Ruh-ul-Quran - Al-Baqara : 263
قَوْلٌ مَّعْرُوْفٌ وَّ مَغْفِرَةٌ خَیْرٌ مِّنْ صَدَقَةٍ یَّتْبَعُهَاۤ اَذًى١ؕ وَ اللّٰهُ غَنِیٌّ حَلِیْمٌ
قَوْلٌ : بات مَّعْرُوْفٌ : اچھی وَّمَغْفِرَةٌ : اور در گزر خَيْرٌ : بہتر مِّنْ : سے صَدَقَةٍ : خیرات يَّتْبَعُهَآ : اس کے بعد ہو اَذًى : ایذا دینا (ستانا) وَاللّٰهُ : اور اللہ غَنِىٌّ : بےنیاز حَلِيْمٌ : برد بار
دلداری کا ایک کلمہ کہہ دینا اور در گزر کرنا اس خیرات سے بہتر ہے جس کے پیچھے دل آزاری لگی ہوئی ہو۔ اور اللہ بےنیاز اور بردبار ہے
قَوْلٌ مَّعْرُوْفٌ وَّمَغْفِرَۃٌ خَیْرٌمِّنْ صَدَقَۃٍ یَّتْبَعُہَآ اَذًی ط وَاللّٰہُ غَنِیٌّ حَلِیْمٌ۔ (دلداری کا ایک کلمہ کہہ دینا اور در گزر کرنا اس خیرات سے بہتر ہے جس کے پیچھے دل آزاری لگی ہوئی ہو۔ اور اللہ بےنیاز اور بردبار ہے) (263) قرآن کریم چونکہ اللہ کا کلام ہے اس لیے اس میں صرف حسن عمل کی ترغیب اور اس کے طریقے ہی نہیں بتائے گئے بلکہ کسی عمل میں حسن جس نزاکتِ احساس سے پیدا ہوتا ہے اس کی طرف بھی توجہ دلائی گئی ہے۔ اور ویسے بھی اسلام کا اصل موضوع انسان کی اصلاح ہے اور انسان کی اصلاح اس وقت تک مکمل نہیں ہوسکتی جب تک کہ اس کے دل کی اصلاح نہ ہو۔ اس کے احساسات اور تصورات اس راستے پر نہ چلنے لگیں جن پر اسلام انھیں چلانا چاہتا ہے۔ احساسات کی اصلاح انسان کی بعض فطری مجبوریاں ہیں جس کو سامنے رکھتے ہوئے اسلام اصلاحی احکام دیتا ہے۔ ایک مالدار آدمی کی یہ فطری کمزوری ہے کہ اس کے اندر ایک تفوق کا احساس اور برتری کا پندار ہوتا ہے۔ جب کوئی ضرورتمند سائل بن کر اس کے دروازے پر پہنچتا ہے تو اس کے احساس کو غذا ملتی ہے اور وہ پہلے سے بھی زیادہ توانا ہوجاتا ہے۔ اگر تو سائل اس کے احساس کا لحاظ کرتے ہوئے عجز و نیاز کے پورے آداب بجا لاتا ہے تو اس کے برتری کے جذبے کو تسکین ملتی ہے تو وہ خوش ہو کر سخاوت کرتا ہے ‘ لیکن اگر لینے والے میں کسی حد تک خودداری کا احساس بھی پایا جاتا ہے کہ وہ سوال کرتا ہے تو خود داری کے ساتھ اور لیتا ہے تو بےنیازی کے ساتھ۔ یہ ادائیں برتری کے احساس کو زخمی کرتی ہیں جس کے نتیجے میں یا تو لینے والے ہاتھ کو جھٹک دیا جاتا ہے یا دیا جاتا ہے تو ناگواری کے ساتھ۔ اور بعض دفعہ چند سخت کلمات بھی زبان سے پھسل جاتے ہیں۔ ان احساسات کی اصلاح کرتے ہوئے فرمایا کہ دیکھو جب کوئی ضرورتمند آدمی تمہارے دروازے پر سائل بن کر آجائے تو تمہاری زبان سے نکلا ہوا دلداری کا ایک کلمہ اس کے زخموں پر مرہم بن سکتا ہے۔ اس لیے جب اس کی مدد کرو تو نہایت نرمی اور ملائمت سے کرو۔ اور ساتھ اس کو تسلی دو کہ اللہ بڑا کریم ہے وہ انشاء اللہ تمہارے دن پھیر دے گا۔ اور اگر تم اسے دینا نہیں چاہتے یا دینے کی پوزیشن میں نہیں ہو تو پھر بھی کسی محبت کے کلمہ کے ساتھ اس سے معذرت کرو۔ اس کو قول معروف فرمایا گیا۔ اور اگر تم محسوس کرو کہ لینے والے کا رویہ درست نہیں تو تمہیں اس پر برہم ہونے کی بجائے اس سے درگزر کرنا چاہیے۔ ہوسکتا ہے کئی دروازوں سے وہ ناکام لوٹا ہو اس وجہ سے اس کے اندر تلخی پیدا ہوگئی ہو۔ بعض دفعہ تلخیاں تلخیوں کو جنم دیتی ہیں۔ بھوک آدمی میں بعض دفعہ ردِّ عمل پیدا کرتی ہے۔ اگر ایسی کوئی بات تم محسوس کرو تو درگزر اور مغفرت سے کام لو۔ ایک اچھا بول اور درگزر کا رویہ اس مدد اور صدقہ سے بہتر ہے جس کے بعد دینے والا لینے والے کی دل آزاری کرے۔ اس سے پہلی آیت میں مَنّ اور اذٰی یعنی احسان جتلانا اور تکلیف دینا دو باتوں کا ذکر فرمایا گیا ہے۔ اب صرف تکلیف دینے کا ذکر فرمایا ہے۔ اس کا مطلب شاید یہ ہے کہ تکلیف دینے سے تو تکلیف ہی ہوتی ہے یعنی کوئی بھی سخت بول اور ناروا بات آدمی کے دل کو چھلنی کردیتی ہے لیکن جب کوئی آدمی کسی پر احسان جتلاتا ہے تو وہ بھی تکلیف کا باعث ہوتا ہے۔ چونکہ دونوں باتوں کا نتیجہ تکلیف ہی ہے اس لیے تکلیف کا ذکر فرمایا اور مَنّ کا ذکر خودبخود اس کے اندر آگیا۔ اس کے بعد پروردگار نے اپنی دو صفتیں بیان فرمائیں کہ اللہ غنی ہے اور حلیم ہے کہ باوجود اس کے کہ وہ سب سے زیادہ مالدار ہے اور سب سے زیادہ بےنیاز ہے ‘ کائنات میں جو کچھ ہے وہ اس کی ملکیت ہے اس کی تمام مخلوقات اسی کی نیاز مند ہیں۔ لیکن اس کے باوجودوہ اپنی مخلوقات سے کس قدر فیاضانہ سلوک فرماتا ہے۔ اسی طرح وہ حلیم بھی ہے کہ بیشمار لوگ اس کی شان میں گستاخیاں کرتے ہیں ‘ اس کے پیغمبروں کی بےادبیاں کرتے ہیں ‘ لیکن اللہ تعالیٰ کبھی اس پر انھیں فوری سزا نہیں دیتا۔ وہ سب کے ساتھ حلم اور بردباری کا سلوک فرماتا ہے۔ تمہیں اگر اللہ نے دولت کا کچھ حصہ عطا فرمایا ہے اور تم معمولی غنی ہوگئے ہو تو دیکھو اللہ کے اخلاق اپنے اندر پید اکرو۔ جس طرح وہ غنی ہو کر بھی حلیم ہے اور کسی کی بھی سرکشی اور گساخی کا نوٹس نہیں لیتا ‘ ہر ایک کو روزی دے رہا ہے اور سب کی ضرورتیں پوری کر رہا ہے ‘ اور اس کے خزانے سب کے لیے لٹائے جا رہے ہیں ‘ اس کا سورج سب کو روشنی اور حرارت دیتا ہے ‘ اس کا چاند سب پر اپنی حلاوت کے خزانے بانٹتا ہے ‘ اس کی زمین سب کے لیے غلہ اگاتی اور سب کے قدموں میں بچھی ہوئی ہے ‘ اس کی بارش سب کے صحنوں میں برابر برستی ہے ‘ جس طرح اس کے ماننے والوں کے آنگن میں پھول کھلتے ہیں اسی طرح اس کے انکار کرنے والوں کے باغیچوں میں بھی کھلتے ہیں۔ یہ صرف اس لیے ہے کہ وہ ان باتوں سے بےنیاز اور نہایت ہی بردبار ہے۔ یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُبْطِلُْوْا صَدَقٰتِکُمْ بِالْمَنِّ وَالْاَذٰی لا کَالَّذِیْ یُنْفِقُ مَالَـہٗ رِئَـآئَ النَّاسِ وَلاَ یُؤْمِنُ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِط فَمَثَلُـہٗ کَمَثَلِ صَفْوَانٍ عَلَیْہِ تُرَابٌ فَاَصَابَہٗ وَابِلٌ فَتَرَکَہٗ صَلْدًا ط لاَ یَقْدِرُوْنَ عَلٰی شَیْئٍ مِّمَّا کَسَبُوْا ط وَاللّٰہُ لاَ یَہْدِی الْقَوْمَ الْـکٰفِرِیْنَ ۔ (اے ایمان والو ! اپنے اعمال کو ضائع نہ کرو احسان جتا کر اور دل آزاری کر کے اس شخص کی طرح جو اپنا مال خرچ کرتا ہے لوگوں کے دکھاوے کے لیے اور اللہ اور روز آخرت پر وہ ایمان نہیں رکھتا۔ ایسے شخص کی تمثیل اس طرح ہے کہ ایک چٹان ہو جس پر کچھ مٹی ہو ‘ پھر اس پر زور کا مینہ برسے تو وہ اسے چھوڑ جائے سپاٹ پتھر۔ وہ قادر نہیں ہوں گے کسی چیز پر اس میں سے جو انھوں نے کمایا اور اللہ ناشکروں کو بامراد نہیں کرے گا) ( 264) صَفْوَانٍ ۔ صَلْدًا کا معنی و مفہوم آیتِ کریمہ میں صَفْوَانٍ اور صَلْدًا کے الفاظ آئے ہیں۔ صفوان کے معنی چکنے پتھر یا چکنی چٹان کے ہیں اور صلد کے معنی سخت اور چکنی چیز کے ہیں۔ جس زمین میں کچھ نہ اگتا ہو اسے ارضٌ صَلدٌ کہتے ہیں۔ اسی طرح جس سر پر بال نہ اگتے ہوں اسے راسٌ صَلدٌ کہتے ہیں۔ اس آیت کریمہ میں فرمایا گیا ہے کہ مسلمانوں تم اپنے صدقات کو احسان جتلا کر اور تکلیف دے کر ضائع مت کرو۔ یہ دہرا نقصان ہے۔ ایک تو یہ ہے کہ آدمی سرے سے اللہ کے راستے میں خیرات نہ کرے۔ اسے خیرات نہ کرنے کا گناہ تو ہوگا لیکن اس کا مال تو اس کے پاس محفوظ رہا۔ لیکن جو آدمی مال اللہ کے راستے میں دے دیتا اور خیرات کردیتا ہے لیکن اس کے بعد مَنّ یا اذٰی کے ارتکاب کی وجہ سے مال خرچ کرنے پر اسے کوئی صلہ نہیں ملتا۔ بلکہ یہ حکم دیا جاتا ہے کہ اس کا نام ان لوگوں میں سے خارج کردو جنھوں نے اللہ کے راستے میں صدقات دیے ہیں۔ یعنی وہ اپنا مال خرچ کر کے بھی ان لوگوں میں شامل ہوتا ہے جنھوں نے سرے سے خرچ ہی نہیں کیا تو اس سے بڑی اور محرومی کیا ہوگی۔ یہ تو وہی بات ہوئی جیسے محاورے میں کہا جاتا ہے ” گھر بھی گنوایا اور بھڑوا بھی کہلایا “ اور پھر اسی پر بس نہیں تمثیل سے معلوم ہوتا ہے کہ صرف یہی نہیں سمجھا جائے گا کہ گویا اس نے صدقہ کیا ہی نہیں ‘ بلکہ اس کے بارے میں یہ فیصلہ کیا جائے گا کہ اس شخص نے یہ حرکت کر کے نہ صرف صدقہ نہیں کیا بلکہ اس نے ایک جرم کیا ہے۔ اس لیے اس کی سزا دو گونہ ہوگی۔ ایک صدقہ نہ دینے کی سزا اور ایک اس جرم کی سزا کہ اس نے صدقہ دیکر احسان کیوں جتلایا اور صدقہ لینے والے کی عزت نفس کو مجروح کیوں کیا۔ اور یہ جرم اتنا بڑا ہے جیسے اس آدمی کا جرم جو بظاہر اللہ کے راستے میں خرچ کرتا ہے ‘ لیکن حقیقت میں وہ اللہ کے لیے نہیں ‘ لوگوں کے دکھاوے کے لیے کرتا ہے۔ آنحضرت ﷺ نے اسے ” شرکِ اصغر “ قرار دیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اس نے یہ حرکت کر کے شرک کا ارتکاب کیا ہے۔ اور شرک کا گناہ ایسا ہے جسے اللہ کبھی نہیں بخشتا۔ مزید فرمایا کہ ایک لحاظ سے دیکھا جائے تو اس کا گناہ شرک سے بھی بڑا ہے کیونکہ اس کی یہ حرکت کہ صدقہ کرنے کے بعد احسان جتلاتا ہے اور تکلیف پہنچاتا ہے اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ نہ وہ اللہ پر ایمان رکھتا ہے اور نہ وہ آخرت کے دن کو مانتا ہے۔ کیونکہ اگر وہ اللہ پر ایمان رکھتا تو اسے یقین ہوتا کہ میں کسی کی مدد کر کے جب احسان جتلاتا ہوں تو میرا اللہ دیکھتا ہے۔ اور وہ آخرت میں یقینا اس کی باز پرس کرے گا کہ تم نے اگر اللہ کے لیے اور اللہ کے راستے میں خرچ کیا تھا تو پھر تم نے لینے والے پر احسان کیوں جتلایا اور اس کی عزت نفس پر حملے کیوں کیے۔ کیا تم یہ سمجھتے تھے کہ میں سن نہیں رہا یا تمہارا یقین یہ تھا کہ قیامت نہیں آئے گی اور وہاں تمہیں اپنے اعمال کا حساب نہیں دینا پڑے گا۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو اندازہ فرمایئے یہ کتنا بڑا جرم ہے۔ ایک تو یہ محرومی کہ اس نے مال خرچ بھی کیا لیکن وہ کالعدم قرار پایا اور پھر اسے ریا کاری قرار دیا گیا اور آخر میں اللہ اور آخرت پر ایمان کو بھی غیر معتبر قرار دیا گیا۔ یہ تو ایسے جرائم ہیں جو کسی مومن سے نہیں بلکہ کافر سے سرزد ہوتے ہیں۔ اللہ اپنی پناہ میں رکھے۔ اس سے بڑھ کر اور نامرادی کیا ہوگی ؟ اب اس تمثیل پر غور فرمایئے جو یہاں ذکر کی گئی ہے۔ تمثیل کی وضاحت آپ نے اگر پہاڑی علاقے دیکھے ہیں تو اس میں دیکھا ہوگا کہ بعض دفعہ کسی چٹان پر مسلسل مٹی پڑنے سے ایک تہ سی بن جاتی ہے۔ دیکھنے والا یہ سمجھتا ہے کہ یہ شاید زمین کا حصہ ہے۔ چناچہ وہاں رہنے والے اسی غلط فہمی کی بنیاد پر بعض دفعہ اس پر مکان بنا لیتے ہیں یا اس پر کاشت کاری شروع کردیتے ہیں۔ لیکن اس کی حقیقت اس وقت کھلتی ہے جب پہاڑوں پر تیز بارش ہو اور پھر وہ ایک سیل کی شکل میں نیچے اترے تو اس کا بہائو اتنا شدید اور تیز ہوتا ہے کہ راستے میں آنے والے درخت اکھڑ جاتے ہیں ‘ زمینیں ادھڑ جاتی ہیں اور جب وہ ایسی زمین سے گزرتا ہے تو چٹان پر جمی ہوئی ساری مٹی کو بہا کرلے جاتا ہے۔ اگر اس پر کوئی فصل کاشت کی گئی ہے تو وہ بھی ساتھ بہہ جاتی ہے اور اگر اس پر آبادی ہے تو وہ بھی تباہ ہوجاتی ہے۔ ایسے واقعات اکثر پہاڑی علاقوں میں ہوتے ہیں اور اخبارات میں اس کی اطلاعات بھی چھپتی رہتی ہیں۔ اس کو لینڈ سلائیڈ (Land Slide) کہتے ہیں۔ اس تمثیل کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح ایک کسان ایک ایسی زمین پر فصل اگاتا ہے جس کے نیچے سخت اور چکنی چٹان ہے ‘ جب بارش کا ایک زور کا ڈونگڑا اس پر پڑتا ہے تو چٹان کے اوپر کی ساری مٹی فصل سمیت وادی میں بہہ جاتی ہے اور نیچے گنجے سر کی مانند چٹان نکل آتی ہے اور اس طرح اس محروم و بدقسمت کسان کی ساری محنت ضائع ہوجاتی ہے۔ یہی حال اس خیرات کرنے والے کی خیرات کا بھی ہے کہ اس نے خیرات کرنے کے بعد احسان جتایا اور دل آزاری کی تو اس نے بھی اپنی خیرات کی فصل ایک ایسی چٹان پر اٹھائی جس پر مٹی کی تہ جمی ہوئی تھی۔ جب احسان جتانے اور دل آزاری کرنے کے عمل نے اس پر حملہ کیا تو ساری خیرات جاتی رہی اور یہ محروم دیکھتا رہ گیا۔ اس کے بعد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نا شکروں کو کبھی منزل مراد تک نہیں پہنچاتا۔ یہاں نا شکرے سے مراد وہ لوگ ہیں جو اللہ کی نعمتوں پر شکر ادا کرنے کی بجائے کفرانِ نعمت کرتے ہیں۔ اور اللہ نے جو دولت ان کو عطا کر رکھی ہے اسے یا تو خرچ نہیں کرتے اور اگر کرتے ہیں تو ” مَنْ و اَذٰی “ جیسی حرکتیں انھیں محروم کردیتی ہیں اور وہ اپنی منزل مراد سے دور ہوجاتے ہیں۔ (ایک اہل علم نے اس تمثیل کا مفہوم اس طرح ذکر کیا ہے کہ اس تمثیل میں بارش سے مراد خیرات ہے۔ چٹان سے مراد اس نیت اور اس جذبے کی خرابی ہے جس کے ساتھ خیرات کی گئی ہے۔ مٹی کی ہلکی تہ سے مراد نیکی کی وہ ظاہری شکل ہے جس کے نیچے نیت کی خرابی چھپی ہوئی ہے۔ اس توضیح کے بعد مثال اچھی طرح سمجھ میں آسکتی ہے۔ بارش کا فطری اقتضا تو یہی ہے کہ اس سے روئیدگی ہو اور کھیتی نشو و نما پائے ‘ لیکن جب روئیدگی قبول کرنے والی زمین محض برائے نام اوپر ہی اوپر ہو اور اس اوپری تہ کے نیچے نری پتھر کی ایک چٹان رکھی ہوئی ہو تو بارش مفید ہونے کے بجائے الٹی مضر ہوگی۔ اسی طرح خیرات بھی اگرچہ بھلائیوں کو نشو و نما دینے کی قوت رکھتی ہے ‘ مگر اس کے نافع ہونے کے لیے حقیقی نیک نیتی شرط ہے۔ نیت نیک نہ ہو تو ابر کرم کا فیضان بجز اس کے کہ محض ضیاع مال ہے اور کچھ نہیں) (تفہیم القرآن )
Top