Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
228
229
230
231
232
233
234
235
236
237
238
239
240
241
242
243
244
245
246
247
248
249
250
251
252
253
254
255
256
257
258
259
260
261
262
263
264
265
266
267
268
269
270
271
272
273
274
275
276
277
278
279
280
281
282
283
284
285
286
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Ruh-ul-Quran - Al-Baqara : 246
اَلَمْ تَرَ اِلَى الْمَلَاِ مِنْۢ بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ مِنْۢ بَعْدِ مُوْسٰى١ۘ اِذْ قَالُوْا لِنَبِیٍّ لَّهُمُ ابْعَثْ لَنَا مَلِكًا نُّقَاتِلْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ١ؕ قَالَ هَلْ عَسَیْتُمْ اِنْ كُتِبَ عَلَیْكُمُ الْقِتَالُ اَلَّا تُقَاتِلُوْا١ؕ قَالُوْا وَ مَا لَنَاۤ اَلَّا نُقَاتِلَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ وَ قَدْ اُخْرِجْنَا مِنْ دِیَارِنَا وَ اَبْنَآئِنَا١ؕ فَلَمَّا كُتِبَ عَلَیْهِمُ الْقِتَالُ تَوَلَّوْا اِلَّا قَلِیْلًا مِّنْهُمْ١ؕ وَ اللّٰهُ عَلِیْمٌۢ بِالظّٰلِمِیْنَ
اَلَمْ تَرَ
: کیا تم نے نہیں دیکھا
اِلَى
: طرف
الْمَلَاِ
: جماعت
مِنْ
: سے
بَنِىْٓ اِسْرَآءِ يْلَ
: بنی اسرائیل
مِنْ
: سے
بَعْدِ
: بعد
مُوْسٰى
: موسیٰ
اِذْ
: جب
قَالُوْا
: انہوں نے
لِنَبِىٍّ لَّهُمُ
: اپنے نبی سے
ابْعَثْ
: مقرر کردیں
لَنَا
: ہمارے لیے
مَلِكًا
: ایک بادشاہ
نُّقَاتِلْ
: ہم لڑیں
فِيْ
: میں
سَبِيْلِ اللّٰهِ
: اللہ کا راستہ
قَالَ
: اس نے کہا
ھَلْ
: کیا
عَسَيْتُمْ
: ہوسکتا ہے تم
اِنْ
: اگر
كُتِبَ عَلَيْكُمُ
: تم پر فرض کی جائے
الْقِتَالُ
: جنگ
اَلَّا تُقَاتِلُوْا
: کہ تم نہ لڑو
قَالُوْا
: وہ کہنے لگے
وَمَا لَنَآ
: اور ہمیں کیا
اَلَّا
: کہ نہ
نُقَاتِلَ
: ہم لڑیں گے
فِيْ
: میں
سَبِيْلِ اللّٰهِ
: اللہ کی راہ
وَقَدْ
: اور البتہ
اُخْرِجْنَا
: ہم نکالے گئے
مِنْ
: سے
دِيَارِنَا
: اپنے گھر
وَاَبْنَآئِنَا
: اور اپنی آل اولاد
فَلَمَّا
: پھر جب
كُتِبَ عَلَيْهِمُ
: ان پر فرض کی گئی
الْقِتَالُ
: جنگ
تَوَلَّوْا
: وہ پھرگئے
اِلَّا
: سوائے
قَلِيْلًا
: چند
مِّنْهُمْ
: ان میں سے
وَاللّٰهُ
: اور اللہ
عَلِيْمٌ
: جاننے والا
بِالظّٰلِمِيْنَ
: ظالموں کو
کیا تم نے بنی اسرائیل کے سرداروں کو نہیں دیکھا جب کہ موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد انھوں نے اپنے ایک نبی سے کہا کہ آپ ہمارے لیے ایک امیر مقرر کر دیجئے تاکہ ہم اللہ کے راستے میں لڑیں۔ نبی نے کہا کہیں ایسا نہ ہو کہ فرض کردیا جائے تم پر جہاد تو تم جہاد نہ کرو۔ وہ کہنے لگے بھلا ہم اللہ کی راہ میں جہاد کیوں نہ کریں گے حالانکہ کہ ہم نکالے گئے اپنے گھروں سے اور اپنے بچوں سے۔ پس جب ان پر فرض کردیا گیا جہاد تو منہ پھیرلیا انھوں نے ‘ ان میں سے چند لوگوں کے سوا۔ اور اللہ خوب جانتا ہے ظالموں کو
اَلَمْ تَرَ اِلَی الْمَلَائِ مِنْ م بَنِیْٓ اِسْرَآئِ یْلَ مِنْ م بَعْدِ مُوْسٰی م اِذْ قَالُوْا لِنَبِیٍّ لَّھُمُ ابْعَثْ لَنَا مَلِکًا نُّقَاتِلْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ ط قَالَ ھَلْ عَسَیْتُمْ اِنْ کُتِبَ عَلَیْکُمُ الْقِتَالُ اَلَّا تُقَاتِلُوْا ط قَالُوْا وَمَا لَـنَـآ اَلَّا نُقَاتِلَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَ قَدْ اُخْرِجْنَا مِنْ دَیَارِنَا وَاَبْنَـآئِنَا ط فَلَمَّا کُتِبَ عَلَیْھِمُ الْقِتَالُ تَوَلَّوْا اِلَّا قَلِیْلًا مِّنْہُمْ ط وَاللّٰہُ عَلِیْمٌ م بِالظّٰلِمِیْنَ ۔ کیا تم نے بنی اسرائیل کے سرداروں کو نہیں دیکھا جب کہ موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد انھوں نے اپنے ایک نبی سے کہا کہ آپ ہمارے لیے ایک امیر مقرر کر دیجئے تاکہ ہم اللہ کے راستے میں لڑیں۔ نبی نے کہا کہیں ایسا نہ ہو کہ فرض کردیا جائے تم پر جہاد تو تم جہاد نہ کرو۔ وہ کہنے لگے بھلا ہم اللہ کی راہ میں جہاد کیوں نہ کریں گے حالانکہ کہ ہم نکالے گئے اپنے گھروں سے اور اپنے بچوں سے۔ پس جب ان پر فرض کردیا گیا جہاد تو منہ پھیرلیا انھوں نے ‘ ان میں سے چند لوگوں کے سوا۔ اور اللہ خوب جانتا ہے ظالموں کو) (246) بنی اسرائیل کا مطالبہ اَلَمْ تَرَ اِلَی الَّذِیْنَ خَرَجُوْاکی وضاحت کرتے ہوئے ہم عرض کرچکے ہیں کہ بعض اہل تفسیر کا یہ خیال ہے کہ اس آیت کریمہ میں جن لوگوں کا ذکر ہو رہا ہے یہ وہ لوگ ہیں جن کی طرف حضرت سموئیل (علیہ السلام) مبعوث ہوئے۔ یہ قوم اپنے بگاڑ میں اس انتہا کو پہنچ چکی تھی کہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ وہ لوگ ایمانی اور اخلاقی لحاظ سے اپنی موت مرچکے تھے۔ حضرت سموئیل (علیہ السلام) نے برسوں ان میں کام کیا تو ان کی اصلاحی کوششوں سے ان کے اندر زندگی کی رو دوڑی۔ انھوں نے اپنے آپ کو سنبھالا۔ اب ان میں یہ احساس پیدا ہونے لگا کہ ہم نے خواہشات نفس کی تعمیل میں جو اب تک زندگی گزاری ہے وہ انسانیت کی موت سے کم نہ تھی۔ اب اللہ نے حضرت سموئیل (علیہ السلام) کی کوششوں کے نتیجے میں ہمیں ہدایت عطا فرمائی ہے ہم اب تک اپنی عیاشیوں اور بےعملیوں کے باعث ملک کے بہت سے حصے دشمنوں کے قبضے میں دے چکے ہیں ‘ انھیں دوبارہ چھڑانے کی کوشش کرنی چاہیے اور زندہ قوموں کی طرح آزادی کی زندگی گزارنے کی سعی کرنی چاہیے۔ چناچہ ان اہل تفسیر کے خیال میں یہ اسی قوم کے اشراف ہیں جنھیں ” الْمَلَائِ “ کے لفظ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ ملاء سے مراد قوم کے روساء و شرفاء ہوتے ہیں۔ اور بعض دفعہ ایسی جماعت پر بھی یہ لفظ بولا جاتا ہے جو کسی ایک نظریہ پر اتفاق کرچکی ہو۔ دونوں معنوں میں سے کوئی معنی بھی مراد لیا جائے۔ بات ایک ہی ہے کہ اس قوم کے اشراف اور بڑے بڑے لوگ اپنے وقت کے پیغمبر حضرت سموئیل (علیہ السلام) کے پاس گئے۔ اور اگر دوسرے اہل تفسیر کی وضاحتوں کو دیکھا جائے تو متذکرہ بالا آیت کے بارے میں ان کی رائے اگرچہ دوسری ہے لیکن اس آیت کی وضاحت میں وہ بھی قوم سموئیل ہی مراد لیتے ہیں۔ ان کے ملک کے کئی شہروں پر فلستیوں اور عمالقہ نے قبضہ کرلیا تھا۔ ان میں بیداری پیدا ہونے کے بعد اگرچہ انھوں نے کئی شہروں کو واگزار کروایا لیکن اب تک بھی کئی شہر ان کے قبضے میں تھے۔ اور فلستیوں کے علاوہ موآب ‘ بنی عمون ‘ دوم اور ضوباہ کے بادشاہوں سے بھی انھیں ہر وقت اندیشہ رہتا تھا۔ وہ وقتاً فوقتاً ان کی سرحدوں پر حملے کرتے رہتے تھے اور کسی نہ کسی سرحدی علاقے پر قبضہ کرلیتے تھے۔ بنی اسرائیل کی اس جماعت نے جب یہ دیکھا کہ ہم اتنے بڑے بڑے دشمنوں میں گھر گئے ہیں اور ہمارے قائد اللہ کے نبی حضرت سموئیل (علیہ السلام) اب اس قدر بوڑھے ہوچکے ہیں کہ وہ جنگ میں ہماری قیادت نہیں کرسکتے اور ان کے بیٹے اپنے باپ کے طریقے پر نہیں ہیں اس لیے ان سے بھی کوئی امید نہیں کی جاسکتی۔ چناچہ انھوں نے اس کا ایک ہی حل دیکھا اور حضرت سموئیل (علیہ السلام) سے ایک ” مَلِکْ “ مقرر کرنے کی درخواست کی جس کا اس آیت کریمہ میں ذکر کیا گیا ہے۔ اور کہا جاتا ہے کہ یہ زمانہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے تین صدیوں بعد اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) سے تقریباً گیارہ سو سال پہلے کا ہے۔ مَلِکْ کا مفہوم آیت کریمہ میں چونکہ مَلِکْ کا لفظ آیا ہے اس لیے بعض لوگوں کو اس سے یہ خیال پیدا ہوا کہ اسلام شاید ملوکیت اور بادشاہت کا حامی ہے۔ اسی خیال کے پیش نظر انھوں نے اسلامی نظام کو شاہی نظام سے تعبیر کرنا شروع کردیا۔ حالانکہ ہمارے اکثر مفسرین نے اس آیت کی تفسیر میں یہ بات واضح کی ہے کہ ملک سے مراد کوئی مطلق العنان بادشاہ نہیں۔ کیونکہ وہ لوگ حضرت سموئیل (علیہ السلام) کو نبی کے ساتھ ساتھ اپنا حکمران بھی مانتے تھے۔ اس لیے انہی سے درخواست کی گئی تھی کہ آپ ہمارے لیے ایک امیر یعنی سپہ سالار مقرر کردیں جس کی قیادت میں ہم دشمنوں سے جہاد کریں اور اپنے شہروں کو وا گذار کرائیں۔ یہ بھی پیش نظر رہے کہ ان کے علاقے ہی فلستیوں یا عمالقہ کے قبضے میں نہیں تھے بلکہ وہ ان کا صندوق بھی چھین کرلے گئے تھے جسے تابوتِ سکینہ کہا جاتا تھا۔ اس میں تورات کا حجری نسخہ اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور حضرت ہارون (علیہ السلام) کے کچھ تبرکات ‘ عصائے موسیٰ اور صحرائی زندگی کی کچھ علامات تھیں۔ اس صندوق کی حیثیت بنی اسرائیل میں کعبۃ اللہ کی تھی۔ وہ نمازوں کے وقت خیمہ عبادت میں اسے اپنے سامنے رکھتے تھے۔ جنگوں میں بھی اللہ سے مدد طلب کرنے کے لیے اس تابوت کو فوجوں کے سامنے رکھا جاتا۔ اس تابوت کے چھن جانے سے یوں سمجھئے کہ ان کے کعبے پر قبضہ کرلیا گیا تھا اس لیے بنی اسرائیل میں جیسے ہی دینی حس بیدار ہوئی انھیں اپنے شہروں سے بھی زیادہ اس بات کا صدمہ ہوا کہ تابوتِ سکینہ ہم سے چھن چکا ہے ہمیں بہرصورت اسے واپس لینا چاہیے اس لیے انھوں نے اپنے لیے ایک سپہ سالار مقرر کرنے کی درخواست کی۔ اور اس درخواست میں یہ بھی وضاحت موجود تھی کہ آپ ہی اسے مقرر فرمائیں اور آپ ہی کی ہدایت و رہنمائی کے مطابق وہ ملک کا نظام چلائے ‘ ان کی شیرازہ بندی کرے اور چھنے ہوئے علاقوں کو واپس لے۔ ان باتوں پر غور کرنے سے ایک ہی بات واضح ہوتی ہے کہ ملک کے اصل حکمران حضرت سموئیل (علیہ السلام) تھے ‘ یہ نیا تجویز کردہ شخص ملک کا حکمران نہیں بلکہ ماتحت تھا۔ یہ بات سمجھ لینے کے بعد اسلام پر ملوکیت کے الزام کی کوئی حقیقت باقی نہیں رہتی۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی واضح رہنی چاہیے کہ اسلام کے سیاسی نظام میں اصل اہمیت اس کی صورت کی نہیں بلکہ اس کی روح کی ہے۔ اگر اس کی روح خدا اور اس کے رسول کے قانون کے تابع ہے تو وہ قابل ستائش ہے ‘ اس کی شکل کچھ بھی ہو۔ اور اگر اس کی روح خدا اور اس کے رسول کی باغی ہے تو وہ قابل مذمت ہے ‘ عام اس سے کہ وہ ملوکیت ہے یا جمہوریت۔ بنی اسرائیل کے اشراف کی درخواست کے جواب میں حضرت سموئیل (علیہ السلام) نے کہا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ تم پر ایک امیر مقرر کردیا جائے اور جہاد فرض کردیا جائے ‘ لیکن پھر تم جہاد سے انکار کردو۔ کیونکہ حضرت سموئیل (علیہ السلام) اپنے تجربات اور فراست سے اس بات سے آگاہ تھے کہ بنی اسرائیل کی اصل کمزوری یہ نہیں ہے کہ ان کے پاس کوئی اچھا سپہ سالار نہیں ہے جو میدانِ جنگ میں ان کی قیادت کرسکے بلکہ ان کی اصل کمزوری یہ ہے کہ جنگ کے خطرات کا مقابلہ کرنے کے لیے ان کے اندر عزم و ایمان نہیں ہے۔ اس لیے آپ نے امیر مقرر کرنے سے پہلے صاف صاف ان کے سامنے اپنے اندیشے کا اظہار کردیا۔ لیکن انھوں نے جواب میں بڑے جوش و جذبے کا اظہار کیا۔ کہ آپ نے یہ بات کیسے کہہ دی۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ ہمیں جہاد کا حکم دیا جائے اور ہم اس سے انکار کردیں۔ جبکہ ہمارے بچے تک دشمن کے قبضے میں ہیں۔ ہمیں اپنے گھروں سے نکال دیا گیا ہے ‘ ہمارے کتنے شہروں پر ان کا قبضہ ہے ‘ ہم تو غیرت سے کھول رہے ہیں کہ کب ہمیں موقع ملے اور ہم دل کے ارمان نکالیں۔ لیکن جب ان پر جہاد فرض کردیا گیا تو حضرت سموئیل (علیہ السلام) کے اندیشے صحیح ثابت ہوئے کہ ان میں سے بیشتر لوگوں نے ہمت ہار دی اور قسم قسم کے بہانے بنا کر جنگ سے فرار کا راستہ نکالا۔ ایک قلیل تعداد ان لوگوں کی رہ گئی جو اس میدان میں ہر طرح کے مصائب برداشت کرنے اور جہاد کا حق ادا کرنے پر آمادہ ہوئی۔ اگلی آیات کریمہ میں ان کے اسی رویے کو بیان کیا گیا ہے۔ لیکن ان آیات سے مسلمانوں کے سامنے ایک ایسی قوم کی تاریخ کا آئینہ رکھا جا رہا ہے جس میں انسانی خوبیاں اور انسانی کمزوریاں پہچانی جاسکتی ہیں۔ اس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ قومیں جب زوال کا شکار ہوتی ہیں تو پیغمبر کی کاوشیں ان کو اٹھا تو دیتی ہیں لیکن جب تک ان میں تربیت کا عمل مکمل نہیں ہوتا ان کی طبعی اور اخلاقی کمزوریوں پر قابو نہیں پایا جاسکتا۔ مسلمانوں کو چونکہ جہاد و قتال کا حکم دیا جا رہا ہے اور انھیں بنی اسرائیل سے بھی بڑھ کر معرکے درپیش ہیں۔ بنی اسرائیل کے سامنے تابوتِ سکینہ کی واگذاری کا مسئلہ تھا اور مسلمانوں کو بھی اللہ کا گھر واپس لینا ہے۔ یہ بھی اللہ کے دین کی خاطر اپنے وطن اور گھروں سے نکالے گئے تھے۔ اس لیے اس قوم کی تاریخ جو انہی کی طرح حامل دعوت امت تھی بیان کی جا رہی ہے کہ امت مسلمہ کو قیامت تک فکر مند رہنا چاہیے کہ ان کے اندر اس طرح کی دینی بےحسی اور اخلاقی کمزوری نہ پیدا ہونے پائے۔ جس سے وہ عملی زندگی میں اپنا کردار پوری طرح ادا نہ کرسکیں۔
Top