Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
228
229
230
231
232
233
234
235
236
237
238
239
240
241
242
243
244
245
246
247
248
249
250
251
252
253
254
255
256
257
258
259
260
261
262
263
264
265
266
267
268
269
270
271
272
273
274
275
276
277
278
279
280
281
282
283
284
285
286
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Ruh-ul-Quran - Al-Baqara : 34
وَ اِذْ قُلْنَا لِلْمَلٰٓئِكَةِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوْۤا اِلَّاۤ اِبْلِیْسَ١ؕ اَبٰى وَ اسْتَكْبَرَ١٘ۗ وَ كَانَ مِنَ الْكٰفِرِیْنَ
وَ
: اور
اِذْ
: جب
قُلْنَا
: ہم نے کہا
لِلْمَلٰٓئِکَةِ
: فرشتوں کو
اسْجُدُوْا
: تم سجدہ کرو
لِاٰدَمَ
: آدم کو
فَسَجَدُوْا
: تو انہوں نے سجدہ کیا
اِلَّا
: سوائے
اِبْلِیْسَ
: ابلیس
اَبٰى
: اس نے انکار کیا
وَ اسْتَكْبَرَ
: اور تکبر کیا
وَکَانَ
: اور ہوگیا
مِنَ الْکَافِرِیْنَ
: کافروں سے
اور یاد کرو ! جب ہم نے فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کو سجدہ کرو، تو سب نے سجدہ کیا مگر ابلیس نے اس سے انکار کیا، اور وہ اپنی بڑائی کے گھمنڈ میں پڑگیا اور کافروں میں سے ہوگیا۔
وَاِذْ قُلْنَا لِلْمَلٰٓئِکَۃِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوْا اِلَّآ اِبْلِیْسَط اَبٰی وَسْتَکْبَرَ وَکَانَ مِنَ الْکٰفِرِیْنَ (اور یاد کرو ! جب ہم نے فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کو سجدہ کرو، تو سب نے سجدہ کیا مگر ابلیس نے اس سے انکار کیا، اور وہ اپنی بڑائی کے گھمنڈ میں پڑگیا اور کافروں میں سے ہوگیا۔ ) (البقرۃ۔ 34) خلافت آدم کے حوالے سے موجود مخلوقات کو ان کی ذمہ داریوں سے آگاہی اور امتحان اس رکوع کی سابقہ آیات میں حضرت آدم (علیہ السلام) کو خلیفہ بنانے کے حوالے سے پروردگار نے جب اپنے ارادے کا اظہار فرمایا تو فرشتوں نے پوری سکیم سے آگاہ نہ ہونے کے باعث اپنے علم کی کمی کی وجہ سے جن خدشات کا اظہار کیا تھا۔ پروردگار نے نہائت تفصیل کے ساتھ ان کا جواب دیا اور خلافتِ آدم میں جو مصلحتیں اور حکمتیں مخفی تھیں ان سے کسی حد تک آگاہ فرمایا اور فرشتے اپنے تئیں جن خطرات کو محسوس کررہے تھے ان میں سے ایک ایک کو دور کر کے نہایت پیار سے انھیں مطمئن کیا۔ فرشتے جو سرتاپا عجز واعتراف ہیں، وہ اس پر مزید شکر گزار ہوئے اور اپنی عاجزی کا اعتراف کیا اب اس آیت کریمہ سے حضرت آدم (علیہ السلام) کی پیدائش اور ان کی خلافت کا اصل مضمون شروع ہوتا ہے۔ اس میں سب سے پہلی ضروری بات یہ تھی کہ اس وقت جو مخلوقات موجود تھیں اور جنھیں تمام مخلوقات میں ایک حیثیت اور اہمیت حاصل ہے انھیں خلافت ِ آدم کے حوالے سے ذمہ داریوں سے آگاہ کیا جائے اور مزید یہ بات بھی کہ ان کا امتحان بھی لیا جائے کہ وہ کہاں تک اس آزمائش میں پورے اترتے ہیں۔ چناچہ اس آیت کریمہ میں جو حکم دیا گیا ہے اس میں یہ دونوں باتیں شامل ہیں اور مزید یہ بات بھی کہ یہیں سے اس کشمکش اور اس سے پیدا ہونے والے نتیجے کی بھی ایک منظر کشی کی گئی ہے جس سے اس وقت اسلامی جماعت گزر رہی تھی اور جس کے اہم کردار نبی کریم ﷺ مسلمان اور قریش مکہ تھے۔ چناچہ سب سے پہلے فرشتوں کو حکم ہوا کہ وہ آدم کو سجدہ کریں۔ سجدہ کا مفہوم سجدہ کا معنی تو ہوتا ہے ” جھکنا “۔ لیکن اس کے مدارج ہیں کبھی تو رکوع کی شکل میں جھک جانے کو سجدہ کہتے ہیں اور کبھی یہ لفظ زمین پر سر رکھ دینے پر بولا جاتا ہے۔ اس کی صحیح شکل کیا تھی۔ محض حضرت آدم کی تعظیم اور ان کی عظمت کے سامنے جھک جانے پر یہ لفظ بولا گیا ہے یا اس سے حقیقی سجدہ مراد تھا۔ لفظ میں تو دونوں کے لیے گنجائش موجود ہے۔ لیکن احادیث وآثار کی شہادتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سے مراد حقیقی سجدہ ہے یعنی زمین پر سر رکھ دینا۔ اس پر سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا اللہ کے سوا کسی اور کو سجدہ کرنے کی اجازت ہے ؟ جہاں تک سابقہ شریعتوں کا تعلق ہے، سابقہ آسمانی کتابوں سے معلوم ہوتا ہے کہ سابقہ شریعتوں میں اس کی اجازت تھی۔ چناچہ سورة یوسف میں یوسف (علیہ السلام) کے سامنے سجدہ ریز ہونے کا ذکر کیا گیا ہے۔ علماء نے اس کا جواب دیتے ہوئے کہا ہے کہ جہاں تک سجدئہ عبادت کا تعلق ہے یعنی عبادت کی نیت سے کسی کو سجدہ کرنا، اس کی اجازت تو کسی شریعت نے نہیں دی کیونکہ اللہ کے سوا کسی اور کی عبادت کرنا ہر شریعت میں شرک قرار دیا گیا ہے۔ البتہ سجدئہ تعظیمی کی سابقہ شریعتوں میں اجازت تھی، جسے ہماری شریعت میں حرام قرار دے دیا گیا۔ البتہ سابقہ آسمانی کتابوں پر گہری نگاہ رکھنے والوں کا خیال ہے کہ اس زمانے میں جو سجدہ تعظیمی کیا جاتا تھا۔ اس سے مراد صرف رکوع کی طرح جھکنا ہے، زمین پر سر رکھنا نہیں۔ لیکن بیشتر علماء یہ سمجھے ہیں کہ سابقہ شریعتوں میں صرف رکوع نہیں تعظیم کے لیے سجدہ کرنے کی بھی اجازت تھی۔ لیکن ہماری شریعت چونکہ آخری شریعت ہے جس میں توحیدکو مکمل کردیا گیا ہے، اس میں اس اجازت کو ختم کردیا گیا ہے۔ متعدد احادیث میں آنحضرت ﷺ نے اس کی ممانعت فرمائی ہے۔ ایک صحابی حیرہ ریاست سے واپس آئے تو آکر بیان کیا کہ حیرہ کے حکمران کو اس کی رعایا سجدہ کرتی ہے اور ساتھ ہی کہا کہ حضور آپ تو ساری دنیا کے بڑے لوگوں اور حکمرانوں سے زیادہ واجب الاحترام ہیں، تو کیا ہم آپ کو سجدہ نہ کریں۔ تو آپ نے فرمایا کہ اگر تم میری وفات کے بعد میری قبر پر آئوتو کیا سجدہ کروگے ؟ انھوں نے آنحضرت کی تعلیم کے مطابق عرض کیا کہ ہرگز نہیں تو آپ نے فرمایا کہ پھر اب مجھے کیوں سجدہ کرو گے۔ مزید فرمایا کہ اگر اللہ کے سوا کسی اور کو سجدہ جائز ہوتا تو بیوی کو حکم دیتا کہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے۔ حضرت آدم (علیہ السلام) کو سجدہ کرنے کے بارے میں یہ بات پیش نظر رہنی چاہیے کہ یہاں آدم کو سجدہ کرنے کا حکم پروردگار خود دے رہے ہیں۔ تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یہاں بظاہر سجدہ آدم کو کیا جارہا ہے لیکن حقیقت میں آدم کو نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کو کیا جارہا ہے۔ منہ اگرچہ آدم کی طرف ہے، لیکن دلوں کا رخ اِلٰہ کی جانب ہے۔ تو یہاں لِاٰدَمَ اصل میں اِلٰی اٰدَمَ کے معنی میں ہے۔ اس لیے یہاں آدم کو سجدہ کرنے کا مطلب یہ تھا کہ آدم (علیہ السلام) کی تعظیم بجالائو اور اس بات کو سمجھ لو کہ آدم کے زمین پر جانے کے بعد اور زمین پر اولاد آدم کے پھیل جانے کے بعد تمہارا کام ان کے سامنے مطیع اور مسخر ہونا ہے۔ زمین کا حاکم اللہ کی طرف سے آدم ہے۔ اس لیے زمین میں اسے اپنے معاملات انجام دینے اور اپنے اختیارات بروئے کار لانے کے لیے جو ہم اسے عطاکر رہے ہیں، تمہارا کام اس کی مدد کرنا اور اس کے لیے اسباب فراہم کرنا ہے۔ وہ کام اچھا کرنا چاہے تو اس کی اچھائی کو آگے بڑھانا تمہارا کام ہے وہ کوئی برائی کرنا چاہے، تو اس کے لیے سازگار حالات پیدا کرنا تمہاری ذمہ داری ہے۔ جب تک اللہ تعالیٰ اسے مہلت عمل دیتا ہے، تو عمل کے لیے اسباب فراہم کرنا تمہاری ڈیوٹی ہے کیونکہ وہ اللہ کی طرف سے زمین پر مجاز حکمران ہے، لیکن اصل فرماں روا اللہ کی ذات ہے۔ جب تک اصل فرمانروا اس کے اختیارات کو سلب نہیں کرتا تمہارے لیے اس کی اطاعت کرنا ضروری ہے۔ اس طرح سے فرشتوں کا امتحان بھی تھا، وہ جانتے تھے کہ ہمیں نور سے پیدا کیا گیا ہے اور آدم کو بدبودار مٹی سے۔ لیکن وہ اس بات کو بھی جانتے تھے کہ شرافت اور عظمت مادئہ تولید سے نہیں ملتی وہ تو عبادت و اطاعت اور فرمانبرداری سے ملتی ہے۔ اس لیے وہ اس بحث میں پڑے بغیر کہ کس کو مٹی سے پیدا کیا گیا ہے اور کس کو نور یا نار سے۔ انھوں نے جب یہ دیکھا کہ سجدہ کرنے کا حکم اللہ کی جانب سے ہورہا ہے، تو وہ سجدہ میں جھک گئے اور ہمیشہ کے لیے آدم کی عظمت کو قبول کرلیا اور اس طرح وہ سرخ رو ہوگئے۔ لیکن ابلیس اس بحث میں الجھ گیا کہ میں اپنے مادہ پیدائش کے لحاظ سے آدم سے برتر ہوں۔ خَلَقْتَنِی مِنْ نَّارٍ وَّخَلَقْتَہٗ مِنْ طِیْن ” تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا اور آدم کو مٹی سے پیدا کیا “۔ آگ مٹی کے سامنے کیسے جھک جائے۔ اس طرح اس نے جھکنے سے انکار کردیا اور نامراد ٹھہرا۔ ابلیس کی تحقیق ابلیس۔ ابلس سے افعیل کے وزن پر ہے۔ اس کا معنی ہے ” انتہائی مایوس “۔ یہ اس جن کا نام ہے، جس نے اللہ کے حکم کی نافرمانی کی اور آدم (علیہ السلام) کو سجدہ کرنے سے انکار کردیا۔ یہ فرشتہ نہیں تھا، قرآن کریم نے سورة طٰہٰ میں وضاحت کی ہے کان من الجن ففسق عن امر ربہ ” وہ جنات میں سے تھا اس نے اپنے رب کے حکم سے انحراف کیا “۔ اس پر بعض لوگوں کو اشکال ہوا کہ سجدہ کا حکم تو فرشتوں کو تھا، جنات کو نہیں۔ تو پھر ابلیس کو سجدہ نہ کرنے پر لعنت کا مستحق کیوں ٹھہرا گیا ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ جنات اور فرشتوں میں اصلی فرق خصائص اور صفات کے پہلو سے ہے اپنی خلقت کے لحاظ سے جنات فرشتوں سے زیادہ دوری نہیں رکھتے۔ فرشتے نور سے پیدا ہوئے اور جنات نار سے۔ اس وجہ سے معلوم ہوتا ہے کہ علی سبیل التغلیب جنات بھی اسی حکم سجدہ میں شامل تھے۔ چناچہ سب جنات نے سجدہ کیا، لیکن ان کے گمراہ فردابلیس نے سجدہ سے انکار کردیا۔ معلوم ہوتا ہے یہ جنات کا سردار تھا۔ قاضی بیضاوی ( رح) نے اپنی تفسیر میں اسی رائے کا اظہار کیا ہے۔ قاضی بیضاوی فرماتے ہیں ، اوالجن ایضاً کانوا مامورین مع الملئکۃ لکنہ استغنی بذکرالملئکۃ عن ذکر ھم فانہ اذا علم ان الاکابر مامورون بالتذلل لاحد والتوسل بہ علم ان الاصاغرایضاً مامورون بہ والضمیر فی فسجدوا راجع الی القبیلتین (یا جن بھی فرشتوں کے ساتھ سجدہ کے حکم میں شامل تھے لیکن فرشتوں کے ذکر کے بعد جنات کے ذکر کی ضرورت اس وجہ سے باقی نہیں رہی کہ جب یہ بات معلوم ہوگئی کہ بڑوں کو کسی کی تعظیم و تکریم کا حکم ہوا ہے تو اس سے یہ بات آپ سے آپ واضح ہوگئی کہ چھوٹے بھی اس حکم میں شامل ہیں۔ اس صورت میں فسجدوا کی جو ضمیر ہے، وہ دونوں گروہوں کی طرف لوٹے گی) حاصل کلام یہ کہ فرشتوں اور ان کے ضمن میں جنات کو آدم کو سجدہ کرنے کا حکم دے کر ایک تو انھیں اس بات کا پابند کیا گیا ہے کہ آدم چونکہ زمین پر اللہ کے خلیفہ بن کے جارہے ہیں اور پھر ان کے بعد ہر پیغمبر اللہ کا خلیفہ ہوگا اور آخری پیغمبر خلیفہ اعظم کے طور پر تشریف لائیں گے اور وہ پوری دنیا میں خلافت کی ذمہ داریاں ادا کریں گے۔ ان پر چونکہ نبوت ختم ہوجائے گی اس لیے اب یہ خلافت امت اسلامیہ کے تمام ان لوگوں کی طرف منتقل ہوجائے گی جن میں اس خلافت کا بوجھ اٹھانے کی صلاحیت ہوگی۔ جو اپنے علم اور اپنے کردار کی پاکیزگی سے اللہ کی زمین پر اس کی حاکمیت کے نفاذ کے لیے آخر حدتک مساعی بروئے کار لاکر خلافت کا فرض انجام دیں گے۔ یہ کام چونکہ پوری امت کے برگزیدہ لوگوں کو انجام دینا ہے اس لیے حضور نے فرمایا کہ میری امت کبھی گمراہی پر جمع نہیں ہوگی۔ اور ان میں ہمیشہ اہل حق کا ایک گروہ موجود رہے گا جو خلافت کی ذمہ داریاں ادا کرنے کی کوششیں کرتا رہے گا۔ فرشتوں کو اس بات کا پابند کیا کہ زمین پر آدم اور اولاد آدم کو ہم نے اپنا خلیفہ بناکر بھیجا ہے اس میں یقینا ہر طرح کے لوگ ہوں گے، اچھے بھی اور برے بھی۔ تمہارا کام ان سب کے لیے اسباب فراہم کرنا ہے۔ کیونکہ تم زمین پر آدم کی حکومت کے اعضاء وجوارح کے طور پر کام کروگے۔ جس طرح حکومت کے ارکان اور ملازمین کو اس بات سے کوئی بحث نہیں ہوتی کہ مجھے جو حکم دیا جارہا ہے وہ صحیح ہے یا غلط انھیں صرف احکام کی تعمیل کرنا ہوتی ہے۔ البتہ جب اصل حکمران اپنے ماتحت حکمران یعنی خلیفہ کو معزول کرنے یا سزا دینے کا فیصلہ کرلے تو پھر یہی اعضائے حکومت نہ صرف اصل حکمران کے نائب کی اطاعت سے انکار کردیتے ہیں بلکہ حکم ملنے پر زنجیریں پہنانے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔ فرشتوں کو سجدہ کا حکم دے کر انھیں یہی بات سمجھانا مقصود تھی اور دوسری یہ بات کہ ان کا امتحان بھی مقصود تھا کیونکہ فرشتے نور سے پیدا کیے گئے اور جنات نار سے۔ نور میں روشنی اور پاکیزگی ہے اور نار میں بلندی اور رفعت ہے۔ لیکن آدم کو کھنکھناتی مٹی اور سڑے ہوئے گارے سے پیدا کیا گیا ہے۔ اپنے مادئہ تولید و تخلیق کے اعتبار سے یقینا فرشتوں اور جنات کو آدم پر فضیلت حاصل تھی۔ انھیں سجدے کا حکم دے کر ان کی آزمائش کی گئی کہ وہ اپنے نسب اور مادئہ تخلیق پر فخر کرتے ہوئے سجدہ کرنے سے انکار کرتے ہیں یا اللہ کے حکم کا استحضار کرتے ہوئے سجدہ ریز ہوجاتے ہیں۔ چناچہ فرشتے اس امتحان میں پورے اترے انھوں نے اللہ کے حکم کی عظمت کے سامنے سرجھکا دیا لیکن شیطان نسب کے بت کا پجاری نکلا۔ اللہ کے حکم کے سامنے بھی اس کا یہ بت ٹوٹ نہ سکا اور اس نے نہ صرف یہ کہ سجدہ کرنے سے انکار کیا بلکہ اپنے نسب کے حوالے سے معارضہ کرنے کی کوشش بھی کی۔
Top