Ruh-ul-Quran - Al-Baqara : 75
اَفَتَطْمَعُوْنَ اَنْ یُّؤْمِنُوْا لَكُمْ وَ قَدْ كَانَ فَرِیْقٌ مِّنْهُمْ یَسْمَعُوْنَ كَلٰمَ اللّٰهِ ثُمَّ یُحَرِّفُوْنَهٗ مِنْۢ بَعْدِ مَا عَقَلُوْهُ وَ هُمْ یَعْلَمُوْنَ
اَفَتَطْمَعُوْنَ : کیا پھر تم توقع رکھتے ہو اَنْ : کہ يُؤْمِنُوْا : مان لیں گے لَكُمْ : تمہاری لئے وَقَدْ کَانَ : اور تھا فَرِیْقٌ : ایک فریق مِنْهُمْ : ان سے يَسْمَعُوْنَ : وہ سنتے تھے کَلَامَ اللہِ : اللہ کا کلام ثُمَّ : پھر يُحَرِّفُوْنَهُ : وہ بدل ڈالتے ہیں اس کو مِنْ بَعْدِ : بعد مَا : جو عَقَلُوْهُ : انہوں نے سمجھ لیا وَهُمْ : اور وہ يَعْلَمُوْنَ : جانتے ہیں
تو کیا تم اس کی توقع رکھتے ہو کہ وہ لوگ تمہارے (کہنے سے) ایمان لے آئیں گے، دراں حالانکہ ان میں ایسے لوگ بھی ہیں کہ اللہ کا کلام سنتے ہیں اور پھر اس میں تحریف کرتے ہیں، بعد اس کے کہ اسے سمجھ چکے ہیں اور وہ اسے جانتے بھی ہیں
اَفَتَطْمَعُوْنَ اَنْ یُّؤْمِنُوْا لَکُمْ وَقَدْ کَانَ فَرِیْقٌ مِّنْھُمْ یَسْمَعُوْنَ کَلَامَ اللّٰہِ ثُمَّ یُحَرِّفُوْنَہٗ مِنْم بَعْدِ مَاعَقَلُوْہُ وَھُمْ یَعْلَمُوْنَ ۔ وَاِذَا لَقُوْ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قَالُوْٓا اٰمَنَّاج وَاِذَا خَلَا بَعْضُھُمْ اِلٰی بَعْضٍ قَالُوْٓا اَتُحَدِّثُوْنَہُمْ بِمَا فَتَحَ اللّٰہُ عَلَیْکُمْ لَیُحَآجُّوْکُمْ بِہٖ عِنْدَ رَبِّکُمْ ط اَفَلاَ تَعْقِلُوْنَ ۔ اَوَلَا یَعْلَمُوْنَ اَنَّ اللّٰہَ یَعْلَمُ مَایُسِرُّوْنَ وَمَا یُعْلِنُوْنَ ۔ تو کیا تم اس کی توقع رکھتے ہو کہ وہ لوگ تمہارے (کہنے سے) ایمان لے آئیں گے، دراں حالانکہ ان میں ایسے لوگ بھی ہیں کہ اللہ کا کلام سنتے ہیں اور پھر اس میں تحریف کرتے ہیں، بعد اس کے کہ اسے سمجھ چکے ہیں اور وہ اسے جانتے بھی ہیں۔ اور جب وہ ان سے ملتے ہیں جو ایمان لاچکے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم بھی مومن ہیں اور جب آپس میں تنہا ہوتے ہیں تو کہتے ہیں کہ کیا تم انھیں وہ بتادیتے ہو جو اللہ نے تم پر منکشف کیا ہے کہ وہ تمہارے رب کے پاس تم سے حجت کریں، کیا تم سمجھتے نہیں۔ کیا انھیں نہیں معلوم ہے کہ اللہ جانتا ہے جو کچھ وہ چھپاتے ہیں اور جو کچھ وہ ظاہر کرتے ہیں) (البقرۃ : 75 تا 77) ایک التفات اس آیت کریمہ میں مسلمانوں کی طرف التفات ہے اور اس التفات اور خطاب کا ایک پس منظر ہے۔ وہ یہ ہے کہ اوس و خزرج کے لوگ جو مدینہ طیبہ میں رہتے تھے اور جو مسلمان ہونے کے بعد انصار کے معزز لقب سے پکارے گئے۔ یہ بنیادی طور پر مشرکین مکہ کی طرح بالکل ان پڑھ اور مکتبی تعلیم سے ناواقف لوگ تھے۔ جو علوم شریعت، نبوت، وحیِ الہٰی، توحید اور آخرت وغیرہ کے بارے میں کچھ نہیں جانتے تھے۔ البتہ ان کے ہمسائے میں یہود آباد تھے جن سے ہر وقت کاملنا جلنا تھا۔ یہود اہل کتاب ہونے کی وجہ سے مذہب کے بنیادی تصورات اور نبوت اور وحی الہٰی کے بارے میں بہت کچھ جانتے تھے۔ انہی سے اوس و خزرج کے لوگ بھی دین کی بعض اصطلاحات سن چکے تھے۔ انہی دینی باتوں کے سلسلے میں یہود سے ایک بات انھوں نے تکرار کے ساتھ سنی تھی کہ ایک نبی آنے والے ہیں جو لوگ ان پر ایمان لائیں گے وہ ان کو ساتھ لے کر دوسری قوموں پر غلبہ حاصل کریں گے اور ایک بڑی حکومت بنانے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ اب اس آنے والے نبی کا زمانہ قریب ہے، جیسے ہی وہ تشریف لائیں گے ہم ان پر ایمان لاکرتم پر غلبہ حاصل کریں گے اور جن لوگوں نے آج تک ہمارے ساتھ زیادتیاں کی ہیں ان کا حساب چکائیں گے۔ مکہ معظمہ میں حج کے موقع پر جب اوس و خزرج کے چند لوگوں سے آنحضرت ﷺ کی ملاقات ہوئی اور آپنے ان کے سامنے اسلام کی دعوت پیش کی اور اپنا تعارف کر ایاتوانھوں نے ایک دوسرے سے کہا معلوم ہوتا ہے کہ یہ وہی نبی ہیں جن کا ذکر ہم سے یہود کیا کرتے ہیں۔ ایسا نہ ہو کہ وہ پہلے ایمان لے آئیں اور ہم پیچھے رہ جائیں اس لیے تم اس نعمت کے حصول میں سبقت کرو۔ چناچہ وہ لوگ ایمان لے آئے پھر ایک مختصر عرصے میں مدینہ منورہ میں گھرگھر اسلام پھیل گیا۔ آنحضرت ﷺ ہجرت فرماکر مدینہ طیبہ آگئے۔ اب اوس و خزرج کو خیال ہوا کہ یہود چونکہ آنے والے نبی کے بارے میں جانتے تھے وہ یقینا جوق درجوق اسلام کی آغوش میں آئیں گے اور مدینہ مرکز اسلام بن جائے گا۔ چناچہ اسی خیال سے مسلمانوں نے اپنے ملنے والے یہودیوں کو اسلام کی دعوت دینا شروع کی لیکن ان کارویہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ وہ نہ صرف ایمان لانے کو تیار نہیں بلکہ آئے دن ان کی طرف سے کوئی نہ کوئی غلط فہمی پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی۔ مسلمانوں کو ایک طرف تو اس سے پریشانی ہوئی اور دوسری طرف انھیں دشمنانِ اسلام اور منافقین کی طرف سے اس طرح کی باتیں سنناپڑیں کہ دیکھو ! اگر یہ وہی پیغمبر ہوتے جن کا یہود کو انتظار تھا تو یقینا یہود آگے بڑھ کر ان پر ایمان لاتے اور ان کے بڑے بڑے علما کبھی ایمان لانے میں پس وپیش نہ کرتے۔ لیکن ان کا موجودہ رویہ یہ بتاتا ہے کہ دال میں کچھ کالا ضرور ہے۔ اس سے نئے نئے مسلمانوں میں پریشانی پیدا ہوتی۔ اس پس منظر کے باعث یہاں اس سلسلہ بیان میں مسلمانوں کو خطاب کرکے ایک تو انھیں تسلی دی جارہی ہے کہ وہ بنی اسرائیل کی مخالفت سے بددل نہ ہوں ان کے سامنے ان کی اصل حالت کو کھول کر بیان کیا ہے کہ جس قوم کارویہ اپنے نبیوں کے ساتھ یہ رہاہو اور جنھوں نے اللہ کی کتابوں کے ساتھ وہ سلوک کیا ہو جس کا یہاں ذکر کیا گیا ہے تو تم ان سے قبولیت اسلام کی توقع کیسے کرسکتے ہو اور دوسری یہ بات بھی کہی جارہی ہے کہ تمہیں معلوم نہیں کہ جو لوگ یہود میں سے تمہارے پاس آتے ہیں، پس پردہ ان کی حرکات کیا ہیں وہ تم سے کیا کہتے ہیں اور آپس میں کیا باتیں کرتے ہیں۔ اس لیے تم ان کی فریب کاری کو سمجھنے کی کوشش کرو۔ اسی فریب کاری کو واضح کرنے اور ان کے گروہی طلسم کو توڑنے کے لیے ان آیات میں باقاعدہ ان کا تجزیہ کیا گیا ہے۔ وَقَد کَانَ فَرِیْقٌ مِّنْھُمْ سے ان کے علما اور مشائخ کے کرتوت بیان کیے گئے ہیں کیونکہ یہی وہ طبقہ تھا جو تمام قومی اور دینی معاملات میں انھیں رہنمائی دیتا تھا، عوام انہی کی عقیدت کے جال میں پھنسے ہوئے تھے اور اوس و خزرج بھی انھیں کے علم سے متاثر اور مرعوب تھے اس لیے ضروری تھا کہ سب سے پہلے انہی کا اصل حلیہ انھیں دکھایا جاتا۔ علما ہوں یا مشائخ ان کی اصل قدروقیمت اس بات سے متعین ہوتی ہے کہ وہ جس کتاب کو کتاب اللہ کہتے اور اس کی پیروی اور ایمان کا دعویٰ کرتے ہیں اس کے ساتھ ان کی وابستگی کی کیفیت اور حقیقت کیا ہے۔ اس لیے فرمایا کہ یہ گروہ جو اپنے آپ کو تورات کا عالم کہتا ہے اور اس کتاب پر عمل کرنے کے باعث وہ اپنی مشیخیت کا دعوے دار ہے۔ ذرا اندازہ کیجئے کہ اس کتاب کے ساتھ انھوں نے کیا طریقہ اختیار کررکھا ہے۔ یہ اسے سنتے ہیں یعنی وہ کتاب ان کے لیے اجنبی نہیں ان کے کان اس سے مانوس ہیں۔ ممکن ہے اپنی مجلسوں میں اسے سن کر جھومتے بھی ہوں جس سے لوگوں کو یہ تاثردیتے ہوں کہ ہمارا اللہ کی کتاب سے کس قدر قلبی رشتہ ہے اور مزید اس سے یہ بھی بتانا مقصود ہے کہ جس کتاب کو سن کر وہ اس قدر متاثرہوتے ہیں یقینا اسے کما حقہ سمجھتے بھی ہیں۔ لیکن کتاب سے ان کی وابستگی اور اللہ کی ذات اور اس کی صفات کے استحضار کا ان کے دلوں میں حال یہ ہے کہ وہ اس کتاب میں تحریف کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔ یہ نہ سمجھئے کہ انجانے میں یا بےعلمی سے نہ سمجھنے کے باعث وہ تحریف کربیٹھتے ہیں۔ ہرگز نہیں ! بلکہ وہ جان بوجھ کر اور سوچ سمجھ کر ارادے کے ساتھ تحریف کرتے ہیں اور انھیں خوب معلوم ہوتا ہے کہ وہ تحریف کرنے کی جسارت کررہے ہیں۔ قَد کَانَ فَرِیْقٌ مِّنْھُم میں دونوں صورتیں ممکن ہیں کہ کان ناقصہ قرار دیا جائے یا تامہ۔ یعنی اس گروہ سے ان کے اسلاف مراد لیے جائیں یا خود ان کو مراد لیا جائے جو رسول اللہ ﷺ کے معاصرین ہیں۔ البتہ سیاق کلام کا تقاضا یہ ہے کہ معاصرین ہی مراد لیے جائیں۔ (متقدمین میں سے صاحب تفسیر کبیر نے انھیں کو مراد لیا ہے) اس لیے نہایت وضاحت اور صراحت کے ساتھ یہ کہا جارہا ہے کہ موجودہ یہود کے علما اور مشائخ کا یہ رویہ ہے اور وہ تحریف کرتے ہوئے اس قدر اللہ سے بےخوف ہوتے ہیں کہ وہ جانتے بوجھتے یہ حرکت کرتے ہیں۔ تحریف کا مفہوم اب سوال یہ ہے کہ یہ تحریف کیا تھی جو وہ کرتے تھے ؟ تحریف کا مطلب تو یہ ہے کہ بات کو اصل معنی اور مفہوم سے پھیر کر اپنی خواہش کے مطابق ایسے معنی پہنادیئے جائیں جو قائل کے منشا کے بالکل خلاف ہوں۔ لیکن اس کی کئی صورتیں ممکن ہیں۔ یہ تحریف لفظی بھی ہوتی ہے اور معنوی بھی۔ انھوں نے ہر طرح سے تورات میں تحریف کی۔ کبھی تو ایسا کیا کہ لفظ کی ادائیگی کے طریقے کو بدل ڈالا اور اس کی قرأت میں ایسی تبدیلی کی کہ لفظ کی اصل ساخت ہی بدل گئی۔ مثلاً مروہ کے ساتھ چونکہ حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کی قربانی کا تعلق ہے اور مروہ بیت اللہ کے سامنے پہاڑی کا نام ہے جہاں سے حاجی سعی کا آغاز کرتے ہیں۔ لیکن یہود نے یہ ثابت کرنے کے لیے کہ ذبیح اللہ حضرت اسماعیل (علیہ السلام) نہیں بلکہ حضرت اسحاق (علیہ السلام) ہیں۔ انھوں نے مروہ کے تلفظ میں تبدیلی کی تاکہ مروہ کو ملک شام میں دکھایا جاسکے۔ مروہ کو بگاڑ کر مورہ یا مریا کردیا گیا۔ کبھی انھوں نے عبارت میں کمی بیشی کی۔ کہیں سے کوئی جملہ حذف کردیا کہیں اضافہ کردیاتا کہ عبارت کا مفہوم ہی بدل کر رہ جائے۔ مثلاً حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے ہجرت کے واقعہ میں اس طرح تبدیلیاں کی گئیں کہ بیت اللہ اور مکہ معظمہ سے ان کا تعلق کاٹ دیا گیا اور یہ ثابت کرنا مشکل ہوگیا کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کبھی حجاز میں آئے تھے اور انھوں نے بیت اللہ کی تعمیر کی تھی۔ معنوی تحریف کی صورت میں انھوں نے الفاظ کے ترجموں میں تبدیلیاں کیں۔ مثلاً کسی لفظ کے اگر دو معنی ہوسکتے ہیں تو انھوں نے بجائے اس کے کہ وہ معنی مراد لیتے جو سیاق وسباق کے مطابق تھا۔ انھوں نے وہ معنی مراد لیا جو ان کے وضع کردہ اعتقادات کے مطابق تھا۔ مثلاً عبرانی میں ” ابن “ بیٹے کو بھی کہا جاتا ہے اور بندہ اور غلام کے لیے بھی بولا جاتا ہے۔ انھوں نے عیسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ کا بیٹا ثابت کرنے کے لیے ابن کا ترجمہ بیٹا کیا اور اسی پر اصرار کیا اور دوسرے معنی سے انکار کردیا۔ اسی طرح ” اب “ کا معنی باپ بھی ہوتا ہے اور مربی اور رب بھی۔ انھوں نے ہر جگہ اب کا ترجمہ باپ ہی سے کیا اور اس طرح سے عقائد کو بگاڑ کر رکھ دیا۔ آنحضرت ﷺ کا نام اور آپ کی صفات کا تذکرہ تورات اور انجیل دونوں میں ہے۔ لیکن اہل کتاب نے پوری کوشش کی کہ جو چیز بھی آنحضرت ﷺ کے وجود پر دلالت کرتی ہے اسے اللہ کی کتابوں سے نکال دیاجائے۔ غرضیکہ تحریف کی جتنی بھی شکلیں ممکن ہیں وہ تمام تحریفیں بنی اسرائیل نے اللہ کے کلام میں کی ہیں اور اس دیدہ دلیری کے ساتھ کی ہیں کہ وہ جانتے تھے کہ ہم یہ تحریف کررہے ہیں۔ آنحضرت ﷺ کے معاصر یہود و نصاریٰ میں تحریف کا مرض تو اپنے عروج پر پہنچ گیا تھا۔ لیکن یہود کی تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ بیماری انھیں اپنے اسلاف سے ورثے میں ملی تھی۔ ان کی طرف آنے والے پیغمبروں نے ہمیشہ اس جسارت پر انھیں ٹوکا تھا۔ یرمیاہ نبی اپنی قوم کو مخاطب کرکے کہتے ہیں کہ ” تم نے زندہ خدا رب الافواج ہمارے خدا کی باتوں کو بگاڑ ڈالا ہے “۔ (یرمیاہ 23، 37) اور یہ تحریف شائد اس لیے بھی ان کے لیے آسان ہوگئی کہ آج خود یہود و نصاریٰ اپنے آسمانی صحیفوں کے بارے میں کہتے ہیں کہ ان کتابوں اور صحیفوں کے مضامین و مطالب ہمارے انبیاء کے دلوں پر القا ہوتے تھے۔ پھر ! وہ انبیاء کرام انھیں الہاماتِ معنوی کی روشنی میں اپنے الفاظ میں نوشتے تیار کردیتے تھے۔ اس صورت حال میں جب نیت بھی فاسد ہو تو پھر تحریف کرنا کیا مشکل ہوجاتا ہے کیونکہ اگر ان کی کتابیں الفاظ سمیت نازل ہوتیں تو یقینا ان میں تبدیلی مشکل ہوتی۔ لیکن پیغمبروں کی اپنی زبان میں ہونے کی وجہ سے ان میں قلم کاری آسان ہوگئی اور پھر جب دوسری زبانوں میں ترجمے ہوئے تو وہ اصل متن کے ساتھ نہیں چھپتے تھے بلکہ تنہا ترجمے ہی متن کے قائم مقام سمجھ لیے گئے تھے۔ نتیجہ اس کا یہ ہوا کہ ان کے علمائے سو کو اپنی خواہشات کے مطابق تحریف کرنے کا موقع مل گیا۔ مسلمانوں سے یہ کہا جارہا ہے کہ جس قوم کے مذہبی علما کا یہ حال ہو کہ وہ اللہ کی کتاب کو بگاڑنے سے بھی دریغ نہ کریں۔ ان کے بارے میں تم یہ کیسے امید کرسکتے ہو کہ وہ کبھی آنحضرت ﷺ کے ہاتھ پر ایمان لے آئیں گے۔ علما کے بعد دوسرا گروہ یہود میں سے عام پڑھے لکھے لوگوں کو گروہ تھا۔ لیکن اسلام دشمنی اور آنحضرت ﷺ کے ساتھ بغض میں سب ایک دوسرے کے ساتھ شریک تھے۔ یہ لوگ باقاعدہ مسلمانوں کی مجالس میں آتے، ان سے تعلقات بڑھاتے اور یہ بھی دعویٰ کرتے کہ ہم بھی تمہاری طرح مومن ہیں۔ ہمیں کوئی بیگانہ مت سمجھو، اس طرح سے مسلمانوں کو اپنے اعتماد میں لے کر بہکانے کی کوشش کرتے۔ لیکن جب اپنے بڑے لوگوں یا مذہبی قائدین سے ملتے تو وہ باقاعدہ انھیں سرزنش کرتے کہ تم مسلمانوں میں کیوں جاکر بیٹھتے ہو۔ اور تم مسلمانوں کے ساتھ اپنائت کا اظہار کرتے ہوئے کیوں ایسی باتیں بتادیتے ہو جن سے وہ تمہارے خلاف حجت قائم کرسکیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ گفتگو کی رواروی میں بعض دفعہ ان کے منہ سے آنحضرت ﷺ کے بارے میں ان کی کتابوں میں جو صفات، خصوصیات اور کامیابیوں کی خبریں دی گئی ہیں وہ ان میں سے بعض باتیں مسلمانوں کو بتادیتے تھے۔ لیکن ان کے بڑے لوگوں کے فسادِ عقیدہ کو ملاحظہ کیجئے کہ ان لوگوں سے کہتے کہ تمہاری یہی وہ باتیں ہیں جو مسلمان تمہارے رب کے سامنے تمہارے خلاف حجت کے طور پر پیش کریں گے۔ گویا وہ یہ سمجھتے تھے کہ اگر یہود مسلمانوں کو ایسی باتیں نہ بتائیں تو قیامت کے دن ان پر کوئی مقدمہ قائم نہ ہوسکے گا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اللہ کو مانتے تو تھے لیکن اس کے علم کے بارے میں ان کا تصور یہ تھا کہ یہود جو کچھ مسلمانوں کے خلاف کررہے ہیں اور یا ان کی کتابوں میں جو کچھ ان کے پیغمبر کے بارے میں کہا گیا ہے اللہ کو بھی ان باتوں کا شائد علم نہیں اور اگر مسلمانوں کے علم میں یہ باتیں آگئیں تو وہ اللہ کے سامنے انھیں باتوں کو بطور دلیل پیش کریں گے اور اس طرح یہود پر فردجرم عائد ہوجائے گی۔ لیکن بعض اہل علم نے عندربکم کا ایک اور مفہوم مراد لیا ہے ان کا خیال ہے کہ عندربکم یا عنداللہ کا لفظ ایک مضبوط دلیل کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ تو یہاں اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر تم نے مسلمانوں کو ان کے پیغمبر اور اسلام کے بارے میں وہ باتیں بتادیں جو ہماری کتابوں میں موجود ہیں تو یہ ایک ایسی مضبوط دلیل ہے، جس سے مسلمان دنیا میں بھی اور قیامت کے دن بھی تمہارے خلاف حجت قائم کریں گے۔ کیا تمہیں یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ تم اپنے ہی خلاف مسلمانوں کو دلائل مہیا کررہے ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ یہود اور نصاریٰ یہ سمجھتے تھے کہ مسلمانوں کو اپنے پیغمبر کی تعلیمات، پیش گوئیوں، بشارتوں اور علامتوں کے بارے میں جو کچھ بھی معلوم ہوگا وہ محض اہل کتاب کے بتانے سے ہی ہوگا۔ اس کے علاوہ ان کے پاس جاننے کا کوئی اور ذریعہ نہیں۔ گویا وہ یہ سمجھتے تھے اور آج کا پورا یورپ اور ان کے مستشرقین بھی یہ سمجھتے ہیں کہ قرآن مجید اللہ کی کتاب نہیں جب وہ قرآن کریم پر تبصرہ کرنے بیٹھتے ہیں تو اس مفروضہ کو بنیاد بنالیتے ہیں کہ اس میں جو کچھ بھی مذکور ہے وہ یہود کی تورات، عیسائیوں کی انجیل اور اس طرح کے دوسرے انسانی ذرائع سے لیا گیا ہے۔ محمد ﷺ پر کوئی وحی نہیں اتری تھی۔ جب آدمی ان تضادات پر غور کرتا ہے تو حیرت ہوتی ہے کہ اگر محمد ﷺ اللہ کے رسول نہیں اور قرآن کریم اللہ کا کلام نہیں تو پہلی آسمانی کتابوں میں ان کا تذکرہ کیوں ہے ؟ اور پھر یہ آسمانی کتابوں کے بیان کردہ علامتوں کے مصداق کیوں ہیں ؟ لیکن عجیب بات ہے کہ اس کا جواب ان کے پاس کوئی نہیں، لیکن وہ حقیقت کو قبول کرنے اور سمجھنے کے لیے بالکل تیار نہیں۔ ان کی اسی جہالت اور نادانی کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا جارہا ہے کہ کیا یہ اہل کتاب نہیں جانتے کہ یہ جو کچھ پیغمبرِاسلام کے بارے میں کہتے ہیں اور جو مسلمانوں کے خلاف سازشیں کرتے ہیں اس میں ہر جلی اور خفی بات کو اللہ جانتا ہے اور ان کا کوئی عمل بھی اللہ کی نگاہوں سے چھپا ہوا نہیں۔
Top