ تعالیٰ کے غضب سے بچا نہیں سکے گا۔ نہ اس نے اولاد بنائی ہے اور نہ اس کی پادشاہی میں کوئی شریک ہے۔ اس کی توحید ویکتائی کا حال تو یہ ہے کہ اس نے ہر چیز کو پیدا کیا ہے اور ہر چیز کے لیے ایک اندازہ ٹھہرا دیا ہے یا یوں کہہ لیجیے کہ اس کی تقدیر مقرر کردی ہے۔ یعنی اس نے ایک ایک چیز کے لیے صورت، جسامت، قوت و استعداد، اوصاف و خصائص، ذمہ داریاں اور ذمہ داریوں کی ادائیگی کا طریقہ، بقا کی مدت، عروج و ارتقا کی حد اور دوسری وہ تمام تفصیلات مقرر کی ہیں جو اس چیز کی ذات سے متعلق ہیں۔ ہر مخلوق کا ایک محور و مدار مقرر کردیا ہے۔ ہر ایک کی تگ و تاز کا ایک میدان مقرر کردیا گیا ہے۔ مجال نہیں کہ کوئی چیز اس کے ٹھہرائے ہوئے اندازہ سے سرِمُو کم و بیش یا آگے پیچھے ہوسکے۔ ہوا اور بادل سب اس کے مقرر کیے ہوئے حدود کے پابند ہیں۔ سورج اور چاند ایک مخصوص محور و مدار کے ساتھ وابستہ اور اسی کے مقرر کیے ہوئے حدود وقیود کے پابند ہیں۔ والشمس تجری لمستقر لھا ط ذلک تقدیر العزیز العلیم ” اور سورج اپنے ایک معین مدار پر گردش کرتا ہے، یہ خدائے عزیز وعلیم کی منصوبہ بندی ہے۔ “ اور مزید وضاحت کے ساتھ فرمایا وان من شیء الا عندنا خزائنہ وما ننزلہ الا بقدرمعلوم ” اور ہمارے پاس ہر چیز کے خزانے موجود ہیں، لیکن ہم ان کو ایک خاص اندازے ہی کے ساتھ اتارتے ہیں۔ “
Top