Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
228
229
230
231
232
233
234
235
236
237
238
239
240
241
242
243
244
245
246
247
248
249
250
251
252
253
254
255
256
257
258
259
260
261
262
263
264
265
266
267
268
269
270
271
272
273
274
275
276
277
278
279
280
281
282
283
284
285
286
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Ruh-ul-Quran - Al-Baqara : 254
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَنْفِقُوْا مِمَّا رَزَقْنٰكُمْ مِّنْ قَبْلِ اَنْ یَّاْتِیَ یَوْمٌ لَّا بَیْعٌ فِیْهِ وَ لَا خُلَّةٌ وَّ لَا شَفَاعَةٌ١ؕ وَ الْكٰفِرُوْنَ هُمُ الظّٰلِمُوْنَ
يٰٓاَيُّهَا
: اے
الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا
: جو ایمان لائے (ایمان والے)
اَنْفِقُوْا
: تم خرچ کرو
مِمَّا
: سے۔ جو
رَزَقْنٰكُمْ
: ہم نے دیا تمہیں
مِّنْ قَبْلِ
: سے۔ پہلے
اَنْ
: کہ
يَّاْتِيَ
: آجائے
يَوْمٌ
: وہ دن
لَّا بَيْعٌ
: نہ خریدو فروخت
فِيْهِ
: اس میں
وَلَا خُلَّةٌ
: اور نہ دوستی
وَّلَا شَفَاعَةٌ
: اور نہ سفارش
وَالْكٰفِرُوْنَ
: اور کافر (جمع)
ھُمُ
: وہی
الظّٰلِمُوْنَ
: ظالم (جمع)
(اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو ! خرچ کرو اس سے جو کچھ ہم نے تمہیں بخشا ہے اس دن کے آنے سے پہلے جس میں نہ خریدوفروخت ہوگی اور نہ دوستی کام آئے گی اور نہ کسی کی سفارش نفع پہنچائے گی۔ اور جو لوگ کافر ہیں وہی اپنے اوپر ظلم ڈھانے والے ہیں
یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَنْفِقُوْا مِِمَّا رَزَقْنٰـکُمْ مِّنْ قَبْلِ اَنْ یَّاْتِیَ یَوْمٌ لَّا بَیْعٌ فِیْہِ وَلَاخُلَّـۃٌ وَّلَا شَفَاعَۃٌ ط وَالْـکٰفِرُوْنَ ہُمُ الظّٰلِمُوْنَ ۔ (اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو ! خرچ کرو اس سے جو کچھ ہم نے تمہیں بخشا ہے اس دن کے آنے سے پہلے جس میں نہ خریدوفروخت ہوگی اور نہ دوستی کام آئے گی اور نہ کسی کی سفارش نفع پہنچائے گی۔ اور جو لوگ کافر ہیں وہی اپنے اوپر ظلم ڈھانے والے ہیں) (254) گزشتہ دو رکوع سے مختلف اسالیب بدل بدل کر جہاد اور انفاق کا مضمون بیان کیا جا رہا تھا کہ درمیان میں دو آیتیں جملہ معترضہ کے طور پر آگئیں۔ اس کا سبب یہ معلوم ہوتا ہے کہ بنی اسرائیل کے ایک خاص دور کی تاریخ کو تورات نے جس طرح ایک کہانی بنا کے رکھ دیا تھا اور واقعات کی ترتیب اور تفصیل میں رنگ آمیزی کی خاطر جو غلطیاں کی گئی تھیں قرآن کریم نے اس طرح ان کی اصلاح کی اور ان کے اصل مقاصد کو اس طرح نمایاں کیا جس سے یہ بات خود بخود ثابت ہوگئی کہ ایسی تصحیح اور تصویب اللہ ہی کی جانب سے ہوسکتی ہے کیونکہ دنیا کی کسی لائبریری اور کسی ذریعہ علم کے پاس ایسے وسائل نہیں ہیں جن سے وہ ایسی تاریخی غلطیوں کی اصلاح کرسکے جس کا دنیا میں جاننے کا کوئی ذریعہ نہیں۔ اللہ تعالیٰ چونکہ ماضی ‘ حال اور مستقبل کو یکساں جانتے ہیں اس لیے تاریخ کا وہ زمانہ جو مردہ ہوچکا ہے زندہ شکل میں لوگوں کے سامنے لاسکتے ہیں۔ اور جس انسانِ عظیم کے واسطے سے پروردگار انسانوں پر ایسا کرم فرماتا ہے اسے اللہ کا رسول کہا جاتا ہے۔ چناچہ ان تاریخی واقعات کو ٹھیک ٹھیک ذکر کرنے کے بعد اس طرف توجہ دلانا ضروری ہوگیا کہ دیکھو جو شخص نہایت اعتماد کے ساتھ تمہاری کتابوں کی غلطیوں کی اصلاح کر رہا ہے اور حکمت و نصیحت کے ان جواہر کو تمہارے سپرد کر رہا ہے جس کے جاننے کا دنیا میں کوئی ذریعہ نہیں وہ یقینا اللہ کا رسول ہے۔ اور اس کی رسالت کے اثبات کی یہ ایسی حتمی اور قطعی دلیل ہے جس کے بعد کسی کو بھی انکار کی گنجائش باقی نہیں رہتی۔ لیکن پھر انسان جب اہل کتاب اور دوسرے لوگوں کے اختلافات کو دیکھتا ہے تو وہ سر پکڑ کے بیٹھ جاتا ہے کہ اگر یہ حقیقت اتنی واضح ہے تو یہ لوگ آخری رسول پر ایمان لا کر اپنے سارے اختلافات کو ختم کیوں نہیں کرلیتے۔ چناچہ دوسری آیت میں اس کا جواب دینا بھی ضروری ہوگیا۔ تو یہ دو آیتیں جملہ معترضہ کے طور پر اس حقیقت کو نمایاں کرنے کے لیے لائی گئیں جس کا ہم نے ذکر کیا۔ اور اب پھر سلسلہ کلام اسی موضوع سے جوڑا جا رہا ہے جو زیر بحث تھا۔ آیت نمبر 245 میں انفاق کی دعوت دی گئی تھی اسی کو زیادہ موثر بنانے کے لیے اس آیت کریمہ میں ایک خاص اسلوب کے ساتھ انفاق کے حکم کو دہرایا جا رہا ہے۔ اور یہ حکم اس خوبی اور اس بلاغت کے ساتھ دیا گیا ہے جس سے انفاق میں آسانی بھی پیدا ہوتی ہے اور ان خرابیوں کی نشاندہی بھی ہوجاتی ہے جس کی وجہ سے انسانوں کے عقائد میں دراڑیں پیدا ہوئی ہیں اور وہ اللہ کے ساتھ حقیقی تعلق پیدا کرنے سے قاصر ہوگئے ہیں۔ جہاں تک آسانی پیدا کرنے کا تعلق ہے اس آیت کے الفاظ پر غور فرمائیے فرمایا جا رہا ہے کہ مسلمانو ! تم اللہ کے راستے میں اس مال و دولت اور ان نعمتوں میں سے خرچ کرو جو اللہ نے تمہیں عطا کی ہیں۔ یہ انفاق کی دلیل بھی ہے اور اس کی تسھیل بھی۔ دلیل اس طرح سے ہے کہ تمہاری پاس جو کچھ مال و دولت ہے اور جن ذرائع سے تم نے کمایا ہے ان دونوں میں سے کونسی چیز ایسی ہے جس کو تم نے وجود دیا ہے ‘ جس کے تم خالق ہو اور جسکو تم واقعی اپنا کہہ سکتے ہو ؟ کیونکہ جن ذرائع کو استعمال کر کے تم نے دولت کمائی ہے ان میں سے ایک ایک ذریعہ اللہ نے پیدا کیا ہے۔ تم نے ذہانت لڑائی ‘ صلاحیت صرف کی ‘ پسینہ بہایا ‘ دوڑ بھاگ کی ‘ سلیقے سے لوگوں سے معاملہ کیا اس کے نتیجے میں تمہیں دولت ملی۔ ذرا غیر جانبداری سے بتایئے کہ ان میں سے کون سی چیز تمہاری ہے ؟ ان میں سے تو ہر چیز خود بول رہی ہے کہ میں اللہ کی مخلوق ہوں۔ اور تم پر جو اللہ نے احسانات کیے ہیں میں ان احسانات کی شکل و صورت ہوں۔ اسی طرح جن نعمتوں کو تم نے حاصل کیا ہے وہ اگر جنس کی شکل میں ہیں تو تب بھی اللہ کی مخلوق ہیں ‘ وہ علم کی شکل میں ہیں تو وہ بھی اللہ کی مخلوق اور اس کا نور ہیں اور اگر وہ جاہ و منصب کی صورت میں ہیں تو وہ بھی اللہ کی دین ہیں۔ مختصر یہ کہ جب خود مال و دولت اور اس کے حاصل کرنے کے ذرائع اللہ ہی کی ملکیت ‘ اللہ ہی کی بخشش اور اللہ ہی کی مخلوق ہیں تو پھر اللہ کو بجا طور پر اس کا حق پہنچتا ہے کہ وہ اپنے بندوں کو ان نعمتوں کے خرچ کرنے کا حکم دے۔ کیونکہ دنیا کا ہر قانون ‘ دنیا کا اخلاق اور دنیا کی عقل باور کرتی ہے کہ مالک اپنے مملوک کو اور آقا اپنے غلام کو ہر طرح کا حکم دینے کا حق رکھتا ہے۔ رہی بات تسہیل کی تو وہ اس طرح ہوتی ہے کہ جب ایک آدمی سے یہ کہا جاتا ہے کہ تم اللہ کے راستے میں خرچ کرو تو خرچ کرنا اسے گراں گزرتا ہے لیکن جب اس کے ذہن میں یہ بات پیوست ہوجائے کہ خرچ مجھے اس مال میں سے کرنا ہے جسے اللہ ہی نے عطا کیا ہے تو پھر وہ بڑی آسانی سے خرچ کرنے کے لیے تیار ہوجاتا ہے۔ کیونکہ دینے والا اگر اپنی دی ہوئی نعمتوں میں سے چند نعمتیں مانگ لے تو اسے دینے میں تأمل نہیں ہونا چاہیے۔ کیونکہ اس کا حق تو یہ ہے کہ وہ سارا بھی لے سکتا ہے کیونکہ اس کا مالک وہی ہے۔ لیکن جب وہ یہ کہے کہ اس میں سے اڑھائی فیصد میرے راستے میں خرچ کردو یا ہنگامی حالات میں جائز ضرورتوں سے جو کچھ بچے وہ میرے راستے میں دے دو ۔ آدمی خوش ہو کر خرچ کرتا ہے کہ اسے تو سارا مال لینے کا حق تھا لیکن وہ تھوڑا سا اپنے لیے مانگتا ہے باقی وہ میرے پاس چھوڑتا ہے۔ اور اس پر بھی مزید اس کا کرم یہ ہے کہ جب وہ مانگتا ہے تو اس لیے نہیں مانگتا کہ تمہیں یہ کبھی واپس نہیں ملے گا حالانکہ مانگنے کا منطقی تقاضا تو یہی ہے جب ہم کسی کے مانگنے پر کسی کو کوئی چیز دے دیتے ہیں تو پھر اس کی واپسی کا تو کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا لیکن اللہ تعالیٰ جب اپنے بندوں کو خرچ کرنے کے لیے کہتے ہیں تو ساتھ ہی یہ فرماتے ہیں کہ یہ تمہارا میرے ذمے قرض ہے اور قرض وہ ہوتا ہے جس کی واپسی لازم ہوتی ہے اور دینے والا اپنے مقروض سے بجا طور پر اس کا مطالبہ کرسکتا ہے۔ اور اس پر بھی مزید اللہ کی عنایت یہ ہے کہ وہ اپنے دینے والے بندے کو جب واپس کرے گا تو صرف اتنا ہی واپس نہیں کرے گا جتنا اس نے خرچ کیا ہے بلکہ اس کے خلوص کے مطابق نہ جانے کتنے گنا بڑھا چڑھا کر اسے واپس دیا جائے گا کبھی ایک کے بدلے میں دس ‘ کبھی سات سو اور کبھی بیشمار یعنی جیسے جیسے دینے والے کا اخلاص اور فدائیت کا جذبہ بڑھتا جاتا ہے ویسے ویسے اللہ کی طرف سے بڑھانے چڑھانے کا عمل بھی بڑھتا جاتا ہے۔ اس کے بعد حکمت و دانش کی بات فرمائی۔ وہ یہ کہ تمہیں خوب معلوم ہے کہ تم میں سے ہر آدمی اپنے انجام کی طرف بڑھ رہا ہے کسی کو اس دنیا میں ہمیشہ نہیں رہنا۔ طبعی عمر گزارنے کے بعد ہر ایک کو موت کا شکار ہونا ہے۔ کیونکہ اگر کسی کے لیے دوام ہوتا تو وہ اللہ کے نبی یا خاتم النبیین ہوتے۔ کیونکہ وہی اپنے مرتبہ و مقام کے لحاظ سے اس قابل تھے کہ انھیں کبھی موت نہ آتی۔ لیکن اللہ کا قانون ایسا اٹل ہے کہ جسے بھی اللہ نے زندگی عطا کی ہے وہ ایک نہ ایک دن ضرور موت کا شکار ہوگا۔ سچ کہا امیر مینائی نے ؎ جو زندہ ہے وہ موت کی تکلیف سہے گا جب احمد مرسل نہ رہے کون رہے گا اس کا مطلب یہ ہے کہ تمہاری زندگی کے خاتمے کے ساتھ یہ مال و دولت تمہارے ہاتھوں سے نکل جائے گا۔ اگر تم اسے ایک لا زوال خزانے میں تبدیل کرنا چاہتے ہو تو اس کی صرف ایک صورت ہے کہ اللہ کے راستے میں اسے خرچ کردو۔ وہ فرماتا ہے کہ ” میرے راستے میں اگر ایک دانہ بھی خرچ کیا جاتا ہے تو میں اسے اس طرح پالتا ہوں جس طرح تم نہایت چاہت سے گھوڑے کے بچے کو پالتے ہو۔ میں اسے بڑھاتا رہتا ہوں حتیٰ کہ وہ دانہ احد پہاڑ سے بھی بڑا ہوجاتا ہے۔ اور جو شخص اللہ کے راستے میں خرچ نہیں کرتا اور وہ ساری زندگی اسے سینچ سینچ کر اور جوڑ جوڑ کر رکھتا ہے اور خود ایک چوکیدار کی طرح پہرہ دیتا ہوا زندگی گزار دیتا ہے۔ تو اگر اولاد کی صحیح تربیت نہیں ہوئی تو وہ اس پیسے کو اس طرح بےدریغ لٹاتے ہیں کہ اس کی زندگی بھر کی کمائی دنوں میں اڑا دی جاتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ اس آیت کریمہ میں ترغیب اور ترہیب کا ایک امتزاج پیدا کیا گیا ہے جس کی تفصیل یہ ہے کہ دنیا میں انسان اپنی دولت سے مختلف فوائد اٹھاتا ہے۔ کبھی اسے کاروبار میں لگا کر روز بروز ترقی دینے کی کوشش کرتا ہے ‘ کبھی اسی کمائی ہوئی دولت کے بل بوتے پر بڑے بڑے لوگوں سے دوستی کے رشتے قائم کرتا ہے ‘ لوگوں کو دعوتیں کھلاتا ہے ‘ مختلف طریقوں سے اپنے تعلقات میں اضافہ کرتا ہے ‘ پھر ان تعلقات کو اپنے فوائد کے لیے استعمال کرتا ہے اور کبھی دوسرے کے کام آنے کے لیے سفارش کا بھی ذریعہ بنتا ہے۔ مختصر یہ کہ وہ اپنی دولت کو جس طرح اپنی ذات پر خرچ کرتا ہے اسی طرح اپنی شخصیت کی تعمیر اور اپنے اثر و رسوخ میں اضافے کے لیے بھی بروئے کار لاتا ہے۔ یہاں ترغیب اس طرح دی جا رہی ہے کہ تم اپنی دولت کو اگر اللہ کے راستے میں صرف کرو تو جس دولت کو تم دنیا کی افزائش اور اثر و رسوخ پیدا کرنے کے کام میں لا رہے ہو وہی دولت تمہیں اللہ کے قریب کرسکتی ہے ‘ اسی سے تم جنت خرید سکتے ہو۔ اسی کے خرچ کرنے سے تمہاری نیکیوں میں اضافہ ہوسکتا ہے اور تم اپنی آخرت کو سنوار سکتے ہو اور اگر تم ایسا نہیں کرتے تو پھر ترہیب سے کام لیتے ہوئے فرمایا کہ اس بات کو یاد رکھو کہ تمہیں ایک دن موت آئے گی ‘ اس کے بعد تمہاری دنیوی زندگی ختم ہوجائے گی ‘ تم برزخی زندگی گزارنے کے بعد اخروی زندگی میں داخل ہوجاؤ گے اور یہ اخروی زندگی وہ ہوگی جس میں نہ تو تم اپنی دولت سے کوئی چیز خرید سکو گے اور نہ تم کوئی چیز بیچ سکو گے۔ نہ وہاں کسی کی دوستی تمہارے کام آئے گی ‘ نہ کسی کی سفارش تمہیں نفع پہنچا سکے گی۔ وہاں تو زندگی میں کی ہوئی نیکیاں اور اللہ کے راستے میں ایثار اور انفاق کا سرمایہ تمہارے کام آئے گا۔ تو آج اس کا موقع ہے کہ تم موت آنے سے پہلے پہلے اپنی دولت کو اللہ کی راستے میں صرف کر کے اس دن اپنی سرخروئی کا سامان کرلو جس دن سوائے ایمان و عمل کے کوئی چیز کام آنے والی نہیں۔ وَالْکٰفِرُوْنَ ہُمُ الظّٰلِمُوْنَ یہاں کافرون سے مراد وہ لوگ ہیں جو ایمان و عمل اور ایثار و انفاق کی بجائے چند غلط عقائد پر بھروسہ کرتے ہیں۔ انھوں نے چند عقیدے وضع کرلیے ہیں جس کی وجہ سے وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ہمیں قیامت کی ہولناکیوں سے ڈرنے کی کوئی وجہ نہیں۔ کیونکہ جس طرح دنیا میں ہم نے اپنی دولت سے کام لے کر ہر چیز کو اپنے لیے خرید لیا اور جسے چاہا بیچ دیا ‘ اسی سے ہم نے بڑے بڑے لوگوں سے دوستیاں پیدا کیں ‘ قیامت کے دن بھی یہی دولت ہمارے کام آئے گی۔ اور جن کے نام پر ہم چڑھاوے چڑھاتے رہے ہیں اور یہ سمجھتے رہے ہیں کہ وہ کل کو ہماری سفارش کریں گے جس طرح مشرکین مکہ فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں قرار دیتے تھے اور ان کے بارے میں یقین رکھتے تھے کہ وہ اپنے باپ سے سفارش کر کے ہمیں عذاب سے بچا لیں گی۔ جس طرح اہل کتاب نے بھی مختلف تصورات بنا رکھے تھے اور انہی تصورات میں سے بالخصوص شفاعت کے غلط تصور نے انھیں ایمان و عمل سے بالکل محروم کردیا تھا۔ انہی کے بارے میں فرمایا جا رہا ہے کہ یہ لوگ حقیقت میں ظالم ہیں کہ اللہ نے ان کو جسمانی صلاحیتیں ‘ دماغی رعنائیاں اور قلب کا سوز و گداز اس لیے عطا فرمایا تھا کہ وہ اپنے لیے آخرت کو آسان کریں اور ایمان و عمل کا سرمایہ بہم پہنچا کر اللہ کی رضا حاصل کریں۔ لیکن انھوں نے ہر چیز پر ظلم کیا۔ ظلم کا معنی ہوتا ہے وَضْعُ الشَّیْئِ فِیْ غَیْرِمَحَلِّہٖ (کسی چیز کو ایسی جگہ رکھنا جو اس کی اصل جگہ نہیں) سر اللہ کے سامنے جھکنا چاہیے اسے غیر اللہ کے سامنے جھکانا ‘ جسم و جان کی صلاحیتیں اللہ کے دین کی سربلندی اور خلق خدا کی خدمت پر صرف ہونی چاہییں انھیں اپنی ذات کی سربلندی اور غیر خدا کی عبادت اور مقاصد ِ شر کو پھیلانے کے لیے استعمال کرنا۔ یعنی ہر حقیقت کی ماہیت کو بدل دینا۔ یہی وہ ظلم ہے جسے انھوں نے اپنی پوری زندگی کے ساتھ روا رکھا۔ اسی ظلم نے انھیں غیر اللہ کے سامنے جھکایا۔ دنیا کی محبت میں غرق کیا ‘ ایمان و عمل پر بھروسہ کرنے کی بجائے شفاعت کے غلط تصور پر بھروسہ کر کے بیٹھ گئے۔ اس طرح ان کی پوری زندگی محرومیوں کی تصویر بن گئی۔ انہی تصورات سے تقریب پیدا ہوئی کہ ایسے لوگوں کے سامنے نہایت خوبصورت اور موثر الفاظ میں اللہ کی ذات وصفات اور اس کے حقوق کا ایک ایسا جامع تصور آنا چاہیے جو ان کی پوری زندگی میں تبدیلی کا باعث بنے ‘ چناچہ اسی تقریب سے آیۃ الکرسی جیسی خوبصورت آیت وجود میں آئی۔ جس کی بلاغتوں کی کوئی انتہا نہیں اور جس کے الفاظ و مفاہیم کو سمجھنے سے بڑے بڑے دانشور عاجز ہیں۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا : ان اعظم آیۃ فی القراٰن اٰیۃ الکرسی (قرآن کی سب سے عظیم الشان آیت آیۃ الکرسی ہے)
Top