Ruh-ul-Quran - Al-Baqara : 53
وَ اِذْ اٰتَیْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ وَ الْفُرْقَانَ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُوْنَ
وَاِذْ : اور جب آتَيْنَا : ہم نے دی مُوْسَى : موسیٰ الْكِتَابَ : کتاب وَ : اور الْفُرْقَانَ : جدا جدا کرنے والے احکام لَعَلَّكُمْ : تاکہ تم تَهْتَدُوْنَ : ہدایت پالو
اور یاد کرو ! جب کہ ہم نے موسیٰ کو کتاب دی اور فرقان دیا تاکہ تم ہدایت حاصل کرو۔
وَاِذْاٰتَیْنَا مُوْسَی الْکِتٰبَ وَالْفُرْقَانَ لَعَلَّکُمْ تَھْتَدُوْنَ ۔ (البقرۃ : 53) (اور یاد کرو ! جب کہ ہم نے موسیٰ کو کتاب دی اور فرقان دیا تاکہ تم ہدایت حاصل کرو) فرقان کا مفہوم یعنی اللہ کے ساتھ شرک کرنے کا جرم تم نے اس وقت کیا جب ہم موسیٰ (علیہ السلام) کو کتاب اور فرقان دے رہے تھے یعنی ہم تو تمہاری ہدایت کا سامان کررہے تھے اور تمہیں زندگی گزارنے کے لیے صحیفہ حیات دے رہے تھے اور تم کتاب سے تو خیر کیا فائدہ اٹھاتے تم نے کتاب دینے والی کی ذات وصفات میں شریک بناکر کھڑا کردیا۔ اس آیت کریمہ میں کتاب سے مراد تو ظاہر ہے ” تورات “ ہے۔ لیکن یہ فرقان کیا ہے ؟ اس پر غور کرنے سے دو باتیں سمجھ میں آتی ہیں اور دونوں ہی صحیح ہیں۔ فرقان کا معنی ہے ،” حق و باطل کے درمیان فرق کرنے والی چیز “۔ فرق کرنا دو طرح سے ہوتا ہے، ایک تو یہ کہ یہ کتاب ایسی ہے، جو اپنی مراد میں بالکل واضح ہے اس کے احکام و ہدایات میں کوئی ابہام نہیں اور اس کی تعلیمات اس قدر فیصلہ کن ہیں کہ حق و باطل میں کسی آمیزش کا اندیشہ باقی نہیں رہتایہ ایک ایک بات کو پوری طرح کھول کر بیان کردیتی ہے اور اس کی تعلیمات نے اپنے سامنے جو مقصد اور منہج رکھا ہے اس میں کوئی الجھائو محسوس نہیں ہوتا۔ اس لحاظ سے یہ فرقان کتاب ہی کی صفت ہوگی اور کتاب اور فرقان کے درمیان و ائو کو ہم تفسیر اور بیان کی وائو قرار دیں گے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ اس کتاب سے فائدہ اٹھانے والے اور اس پر عمل کرنے والے کو اللہ کی طرف سے ایک ایسا شعور ملتا اور ایک ایسی حکمت عطا ہوتی ہے۔ جس سے وہ زندگی کے تمام نشیب و فراز میں بڑی آسانی سے حق کو پہچان لیتا ہے اور کبھی باطل کا شائبہ بھی اسے اشتباہ میں مبتلانھیں کرسکتا اس لحاظ سے یہ فرقان، کتاب سے ایک زائد چیز ہے۔ بعض لوگوں نے ایک اور پہلو سے بھی اس پر غور کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ جس طرح اللہ کے نبی کو اپنی امت کی رہنمائی کیلے کتاب دی جاتی ہے۔ اسی طرح اسے اپنی اور اپنی دعوت کی حقانیت ثابت کرنے کے لیے ایک معصوم اور دل آویز شخصیت بھی عطا ہوتی ہے جو بجائے خود فرقان کا کام دیتی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ اسے ایسے معجزات عطا کیے جاتے ہیں، جن کی مثال لانے سے لوگ عاجز ہوتے ہیں اور نتیجۃًوہ کھل کر اور پوری قوت سے مخالفت کرنے کے قابل نہیں رہتے۔ رفتہ رفتہ اندھے مخالفین تحلیل ہوجاتے ہیں اور باقی لوگ دعوت اسلامی کو قبول کرلیتے ہیں۔ یہاں ایک بات یاد رکھنی چاہیے کہ ” الفرقان “ صرف تورات ہی کی صفت نہیں بلکہ اللہ کی ہر کتاب فرقان بن کے آتی ہے اور اس کا ہر نبی بھی اپنی ذات میں فرقان ہوتا ہے۔ اس لیے قرآن پاک کو بھی فرقان کے نام سے یاد کیا گیا ہے۔ ارشاد خداوندی ہے تَبَارَکَ الَّذِیْ نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلٰی عَبْدِہٖ ” بابرکت ہے وہ ذات جس نے اپنے بندے پر فرقان نازل کیا “۔ قرآن کریم میں الفرقان صفت کے طور پر بھی آیا ہے اور قرآن کریم کے نام کے طور پر بھی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح اسم اپنے مسمیٰ کی شناخت اور صفت اپنے موصوف کا تعارف ہوتی ہے۔ فرقان بھی قرآن کریم کے لیے ایسی ہی حیثیت رکھتا ہے۔ اس آیت کریمہ میں اگرچہ یہ بتایا گیا ہے کہ بنی اسرائیل نے گوسالہ پرستی کا جو عظیم جرم کیا تھا اللہ تعالیٰ نے اسے معاف کردیا۔ لیکن اللہ تعالیٰ کا قانون یہ ہے کہ وہ اجتماعی گناہوں کو اس وقت تک معاف نہیں کیا کرتا جب تک کہ سزا کے ذریعے اس کے اثراتِ بد کا ازالہ نہیں کردیتا۔ بنی اسرائیل نے بھی اجتماعی طور پر یہ گناہ کیا تھا۔ کچھ لوگ تو براہ راست اس گناہ کے مرتکب ہوئے لیکن ایک بڑی تعداد نے جب یہ دیکھا کہ یہ لوگ رکتے نہیں تو انھوں نے کنارہ کشی اختیار کرلی۔ پہلے گروہ کی سرکشی اور دوسرے گروہ کی کنارہ کشی اور مداہنت نے حضرت ہارون (علیہ السلام) اور ان کے ساتھیوں کو غیرموثر کردیا۔ اب ضروری تھا کہ جس گناہ نے بنی اسرائیل کی اتنی بڑی تعداد کو اپنی گرفت میں لے لیا ہے، اس کے اثراتِ بد کا ازالہ کیا جائے۔ اس لیے اگلی آیت کریمہ میں ارشاد فرمایا :
Top