Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
228
229
230
231
232
233
234
235
236
237
238
239
240
241
242
243
244
245
246
247
248
249
250
251
252
253
254
255
256
257
258
259
260
261
262
263
264
265
266
267
268
269
270
271
272
273
274
275
276
277
278
279
280
281
282
283
284
285
286
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Ruh-ul-Quran - Al-Baqara : 184
اَیَّامًا مَّعْدُوْدٰتٍ١ؕ فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَّرِیْضًا اَوْ عَلٰى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَ١ؕ وَ عَلَى الَّذِیْنَ یُطِیْقُوْنَهٗ فِدْیَةٌ طَعَامُ مِسْكِیْنٍ١ؕ فَمَنْ تَطَوَّعَ خَیْرًا فَهُوَ خَیْرٌ لَّهٗ١ؕ وَ اَنْ تَصُوْمُوْا خَیْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ
اَيَّامًا
: چند دن
مَّعْدُوْدٰتٍ
: گنتی کے
فَمَنْ
: پس جو
كَانَ
: ہو
مِنْكُمْ
: تم میں سے
مَّرِيْضًا
: بیمار
اَوْ
: یا
عَلٰي
: پر
سَفَرٍ
: سفر
فَعِدَّةٌ
: تو گنتی
مِّنْ
: سے
اَ يَّامٍ اُخَرَ
: دوسرے (بعد کے) دن
وَعَلَي
: اور پر
الَّذِيْنَ
: جو لوگ
يُطِيْقُوْنَهٗ
: طاقت رکھتے ہیں
فِدْيَةٌ
: بدلہ
طَعَامُ
: کھانا
مِسْكِيْنٍ
: نادار
فَمَنْ
: پس جو
تَطَوَّعَ
: خوشی سے کرے
خَيْرًا
: کوئی نیکی
فَهُوَ
: تو وہ
خَيْرٌ لَّهٗ
: بہتر اس کے لیے
وَاَنْ
: اور اگر
تَصُوْمُوْا
: تم روزہ رکھو
خَيْرٌ لَّكُمْ
: بہتر تمہارے لیے
اِنْ
: اگر
كُنْتُمْ
: تم ہو
تَعْلَمُوْنَ
: جانتے ہو
گنتی کے چند دن۔ پس جو کوئی تم میں سے مریض ہو یا مسافر ہو تو دوسرے دنوں میں تعداد پوری کرے اور ان لوگوں پر جو اس کی طاقت رکھتے ہیں ان کے ذمہ بدلہ ہے ایک فقیر کا کھانا پھر جو کوئی خوشی سے کرے نیکی تو وہ اس کے لیے بہتر ہے اور یہ کہ تم روزہ رکھو یہ تمہارے لیے زیادہ بہتر ہے۔ اگر تم سمجھ رکھتے ہو
مقاصد کے ذکر کے بعد فرمایا : اَیَّامًا مَّعْدُوْدٰتٍ ” گنتی کے چند دن “۔ اَیَّـامًا مَّعْدُوْدٰتٍسے مراد کیا ہے ؟ اَیَّامًا مَّعْدُوْدٰتٍ سے کیا مرا د ہے ؟ بعض اہل علم نے تین دن کے روزے مراد لیے ہیں۔ ان کا خیال یہ ہے کہ رمضان کے روزوں کی فرضیت سے پہلے ہر ماہ اللہ نے تین روزے فرض کیے تھے جو رمضان کے روزے فرض ہونے کے بعد منسوخ ہوگئے۔ لیکن دیگر اہل علم یہ کہتے ہیں کہ رمضان کے علاوہ اس امت پر اور کسی قسم کے روزے فرض نہیں کیے گئے۔ ہر ماہ میں آنحضرت ﷺ جو تین روزے رکھتے تھے ان کی حیثیت فرض روزوں کی نہیں بلکہ نفلی روزوں کی تھی۔ ہم اس سلسلے میں خود کچھ کہنے کی بجائے امام ابن جریر ( رح) کی رائے نقل کرتے ہیں۔ وہ فرماتے ہیں : ” ہمارے نزدیک حق سے قریب تر بات ان لوگوں کی ہے جو کہتے ہیں کہ اَیَّامًا مَّعْدُوْدٰتٍسے مراد ماہ رمضان کے ہی ایام ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ کسی قابل اعتماد روایت سے یہ بات ثابت نہیں ہوتی کہ مسلمانوں پر رمضان کے روزوں کے سوا کوئی اور روزہ فرض کیا گیا ہو جو رمضان کے روزوں سے منسوخ ہوا۔ آیت کا سیاق خود اس بات پر دلیل ہے کہ جو روزے ہم پر فرض ٹھہرائے گئے وہ رمضان ہی کے روزے ہیں کوئی اور روزے نہیں۔ ” شَھْرُ رَمَضَانَ الَّذِیٓ اُنْزِلَ فِیْہِ الْـقُرْاٰنُ “ کے الفاظ خود ان ایام کی بلاکسی اشتباہ کے تعیین کیے دیتے ہیں۔ اس وجہ سے جو لوگ اس بات کے مدعی ہیں کہ رمضان کے سوا کوئی اور روزے مسلمانوں پر فرض تھے جو رمضان کے روزوں سے منسوخ ہوئے ان سے یہ مطالبہ کیا جائے گا کہ وہ اپنے دعوے کے ثبوت میں کوئی ایسی روایت پیش کریں جو حجت بن سکے۔ــ“ فَمَنْ کَانَ مِنْـکُمْ مَرِیْضًا اَوْ عَلٰی سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَط وَعَلَی الَّذِیْنَ یُطِیْقُوْنَـہٗ فِدْیَۃٌ طَعَامُ مِسْکِیْنٍ ط فَمَنْ تَطَوَّعَ خَیْرًا فَھُوَ خَیْرٌ لَّـہٗ ط وَاَنْ تَصُوْمُوْا خَیْرٌ لَّـکُمْ اِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ ۔ (پس جو کوئی تم میں سے مریض ہو یا مسافر ہو تو دوسرے دنوں میں تعداد پوری کرے اور ان لوگوں پر جو اس کی طاقت رکھتے ہیں ان کے ذمہ بدلہ ہے ایک فقیر کا کھانا پھر جو کوئی خوشی سے کرے نیکی تو وہ اس کے لیے بہتر ہے اور یہ کہ تم روزہ رکھو یہ تمہارے لیے زیادہ بہتر ہے۔ اگر تم سمجھ رکھتے ہو) (البقرۃ : 184) مریض اور مسافر کا مفہوم شرعی نقطہ نظر سے اب کچھ روزے کے مسائل بیان کیے جارہے ہیں۔ سب سے پہلے یہ بات ارشاد فرمائی کہ تم میں سے جو شخص مریض ہو یا مسافر ہو تو اسے روزہ چھوڑنے کی اجازت ہے البتہ بعد میں اسے روزہ رکھنا ہوگا۔ اس میں سمجھنے کی بات یہ ہے کہ مریض اور مسافر کا اطلاق کس پر ہوتا ہے۔ مریض ایسے شخص کو بھی کہتے ہیں جو کسی شدید بیماری میں مبتلاہو اور ایسا شخص بھی بیمار کہلاتا ہے جو معمولی بیماری کا شکا رہو۔ لیکن یہاں ہر طرح کا بیمار مراد نہیں بلکہ اس سے مراد ایسا شخص ہے کہ جس کے روزہ رکھنے کی وجہ سے مرض بڑھ جانے کا اندیشہ ہو یا روزہ نبھانا اس کے لیے ناقابلِ برداشت ہو۔ اب رہی یہ بات کہ اس بات کا کیسے فیصلہ ہو کہ روزہ رکھنے سے بیماری میں اضافہ ہوجائے گا ؟ اس کے لیے ضروری ہے کہ کسی شریعت کے پابند معالج سے رائے لی جائے۔ وہ اگر یہ سمجھتاہو کہ روزہ اس شخص کے لیے انتہائی تکلیف کا باعث ہوگا یا اس کی بیماری بڑھ جائے گی تو پھر روزہ چھوڑ دینے میں کوئی حرج نہیں کیونکہ آگے چل کر ارشاد فرمایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ تم سے آسانی فرمانا چاہتا ہے تمہیں تکلیف میں مبتلا نہیں کرنا چاہتا۔ لیکن اس سے یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ معمولی زکام ہو یا طبیعت بوجھل ہو تو روزہ چھوڑ دیاجائے۔ مسافر کا اطلاق بھی معمولی سفر کرنے والے پر نہیں ہوتا عَلٰی سَفَرٍ کا مفہوم یہ ہے کہ وہ سفر پر سوارہو اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ وہ محض چند میل کی سیر نہ ہو بلکہ اس کے لیے اہتمام بھی ناگزیر ہو۔ اب رہی یہ بات کہ ایسے سفر کو کتنا طویل ہونا چاہیے، قرآن کریم نے اس کی تحدید نہیں فرمائی۔ رسول اکرم ﷺ کے بیان اور صحابہ کے تعامل سے امام اعظم ابوحنیفہ (رح) اور بہت سے فقہا نے اس کی مقدار تین منزل مقرر کی ہے یعنی وہ مسافت جس کو پیادہ سفر کرنے والا آسانی سے تین روز میں طے کرلے، بعد کے فقہا نے میلوں کے حساب سے اندازہ لگا کر اڑتالیس (48) میل مقرر کیے ہیں۔ سفر کے سلسلے میں یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ مسافر اس وقت تک حالت سفر میں ہے جب تک وہ پندرہ دن کے لیے کہیں قیام نہیں کرتا اور اگر وہ دو دو، چار چار دن مختلف جگہ ٹھہرتارہا اور سفر بھی جاری رہا تو اس طرح چاہے کتنی مدت گزر جائے اسے مسافر ہی سمجھا جائے گا اور وہ سفر ہی کے احکام کا پابند ہوگا۔ مسافر سفر سے لوٹ آئے یا کہیں مقیم ہوجائے اور مریض تندرست ہوجائے تو جتنے روزے چھوڑے گئے ہیں ان تمام کی قضا کرنا لازم ہے۔ لیکن اللہ نے یہ کرم فرمایا ہے کہ یہ قضا اس شخص کے لیے ہے جسے اتنے دنوں کے لیے زندگی موقع دے۔ اگر وہ اس مہلت سے پہلے ہی زندگی کا سفر پورا کرگیا تو نہ اس پر قضا لازم ہوگی اور نہ فدیے کی وصیت کرنا ضروری ہوگا۔ اسی طرح یہ بھی ضروری نہیں کہ رمضان کے فوری بعد قضاروزے رکھے جائیں۔ کسی وقت بھی یہ روزے رکھے جاسکتے ہیں۔ البتہ غیرمعمولی تاخیر کرنا اس لیے مناسب نہیں کہ زندگی کا کیا بھروسا ہے کب بلاوا آئے۔ یُطِیْقُوْنَـہٗ کی ضمیر کا مرجع کیا ہے ؟ وَ عَلَی الَّذِیْنَ یُطِیْقُوْنَـہٗ فِدْیَۃٌ طَعَامُ مِسْکِیْن ” ان لوگوں پر جو اس کی طاقت رکھتے ہیں ایک روزے کا بدلہ ایک مسکین کا کھانا ہے “ سوال یہ ہے کہ یُطِیْقُوْنَہٗ میں ضمیر کا مرجع کیا ہے ؟ اس مرجع میں اختلاف کی وجہ سے آیت کے مفہوم میں اختلاف ہوا۔ ہمارے قدیم مفسرین نے اس ضمیر کا مرجع صیام کو ٹھہرایا ہے اور بعض دوسرے اہل علم نے اس کا مرجع صیام کو نہیں بلکہ طعام کو قرار دیا ہے۔ قدیم مفسرین میں مرجع میں اتفاق کے باوجود اس کی وضاحت اور انطباق میں اختلاف ہے۔ زیادہ تر اہل علم یہ کہتے ہیں کہ اس کا مفہوم یہ ہے کہ جو لوگ روزہ رکھنے کی طاقت تو رکھتے ہیں لیکن کسی وجہ سے رکھنا نہیں چاہتے، دل نہیں چاہتایا کوئی اور سبب ہے تو ان کے لیے اس بات کی اجازت ہے کہ وہ ایک مسکین کو کھانے کا فدیہ دے دیں۔ ان کا کہنا یہ ہے کہ مسلمان چونکہ اس طرح کے احکام کے خوگر نہیں تھے۔ اس لیے شروع شروع میں انھیں یہ سہولت دی گئی تھی لیکن اگلی آیت میں جو کچھ عرصہ بعد نازل ہوئی اسے منسوخ کردیا گیا اور وہ اس کی دلیل میں صحیح بخاری ومسلم وابودائودوغیرہ سے حضرت سلمہ بن اکوع ( رض) سے ایک حدیث نقل کرتے ہیں وہ فرماتے ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو ہمیں اختیار دے دیا گیا کہ جس کا جی چاہے روزے رکھے اور جس کا جی نہ چاہے نہ رکھے البتہ ہر روزے کا فدیہ ادا کرے لیکن دوسری آیت کے نازل ہونے کے بعد یہ اختیار ختم ہوگیا۔ ایک اور حدیث بھی استدلال میں پیش کرتے ہیں وہ یہ ہے کہ مسند احمد میں حضرت معاذ بن جبل کی ایک طویل حدیث میں ہے کہ نماز کے معاملات میں بھی ابتدائے اسلام میں تین تغیرات ہوئے اور روزے کے معاملہ میں بھی تین تبدیلیاں ہوئیں۔ روزے کی تین تبدیلیاں یہ ہیں کہ : رسول اللہ ﷺ جب مدینہ طیبہ میں تشریف لائے تو ہر مہینہ میں تین روزے اور ایک روزہ یوم عاشورہ (یعنی دسویں محرم) کا رکھتے تھے پھر رمضان کی فرضیت نازل ہوگئی۔ کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ تو حکم یہ تھا کہ ہر شخص کا اختیار ہے کہ روزہ رکھ لے یا فدیہ دے دے اور روزہ رکھنا بہتر اور افضل ہے پھر اللہ تعالیٰ نے دوسری آیت مَنْ شَھِدَ مِنْـکُمُ الشَّھْرَ نازل فرمادی، اس آیت نے تندرست قوی کے لیے یہ اختیار ختم کرکے صرف روزہ رکھنا لازم کردیا، مگر بہت بوڑھے آدمی کے لیے یہ حکم باقی رہا کہ وہ چاہے تو فدیہ ادا کردے۔ یہ تو دو تبدیلیاں ہوئیں تیسری تبدیلی یہ ہوئی کہ شروع میں افطار کے بعد کھانے پینے اور اپنی خواہش پورا کرنے کی اجازت اس وقت تک تھی جب تک آدمی سوئے نہیں۔ جب سوگیا تو دوسرا روزہ شروع ہوگیا، کھانا پینا وغیرہ ممنوع ہوگیا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے آیت اُحِلَّ لَـکُمْ لَیْلَۃَ الصِّیَامِ الرَّفَثُ الآیۃ نازل فرماکر یہ آسانی عطا فرمادی کہ اگلے دن کی صبح صادق تک کھانا پینا وغیرہ سب جائز ہیں۔ سو کر اٹھنے کے بعد سحری کھانے کو سنت قرار دیدیا گیا۔ صحیح بخاری، مسلم، ابودائود میں بھی اس مضمون کی احادیث آئی ہیں۔ (ابن کثیر) بعض دوسرے اہل علم کی رائے یہ ہے کہ یُطِیْقُوْنَہٗ میں ضمیر کا مرجع تو صوم ہی ہے۔ لیکن اس سے مراد وہ لوگ ہیں جو روزہ رکھ تو سکتے ہیں لیکن روزے کا تحمل ان کے لیے آسان نہیں مشکل ہے۔ مثلاً زیادہ بوڑھے اشخاص یا حاملہ اور دودھ پلانے والی عورتیں ان کے نزدیک طاقت اور وسعت میں فرق ہے۔ وسعت تو امکان کے مترادف ہے اور طاقت میں یہ مفہوم شامل ہے کہ وہ کام کرنے والے کی قدرت میں تو ہو لیکن اس کے کرنے میں مشقت بہت زیادہ اٹھانی پڑے۔ الطاقۃ اسم لمقدار مایمکن للانسان ان یفعلہ بامشقۃ (راغب) الوسع فوق الطاقۃ فالوسع اسم لمن کان قادرا علی الشیء علی وجہ السہولۃ واما الطاقۃ فھو اسم لمن کان قادرا علی الشیء مع الشدۃ والمشقۃ (کبیر) کشاف نے بھی اسی کے ہم معنی بات کہی ہے۔ آیت کریمہ میں چونکہ طاقت کا مادہ استعمال ہوا ہے مندرجہ بالا وضاحتوں کے مطابق اس کا یہ ترجمہ کیا جاسکتا ہے کہ جو لوگ تکلیف کے ساتھ روزہ رکھ سکیں مثلاً بوڑھے مرد اور عورت، دودھ پلانے والی عورتیں اور حاملہ عورتیں ان کے لیے اجازت ہے کہ یہ بجائے تکلیف سے روزہ رکھنے کے کسی اور کو روزہ رکھوا دیں۔ اگر آیت کا یہ مفہوم مراد لیا جائے تو پھر اس کا مطلب یہ ہوگا کہ یہ حکم منسوخ نہیں بلکہ علی حالہٖ قائم ہے۔ تیسرا نقطہ نگاہ اس سے یکسر مختلف ہے وہ اس کا مرجع صیام یا صوم کو نہیں بلکہ طعام کو قرار دیتے ہیں اور صوم کو اس کا مرجع قرار دینے پر ان کے چند ایک تحفظات ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ شاہ ولی اللہ (رح) بھی اسی رائے کے حامل لوگوں میں سے تھے۔ یہ حضرات اسی سلسلے میں جو کچھ کہتے ہیں ہم ایک ترتیب سے اس کا خلاصہ عرض کردیتے ہیں۔ 1 اگر یہ بات مان لی جائے کہ صحابہ کو اختیار دیا گیا تھا کہ چاہے وہ روزہ رکھیں اور چاہے ایک مسکین کے کھانے کا فدیہ دے دیں تو پھر کُتِبَ عَلَیْـکُمُ الصِّیَامُ کا کیا مطلب ہے ؟ وہ فرض کیسا ہے جس کے ساتھ ہی اس پر عمل نہ کرنے کا اختیار بھی دے دیا جائے ؟ 2 اس کی تائید میں بعض احادیث پیش کی جاتی ہیں اگر وہ اپنے مفہوم میں اس قدر واضح ہیں جیسا کہ کہا جارہا ہے تو پھر قدیم مفسرین نے طاقت اور وسعت میں فرق کرکے یُطِیْقُوْنَـہٗ کو ایک خاص معنی پہنانے کی کیوں کوشش کی ہے ؟ 3 کس قدر عجیب بات ہے کہ عام لوگوں کو تو اس کی اجازت دے دی جائے کہ چاہیں تو روزہ رکھ لیں اور چاہیں تو فدیہ دے دیں۔ لیکن مریض اور مسافر کے لیے پابندی برقرار رہے کہ حالت مرض اور حالت سفر میں تو روزہ چھوڑا جاسکتا ہے لیکن مرض سے صحت مند ہونے اور سفر کے ختم ہونے پر قضا کرنا لازم ہے۔ روزے معاف نہیں ہوسکتے۔ 4 سلبِ ماخذ بھی ایک حقیقت ہے اور اہل لغت کی تائیدطاقت کے خصوصی معنی کے لحاظ سے بھی ایک اہمیت رکھتی ہے۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ خاصیاتِ ابواب کا معاملہ قیاسی نہیں سماعی ہے۔ اس لیے جب تک اہل زبان کے استعمال کی مثالیں اس کے حق میں نہ لائی جائیں اور فصحائے عرب کی تائید اسے میسر نہ آئے اس وقت تک محض مفروضے کی بنیاد پر اتنا بڑا فیصلہ کرنا بہت مشکل ہے۔ متذکرہ بالا تحفظات کی وجہ سے ان محققین کا کہنایہ ہے کہ یُطِیْقُوْنَہٗ کی ضمیر کا مرجع طعام ہے۔ پوری عبارت اس طرح ہے : وَعَلَی الَّذِیْنَ یُطِیْقُوْنَـہٗ فَـفِدْیَۃٌ طَعَامُ مِسْکِیْن ” جو لوگ ایک مسکین کو کھاناکھلاسکتے ہیں تو ان کے لیے بطور فدیہ ایک مسکین کو کھانا کھلانا ہے۔ “ اس صورت میں چونکہ جملہ نہایت ثقیل ہوجاتا تھا اس لیے کلام کی روانی اعجاز اور بلاغت کا تقاضا یہ ہوا کہ ایک جگہ طعام مسکین کو حذف کرکے اس کی جگہ ضمیر لائی جائے اور دوسری جگہ جہاں اس کا اظہار ضروری ہے اس کو ظاہر کردیا جائے تاکہ کلام غیر ضروری تکرار کے عیب سے پاک رہے۔ رہی یہ بات کہ اس صورت میں ضمیر کا مرجع ایک ایسے لفظ کو بنایا گیا ہے جس کا پہلے کہیں ذکر نہیں بلکہ بعد میں اس کا ذکرآیا ہے اسی کو اہل نحو کے یہاں اضمار قبل الذکرکا نام دیا جاتا ہے اور یہ کلام کا ایک عیب ہے اور قرآن کریم تو کسی طرح کے عیب کا بھی متحمل نہیں ہوسکتا۔ لیکن یہاں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ اضمار قبل الذکر اس وقت عیب ہوتا ہے جب ضمیر کا مرجع متکلم کی نیت میں بھی مقدم نہ ہو۔ لیکن اگر متکلم کی نیت میں مقدم ہو اور محض تکرار سے بچنے یا بلاغت کے کسی اور تقاضے کے تحت وہ مرجع کو موخر کرنے پر مجبور ہو تو اس صورت میں اضمار قبل الذکر کلام کا عیب نہیں بلکہ خوبی ہے۔ اس صورت میں آیت کا مفہوم یہ ہوگا کہ جو لوگ بیماری یا سفر کی وجہ سے رمضان کے روزے پورے نہیں کرسکتے تھے انھیں اس بات کی اجازت تھی کہ دوسرے دنوں میں یا تو روزے رکھ کر ان چھوڑے ہوئے روزوں کی تلافی کردیں اور یا ایک روزے کی جگہ ایک مسکین کو کھانا کھلاکر اس کا بدل پورا کردیں۔ لیکن اگلی آیت کے نازل ہونے کے بعد بیمار اور مسافر کے لیے بھی یہ رعائت منسوخ ہوگئی۔ اب ان کے لیے قضاشدہ روزوں کی جگہ بھی روزے رکھناہی ضروری ٹھہرا۔ آیت کے آخری جملے میں ارشاد فرمایا گیا ہے قضا روزے کا جو فدیہ مقرر کیا گیا ہے یہ ایک خوشحال آدمی سے کم سے کم مطالبہ ہے، اس کا پورا کرنا ضروری ہے۔ لیکن اگر کوئی شخص ایک سے زیادہ مسکینوں کو کھانا کھلانا چاہے یا ان کے ساتھ کوئی اور نیکی کرے تو یہ بہت اچھی بات ہے اور اس کے بعد یہ بھی اشارہ کردیا گیا کہ فدیہ کی محض اجازت دی گئی ہے یہ روزے کا بدل نہیں ہوسکتا۔ بہتر تو یہ ہے کہ تم روزہ ہی رکھنے کی کوشش کرو اور وہ وقت دور نہیں جب یہ اجازت ختم ہوجائے گی۔ چناچہ اگلی آیت کریمہ کے نازل ہونے کے بعد یہ اجازت منسوخ کردی گئی۔ فدیہ کا مفہوم ہماری گزشتہ بحث میں باربار فدیہ کا ذکر آیا ہے بہتر ہے کہ اس کی تفصیل اور ضروری مسائل ذکر کردئیے جائیں۔ ایک روزہ کا فدیہ نصف صاع گندم یا اس کی قیمت ہے، نصف صاع ہمارے مروجہ سیر یعنی اسی تولہ کے حساب سے تقریباً پونے دو سیر ہوتے ہیں۔ اس کی بازاری قیمت معلوم کرکے کسی غریب مسکین کو مالکانہ طور پردے دینا ایک روزہ کا فدیہ ہے بشرطیکہ کسی مسجد، مدرسہ کی خدمت کے معاوضہ میں نہ ہو۔ مسئلہ : ایک روزہ کے فدیہ کو دو آدمیوں میں تقسیم کرنا یا چند روزوں کے فدیہ کو ایک ہی شخص کو ایک تاریخ میں دینا درست نہیں، جیسا کہ شامی نے بحوالہ بحراز قنیہ نقل کیا ہے اور بیان القرآن میں اسی کو نقل کیا گیا ہے۔ مگر حضرت نے امداد الفتاویٰ میں فتویٰ اس پر نقل کیا ہے کہ یہ دونوں صورتیں جائز ہیں شامی نے بھی فتویٰ اس پر نقل کیا ہے۔ البتہ امداد الفتاویٰ میں ہے کہ احتیاط اس میں ہے کہ کئی روزوں کا فدیہ ایک تاریخ میں ایک کو نہ دے، لیکن دے دینے کی گنجائش بھی ہے۔ یہ فتویٰ مورخہ 1353 ھ امدادالفتاویٰ جلد دوم صفحہ 124 میں منقول ہے۔ مسئلہ : اگر کسی کو فدیہ ادا کرنے کی بھی وسعت نہ ہو تو وہ فقط استغفار کرے اور دل میں نیت رکھے کہ جب ہوسکے گا ادا کروں گا۔ (بیان القرآن)
Top