Ruh-ul-Quran - Al-Baqara : 34
وَ اِذْ قُلْنَا لِلْمَلٰٓئِكَةِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوْۤا اِلَّاۤ اِبْلِیْسَ١ؕ اَبٰى وَ اسْتَكْبَرَ١٘ۗ وَ كَانَ مِنَ الْكٰفِرِیْنَ
وَ : اور اِذْ : جب قُلْنَا : ہم نے کہا لِلْمَلٰٓئِکَةِ : فرشتوں کو اسْجُدُوْا : تم سجدہ کرو لِاٰدَمَ : آدم کو فَسَجَدُوْا : تو انہوں نے سجدہ کیا اِلَّا : سوائے اِبْلِیْسَ : ابلیس اَبٰى : اس نے انکار کیا وَ اسْتَكْبَرَ : اور تکبر کیا وَکَانَ : اور ہوگیا مِنَ الْکَافِرِیْنَ : کافروں سے
اور یاد کرو ! جب ہم نے فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کو سجدہ کرو، تو سب نے سجدہ کیا مگر ابلیس نے اس سے انکار کیا، اور وہ اپنی بڑائی کے گھمنڈ میں پڑگیا اور کافروں میں سے ہوگیا۔
وَاِذْ قُلْنَا لِلْمَلٰٓئِکَۃِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوْا اِلَّآ اِبْلِیْسَط اَبٰی وَسْتَکْبَرَ وَکَانَ مِنَ الْکٰفِرِیْنَ (اور یاد کرو ! جب ہم نے فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کو سجدہ کرو، تو سب نے سجدہ کیا مگر ابلیس نے اس سے انکار کیا، اور وہ اپنی بڑائی کے گھمنڈ میں پڑگیا اور کافروں میں سے ہوگیا۔ ) (البقرۃ۔ 34) خلافت آدم کے حوالے سے موجود مخلوقات کو ان کی ذمہ داریوں سے آگاہی اور امتحان اس رکوع کی سابقہ آیات میں حضرت آدم (علیہ السلام) کو خلیفہ بنانے کے حوالے سے پروردگار نے جب اپنے ارادے کا اظہار فرمایا تو فرشتوں نے پوری سکیم سے آگاہ نہ ہونے کے باعث اپنے علم کی کمی کی وجہ سے جن خدشات کا اظہار کیا تھا۔ پروردگار نے نہائت تفصیل کے ساتھ ان کا جواب دیا اور خلافتِ آدم میں جو مصلحتیں اور حکمتیں مخفی تھیں ان سے کسی حد تک آگاہ فرمایا اور فرشتے اپنے تئیں جن خطرات کو محسوس کررہے تھے ان میں سے ایک ایک کو دور کر کے نہایت پیار سے انھیں مطمئن کیا۔ فرشتے جو سرتاپا عجز واعتراف ہیں، وہ اس پر مزید شکر گزار ہوئے اور اپنی عاجزی کا اعتراف کیا اب اس آیت کریمہ سے حضرت آدم (علیہ السلام) کی پیدائش اور ان کی خلافت کا اصل مضمون شروع ہوتا ہے۔ اس میں سب سے پہلی ضروری بات یہ تھی کہ اس وقت جو مخلوقات موجود تھیں اور جنھیں تمام مخلوقات میں ایک حیثیت اور اہمیت حاصل ہے انھیں خلافت ِ آدم کے حوالے سے ذمہ داریوں سے آگاہ کیا جائے اور مزید یہ بات بھی کہ ان کا امتحان بھی لیا جائے کہ وہ کہاں تک اس آزمائش میں پورے اترتے ہیں۔ چناچہ اس آیت کریمہ میں جو حکم دیا گیا ہے اس میں یہ دونوں باتیں شامل ہیں اور مزید یہ بات بھی کہ یہیں سے اس کشمکش اور اس سے پیدا ہونے والے نتیجے کی بھی ایک منظر کشی کی گئی ہے جس سے اس وقت اسلامی جماعت گزر رہی تھی اور جس کے اہم کردار نبی کریم ﷺ مسلمان اور قریش مکہ تھے۔ چناچہ سب سے پہلے فرشتوں کو حکم ہوا کہ وہ آدم کو سجدہ کریں۔ سجدہ کا مفہوم سجدہ کا معنی تو ہوتا ہے ” جھکنا “۔ لیکن اس کے مدارج ہیں کبھی تو رکوع کی شکل میں جھک جانے کو سجدہ کہتے ہیں اور کبھی یہ لفظ زمین پر سر رکھ دینے پر بولا جاتا ہے۔ اس کی صحیح شکل کیا تھی۔ محض حضرت آدم کی تعظیم اور ان کی عظمت کے سامنے جھک جانے پر یہ لفظ بولا گیا ہے یا اس سے حقیقی سجدہ مراد تھا۔ لفظ میں تو دونوں کے لیے گنجائش موجود ہے۔ لیکن احادیث وآثار کی شہادتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سے مراد حقیقی سجدہ ہے یعنی زمین پر سر رکھ دینا۔ اس پر سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا اللہ کے سوا کسی اور کو سجدہ کرنے کی اجازت ہے ؟ جہاں تک سابقہ شریعتوں کا تعلق ہے، سابقہ آسمانی کتابوں سے معلوم ہوتا ہے کہ سابقہ شریعتوں میں اس کی اجازت تھی۔ چناچہ سورة یوسف میں یوسف (علیہ السلام) کے سامنے سجدہ ریز ہونے کا ذکر کیا گیا ہے۔ علماء نے اس کا جواب دیتے ہوئے کہا ہے کہ جہاں تک سجدئہ عبادت کا تعلق ہے یعنی عبادت کی نیت سے کسی کو سجدہ کرنا، اس کی اجازت تو کسی شریعت نے نہیں دی کیونکہ اللہ کے سوا کسی اور کی عبادت کرنا ہر شریعت میں شرک قرار دیا گیا ہے۔ البتہ سجدئہ تعظیمی کی سابقہ شریعتوں میں اجازت تھی، جسے ہماری شریعت میں حرام قرار دے دیا گیا۔ البتہ سابقہ آسمانی کتابوں پر گہری نگاہ رکھنے والوں کا خیال ہے کہ اس زمانے میں جو سجدہ تعظیمی کیا جاتا تھا۔ اس سے مراد صرف رکوع کی طرح جھکنا ہے، زمین پر سر رکھنا نہیں۔ لیکن بیشتر علماء یہ سمجھے ہیں کہ سابقہ شریعتوں میں صرف رکوع نہیں تعظیم کے لیے سجدہ کرنے کی بھی اجازت تھی۔ لیکن ہماری شریعت چونکہ آخری شریعت ہے جس میں توحیدکو مکمل کردیا گیا ہے، اس میں اس اجازت کو ختم کردیا گیا ہے۔ متعدد احادیث میں آنحضرت ﷺ نے اس کی ممانعت فرمائی ہے۔ ایک صحابی حیرہ ریاست سے واپس آئے تو آکر بیان کیا کہ حیرہ کے حکمران کو اس کی رعایا سجدہ کرتی ہے اور ساتھ ہی کہا کہ حضور آپ تو ساری دنیا کے بڑے لوگوں اور حکمرانوں سے زیادہ واجب الاحترام ہیں، تو کیا ہم آپ کو سجدہ نہ کریں۔ تو آپ نے فرمایا کہ اگر تم میری وفات کے بعد میری قبر پر آئوتو کیا سجدہ کروگے ؟ انھوں نے آنحضرت کی تعلیم کے مطابق عرض کیا کہ ہرگز نہیں تو آپ نے فرمایا کہ پھر اب مجھے کیوں سجدہ کرو گے۔ مزید فرمایا کہ اگر اللہ کے سوا کسی اور کو سجدہ جائز ہوتا تو بیوی کو حکم دیتا کہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے۔ حضرت آدم (علیہ السلام) کو سجدہ کرنے کے بارے میں یہ بات پیش نظر رہنی چاہیے کہ یہاں آدم کو سجدہ کرنے کا حکم پروردگار خود دے رہے ہیں۔ تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یہاں بظاہر سجدہ آدم کو کیا جارہا ہے لیکن حقیقت میں آدم کو نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کو کیا جارہا ہے۔ منہ اگرچہ آدم کی طرف ہے، لیکن دلوں کا رخ اِلٰہ کی جانب ہے۔ تو یہاں لِاٰدَمَ اصل میں اِلٰی اٰدَمَ کے معنی میں ہے۔ اس لیے یہاں آدم کو سجدہ کرنے کا مطلب یہ تھا کہ آدم (علیہ السلام) کی تعظیم بجالائو اور اس بات کو سمجھ لو کہ آدم کے زمین پر جانے کے بعد اور زمین پر اولاد آدم کے پھیل جانے کے بعد تمہارا کام ان کے سامنے مطیع اور مسخر ہونا ہے۔ زمین کا حاکم اللہ کی طرف سے آدم ہے۔ اس لیے زمین میں اسے اپنے معاملات انجام دینے اور اپنے اختیارات بروئے کار لانے کے لیے جو ہم اسے عطاکر رہے ہیں، تمہارا کام اس کی مدد کرنا اور اس کے لیے اسباب فراہم کرنا ہے۔ وہ کام اچھا کرنا چاہے تو اس کی اچھائی کو آگے بڑھانا تمہارا کام ہے وہ کوئی برائی کرنا چاہے، تو اس کے لیے سازگار حالات پیدا کرنا تمہاری ذمہ داری ہے۔ جب تک اللہ تعالیٰ اسے مہلت عمل دیتا ہے، تو عمل کے لیے اسباب فراہم کرنا تمہاری ڈیوٹی ہے کیونکہ وہ اللہ کی طرف سے زمین پر مجاز حکمران ہے، لیکن اصل فرماں روا اللہ کی ذات ہے۔ جب تک اصل فرمانروا اس کے اختیارات کو سلب نہیں کرتا تمہارے لیے اس کی اطاعت کرنا ضروری ہے۔ اس طرح سے فرشتوں کا امتحان بھی تھا، وہ جانتے تھے کہ ہمیں نور سے پیدا کیا گیا ہے اور آدم کو بدبودار مٹی سے۔ لیکن وہ اس بات کو بھی جانتے تھے کہ شرافت اور عظمت مادئہ تولید سے نہیں ملتی وہ تو عبادت و اطاعت اور فرمانبرداری سے ملتی ہے۔ اس لیے وہ اس بحث میں پڑے بغیر کہ کس کو مٹی سے پیدا کیا گیا ہے اور کس کو نور یا نار سے۔ انھوں نے جب یہ دیکھا کہ سجدہ کرنے کا حکم اللہ کی جانب سے ہورہا ہے، تو وہ سجدہ میں جھک گئے اور ہمیشہ کے لیے آدم کی عظمت کو قبول کرلیا اور اس طرح وہ سرخ رو ہوگئے۔ لیکن ابلیس اس بحث میں الجھ گیا کہ میں اپنے مادہ پیدائش کے لحاظ سے آدم سے برتر ہوں۔ خَلَقْتَنِی مِنْ نَّارٍ وَّخَلَقْتَہٗ مِنْ طِیْن ” تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا اور آدم کو مٹی سے پیدا کیا “۔ آگ مٹی کے سامنے کیسے جھک جائے۔ اس طرح اس نے جھکنے سے انکار کردیا اور نامراد ٹھہرا۔ ابلیس کی تحقیق ابلیس۔ ابلس سے افعیل کے وزن پر ہے۔ اس کا معنی ہے ” انتہائی مایوس “۔ یہ اس جن کا نام ہے، جس نے اللہ کے حکم کی نافرمانی کی اور آدم (علیہ السلام) کو سجدہ کرنے سے انکار کردیا۔ یہ فرشتہ نہیں تھا، قرآن کریم نے سورة طٰہٰ میں وضاحت کی ہے کان من الجن ففسق عن امر ربہ ” وہ جنات میں سے تھا اس نے اپنے رب کے حکم سے انحراف کیا “۔ اس پر بعض لوگوں کو اشکال ہوا کہ سجدہ کا حکم تو فرشتوں کو تھا، جنات کو نہیں۔ تو پھر ابلیس کو سجدہ نہ کرنے پر لعنت کا مستحق کیوں ٹھہرا گیا ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ جنات اور فرشتوں میں اصلی فرق خصائص اور صفات کے پہلو سے ہے اپنی خلقت کے لحاظ سے جنات فرشتوں سے زیادہ دوری نہیں رکھتے۔ فرشتے نور سے پیدا ہوئے اور جنات نار سے۔ اس وجہ سے معلوم ہوتا ہے کہ علی سبیل التغلیب جنات بھی اسی حکم سجدہ میں شامل تھے۔ چناچہ سب جنات نے سجدہ کیا، لیکن ان کے گمراہ فردابلیس نے سجدہ سے انکار کردیا۔ معلوم ہوتا ہے یہ جنات کا سردار تھا۔ قاضی بیضاوی ( رح) نے اپنی تفسیر میں اسی رائے کا اظہار کیا ہے۔ قاضی بیضاوی فرماتے ہیں ، اوالجن ایضاً کانوا مامورین مع الملئکۃ لکنہ استغنی بذکرالملئکۃ عن ذکر ھم فانہ اذا علم ان الاکابر مامورون بالتذلل لاحد والتوسل بہ علم ان الاصاغرایضاً مامورون بہ والضمیر فی فسجدوا راجع الی القبیلتین (یا جن بھی فرشتوں کے ساتھ سجدہ کے حکم میں شامل تھے لیکن فرشتوں کے ذکر کے بعد جنات کے ذکر کی ضرورت اس وجہ سے باقی نہیں رہی کہ جب یہ بات معلوم ہوگئی کہ بڑوں کو کسی کی تعظیم و تکریم کا حکم ہوا ہے تو اس سے یہ بات آپ سے آپ واضح ہوگئی کہ چھوٹے بھی اس حکم میں شامل ہیں۔ اس صورت میں فسجدوا کی جو ضمیر ہے، وہ دونوں گروہوں کی طرف لوٹے گی) حاصل کلام یہ کہ فرشتوں اور ان کے ضمن میں جنات کو آدم کو سجدہ کرنے کا حکم دے کر ایک تو انھیں اس بات کا پابند کیا گیا ہے کہ آدم چونکہ زمین پر اللہ کے خلیفہ بن کے جارہے ہیں اور پھر ان کے بعد ہر پیغمبر اللہ کا خلیفہ ہوگا اور آخری پیغمبر خلیفہ اعظم کے طور پر تشریف لائیں گے اور وہ پوری دنیا میں خلافت کی ذمہ داریاں ادا کریں گے۔ ان پر چونکہ نبوت ختم ہوجائے گی اس لیے اب یہ خلافت امت اسلامیہ کے تمام ان لوگوں کی طرف منتقل ہوجائے گی جن میں اس خلافت کا بوجھ اٹھانے کی صلاحیت ہوگی۔ جو اپنے علم اور اپنے کردار کی پاکیزگی سے اللہ کی زمین پر اس کی حاکمیت کے نفاذ کے لیے آخر حدتک مساعی بروئے کار لاکر خلافت کا فرض انجام دیں گے۔ یہ کام چونکہ پوری امت کے برگزیدہ لوگوں کو انجام دینا ہے اس لیے حضور نے فرمایا کہ میری امت کبھی گمراہی پر جمع نہیں ہوگی۔ اور ان میں ہمیشہ اہل حق کا ایک گروہ موجود رہے گا جو خلافت کی ذمہ داریاں ادا کرنے کی کوششیں کرتا رہے گا۔ فرشتوں کو اس بات کا پابند کیا کہ زمین پر آدم اور اولاد آدم کو ہم نے اپنا خلیفہ بناکر بھیجا ہے اس میں یقینا ہر طرح کے لوگ ہوں گے، اچھے بھی اور برے بھی۔ تمہارا کام ان سب کے لیے اسباب فراہم کرنا ہے۔ کیونکہ تم زمین پر آدم کی حکومت کے اعضاء وجوارح کے طور پر کام کروگے۔ جس طرح حکومت کے ارکان اور ملازمین کو اس بات سے کوئی بحث نہیں ہوتی کہ مجھے جو حکم دیا جارہا ہے وہ صحیح ہے یا غلط انھیں صرف احکام کی تعمیل کرنا ہوتی ہے۔ البتہ جب اصل حکمران اپنے ماتحت حکمران یعنی خلیفہ کو معزول کرنے یا سزا دینے کا فیصلہ کرلے تو پھر یہی اعضائے حکومت نہ صرف اصل حکمران کے نائب کی اطاعت سے انکار کردیتے ہیں بلکہ حکم ملنے پر زنجیریں پہنانے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔ فرشتوں کو سجدہ کا حکم دے کر انھیں یہی بات سمجھانا مقصود تھی اور دوسری یہ بات کہ ان کا امتحان بھی مقصود تھا کیونکہ فرشتے نور سے پیدا کیے گئے اور جنات نار سے۔ نور میں روشنی اور پاکیزگی ہے اور نار میں بلندی اور رفعت ہے۔ لیکن آدم کو کھنکھناتی مٹی اور سڑے ہوئے گارے سے پیدا کیا گیا ہے۔ اپنے مادئہ تولید و تخلیق کے اعتبار سے یقینا فرشتوں اور جنات کو آدم پر فضیلت حاصل تھی۔ انھیں سجدے کا حکم دے کر ان کی آزمائش کی گئی کہ وہ اپنے نسب اور مادئہ تخلیق پر فخر کرتے ہوئے سجدہ کرنے سے انکار کرتے ہیں یا اللہ کے حکم کا استحضار کرتے ہوئے سجدہ ریز ہوجاتے ہیں۔ چناچہ فرشتے اس امتحان میں پورے اترے انھوں نے اللہ کے حکم کی عظمت کے سامنے سرجھکا دیا لیکن شیطان نسب کے بت کا پجاری نکلا۔ اللہ کے حکم کے سامنے بھی اس کا یہ بت ٹوٹ نہ سکا اور اس نے نہ صرف یہ کہ سجدہ کرنے سے انکار کیا بلکہ اپنے نسب کے حوالے سے معارضہ کرنے کی کوشش بھی کی۔
Top