Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
228
229
230
231
232
233
234
235
236
237
238
239
240
241
242
243
244
245
246
247
248
249
250
251
252
253
254
255
256
257
258
259
260
261
262
263
264
265
266
267
268
269
270
271
272
273
274
275
276
277
278
279
280
281
282
283
284
285
286
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Ruh-ul-Quran - Al-Baqara : 263
قَوْلٌ مَّعْرُوْفٌ وَّ مَغْفِرَةٌ خَیْرٌ مِّنْ صَدَقَةٍ یَّتْبَعُهَاۤ اَذًى١ؕ وَ اللّٰهُ غَنِیٌّ حَلِیْمٌ
قَوْلٌ
: بات
مَّعْرُوْفٌ
: اچھی
وَّمَغْفِرَةٌ
: اور در گزر
خَيْرٌ
: بہتر
مِّنْ
: سے
صَدَقَةٍ
: خیرات
يَّتْبَعُهَآ
: اس کے بعد ہو
اَذًى
: ایذا دینا (ستانا)
وَاللّٰهُ
: اور اللہ
غَنِىٌّ
: بےنیاز
حَلِيْمٌ
: برد بار
دلداری کا ایک کلمہ کہہ دینا اور در گزر کرنا اس خیرات سے بہتر ہے جس کے پیچھے دل آزاری لگی ہوئی ہو۔ اور اللہ بےنیاز اور بردبار ہے
قَوْلٌ مَّعْرُوْفٌ وَّمَغْفِرَۃٌ خَیْرٌمِّنْ صَدَقَۃٍ یَّتْبَعُہَآ اَذًی ط وَاللّٰہُ غَنِیٌّ حَلِیْمٌ۔ (دلداری کا ایک کلمہ کہہ دینا اور در گزر کرنا اس خیرات سے بہتر ہے جس کے پیچھے دل آزاری لگی ہوئی ہو۔ اور اللہ بےنیاز اور بردبار ہے) (263) قرآن کریم چونکہ اللہ کا کلام ہے اس لیے اس میں صرف حسن عمل کی ترغیب اور اس کے طریقے ہی نہیں بتائے گئے بلکہ کسی عمل میں حسن جس نزاکتِ احساس سے پیدا ہوتا ہے اس کی طرف بھی توجہ دلائی گئی ہے۔ اور ویسے بھی اسلام کا اصل موضوع انسان کی اصلاح ہے اور انسان کی اصلاح اس وقت تک مکمل نہیں ہوسکتی جب تک کہ اس کے دل کی اصلاح نہ ہو۔ اس کے احساسات اور تصورات اس راستے پر نہ چلنے لگیں جن پر اسلام انھیں چلانا چاہتا ہے۔ احساسات کی اصلاح انسان کی بعض فطری مجبوریاں ہیں جس کو سامنے رکھتے ہوئے اسلام اصلاحی احکام دیتا ہے۔ ایک مالدار آدمی کی یہ فطری کمزوری ہے کہ اس کے اندر ایک تفوق کا احساس اور برتری کا پندار ہوتا ہے۔ جب کوئی ضرورتمند سائل بن کر اس کے دروازے پر پہنچتا ہے تو اس کے احساس کو غذا ملتی ہے اور وہ پہلے سے بھی زیادہ توانا ہوجاتا ہے۔ اگر تو سائل اس کے احساس کا لحاظ کرتے ہوئے عجز و نیاز کے پورے آداب بجا لاتا ہے تو اس کے برتری کے جذبے کو تسکین ملتی ہے تو وہ خوش ہو کر سخاوت کرتا ہے ‘ لیکن اگر لینے والے میں کسی حد تک خودداری کا احساس بھی پایا جاتا ہے کہ وہ سوال کرتا ہے تو خود داری کے ساتھ اور لیتا ہے تو بےنیازی کے ساتھ۔ یہ ادائیں برتری کے احساس کو زخمی کرتی ہیں جس کے نتیجے میں یا تو لینے والے ہاتھ کو جھٹک دیا جاتا ہے یا دیا جاتا ہے تو ناگواری کے ساتھ۔ اور بعض دفعہ چند سخت کلمات بھی زبان سے پھسل جاتے ہیں۔ ان احساسات کی اصلاح کرتے ہوئے فرمایا کہ دیکھو جب کوئی ضرورتمند آدمی تمہارے دروازے پر سائل بن کر آجائے تو تمہاری زبان سے نکلا ہوا دلداری کا ایک کلمہ اس کے زخموں پر مرہم بن سکتا ہے۔ اس لیے جب اس کی مدد کرو تو نہایت نرمی اور ملائمت سے کرو۔ اور ساتھ اس کو تسلی دو کہ اللہ بڑا کریم ہے وہ انشاء اللہ تمہارے دن پھیر دے گا۔ اور اگر تم اسے دینا نہیں چاہتے یا دینے کی پوزیشن میں نہیں ہو تو پھر بھی کسی محبت کے کلمہ کے ساتھ اس سے معذرت کرو۔ اس کو قول معروف فرمایا گیا۔ اور اگر تم محسوس کرو کہ لینے والے کا رویہ درست نہیں تو تمہیں اس پر برہم ہونے کی بجائے اس سے درگزر کرنا چاہیے۔ ہوسکتا ہے کئی دروازوں سے وہ ناکام لوٹا ہو اس وجہ سے اس کے اندر تلخی پیدا ہوگئی ہو۔ بعض دفعہ تلخیاں تلخیوں کو جنم دیتی ہیں۔ بھوک آدمی میں بعض دفعہ ردِّ عمل پیدا کرتی ہے۔ اگر ایسی کوئی بات تم محسوس کرو تو درگزر اور مغفرت سے کام لو۔ ایک اچھا بول اور درگزر کا رویہ اس مدد اور صدقہ سے بہتر ہے جس کے بعد دینے والا لینے والے کی دل آزاری کرے۔ اس سے پہلی آیت میں مَنّ اور اذٰی یعنی احسان جتلانا اور تکلیف دینا دو باتوں کا ذکر فرمایا گیا ہے۔ اب صرف تکلیف دینے کا ذکر فرمایا ہے۔ اس کا مطلب شاید یہ ہے کہ تکلیف دینے سے تو تکلیف ہی ہوتی ہے یعنی کوئی بھی سخت بول اور ناروا بات آدمی کے دل کو چھلنی کردیتی ہے لیکن جب کوئی آدمی کسی پر احسان جتلاتا ہے تو وہ بھی تکلیف کا باعث ہوتا ہے۔ چونکہ دونوں باتوں کا نتیجہ تکلیف ہی ہے اس لیے تکلیف کا ذکر فرمایا اور مَنّ کا ذکر خودبخود اس کے اندر آگیا۔ اس کے بعد پروردگار نے اپنی دو صفتیں بیان فرمائیں کہ اللہ غنی ہے اور حلیم ہے کہ باوجود اس کے کہ وہ سب سے زیادہ مالدار ہے اور سب سے زیادہ بےنیاز ہے ‘ کائنات میں جو کچھ ہے وہ اس کی ملکیت ہے اس کی تمام مخلوقات اسی کی نیاز مند ہیں۔ لیکن اس کے باوجودوہ اپنی مخلوقات سے کس قدر فیاضانہ سلوک فرماتا ہے۔ اسی طرح وہ حلیم بھی ہے کہ بیشمار لوگ اس کی شان میں گستاخیاں کرتے ہیں ‘ اس کے پیغمبروں کی بےادبیاں کرتے ہیں ‘ لیکن اللہ تعالیٰ کبھی اس پر انھیں فوری سزا نہیں دیتا۔ وہ سب کے ساتھ حلم اور بردباری کا سلوک فرماتا ہے۔ تمہیں اگر اللہ نے دولت کا کچھ حصہ عطا فرمایا ہے اور تم معمولی غنی ہوگئے ہو تو دیکھو اللہ کے اخلاق اپنے اندر پید اکرو۔ جس طرح وہ غنی ہو کر بھی حلیم ہے اور کسی کی بھی سرکشی اور گساخی کا نوٹس نہیں لیتا ‘ ہر ایک کو روزی دے رہا ہے اور سب کی ضرورتیں پوری کر رہا ہے ‘ اور اس کے خزانے سب کے لیے لٹائے جا رہے ہیں ‘ اس کا سورج سب کو روشنی اور حرارت دیتا ہے ‘ اس کا چاند سب پر اپنی حلاوت کے خزانے بانٹتا ہے ‘ اس کی زمین سب کے لیے غلہ اگاتی اور سب کے قدموں میں بچھی ہوئی ہے ‘ اس کی بارش سب کے صحنوں میں برابر برستی ہے ‘ جس طرح اس کے ماننے والوں کے آنگن میں پھول کھلتے ہیں اسی طرح اس کے انکار کرنے والوں کے باغیچوں میں بھی کھلتے ہیں۔ یہ صرف اس لیے ہے کہ وہ ان باتوں سے بےنیاز اور نہایت ہی بردبار ہے۔ یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُبْطِلُْوْا صَدَقٰتِکُمْ بِالْمَنِّ وَالْاَذٰی لا کَالَّذِیْ یُنْفِقُ مَالَـہٗ رِئَـآئَ النَّاسِ وَلاَ یُؤْمِنُ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِط فَمَثَلُـہٗ کَمَثَلِ صَفْوَانٍ عَلَیْہِ تُرَابٌ فَاَصَابَہٗ وَابِلٌ فَتَرَکَہٗ صَلْدًا ط لاَ یَقْدِرُوْنَ عَلٰی شَیْئٍ مِّمَّا کَسَبُوْا ط وَاللّٰہُ لاَ یَہْدِی الْقَوْمَ الْـکٰفِرِیْنَ ۔ (اے ایمان والو ! اپنے اعمال کو ضائع نہ کرو احسان جتا کر اور دل آزاری کر کے اس شخص کی طرح جو اپنا مال خرچ کرتا ہے لوگوں کے دکھاوے کے لیے اور اللہ اور روز آخرت پر وہ ایمان نہیں رکھتا۔ ایسے شخص کی تمثیل اس طرح ہے کہ ایک چٹان ہو جس پر کچھ مٹی ہو ‘ پھر اس پر زور کا مینہ برسے تو وہ اسے چھوڑ جائے سپاٹ پتھر۔ وہ قادر نہیں ہوں گے کسی چیز پر اس میں سے جو انھوں نے کمایا اور اللہ ناشکروں کو بامراد نہیں کرے گا) ( 264) صَفْوَانٍ ۔ صَلْدًا کا معنی و مفہوم آیتِ کریمہ میں صَفْوَانٍ اور صَلْدًا کے الفاظ آئے ہیں۔ صفوان کے معنی چکنے پتھر یا چکنی چٹان کے ہیں اور صلد کے معنی سخت اور چکنی چیز کے ہیں۔ جس زمین میں کچھ نہ اگتا ہو اسے ارضٌ صَلدٌ کہتے ہیں۔ اسی طرح جس سر پر بال نہ اگتے ہوں اسے راسٌ صَلدٌ کہتے ہیں۔ اس آیت کریمہ میں فرمایا گیا ہے کہ مسلمانوں تم اپنے صدقات کو احسان جتلا کر اور تکلیف دے کر ضائع مت کرو۔ یہ دہرا نقصان ہے۔ ایک تو یہ ہے کہ آدمی سرے سے اللہ کے راستے میں خیرات نہ کرے۔ اسے خیرات نہ کرنے کا گناہ تو ہوگا لیکن اس کا مال تو اس کے پاس محفوظ رہا۔ لیکن جو آدمی مال اللہ کے راستے میں دے دیتا اور خیرات کردیتا ہے لیکن اس کے بعد مَنّ یا اذٰی کے ارتکاب کی وجہ سے مال خرچ کرنے پر اسے کوئی صلہ نہیں ملتا۔ بلکہ یہ حکم دیا جاتا ہے کہ اس کا نام ان لوگوں میں سے خارج کردو جنھوں نے اللہ کے راستے میں صدقات دیے ہیں۔ یعنی وہ اپنا مال خرچ کر کے بھی ان لوگوں میں شامل ہوتا ہے جنھوں نے سرے سے خرچ ہی نہیں کیا تو اس سے بڑی اور محرومی کیا ہوگی۔ یہ تو وہی بات ہوئی جیسے محاورے میں کہا جاتا ہے ” گھر بھی گنوایا اور بھڑوا بھی کہلایا “ اور پھر اسی پر بس نہیں تمثیل سے معلوم ہوتا ہے کہ صرف یہی نہیں سمجھا جائے گا کہ گویا اس نے صدقہ کیا ہی نہیں ‘ بلکہ اس کے بارے میں یہ فیصلہ کیا جائے گا کہ اس شخص نے یہ حرکت کر کے نہ صرف صدقہ نہیں کیا بلکہ اس نے ایک جرم کیا ہے۔ اس لیے اس کی سزا دو گونہ ہوگی۔ ایک صدقہ نہ دینے کی سزا اور ایک اس جرم کی سزا کہ اس نے صدقہ دیکر احسان کیوں جتلایا اور صدقہ لینے والے کی عزت نفس کو مجروح کیوں کیا۔ اور یہ جرم اتنا بڑا ہے جیسے اس آدمی کا جرم جو بظاہر اللہ کے راستے میں خرچ کرتا ہے ‘ لیکن حقیقت میں وہ اللہ کے لیے نہیں ‘ لوگوں کے دکھاوے کے لیے کرتا ہے۔ آنحضرت ﷺ نے اسے ” شرکِ اصغر “ قرار دیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اس نے یہ حرکت کر کے شرک کا ارتکاب کیا ہے۔ اور شرک کا گناہ ایسا ہے جسے اللہ کبھی نہیں بخشتا۔ مزید فرمایا کہ ایک لحاظ سے دیکھا جائے تو اس کا گناہ شرک سے بھی بڑا ہے کیونکہ اس کی یہ حرکت کہ صدقہ کرنے کے بعد احسان جتلاتا ہے اور تکلیف پہنچاتا ہے اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ نہ وہ اللہ پر ایمان رکھتا ہے اور نہ وہ آخرت کے دن کو مانتا ہے۔ کیونکہ اگر وہ اللہ پر ایمان رکھتا تو اسے یقین ہوتا کہ میں کسی کی مدد کر کے جب احسان جتلاتا ہوں تو میرا اللہ دیکھتا ہے۔ اور وہ آخرت میں یقینا اس کی باز پرس کرے گا کہ تم نے اگر اللہ کے لیے اور اللہ کے راستے میں خرچ کیا تھا تو پھر تم نے لینے والے پر احسان کیوں جتلایا اور اس کی عزت نفس پر حملے کیوں کیے۔ کیا تم یہ سمجھتے تھے کہ میں سن نہیں رہا یا تمہارا یقین یہ تھا کہ قیامت نہیں آئے گی اور وہاں تمہیں اپنے اعمال کا حساب نہیں دینا پڑے گا۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو اندازہ فرمایئے یہ کتنا بڑا جرم ہے۔ ایک تو یہ محرومی کہ اس نے مال خرچ بھی کیا لیکن وہ کالعدم قرار پایا اور پھر اسے ریا کاری قرار دیا گیا اور آخر میں اللہ اور آخرت پر ایمان کو بھی غیر معتبر قرار دیا گیا۔ یہ تو ایسے جرائم ہیں جو کسی مومن سے نہیں بلکہ کافر سے سرزد ہوتے ہیں۔ اللہ اپنی پناہ میں رکھے۔ اس سے بڑھ کر اور نامرادی کیا ہوگی ؟ اب اس تمثیل پر غور فرمایئے جو یہاں ذکر کی گئی ہے۔ تمثیل کی وضاحت آپ نے اگر پہاڑی علاقے دیکھے ہیں تو اس میں دیکھا ہوگا کہ بعض دفعہ کسی چٹان پر مسلسل مٹی پڑنے سے ایک تہ سی بن جاتی ہے۔ دیکھنے والا یہ سمجھتا ہے کہ یہ شاید زمین کا حصہ ہے۔ چناچہ وہاں رہنے والے اسی غلط فہمی کی بنیاد پر بعض دفعہ اس پر مکان بنا لیتے ہیں یا اس پر کاشت کاری شروع کردیتے ہیں۔ لیکن اس کی حقیقت اس وقت کھلتی ہے جب پہاڑوں پر تیز بارش ہو اور پھر وہ ایک سیل کی شکل میں نیچے اترے تو اس کا بہائو اتنا شدید اور تیز ہوتا ہے کہ راستے میں آنے والے درخت اکھڑ جاتے ہیں ‘ زمینیں ادھڑ جاتی ہیں اور جب وہ ایسی زمین سے گزرتا ہے تو چٹان پر جمی ہوئی ساری مٹی کو بہا کرلے جاتا ہے۔ اگر اس پر کوئی فصل کاشت کی گئی ہے تو وہ بھی ساتھ بہہ جاتی ہے اور اگر اس پر آبادی ہے تو وہ بھی تباہ ہوجاتی ہے۔ ایسے واقعات اکثر پہاڑی علاقوں میں ہوتے ہیں اور اخبارات میں اس کی اطلاعات بھی چھپتی رہتی ہیں۔ اس کو لینڈ سلائیڈ (Land Slide) کہتے ہیں۔ اس تمثیل کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح ایک کسان ایک ایسی زمین پر فصل اگاتا ہے جس کے نیچے سخت اور چکنی چٹان ہے ‘ جب بارش کا ایک زور کا ڈونگڑا اس پر پڑتا ہے تو چٹان کے اوپر کی ساری مٹی فصل سمیت وادی میں بہہ جاتی ہے اور نیچے گنجے سر کی مانند چٹان نکل آتی ہے اور اس طرح اس محروم و بدقسمت کسان کی ساری محنت ضائع ہوجاتی ہے۔ یہی حال اس خیرات کرنے والے کی خیرات کا بھی ہے کہ اس نے خیرات کرنے کے بعد احسان جتایا اور دل آزاری کی تو اس نے بھی اپنی خیرات کی فصل ایک ایسی چٹان پر اٹھائی جس پر مٹی کی تہ جمی ہوئی تھی۔ جب احسان جتانے اور دل آزاری کرنے کے عمل نے اس پر حملہ کیا تو ساری خیرات جاتی رہی اور یہ محروم دیکھتا رہ گیا۔ اس کے بعد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نا شکروں کو کبھی منزل مراد تک نہیں پہنچاتا۔ یہاں نا شکرے سے مراد وہ لوگ ہیں جو اللہ کی نعمتوں پر شکر ادا کرنے کی بجائے کفرانِ نعمت کرتے ہیں۔ اور اللہ نے جو دولت ان کو عطا کر رکھی ہے اسے یا تو خرچ نہیں کرتے اور اگر کرتے ہیں تو ” مَنْ و اَذٰی “ جیسی حرکتیں انھیں محروم کردیتی ہیں اور وہ اپنی منزل مراد سے دور ہوجاتے ہیں۔ (ایک اہل علم نے اس تمثیل کا مفہوم اس طرح ذکر کیا ہے کہ اس تمثیل میں بارش سے مراد خیرات ہے۔ چٹان سے مراد اس نیت اور اس جذبے کی خرابی ہے جس کے ساتھ خیرات کی گئی ہے۔ مٹی کی ہلکی تہ سے مراد نیکی کی وہ ظاہری شکل ہے جس کے نیچے نیت کی خرابی چھپی ہوئی ہے۔ اس توضیح کے بعد مثال اچھی طرح سمجھ میں آسکتی ہے۔ بارش کا فطری اقتضا تو یہی ہے کہ اس سے روئیدگی ہو اور کھیتی نشو و نما پائے ‘ لیکن جب روئیدگی قبول کرنے والی زمین محض برائے نام اوپر ہی اوپر ہو اور اس اوپری تہ کے نیچے نری پتھر کی ایک چٹان رکھی ہوئی ہو تو بارش مفید ہونے کے بجائے الٹی مضر ہوگی۔ اسی طرح خیرات بھی اگرچہ بھلائیوں کو نشو و نما دینے کی قوت رکھتی ہے ‘ مگر اس کے نافع ہونے کے لیے حقیقی نیک نیتی شرط ہے۔ نیت نیک نہ ہو تو ابر کرم کا فیضان بجز اس کے کہ محض ضیاع مال ہے اور کچھ نہیں) (تفہیم القرآن )
Top