Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
228
229
230
231
232
233
234
235
236
237
238
239
240
241
242
243
244
245
246
247
248
249
250
251
252
253
254
255
256
257
258
259
260
261
262
263
264
265
266
267
268
269
270
271
272
273
274
275
276
277
278
279
280
281
282
283
284
285
286
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Ruh-ul-Quran - Al-Baqara : 247
وَ قَالَ لَهُمْ نَبِیُّهُمْ اِنَّ اللّٰهَ قَدْ بَعَثَ لَكُمْ طَالُوْتَ مَلِكًا١ؕ قَالُوْۤا اَنّٰى یَكُوْنُ لَهُ الْمُلْكُ عَلَیْنَا وَ نَحْنُ اَحَقُّ بِالْمُلْكِ مِنْهُ وَ لَمْ یُؤْتَ سَعَةً مِّنَ الْمَالِ١ؕ قَالَ اِنَّ اللّٰهَ اصْطَفٰىهُ عَلَیْكُمْ وَ زَادَهٗ بَسْطَةً فِی الْعِلْمِ وَ الْجِسْمِ١ؕ وَ اللّٰهُ یُؤْتِیْ مُلْكَهٗ مَنْ یَّشَآءُ١ؕ وَ اللّٰهُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ
وَقَالَ
: اور کہا
لَهُمْ
: انہیں
نَبِيُّهُمْ
: ان کا نبی
اِنَّ
: بیشک
اللّٰهَ
: اللہ
قَدْ بَعَثَ
: مقرر کردیا ہے
لَكُمْ
: تمہارے لیے
طَالُوْتَ
: طالوت
مَلِكًا
: بادشاہ
قَالُوْٓا
: وہ بولے
اَنّٰى
: کیسے
يَكُوْنُ
: ہوسکتی ہے
لَهُ
: اس کے لیے
الْمُلْكُ
: بادشاہت
عَلَيْنَا
: ہم پر
وَنَحْنُ
: اور ہم
اَحَقُّ
: زیادہ حقدار
بِالْمُلْكِ
: بادشاہت کے
مِنْهُ
: اس سے
وَلَمْ يُؤْتَ
: اور نہیں دی گئی
سَعَةً
: وسعت
مِّنَ
: سے
الْمَالِ
: مال
قَالَ
: اس نے کہا
اِنَّ
: بیشک
اللّٰهَ
: اللہ
اصْطَفٰىهُ
: اسے چن لیا
عَلَيْكُمْ
: تم پر
وَزَادَهٗ
: اور اسے زیادہ دی
بَسْطَةً
: وسعت
فِي
: میں
الْعِلْمِ
: علم
وَالْجِسْمِ
: اور جسم
وَاللّٰهُ
: اور اللہ
يُؤْتِيْ
: دیتا ہے
مُلْكَهٗ
: اپنا بادشاہ
مَنْ
: جسے
يَّشَآءُ
: چاہتا ہے
وَاللّٰهُ
: اور اللہ
وَاسِعٌ
: وسعت والا
عَلِيْمٌ
: جاننے والا
اور ان کے نبی نے ان کو بتایا کہ اللہ نے تمہارے لیے طالوت کو امیر مقرر کردیا ہے۔ وہ بولے کہ بھلا اس کی امارت ہمارے اوپر کیسے ہوسکتی ہے جبکہ اس سے زیادہ اس امارت کے ہم حقدار ہیں اور اسے تو مال کی وسعت بھی حاصل نہیں۔ نبی نے کہا بیشک اللہ نے تمہاری سرداری کے لیے اسی کو چنا ہے اور اس کو علم اور جسم دونوں میں کشادگی عطا فرمائی ہے۔ اللہ اپنی طرف سے جسے چاہتا ہے اقتدار بخشتا ہے اور اللہ بڑی وسعت والا اور بڑا علم رکھنے والا ہے
وَقَالَ لَہُمْ نَبِیُّہُمْ اِنَّ اللّٰہَ قَدْ بَعَثَ لَـکُمْ طَالُوْتَ مَلِکًا ط قَالُوْٓا اَنّٰی یَکُوْنُ لَـہُ الْمُلْکُ عَلَیْنَا وَنَحْنُ اَحَقُّ بِالْمُلْـکِ مِنْہُ وَلَمْ یُؤْتَ سَعَۃً مِّنَ الْمَالِ ط قَالَ اِنَّ اللّٰہَ اصْطَفٰـہُ عَلَیْکُمْ وَ زَادَہٗ بَسْطَۃً فِی الْعِلْمِ وَالْجِسْمِ ط وَاللّٰہُ یُؤْتِیْ مُلْـکَہٗ مَنْ یَّشَآئُ ط وَاللّٰہُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ۔ وَقَالَ لَہُمْ نَبِیُّہُمْ اِنَّ اٰیَۃَ مُلْکِہٖٓ اَنْ یَّاْتِیَکُمُ التَّابُوْتُ فِیْہِ سَکِیْنَۃٌ مِّنْ رَّبِّـکُمْ وَ بَقِیَّۃٌ مِّمَّا تَرَکَ اٰلُ مُوْسٰی وَاٰلُ ھٰرُوْنَ تَحْمِلُـہٗ الْمَلٰٓئِکَۃُ ط اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیَۃً لَّـکُمْ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ ۔ ع (اور ان کے نبی نے ان کو بتایا کہ اللہ نے تمہارے لیے طالوت کو امیر مقرر کردیا ہے۔ وہ بولے کہ بھلا اس کی امارت ہمارے اوپر کیسے ہوسکتی ہے جبکہ اس سے زیادہ اس امارت کے ہم حقدار ہیں اور اسے تو مال کی وسعت بھی حاصل نہیں۔ نبی نے کہا بیشک اللہ نے تمہاری سرداری کے لیے اسی کو چنا ہے اور اس کو علم اور جسم دونوں میں کشادگی عطا فرمائی ہے۔ اللہ اپنی طرف سے جسے چاہتا ہے اقتدار بخشتا ہے اور اللہ بڑی وسعت والا اور بڑا علم رکھنے والا ہے۔ اور ان کے نبی نے ان سے کہا اس کی امارت کی نشانی یہ ہے کہ تمہارے پاس وہ صندوق آجائے گا جس میں تمہارے رب کی طرف سے سامانِ تسکین اور آل موسیٰ اور آل ہارون کی چھوڑی ہوئی یادگاریں ہیں۔ صندوق کو فرشتے اٹھائے ہوئے ہوں گے۔ اس میں تمہارے لیے بڑی نشانی ہے اگر تم ایمان رکھتے ہو) ( 247 تا 248) طالوت کا تقرر اور بنی اسرائیل کے اعتراضات اس آیت کریمہ میں بنی اسرائیل کے مطالبے کے مطابق ان پر امیر مقرر کرنے کا ذکر ہے اور ساتھ ہی ان کی ان کمزوریوں کو بھی نمایاں کیا گیا ہے جس کی وجہ سے وہ ہر دور میں اللہ کے غضب کا شکار ہوتے رہے۔ اور دوسری قوموں کے ہاتھوں بالعموم ذلیل ہوتے رہے۔ گزشتہ آیت میں ان کا مطالبہ بیان کیا گیا ہے کہ انھوں نے حضرت سموئیل سے کہا اب آپ بوڑھے ہوچکے ہیں اور ہم چہار اطراف سے دشمنوں میں گھرے ہوئے ہیں۔ ہمیں ایک ایسا امیر چاہیے جو جنگ میں ہماری قیادت کرسکے۔ جس سے ہم اپنی کھوئی ہوئی عزت اور وقار بحال کرسکیں۔ چناچہ ان کے مطالبے کے مطابق حضرت سموئیل (علیہ السلام) نے ان پر طالوت کو امیر مقرر فرمایا۔ بعض محققین کی تحقیق کے مطابق طالوت اصل میں طولوت ہے۔ جس کا معنی ہوتا ہے ” لمبا تڑنگا “ طالوت کے بارے میں تورات کا بیان ہے کہ یہ شخص بنی اسرائیل میں سب سے قدآور اور سب سے لمبا تھا۔ یہ لوگوں کے ہجوم میں کھڑا ہوتا تو سب سے لمبا دکھائی دیتا۔ قامت کی اس طوالت کے باعث لوگوں میں وہ طالوت کے نام سے مشہور ہوگیا۔ اس لحاظ سے معلوم ہوتا ہے طالوت اس کا لقب تھا اور اس کا نام تورات کی روایت کے مطابق سائول تھا۔ قرآن کریم نے اس کے لقب کا ذکر کیا ہے اور تورات نے اس کے نام کا۔ آیت کریمہ میں طالوت کے تقرر کے لیے بَعَثَ کا لفظ استعمال ہوا ہے ‘ جس سے اشارہ اس بات کی طرف ہے کہ طالوت کا تقرر حضرت سموئیل نے اللہ کے حکم کے مطابق کیا تھا۔ کیونکہ بائبل نے اس کی تصریح کی ہے کہ ” طالوت اپنے باپ کے گمشدہ گدھے ڈھونڈنے نکلا تھا۔ راستے میں جب سموئیل نبی کی قیام گاہ کے قریب پہنچا تو اللہ تعالیٰ نے نبی کو اشارہ کیا کہ یہی شخص ہے جس کو ہم نے بنی اسرائیل کی امارت کے لیے منتخب کیا ہے۔ چناچہ سموئیل نبی اس کو اپنے گھر لائے ‘ تیل کی کپی لے کر اس کے سر پر انڈیلی اور اسے چوما اور کہا کہ خداوند نے تجھے مسح کیا تاکہ تو اس کی میراث کا پیشوا ہو۔ اس کے بعد انھوں نے بنی اسرائیل کا اجتماع عام کر کے اس کی بادشاہی کا اعلان کیا۔ “ (سموئیل : باب 9۔ 10) اس اعلان کے بعد ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ بنی اسرائیل خوشی سے طالوت کے تقرر کو قبول کرتے اور اپنے پیغمبر کا شکریہ ادا کرتے لیکن انھوں نے اپنی قومی عادت کے مطابق اعتراضات کرنا شروع کیے۔ پہلا اعتراض یہ کیا کہ طالوت ہمارا امیر کیسے ہوسکتا ہے۔ ہم ہر لحاظ سے اس سے زیادہ امارت کے مستحق ہیں۔ اس اعتراض سے مراد ان کی یہ تھی کہ بنی اسرائیل کی روایت ہمیشہ یہ رہی ہے کہ نبی ہمیشہ بنی لاوہ کے خاندان سے ہوتا اور امیر یا بادشاہ ہمیشہ بنی یہودا میں سے ہوتا۔ اور طالوت ان دونوں خاندانوں میں سے کسی سے بھی تعلق نہیں رکھتے تھے۔ وہ بنی یامین کے خاندان کی سب سے چھوٹی شاخ کے فرد تھے اور بنی اسرائیل میں چونکہ خاندانی نسبتیں ہندوئوں کی طرح ذات پات کی حیثیت اختیار کرگئی تھیں اس لیے وہ اس کی مخالفت کو کم ہی برداشت کرتے تھے۔ جس طرح ہندوئوں میں یہ تقسیم ہے کہ ان کا مذہبی راہنما برہمن ہونا چاہیے اور ان کے دنیوی حکمران کا تعلق کھشتری خاندان سے ضروری ہے۔ اگر وہ کسی اور خاندان سے تعلق رکھتا ہے تو وہ اس کی حکومت قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ بنی اسرائیل نے اسی حوالے سے اعتراض کیا کہ طالوت تو کسی طرح ہمارے حکمران نہیں ہوسکتے۔ اور تورات سے معلوم ہوتا ہے کہ طالوت کو اپنی اس کمزوری کا خود بھی احساس تھا۔ چناچہ تورات کی روایت کے مطابق انھوں نے حضرت سموئیل کے سامنے نہایت خاکساری کے ساتھ یہ الفاظ کہے : ” سائول نے جواب دیا کیا میں بنیامینی یعنی اسرائیل کے سب سے چھوٹے خاندان سے نہیں ہوں ؟ اور کیا میرا گھرانہ بنیامین کے سب گھرانوں سے چھوٹا نہیں ہے ؟ “ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ بھی سمجھتے تھے کہ بنی یہوداہ کے خاندان سے باہر کے آدمی کو بنی اسرائیل قبول نہیں کریں گے۔ دوسرا اعتراض ان کا یہ تھا کہ چلیے اگر یہ شخص کسی بڑے خاندان سے تعلق نہیں رکھتا تو پھر اسے بڑا مالدار ہونا چاہیے۔ کیونکہ ان کی نگاہ میں عزت و وجاہت کے دو ہی حوالے تھے بڑا خاندان یا دولت و امارت۔ اور حضرت طالوت بڑائی کے ان دونوں حوالوں سے خالی تھے۔ اس لیے انھوں نے کہا کہ وہ تو ایک غریب آدمی ہیں یہ کیسی عجیب بات ہے کہ بڑے بڑے خاندانی لوگوں اور بڑے بڑے امراء کو چھوڑ کر آپ انھیں ہم پر بادشاہ بنا رہے ہیں۔ قریش بھی آنحضرت ﷺ پر جو اعتراض کرتے تھے یا آپ کی نبوت کو جن اسباب کے تحت رد کرتے تھے ان میں سب سے بڑا حوالہ یہی ہوتا تھا کہ اگر اللہ تعالیٰ کو کسی کو نبی بنانا ہی ہوتا تو وہ طائف کے رئیسوں میں سے کسی کو بناتایا قریش کے کسی رئیس کو بنا دیتا۔ آپ جیسا نادار اور قلاش آدمی کیا نبوت کے لیے منتخب کیا جاسکتا ہے ؟ نسب اور دولت یہ ایسے دو بت ہیں جنھیں ہر دور میں پوجا گیا۔ اور ہر دور کے انبیاء کرام نے انہی دونوں کے خلاف جہاد کیا۔ اور آنحضرت ﷺ نے تو اپنی تعلیم و تربیت سے صحابہ کرام میں ان دونوں باتوں کے خلاف شدید نفرت پیدا کی اور ایمان و عمل کو ایک مومن کے لیے اصل سرمایہ ٹھہرایا ہے ‘ لیکن عجیب بات یہ ہے کہ جب بھی پیغمبروں کی تعلیم و تربیت کو زوال پیش آتا ہے تو یہی دونوں بت پھر پجنا شروع ہوجاتے ہیں۔ حضرت سموئیل (علیہ السلام) نے ان کے اعتراضات کے جواب میں دو باتیں فرمائیں۔ ایک یہ کہ طالوت کا انتخاب امارت کے لیے میں نے نہیں کیا بلکہ اللہ تعالیٰ نے کیا ہے۔ اس کے انتخاب کے بعد حیل و حجت اور قیل و قال ختم ہوجانی چاہیے میں تو اس کا پیغمبر ہوں اس لیے اسی کے احکام کی تعمیل کروں گا ‘ تم اللہ اور اس کے پیغمبر پر ایمان لا چکے ہو اس لیے اس دلیل کے بعد تمہارے لیے طالوت کی امارت کو تسلیم کرنا فرض ہوجاتا ہے۔ اور دوسری بات یہ ارشاد فرمائی کہ حکومت کا نظام چلانے یا فوجوں کی کمان سنبھالنے کے لیے نہ تو کسی بڑے خاندان میں سے ہونا ضروری ہے اور نہ اس میں دولت کام آتی ہے۔ اس کے لیے تو دو باتوں کی ضرورت ہے علم اور شجاعت۔ کہ ایسا آدمی امیر ہونا چاہیے جس کے اندر ملکی انتظام چلانے ‘ قوم کی شیرازہ بندی کرنے اور دشمن کی سازشوں سے عہدہ برآ ہونے کی صلاحیت موجود ہو اور دوسری یہ بات کہ وہ مشکل سے مشکل حالات کا سامنا کرسکتا ہو۔ بڑی سے بڑی جنگ میں ثابت قدمی کا ثبوت دے سکتا ہو۔ وہ ہمت و شجاعت کا پیکر ہو جس سے پوری قوم کو حوصلہ ملے اللہ کا شکر ہے کہ یہ دونوں باتیں طالوت میں موجود ہیں۔ اللہ نے اسے علم میں تم سب پر فوقیت دی ہے اور جہاں تک اس کی جسمانی وجاہت کا تعلق ہے تم خوب جانتے ہو کہ پوری بنی اسرائیل کی قوم میں نہ اس جیسا کوئی خوبصورت آدمی ہے اور نہ اس سے زیادہ تنومند اور بہادر یہ دوسری دلیل پہلی دلیل ہی کی طرح بڑا وزن رکھتی ہے۔ لیکن صاحب ایمان امت کے لیے اصل دلیل جس کے سامنے اس کی گردن جھک جانی چاہیے وہ پہلی دلیل ہے۔ اس لیے آیت کریمہ کے آخر میں فرمایا کہ اللہ جسے چاہتا ہے حکومت عطا کرتا ہے۔ اب اگر اللہ نے یہ چاہا ہے کہ وہ طالوت کو حکومت عطا کریں تو تم اس کے اختیار کو چیلنج نہیں کرسکتے۔ اس کا فیصلہ حرف آخر ہے تمہیں بہرصورت اس کی اطاعت کرنی ہے۔ لیکن بنی اسرائیل کا فساد اور بگاڑ اس حد کو پہنچ چکا تھا کہ پیغمبر کی موجودگی اور پیغمبر کے دلائل ان کے لیے موثر ثابت نہیں ہو رہے تھے۔ اس لیے اللہ کے پیغمبر نے اللہ کے حکم سے انھیں کہا کہ تم اگر طالوت کی امارت پر یکسو نہیں ہو رہے ہو تو تمہارے سامنے اللہ کی جانب سے ایک ایسا نشان ظاہر کیا جائے گا جس کا مطلب یہ ہوگا کہ طالوت کی امارت واقعی اللہ کی جانب سے ہے۔ اور وہ نشان یہ ہے کہ وہ تابوت جس میں تمہارے لیے اطمینان اور سکون ‘ حوصلہ اور فتح مندی کا سامان ہے اور جس میں آل موسیٰ اور آل ہارون کے تبرکات ہیں اسے فرشتے اٹھائے ہوئے تمہارے ملک میں پہنچا دیں گے جب کہ تم اس قابل نہیں ہو کہ تم قوت سے دشمن سے اسے چھین لو۔ تابوتِ سکینہ کی حقیقت میں اس سے پہلے عرض کرچکا ہوں کہ تابوت سکینہ ایک صندوق تھا جس میں اس آیت کی شہادت کے مطابق آل ہارون اور آل موسیٰ کے تبرکات تھے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی زندگی میں تو اس میں صرف وہ پتھر کی تختیاں تھیں جو اللہ نے لوح محفوظ پر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو عطا کی تھیں اور تورات کا وہ مکمل نسخہ تھا جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے لکھوا کر بنی اسرائیل کے سپرد کیا تھا۔ اور صحرائی زندگی کی وہ نعمتیں جو من وسلویٰ کی صورت میں نازل ہوئیں ان میں من کو ایک بوتل میں بند کر کے اس میں رکھ دیا گیا تھا تاکہ بعد میں آنے والی نسلیں اللہ کے انعامات کو یاد رکھیں۔ لیکن بعد کے لوگوں نے اس میں عصائے موسیٰ ‘ حضرت ہارون (علیہ السلام) کا عمامہ اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے پارچات بھی اس صندوق میں رکھ دیے۔ بنی اسرائیل کے مصر سے خروج کے زمانے سے لے کر بیت المقدس کی تعمیر تک اسی صندوق کو بنی اسرائیل کے قبلہ کی حیثیت حاصل تھی۔ وہ اس کو خیمہ عبادت میں ایک مخصوص مقام پر نہایت اہتمام کے ساتھ پردوں کے بیچ میں رکھتے اور تمام دعا و عبادت میں اسی کی طرف متوجہ ہوتے۔ ان کے ربی اور کاہن غیبی رہنمائی کے لیے اسی کو مرجع بناتے ‘ مشکل حالات ‘ قومی مصائب اور جنگ کے میدانوں میں بھی بنی اسرائیل کا حوصلہ قائم رکھنے میں اس صندوق کو سب سے بڑے عامل کی حیثیت رہی۔ سکینۃ کے لفظ سے اسی کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ یعنی جنگ کی ہولناکیوں میں جب حوصلہ ٹوٹنے لگتا ہے تو اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے دلوں میں جو استقلال اور ثبات کی کیفیت پیدا فرماتے ہیں قرآن کریم میں اسی کو سکینہ قرار دیا ہے۔ اس تابوت کے چھن جانے سے بنی اسرائیل یہ سمجھتے تھے کہ اللہ تعالیٰ ہم سے ناراض ہے اور ہمارے قومی وقار کے دن گنے جا چکے ہیں۔ پیغمبر کے اس وعدے پر کہ تابوتِ سکینہ طالوت کی امارت کی علامت کے طور پر تمہیں واپس مل جائے گا ‘ بنی اسرائیل بےحد خوش ہوئے۔ اور انھیں اطمینان ہوگیا کہ اگر یہ نشانی واقعی ظاہر کردی گئی تو اس میں کوئی شبہ نہیں ہوگا کہ طالوت کو اللہ ہی نے ہم پر امیر مقرر کیا ہے اور انہی کے امارت کے تحت ہم جہاد کر کے اپنی کھوئی ہوئی عزت واپس حاصل کرسکتے ہیں۔ قرآن کریم نے اپنے اسلوب کے مطابق اس کے بعد تفصیل بیان نہیں کی کہ وہ تابوت سکینہ کیسے واپس آیا۔ البتہ سیاق کلام خود بول رہا ہے کہ تابوتِ سکینہ واپس آگیا اور اسی کے بعد جناب طالوت نے اپنے دشمنوں کے خلاف چڑھائی کی۔ تورات نے تابوتِ سکینہ کی واپس کے بارے میں جو کچھ کہا ہے اس میں اگرچہ فرشتوں کا ذکر نہیں بلکہ اس میں یہ بتایا گیا ہے کہ دو گائیاں اس چھکڑے کو جس پر تابوتِ سکینہ رکھا ہوا تھا بغیر کسی رہنما کے کھینچتی ہوئی سرحد پار کر گئیں اور بنی اسرائیل کے علاقے میں پہنچ گئیں۔ معمولی غور و فکر سے بھی یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ یقینا ان گائیوں کو راستہ دکھانے اور ہانکنے والے اور چھکڑے کی نگرانی کرنے والے فرشتے ہی ہوں گے جن کا ذکر قرآن کریم نے کیا ہے۔ تورات کا بیان یہ ہے : ” اب تم ایک نئی گاڑی بنائو اور دو دودھ والی گائیں ‘ جن کے جوا نہ لگا ہو لو اور ان گایوں کو گاڑی میں جو تو اور ان کے بچوں کو گھر لوٹا لائو اور خداوند کا صندوق لے کر اس گاڑی پر رکھو اور سونے کی چیزوں کو جن کو تم جرم کی قربانی کے طور پر ساتھ کرو گے ‘ ایک صندوقچہ میں کر کے اس کے پہلو میں رکھ دو اور اسے روانہ کردو کہ چلا جائے اور دیکھتے رہنا… سو ان لوگوں نے ایسا ہی کیا اور دو دودھ والی گائیں لے کر ان کو گاڑی میں جوتا اور ان کے بچوں کو گھر میں بند کردیا اور خداوند کے صندوق … اور صندوقچہ کو گاڑی پر رکھ دیا۔ ان گایوں نے بیت شمس کو سیدھا راستہ لیا۔ وہ سڑک ہی سڑک ڈکارتی گئیں اور داہنے یا بائیں نہ مڑیں اور فلستی سردار بیت شمس کی سرحد تک ان کے ساتھ گئے اور بیت شمس کے لوگ وادی میں گیہوں کی فصل کاٹ رہے تھے۔ انھوں نے جو آنکھیں اٹھائیں تو صندوق کو دیکھا اور دیکھتے ہی خوش ہوگئے۔ “ (سموئیل باب 6‘ 7۔ 12) تورات کے اس بیان کو غور سے دیکھئے کہ تابوتِ سکینہ کو ایک چھکڑے پر رکھا گیا اور اسے کھینچنے کے لیے دو سدھائی ہوئی گائیاں نہیں ‘ بلکہ دودھ دینے والی گائیاں جنھیں چھکڑا کھینچنے کی کوئی تربیت نہیں دی گئی اور مزید یہ کہ ان کے بچے بھی ان سے الگ کر کے گھر میں بند کردیے گئے۔ جانوروں کی عادات سے واقف لوگ جانتے ہیں کہ مادہ گائے جب کہ اس کا بچہ دودھ پیتا ہو اسے کبھی اپنے سے الگ نہیں کرسکتی اور اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ بغیر کسی راہنما اور ہانکنے والے کے گائیوں نے سیدھا بیت شمس کا راستہ اختیار کیا ‘ نہ انھوں نے دائیں دیکھا نہ بائیں ‘ ڈکارتی ہوئی سیدھی بڑھتی چلی گئیں اور بنی اسرائیل کے علاقے میں داخل ہوگئیں۔ کیا ان میں سے ایک ایک لفظ یہ بتانے کے لیے کافی نہیں کہ یقینا ان گائیوں کی رہنمائی اللہ کی جانب سے کی جا رہی تھی ‘ فرشتے ان کے یقینا دائیں بائیں تھے جو ان کو راستہ دکھا رہے تھے اور یہی وہ بات ہے جو کہ قرآن کریم نے بتائی۔ آیتِ کریمہ کے آخر میں فرمایا کہ ظاہری اسباب کے بالکل برعکس تابوتِ سکینہ کا بنی اسرائیل کے علاقے میں پہنچ جانا یہ ایسی کھلی نشانی ہے جس سے انکار ممکن نہیں۔ لیکن انسان کا عجیب حال ہے۔ وہ پتھروں کے سامنے جھکتا ہے اور اپنے خالق ومالک کا انکار کرتا ہے۔ اس لیے کہ بڑی سے بڑی حقیقت اور کھلی سے کھلی نشانی کو تسلیم کرنے کے لیے ایمان ضروری ہے۔ اس لیے فرمایا کہ اس سارے واقعے میں تمہارے لیے نشانی موجود ہے بشرطیکہ تم صاحب ایمان ہو۔
Top