Ruh-ul-Quran - Al-Baqara : 247
وَ قَالَ لَهُمْ نَبِیُّهُمْ اِنَّ اللّٰهَ قَدْ بَعَثَ لَكُمْ طَالُوْتَ مَلِكًا١ؕ قَالُوْۤا اَنّٰى یَكُوْنُ لَهُ الْمُلْكُ عَلَیْنَا وَ نَحْنُ اَحَقُّ بِالْمُلْكِ مِنْهُ وَ لَمْ یُؤْتَ سَعَةً مِّنَ الْمَالِ١ؕ قَالَ اِنَّ اللّٰهَ اصْطَفٰىهُ عَلَیْكُمْ وَ زَادَهٗ بَسْطَةً فِی الْعِلْمِ وَ الْجِسْمِ١ؕ وَ اللّٰهُ یُؤْتِیْ مُلْكَهٗ مَنْ یَّشَآءُ١ؕ وَ اللّٰهُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ
وَقَالَ : اور کہا لَهُمْ : انہیں نَبِيُّهُمْ : ان کا نبی اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ قَدْ بَعَثَ : مقرر کردیا ہے لَكُمْ : تمہارے لیے طَالُوْتَ : طالوت مَلِكًا : بادشاہ قَالُوْٓا : وہ بولے اَنّٰى : کیسے يَكُوْنُ : ہوسکتی ہے لَهُ : اس کے لیے الْمُلْكُ : بادشاہت عَلَيْنَا : ہم پر وَنَحْنُ : اور ہم اَحَقُّ : زیادہ حقدار بِالْمُلْكِ : بادشاہت کے مِنْهُ : اس سے وَلَمْ يُؤْتَ : اور نہیں دی گئی سَعَةً : وسعت مِّنَ : سے الْمَالِ : مال قَالَ : اس نے کہا اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ اصْطَفٰىهُ : اسے چن لیا عَلَيْكُمْ : تم پر وَزَادَهٗ : اور اسے زیادہ دی بَسْطَةً : وسعت فِي : میں الْعِلْمِ : علم وَالْجِسْمِ : اور جسم وَاللّٰهُ : اور اللہ يُؤْتِيْ : دیتا ہے مُلْكَهٗ : اپنا بادشاہ مَنْ : جسے يَّشَآءُ : چاہتا ہے وَاللّٰهُ : اور اللہ وَاسِعٌ : وسعت والا عَلِيْمٌ : جاننے والا
اور ان کے نبی نے ان کو بتایا کہ اللہ نے تمہارے لیے طالوت کو امیر مقرر کردیا ہے۔ وہ بولے کہ بھلا اس کی امارت ہمارے اوپر کیسے ہوسکتی ہے جبکہ اس سے زیادہ اس امارت کے ہم حقدار ہیں اور اسے تو مال کی وسعت بھی حاصل نہیں۔ نبی نے کہا بیشک اللہ نے تمہاری سرداری کے لیے اسی کو چنا ہے اور اس کو علم اور جسم دونوں میں کشادگی عطا فرمائی ہے۔ اللہ اپنی طرف سے جسے چاہتا ہے اقتدار بخشتا ہے اور اللہ بڑی وسعت والا اور بڑا علم رکھنے والا ہے
وَقَالَ لَہُمْ نَبِیُّہُمْ اِنَّ اللّٰہَ قَدْ بَعَثَ لَـکُمْ طَالُوْتَ مَلِکًا ط قَالُوْٓا اَنّٰی یَکُوْنُ لَـہُ الْمُلْکُ عَلَیْنَا وَنَحْنُ اَحَقُّ بِالْمُلْـکِ مِنْہُ وَلَمْ یُؤْتَ سَعَۃً مِّنَ الْمَالِ ط قَالَ اِنَّ اللّٰہَ اصْطَفٰـہُ عَلَیْکُمْ وَ زَادَہٗ بَسْطَۃً فِی الْعِلْمِ وَالْجِسْمِ ط وَاللّٰہُ یُؤْتِیْ مُلْـکَہٗ مَنْ یَّشَآئُ ط وَاللّٰہُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ۔ وَقَالَ لَہُمْ نَبِیُّہُمْ اِنَّ اٰیَۃَ مُلْکِہٖٓ اَنْ یَّاْتِیَکُمُ التَّابُوْتُ فِیْہِ سَکِیْنَۃٌ مِّنْ رَّبِّـکُمْ وَ بَقِیَّۃٌ مِّمَّا تَرَکَ اٰلُ مُوْسٰی وَاٰلُ ھٰرُوْنَ تَحْمِلُـہٗ الْمَلٰٓئِکَۃُ ط اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیَۃً لَّـکُمْ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ ۔ ع (اور ان کے نبی نے ان کو بتایا کہ اللہ نے تمہارے لیے طالوت کو امیر مقرر کردیا ہے۔ وہ بولے کہ بھلا اس کی امارت ہمارے اوپر کیسے ہوسکتی ہے جبکہ اس سے زیادہ اس امارت کے ہم حقدار ہیں اور اسے تو مال کی وسعت بھی حاصل نہیں۔ نبی نے کہا بیشک اللہ نے تمہاری سرداری کے لیے اسی کو چنا ہے اور اس کو علم اور جسم دونوں میں کشادگی عطا فرمائی ہے۔ اللہ اپنی طرف سے جسے چاہتا ہے اقتدار بخشتا ہے اور اللہ بڑی وسعت والا اور بڑا علم رکھنے والا ہے۔ اور ان کے نبی نے ان سے کہا اس کی امارت کی نشانی یہ ہے کہ تمہارے پاس وہ صندوق آجائے گا جس میں تمہارے رب کی طرف سے سامانِ تسکین اور آل موسیٰ اور آل ہارون کی چھوڑی ہوئی یادگاریں ہیں۔ صندوق کو فرشتے اٹھائے ہوئے ہوں گے۔ اس میں تمہارے لیے بڑی نشانی ہے اگر تم ایمان رکھتے ہو) ( 247 تا 248) طالوت کا تقرر اور بنی اسرائیل کے اعتراضات اس آیت کریمہ میں بنی اسرائیل کے مطالبے کے مطابق ان پر امیر مقرر کرنے کا ذکر ہے اور ساتھ ہی ان کی ان کمزوریوں کو بھی نمایاں کیا گیا ہے جس کی وجہ سے وہ ہر دور میں اللہ کے غضب کا شکار ہوتے رہے۔ اور دوسری قوموں کے ہاتھوں بالعموم ذلیل ہوتے رہے۔ گزشتہ آیت میں ان کا مطالبہ بیان کیا گیا ہے کہ انھوں نے حضرت سموئیل سے کہا اب آپ بوڑھے ہوچکے ہیں اور ہم چہار اطراف سے دشمنوں میں گھرے ہوئے ہیں۔ ہمیں ایک ایسا امیر چاہیے جو جنگ میں ہماری قیادت کرسکے۔ جس سے ہم اپنی کھوئی ہوئی عزت اور وقار بحال کرسکیں۔ چناچہ ان کے مطالبے کے مطابق حضرت سموئیل (علیہ السلام) نے ان پر طالوت کو امیر مقرر فرمایا۔ بعض محققین کی تحقیق کے مطابق طالوت اصل میں طولوت ہے۔ جس کا معنی ہوتا ہے ” لمبا تڑنگا “ طالوت کے بارے میں تورات کا بیان ہے کہ یہ شخص بنی اسرائیل میں سب سے قدآور اور سب سے لمبا تھا۔ یہ لوگوں کے ہجوم میں کھڑا ہوتا تو سب سے لمبا دکھائی دیتا۔ قامت کی اس طوالت کے باعث لوگوں میں وہ طالوت کے نام سے مشہور ہوگیا۔ اس لحاظ سے معلوم ہوتا ہے طالوت اس کا لقب تھا اور اس کا نام تورات کی روایت کے مطابق سائول تھا۔ قرآن کریم نے اس کے لقب کا ذکر کیا ہے اور تورات نے اس کے نام کا۔ آیت کریمہ میں طالوت کے تقرر کے لیے بَعَثَ کا لفظ استعمال ہوا ہے ‘ جس سے اشارہ اس بات کی طرف ہے کہ طالوت کا تقرر حضرت سموئیل نے اللہ کے حکم کے مطابق کیا تھا۔ کیونکہ بائبل نے اس کی تصریح کی ہے کہ ” طالوت اپنے باپ کے گمشدہ گدھے ڈھونڈنے نکلا تھا۔ راستے میں جب سموئیل نبی کی قیام گاہ کے قریب پہنچا تو اللہ تعالیٰ نے نبی کو اشارہ کیا کہ یہی شخص ہے جس کو ہم نے بنی اسرائیل کی امارت کے لیے منتخب کیا ہے۔ چناچہ سموئیل نبی اس کو اپنے گھر لائے ‘ تیل کی کپی لے کر اس کے سر پر انڈیلی اور اسے چوما اور کہا کہ خداوند نے تجھے مسح کیا تاکہ تو اس کی میراث کا پیشوا ہو۔ اس کے بعد انھوں نے بنی اسرائیل کا اجتماع عام کر کے اس کی بادشاہی کا اعلان کیا۔ “ (سموئیل : باب 9۔ 10) اس اعلان کے بعد ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ بنی اسرائیل خوشی سے طالوت کے تقرر کو قبول کرتے اور اپنے پیغمبر کا شکریہ ادا کرتے لیکن انھوں نے اپنی قومی عادت کے مطابق اعتراضات کرنا شروع کیے۔ پہلا اعتراض یہ کیا کہ طالوت ہمارا امیر کیسے ہوسکتا ہے۔ ہم ہر لحاظ سے اس سے زیادہ امارت کے مستحق ہیں۔ اس اعتراض سے مراد ان کی یہ تھی کہ بنی اسرائیل کی روایت ہمیشہ یہ رہی ہے کہ نبی ہمیشہ بنی لاوہ کے خاندان سے ہوتا اور امیر یا بادشاہ ہمیشہ بنی یہودا میں سے ہوتا۔ اور طالوت ان دونوں خاندانوں میں سے کسی سے بھی تعلق نہیں رکھتے تھے۔ وہ بنی یامین کے خاندان کی سب سے چھوٹی شاخ کے فرد تھے اور بنی اسرائیل میں چونکہ خاندانی نسبتیں ہندوئوں کی طرح ذات پات کی حیثیت اختیار کرگئی تھیں اس لیے وہ اس کی مخالفت کو کم ہی برداشت کرتے تھے۔ جس طرح ہندوئوں میں یہ تقسیم ہے کہ ان کا مذہبی راہنما برہمن ہونا چاہیے اور ان کے دنیوی حکمران کا تعلق کھشتری خاندان سے ضروری ہے۔ اگر وہ کسی اور خاندان سے تعلق رکھتا ہے تو وہ اس کی حکومت قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ بنی اسرائیل نے اسی حوالے سے اعتراض کیا کہ طالوت تو کسی طرح ہمارے حکمران نہیں ہوسکتے۔ اور تورات سے معلوم ہوتا ہے کہ طالوت کو اپنی اس کمزوری کا خود بھی احساس تھا۔ چناچہ تورات کی روایت کے مطابق انھوں نے حضرت سموئیل کے سامنے نہایت خاکساری کے ساتھ یہ الفاظ کہے : ” سائول نے جواب دیا کیا میں بنیامینی یعنی اسرائیل کے سب سے چھوٹے خاندان سے نہیں ہوں ؟ اور کیا میرا گھرانہ بنیامین کے سب گھرانوں سے چھوٹا نہیں ہے ؟ “ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ بھی سمجھتے تھے کہ بنی یہوداہ کے خاندان سے باہر کے آدمی کو بنی اسرائیل قبول نہیں کریں گے۔ دوسرا اعتراض ان کا یہ تھا کہ چلیے اگر یہ شخص کسی بڑے خاندان سے تعلق نہیں رکھتا تو پھر اسے بڑا مالدار ہونا چاہیے۔ کیونکہ ان کی نگاہ میں عزت و وجاہت کے دو ہی حوالے تھے بڑا خاندان یا دولت و امارت۔ اور حضرت طالوت بڑائی کے ان دونوں حوالوں سے خالی تھے۔ اس لیے انھوں نے کہا کہ وہ تو ایک غریب آدمی ہیں یہ کیسی عجیب بات ہے کہ بڑے بڑے خاندانی لوگوں اور بڑے بڑے امراء کو چھوڑ کر آپ انھیں ہم پر بادشاہ بنا رہے ہیں۔ قریش بھی آنحضرت ﷺ پر جو اعتراض کرتے تھے یا آپ کی نبوت کو جن اسباب کے تحت رد کرتے تھے ان میں سب سے بڑا حوالہ یہی ہوتا تھا کہ اگر اللہ تعالیٰ کو کسی کو نبی بنانا ہی ہوتا تو وہ طائف کے رئیسوں میں سے کسی کو بناتایا قریش کے کسی رئیس کو بنا دیتا۔ آپ جیسا نادار اور قلاش آدمی کیا نبوت کے لیے منتخب کیا جاسکتا ہے ؟ نسب اور دولت یہ ایسے دو بت ہیں جنھیں ہر دور میں پوجا گیا۔ اور ہر دور کے انبیاء کرام نے انہی دونوں کے خلاف جہاد کیا۔ اور آنحضرت ﷺ نے تو اپنی تعلیم و تربیت سے صحابہ کرام میں ان دونوں باتوں کے خلاف شدید نفرت پیدا کی اور ایمان و عمل کو ایک مومن کے لیے اصل سرمایہ ٹھہرایا ہے ‘ لیکن عجیب بات یہ ہے کہ جب بھی پیغمبروں کی تعلیم و تربیت کو زوال پیش آتا ہے تو یہی دونوں بت پھر پجنا شروع ہوجاتے ہیں۔ حضرت سموئیل (علیہ السلام) نے ان کے اعتراضات کے جواب میں دو باتیں فرمائیں۔ ایک یہ کہ طالوت کا انتخاب امارت کے لیے میں نے نہیں کیا بلکہ اللہ تعالیٰ نے کیا ہے۔ اس کے انتخاب کے بعد حیل و حجت اور قیل و قال ختم ہوجانی چاہیے میں تو اس کا پیغمبر ہوں اس لیے اسی کے احکام کی تعمیل کروں گا ‘ تم اللہ اور اس کے پیغمبر پر ایمان لا چکے ہو اس لیے اس دلیل کے بعد تمہارے لیے طالوت کی امارت کو تسلیم کرنا فرض ہوجاتا ہے۔ اور دوسری بات یہ ارشاد فرمائی کہ حکومت کا نظام چلانے یا فوجوں کی کمان سنبھالنے کے لیے نہ تو کسی بڑے خاندان میں سے ہونا ضروری ہے اور نہ اس میں دولت کام آتی ہے۔ اس کے لیے تو دو باتوں کی ضرورت ہے علم اور شجاعت۔ کہ ایسا آدمی امیر ہونا چاہیے جس کے اندر ملکی انتظام چلانے ‘ قوم کی شیرازہ بندی کرنے اور دشمن کی سازشوں سے عہدہ برآ ہونے کی صلاحیت موجود ہو اور دوسری یہ بات کہ وہ مشکل سے مشکل حالات کا سامنا کرسکتا ہو۔ بڑی سے بڑی جنگ میں ثابت قدمی کا ثبوت دے سکتا ہو۔ وہ ہمت و شجاعت کا پیکر ہو جس سے پوری قوم کو حوصلہ ملے اللہ کا شکر ہے کہ یہ دونوں باتیں طالوت میں موجود ہیں۔ اللہ نے اسے علم میں تم سب پر فوقیت دی ہے اور جہاں تک اس کی جسمانی وجاہت کا تعلق ہے تم خوب جانتے ہو کہ پوری بنی اسرائیل کی قوم میں نہ اس جیسا کوئی خوبصورت آدمی ہے اور نہ اس سے زیادہ تنومند اور بہادر یہ دوسری دلیل پہلی دلیل ہی کی طرح بڑا وزن رکھتی ہے۔ لیکن صاحب ایمان امت کے لیے اصل دلیل جس کے سامنے اس کی گردن جھک جانی چاہیے وہ پہلی دلیل ہے۔ اس لیے آیت کریمہ کے آخر میں فرمایا کہ اللہ جسے چاہتا ہے حکومت عطا کرتا ہے۔ اب اگر اللہ نے یہ چاہا ہے کہ وہ طالوت کو حکومت عطا کریں تو تم اس کے اختیار کو چیلنج نہیں کرسکتے۔ اس کا فیصلہ حرف آخر ہے تمہیں بہرصورت اس کی اطاعت کرنی ہے۔ لیکن بنی اسرائیل کا فساد اور بگاڑ اس حد کو پہنچ چکا تھا کہ پیغمبر کی موجودگی اور پیغمبر کے دلائل ان کے لیے موثر ثابت نہیں ہو رہے تھے۔ اس لیے اللہ کے پیغمبر نے اللہ کے حکم سے انھیں کہا کہ تم اگر طالوت کی امارت پر یکسو نہیں ہو رہے ہو تو تمہارے سامنے اللہ کی جانب سے ایک ایسا نشان ظاہر کیا جائے گا جس کا مطلب یہ ہوگا کہ طالوت کی امارت واقعی اللہ کی جانب سے ہے۔ اور وہ نشان یہ ہے کہ وہ تابوت جس میں تمہارے لیے اطمینان اور سکون ‘ حوصلہ اور فتح مندی کا سامان ہے اور جس میں آل موسیٰ اور آل ہارون کے تبرکات ہیں اسے فرشتے اٹھائے ہوئے تمہارے ملک میں پہنچا دیں گے جب کہ تم اس قابل نہیں ہو کہ تم قوت سے دشمن سے اسے چھین لو۔ تابوتِ سکینہ کی حقیقت میں اس سے پہلے عرض کرچکا ہوں کہ تابوت سکینہ ایک صندوق تھا جس میں اس آیت کی شہادت کے مطابق آل ہارون اور آل موسیٰ کے تبرکات تھے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی زندگی میں تو اس میں صرف وہ پتھر کی تختیاں تھیں جو اللہ نے لوح محفوظ پر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو عطا کی تھیں اور تورات کا وہ مکمل نسخہ تھا جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے لکھوا کر بنی اسرائیل کے سپرد کیا تھا۔ اور صحرائی زندگی کی وہ نعمتیں جو من وسلویٰ کی صورت میں نازل ہوئیں ان میں من کو ایک بوتل میں بند کر کے اس میں رکھ دیا گیا تھا تاکہ بعد میں آنے والی نسلیں اللہ کے انعامات کو یاد رکھیں۔ لیکن بعد کے لوگوں نے اس میں عصائے موسیٰ ‘ حضرت ہارون (علیہ السلام) کا عمامہ اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے پارچات بھی اس صندوق میں رکھ دیے۔ بنی اسرائیل کے مصر سے خروج کے زمانے سے لے کر بیت المقدس کی تعمیر تک اسی صندوق کو بنی اسرائیل کے قبلہ کی حیثیت حاصل تھی۔ وہ اس کو خیمہ عبادت میں ایک مخصوص مقام پر نہایت اہتمام کے ساتھ پردوں کے بیچ میں رکھتے اور تمام دعا و عبادت میں اسی کی طرف متوجہ ہوتے۔ ان کے ربی اور کاہن غیبی رہنمائی کے لیے اسی کو مرجع بناتے ‘ مشکل حالات ‘ قومی مصائب اور جنگ کے میدانوں میں بھی بنی اسرائیل کا حوصلہ قائم رکھنے میں اس صندوق کو سب سے بڑے عامل کی حیثیت رہی۔ سکینۃ کے لفظ سے اسی کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ یعنی جنگ کی ہولناکیوں میں جب حوصلہ ٹوٹنے لگتا ہے تو اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے دلوں میں جو استقلال اور ثبات کی کیفیت پیدا فرماتے ہیں قرآن کریم میں اسی کو سکینہ قرار دیا ہے۔ اس تابوت کے چھن جانے سے بنی اسرائیل یہ سمجھتے تھے کہ اللہ تعالیٰ ہم سے ناراض ہے اور ہمارے قومی وقار کے دن گنے جا چکے ہیں۔ پیغمبر کے اس وعدے پر کہ تابوتِ سکینہ طالوت کی امارت کی علامت کے طور پر تمہیں واپس مل جائے گا ‘ بنی اسرائیل بےحد خوش ہوئے۔ اور انھیں اطمینان ہوگیا کہ اگر یہ نشانی واقعی ظاہر کردی گئی تو اس میں کوئی شبہ نہیں ہوگا کہ طالوت کو اللہ ہی نے ہم پر امیر مقرر کیا ہے اور انہی کے امارت کے تحت ہم جہاد کر کے اپنی کھوئی ہوئی عزت واپس حاصل کرسکتے ہیں۔ قرآن کریم نے اپنے اسلوب کے مطابق اس کے بعد تفصیل بیان نہیں کی کہ وہ تابوت سکینہ کیسے واپس آیا۔ البتہ سیاق کلام خود بول رہا ہے کہ تابوتِ سکینہ واپس آگیا اور اسی کے بعد جناب طالوت نے اپنے دشمنوں کے خلاف چڑھائی کی۔ تورات نے تابوتِ سکینہ کی واپس کے بارے میں جو کچھ کہا ہے اس میں اگرچہ فرشتوں کا ذکر نہیں بلکہ اس میں یہ بتایا گیا ہے کہ دو گائیاں اس چھکڑے کو جس پر تابوتِ سکینہ رکھا ہوا تھا بغیر کسی رہنما کے کھینچتی ہوئی سرحد پار کر گئیں اور بنی اسرائیل کے علاقے میں پہنچ گئیں۔ معمولی غور و فکر سے بھی یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ یقینا ان گائیوں کو راستہ دکھانے اور ہانکنے والے اور چھکڑے کی نگرانی کرنے والے فرشتے ہی ہوں گے جن کا ذکر قرآن کریم نے کیا ہے۔ تورات کا بیان یہ ہے : ” اب تم ایک نئی گاڑی بنائو اور دو دودھ والی گائیں ‘ جن کے جوا نہ لگا ہو لو اور ان گایوں کو گاڑی میں جو تو اور ان کے بچوں کو گھر لوٹا لائو اور خداوند کا صندوق لے کر اس گاڑی پر رکھو اور سونے کی چیزوں کو جن کو تم جرم کی قربانی کے طور پر ساتھ کرو گے ‘ ایک صندوقچہ میں کر کے اس کے پہلو میں رکھ دو اور اسے روانہ کردو کہ چلا جائے اور دیکھتے رہنا… سو ان لوگوں نے ایسا ہی کیا اور دو دودھ والی گائیں لے کر ان کو گاڑی میں جوتا اور ان کے بچوں کو گھر میں بند کردیا اور خداوند کے صندوق … اور صندوقچہ کو گاڑی پر رکھ دیا۔ ان گایوں نے بیت شمس کو سیدھا راستہ لیا۔ وہ سڑک ہی سڑک ڈکارتی گئیں اور داہنے یا بائیں نہ مڑیں اور فلستی سردار بیت شمس کی سرحد تک ان کے ساتھ گئے اور بیت شمس کے لوگ وادی میں گیہوں کی فصل کاٹ رہے تھے۔ انھوں نے جو آنکھیں اٹھائیں تو صندوق کو دیکھا اور دیکھتے ہی خوش ہوگئے۔ “ (سموئیل باب 6‘ 7۔ 12) تورات کے اس بیان کو غور سے دیکھئے کہ تابوتِ سکینہ کو ایک چھکڑے پر رکھا گیا اور اسے کھینچنے کے لیے دو سدھائی ہوئی گائیاں نہیں ‘ بلکہ دودھ دینے والی گائیاں جنھیں چھکڑا کھینچنے کی کوئی تربیت نہیں دی گئی اور مزید یہ کہ ان کے بچے بھی ان سے الگ کر کے گھر میں بند کردیے گئے۔ جانوروں کی عادات سے واقف لوگ جانتے ہیں کہ مادہ گائے جب کہ اس کا بچہ دودھ پیتا ہو اسے کبھی اپنے سے الگ نہیں کرسکتی اور اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ بغیر کسی راہنما اور ہانکنے والے کے گائیوں نے سیدھا بیت شمس کا راستہ اختیار کیا ‘ نہ انھوں نے دائیں دیکھا نہ بائیں ‘ ڈکارتی ہوئی سیدھی بڑھتی چلی گئیں اور بنی اسرائیل کے علاقے میں داخل ہوگئیں۔ کیا ان میں سے ایک ایک لفظ یہ بتانے کے لیے کافی نہیں کہ یقینا ان گائیوں کی رہنمائی اللہ کی جانب سے کی جا رہی تھی ‘ فرشتے ان کے یقینا دائیں بائیں تھے جو ان کو راستہ دکھا رہے تھے اور یہی وہ بات ہے جو کہ قرآن کریم نے بتائی۔ آیتِ کریمہ کے آخر میں فرمایا کہ ظاہری اسباب کے بالکل برعکس تابوتِ سکینہ کا بنی اسرائیل کے علاقے میں پہنچ جانا یہ ایسی کھلی نشانی ہے جس سے انکار ممکن نہیں۔ لیکن انسان کا عجیب حال ہے۔ وہ پتھروں کے سامنے جھکتا ہے اور اپنے خالق ومالک کا انکار کرتا ہے۔ اس لیے کہ بڑی سے بڑی حقیقت اور کھلی سے کھلی نشانی کو تسلیم کرنے کے لیے ایمان ضروری ہے۔ اس لیے فرمایا کہ اس سارے واقعے میں تمہارے لیے نشانی موجود ہے بشرطیکہ تم صاحب ایمان ہو۔
Top