Ruh-ul-Quran - Al-Baqara : 184
اَیَّامًا مَّعْدُوْدٰتٍ١ؕ فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَّرِیْضًا اَوْ عَلٰى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَ١ؕ وَ عَلَى الَّذِیْنَ یُطِیْقُوْنَهٗ فِدْیَةٌ طَعَامُ مِسْكِیْنٍ١ؕ فَمَنْ تَطَوَّعَ خَیْرًا فَهُوَ خَیْرٌ لَّهٗ١ؕ وَ اَنْ تَصُوْمُوْا خَیْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ
اَيَّامًا : چند دن مَّعْدُوْدٰتٍ : گنتی کے فَمَنْ : پس جو كَانَ : ہو مِنْكُمْ : تم میں سے مَّرِيْضًا : بیمار اَوْ : یا عَلٰي : پر سَفَرٍ : سفر فَعِدَّةٌ : تو گنتی مِّنْ : سے اَ يَّامٍ اُخَرَ : دوسرے (بعد کے) دن وَعَلَي : اور پر الَّذِيْنَ : جو لوگ يُطِيْقُوْنَهٗ : طاقت رکھتے ہیں فِدْيَةٌ : بدلہ طَعَامُ : کھانا مِسْكِيْنٍ : نادار فَمَنْ : پس جو تَطَوَّعَ : خوشی سے کرے خَيْرًا : کوئی نیکی فَهُوَ : تو وہ خَيْرٌ لَّهٗ : بہتر اس کے لیے وَاَنْ : اور اگر تَصُوْمُوْا : تم روزہ رکھو خَيْرٌ لَّكُمْ : بہتر تمہارے لیے اِنْ : اگر كُنْتُمْ : تم ہو تَعْلَمُوْنَ : جانتے ہو
گنتی کے چند دن۔ پس جو کوئی تم میں سے مریض ہو یا مسافر ہو تو دوسرے دنوں میں تعداد پوری کرے اور ان لوگوں پر جو اس کی طاقت رکھتے ہیں ان کے ذمہ بدلہ ہے ایک فقیر کا کھانا پھر جو کوئی خوشی سے کرے نیکی تو وہ اس کے لیے بہتر ہے اور یہ کہ تم روزہ رکھو یہ تمہارے لیے زیادہ بہتر ہے۔ اگر تم سمجھ رکھتے ہو
مقاصد کے ذکر کے بعد فرمایا : اَیَّامًا مَّعْدُوْدٰتٍ ” گنتی کے چند دن “۔ اَیَّـامًا مَّعْدُوْدٰتٍسے مراد کیا ہے ؟ اَیَّامًا مَّعْدُوْدٰتٍ سے کیا مرا د ہے ؟ بعض اہل علم نے تین دن کے روزے مراد لیے ہیں۔ ان کا خیال یہ ہے کہ رمضان کے روزوں کی فرضیت سے پہلے ہر ماہ اللہ نے تین روزے فرض کیے تھے جو رمضان کے روزے فرض ہونے کے بعد منسوخ ہوگئے۔ لیکن دیگر اہل علم یہ کہتے ہیں کہ رمضان کے علاوہ اس امت پر اور کسی قسم کے روزے فرض نہیں کیے گئے۔ ہر ماہ میں آنحضرت ﷺ جو تین روزے رکھتے تھے ان کی حیثیت فرض روزوں کی نہیں بلکہ نفلی روزوں کی تھی۔ ہم اس سلسلے میں خود کچھ کہنے کی بجائے امام ابن جریر ( رح) کی رائے نقل کرتے ہیں۔ وہ فرماتے ہیں : ” ہمارے نزدیک حق سے قریب تر بات ان لوگوں کی ہے جو کہتے ہیں کہ اَیَّامًا مَّعْدُوْدٰتٍسے مراد ماہ رمضان کے ہی ایام ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ کسی قابل اعتماد روایت سے یہ بات ثابت نہیں ہوتی کہ مسلمانوں پر رمضان کے روزوں کے سوا کوئی اور روزہ فرض کیا گیا ہو جو رمضان کے روزوں سے منسوخ ہوا۔ آیت کا سیاق خود اس بات پر دلیل ہے کہ جو روزے ہم پر فرض ٹھہرائے گئے وہ رمضان ہی کے روزے ہیں کوئی اور روزے نہیں۔ ” شَھْرُ رَمَضَانَ الَّذِیٓ اُنْزِلَ فِیْہِ الْـقُرْاٰنُ “ کے الفاظ خود ان ایام کی بلاکسی اشتباہ کے تعیین کیے دیتے ہیں۔ اس وجہ سے جو لوگ اس بات کے مدعی ہیں کہ رمضان کے سوا کوئی اور روزے مسلمانوں پر فرض تھے جو رمضان کے روزوں سے منسوخ ہوئے ان سے یہ مطالبہ کیا جائے گا کہ وہ اپنے دعوے کے ثبوت میں کوئی ایسی روایت پیش کریں جو حجت بن سکے۔ــ“ فَمَنْ کَانَ مِنْـکُمْ مَرِیْضًا اَوْ عَلٰی سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَط وَعَلَی الَّذِیْنَ یُطِیْقُوْنَـہٗ فِدْیَۃٌ طَعَامُ مِسْکِیْنٍ ط فَمَنْ تَطَوَّعَ خَیْرًا فَھُوَ خَیْرٌ لَّـہٗ ط وَاَنْ تَصُوْمُوْا خَیْرٌ لَّـکُمْ اِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ ۔ (پس جو کوئی تم میں سے مریض ہو یا مسافر ہو تو دوسرے دنوں میں تعداد پوری کرے اور ان لوگوں پر جو اس کی طاقت رکھتے ہیں ان کے ذمہ بدلہ ہے ایک فقیر کا کھانا پھر جو کوئی خوشی سے کرے نیکی تو وہ اس کے لیے بہتر ہے اور یہ کہ تم روزہ رکھو یہ تمہارے لیے زیادہ بہتر ہے۔ اگر تم سمجھ رکھتے ہو) (البقرۃ : 184) مریض اور مسافر کا مفہوم شرعی نقطہ نظر سے اب کچھ روزے کے مسائل بیان کیے جارہے ہیں۔ سب سے پہلے یہ بات ارشاد فرمائی کہ تم میں سے جو شخص مریض ہو یا مسافر ہو تو اسے روزہ چھوڑنے کی اجازت ہے البتہ بعد میں اسے روزہ رکھنا ہوگا۔ اس میں سمجھنے کی بات یہ ہے کہ مریض اور مسافر کا اطلاق کس پر ہوتا ہے۔ مریض ایسے شخص کو بھی کہتے ہیں جو کسی شدید بیماری میں مبتلاہو اور ایسا شخص بھی بیمار کہلاتا ہے جو معمولی بیماری کا شکا رہو۔ لیکن یہاں ہر طرح کا بیمار مراد نہیں بلکہ اس سے مراد ایسا شخص ہے کہ جس کے روزہ رکھنے کی وجہ سے مرض بڑھ جانے کا اندیشہ ہو یا روزہ نبھانا اس کے لیے ناقابلِ برداشت ہو۔ اب رہی یہ بات کہ اس بات کا کیسے فیصلہ ہو کہ روزہ رکھنے سے بیماری میں اضافہ ہوجائے گا ؟ اس کے لیے ضروری ہے کہ کسی شریعت کے پابند معالج سے رائے لی جائے۔ وہ اگر یہ سمجھتاہو کہ روزہ اس شخص کے لیے انتہائی تکلیف کا باعث ہوگا یا اس کی بیماری بڑھ جائے گی تو پھر روزہ چھوڑ دینے میں کوئی حرج نہیں کیونکہ آگے چل کر ارشاد فرمایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ تم سے آسانی فرمانا چاہتا ہے تمہیں تکلیف میں مبتلا نہیں کرنا چاہتا۔ لیکن اس سے یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ معمولی زکام ہو یا طبیعت بوجھل ہو تو روزہ چھوڑ دیاجائے۔ مسافر کا اطلاق بھی معمولی سفر کرنے والے پر نہیں ہوتا عَلٰی سَفَرٍ کا مفہوم یہ ہے کہ وہ سفر پر سوارہو اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ وہ محض چند میل کی سیر نہ ہو بلکہ اس کے لیے اہتمام بھی ناگزیر ہو۔ اب رہی یہ بات کہ ایسے سفر کو کتنا طویل ہونا چاہیے، قرآن کریم نے اس کی تحدید نہیں فرمائی۔ رسول اکرم ﷺ کے بیان اور صحابہ کے تعامل سے امام اعظم ابوحنیفہ (رح) اور بہت سے فقہا نے اس کی مقدار تین منزل مقرر کی ہے یعنی وہ مسافت جس کو پیادہ سفر کرنے والا آسانی سے تین روز میں طے کرلے، بعد کے فقہا نے میلوں کے حساب سے اندازہ لگا کر اڑتالیس (48) میل مقرر کیے ہیں۔ سفر کے سلسلے میں یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ مسافر اس وقت تک حالت سفر میں ہے جب تک وہ پندرہ دن کے لیے کہیں قیام نہیں کرتا اور اگر وہ دو دو، چار چار دن مختلف جگہ ٹھہرتارہا اور سفر بھی جاری رہا تو اس طرح چاہے کتنی مدت گزر جائے اسے مسافر ہی سمجھا جائے گا اور وہ سفر ہی کے احکام کا پابند ہوگا۔ مسافر سفر سے لوٹ آئے یا کہیں مقیم ہوجائے اور مریض تندرست ہوجائے تو جتنے روزے چھوڑے گئے ہیں ان تمام کی قضا کرنا لازم ہے۔ لیکن اللہ نے یہ کرم فرمایا ہے کہ یہ قضا اس شخص کے لیے ہے جسے اتنے دنوں کے لیے زندگی موقع دے۔ اگر وہ اس مہلت سے پہلے ہی زندگی کا سفر پورا کرگیا تو نہ اس پر قضا لازم ہوگی اور نہ فدیے کی وصیت کرنا ضروری ہوگا۔ اسی طرح یہ بھی ضروری نہیں کہ رمضان کے فوری بعد قضاروزے رکھے جائیں۔ کسی وقت بھی یہ روزے رکھے جاسکتے ہیں۔ البتہ غیرمعمولی تاخیر کرنا اس لیے مناسب نہیں کہ زندگی کا کیا بھروسا ہے کب بلاوا آئے۔ یُطِیْقُوْنَـہٗ کی ضمیر کا مرجع کیا ہے ؟ وَ عَلَی الَّذِیْنَ یُطِیْقُوْنَـہٗ فِدْیَۃٌ طَعَامُ مِسْکِیْن ” ان لوگوں پر جو اس کی طاقت رکھتے ہیں ایک روزے کا بدلہ ایک مسکین کا کھانا ہے “ سوال یہ ہے کہ یُطِیْقُوْنَہٗ میں ضمیر کا مرجع کیا ہے ؟ اس مرجع میں اختلاف کی وجہ سے آیت کے مفہوم میں اختلاف ہوا۔ ہمارے قدیم مفسرین نے اس ضمیر کا مرجع صیام کو ٹھہرایا ہے اور بعض دوسرے اہل علم نے اس کا مرجع صیام کو نہیں بلکہ طعام کو قرار دیا ہے۔ قدیم مفسرین میں مرجع میں اتفاق کے باوجود اس کی وضاحت اور انطباق میں اختلاف ہے۔ زیادہ تر اہل علم یہ کہتے ہیں کہ اس کا مفہوم یہ ہے کہ جو لوگ روزہ رکھنے کی طاقت تو رکھتے ہیں لیکن کسی وجہ سے رکھنا نہیں چاہتے، دل نہیں چاہتایا کوئی اور سبب ہے تو ان کے لیے اس بات کی اجازت ہے کہ وہ ایک مسکین کو کھانے کا فدیہ دے دیں۔ ان کا کہنا یہ ہے کہ مسلمان چونکہ اس طرح کے احکام کے خوگر نہیں تھے۔ اس لیے شروع شروع میں انھیں یہ سہولت دی گئی تھی لیکن اگلی آیت میں جو کچھ عرصہ بعد نازل ہوئی اسے منسوخ کردیا گیا اور وہ اس کی دلیل میں صحیح بخاری ومسلم وابودائودوغیرہ سے حضرت سلمہ بن اکوع ( رض) سے ایک حدیث نقل کرتے ہیں وہ فرماتے ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو ہمیں اختیار دے دیا گیا کہ جس کا جی چاہے روزے رکھے اور جس کا جی نہ چاہے نہ رکھے البتہ ہر روزے کا فدیہ ادا کرے لیکن دوسری آیت کے نازل ہونے کے بعد یہ اختیار ختم ہوگیا۔ ایک اور حدیث بھی استدلال میں پیش کرتے ہیں وہ یہ ہے کہ مسند احمد میں حضرت معاذ بن جبل کی ایک طویل حدیث میں ہے کہ نماز کے معاملات میں بھی ابتدائے اسلام میں تین تغیرات ہوئے اور روزے کے معاملہ میں بھی تین تبدیلیاں ہوئیں۔ روزے کی تین تبدیلیاں یہ ہیں کہ : رسول اللہ ﷺ جب مدینہ طیبہ میں تشریف لائے تو ہر مہینہ میں تین روزے اور ایک روزہ یوم عاشورہ (یعنی دسویں محرم) کا رکھتے تھے پھر رمضان کی فرضیت نازل ہوگئی۔ کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ تو حکم یہ تھا کہ ہر شخص کا اختیار ہے کہ روزہ رکھ لے یا فدیہ دے دے اور روزہ رکھنا بہتر اور افضل ہے پھر اللہ تعالیٰ نے دوسری آیت مَنْ شَھِدَ مِنْـکُمُ الشَّھْرَ نازل فرمادی، اس آیت نے تندرست قوی کے لیے یہ اختیار ختم کرکے صرف روزہ رکھنا لازم کردیا، مگر بہت بوڑھے آدمی کے لیے یہ حکم باقی رہا کہ وہ چاہے تو فدیہ ادا کردے۔ یہ تو دو تبدیلیاں ہوئیں تیسری تبدیلی یہ ہوئی کہ شروع میں افطار کے بعد کھانے پینے اور اپنی خواہش پورا کرنے کی اجازت اس وقت تک تھی جب تک آدمی سوئے نہیں۔ جب سوگیا تو دوسرا روزہ شروع ہوگیا، کھانا پینا وغیرہ ممنوع ہوگیا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے آیت اُحِلَّ لَـکُمْ لَیْلَۃَ الصِّیَامِ الرَّفَثُ الآیۃ نازل فرماکر یہ آسانی عطا فرمادی کہ اگلے دن کی صبح صادق تک کھانا پینا وغیرہ سب جائز ہیں۔ سو کر اٹھنے کے بعد سحری کھانے کو سنت قرار دیدیا گیا۔ صحیح بخاری، مسلم، ابودائود میں بھی اس مضمون کی احادیث آئی ہیں۔ (ابن کثیر) بعض دوسرے اہل علم کی رائے یہ ہے کہ یُطِیْقُوْنَہٗ میں ضمیر کا مرجع تو صوم ہی ہے۔ لیکن اس سے مراد وہ لوگ ہیں جو روزہ رکھ تو سکتے ہیں لیکن روزے کا تحمل ان کے لیے آسان نہیں مشکل ہے۔ مثلاً زیادہ بوڑھے اشخاص یا حاملہ اور دودھ پلانے والی عورتیں ان کے نزدیک طاقت اور وسعت میں فرق ہے۔ وسعت تو امکان کے مترادف ہے اور طاقت میں یہ مفہوم شامل ہے کہ وہ کام کرنے والے کی قدرت میں تو ہو لیکن اس کے کرنے میں مشقت بہت زیادہ اٹھانی پڑے۔ الطاقۃ اسم لمقدار مایمکن للانسان ان یفعلہ بامشقۃ (راغب) الوسع فوق الطاقۃ فالوسع اسم لمن کان قادرا علی الشیء علی وجہ السہولۃ واما الطاقۃ فھو اسم لمن کان قادرا علی الشیء مع الشدۃ والمشقۃ (کبیر) کشاف نے بھی اسی کے ہم معنی بات کہی ہے۔ آیت کریمہ میں چونکہ طاقت کا مادہ استعمال ہوا ہے مندرجہ بالا وضاحتوں کے مطابق اس کا یہ ترجمہ کیا جاسکتا ہے کہ جو لوگ تکلیف کے ساتھ روزہ رکھ سکیں مثلاً بوڑھے مرد اور عورت، دودھ پلانے والی عورتیں اور حاملہ عورتیں ان کے لیے اجازت ہے کہ یہ بجائے تکلیف سے روزہ رکھنے کے کسی اور کو روزہ رکھوا دیں۔ اگر آیت کا یہ مفہوم مراد لیا جائے تو پھر اس کا مطلب یہ ہوگا کہ یہ حکم منسوخ نہیں بلکہ علی حالہٖ قائم ہے۔ تیسرا نقطہ نگاہ اس سے یکسر مختلف ہے وہ اس کا مرجع صیام یا صوم کو نہیں بلکہ طعام کو قرار دیتے ہیں اور صوم کو اس کا مرجع قرار دینے پر ان کے چند ایک تحفظات ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ شاہ ولی اللہ (رح) بھی اسی رائے کے حامل لوگوں میں سے تھے۔ یہ حضرات اسی سلسلے میں جو کچھ کہتے ہیں ہم ایک ترتیب سے اس کا خلاصہ عرض کردیتے ہیں۔ 1 اگر یہ بات مان لی جائے کہ صحابہ کو اختیار دیا گیا تھا کہ چاہے وہ روزہ رکھیں اور چاہے ایک مسکین کے کھانے کا فدیہ دے دیں تو پھر کُتِبَ عَلَیْـکُمُ الصِّیَامُ کا کیا مطلب ہے ؟ وہ فرض کیسا ہے جس کے ساتھ ہی اس پر عمل نہ کرنے کا اختیار بھی دے دیا جائے ؟ 2 اس کی تائید میں بعض احادیث پیش کی جاتی ہیں اگر وہ اپنے مفہوم میں اس قدر واضح ہیں جیسا کہ کہا جارہا ہے تو پھر قدیم مفسرین نے طاقت اور وسعت میں فرق کرکے یُطِیْقُوْنَـہٗ کو ایک خاص معنی پہنانے کی کیوں کوشش کی ہے ؟ 3 کس قدر عجیب بات ہے کہ عام لوگوں کو تو اس کی اجازت دے دی جائے کہ چاہیں تو روزہ رکھ لیں اور چاہیں تو فدیہ دے دیں۔ لیکن مریض اور مسافر کے لیے پابندی برقرار رہے کہ حالت مرض اور حالت سفر میں تو روزہ چھوڑا جاسکتا ہے لیکن مرض سے صحت مند ہونے اور سفر کے ختم ہونے پر قضا کرنا لازم ہے۔ روزے معاف نہیں ہوسکتے۔ 4 سلبِ ماخذ بھی ایک حقیقت ہے اور اہل لغت کی تائیدطاقت کے خصوصی معنی کے لحاظ سے بھی ایک اہمیت رکھتی ہے۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ خاصیاتِ ابواب کا معاملہ قیاسی نہیں سماعی ہے۔ اس لیے جب تک اہل زبان کے استعمال کی مثالیں اس کے حق میں نہ لائی جائیں اور فصحائے عرب کی تائید اسے میسر نہ آئے اس وقت تک محض مفروضے کی بنیاد پر اتنا بڑا فیصلہ کرنا بہت مشکل ہے۔ متذکرہ بالا تحفظات کی وجہ سے ان محققین کا کہنایہ ہے کہ یُطِیْقُوْنَہٗ کی ضمیر کا مرجع طعام ہے۔ پوری عبارت اس طرح ہے : وَعَلَی الَّذِیْنَ یُطِیْقُوْنَـہٗ فَـفِدْیَۃٌ طَعَامُ مِسْکِیْن ” جو لوگ ایک مسکین کو کھاناکھلاسکتے ہیں تو ان کے لیے بطور فدیہ ایک مسکین کو کھانا کھلانا ہے۔ “ اس صورت میں چونکہ جملہ نہایت ثقیل ہوجاتا تھا اس لیے کلام کی روانی اعجاز اور بلاغت کا تقاضا یہ ہوا کہ ایک جگہ طعام مسکین کو حذف کرکے اس کی جگہ ضمیر لائی جائے اور دوسری جگہ جہاں اس کا اظہار ضروری ہے اس کو ظاہر کردیا جائے تاکہ کلام غیر ضروری تکرار کے عیب سے پاک رہے۔ رہی یہ بات کہ اس صورت میں ضمیر کا مرجع ایک ایسے لفظ کو بنایا گیا ہے جس کا پہلے کہیں ذکر نہیں بلکہ بعد میں اس کا ذکرآیا ہے اسی کو اہل نحو کے یہاں اضمار قبل الذکرکا نام دیا جاتا ہے اور یہ کلام کا ایک عیب ہے اور قرآن کریم تو کسی طرح کے عیب کا بھی متحمل نہیں ہوسکتا۔ لیکن یہاں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ اضمار قبل الذکر اس وقت عیب ہوتا ہے جب ضمیر کا مرجع متکلم کی نیت میں بھی مقدم نہ ہو۔ لیکن اگر متکلم کی نیت میں مقدم ہو اور محض تکرار سے بچنے یا بلاغت کے کسی اور تقاضے کے تحت وہ مرجع کو موخر کرنے پر مجبور ہو تو اس صورت میں اضمار قبل الذکر کلام کا عیب نہیں بلکہ خوبی ہے۔ اس صورت میں آیت کا مفہوم یہ ہوگا کہ جو لوگ بیماری یا سفر کی وجہ سے رمضان کے روزے پورے نہیں کرسکتے تھے انھیں اس بات کی اجازت تھی کہ دوسرے دنوں میں یا تو روزے رکھ کر ان چھوڑے ہوئے روزوں کی تلافی کردیں اور یا ایک روزے کی جگہ ایک مسکین کو کھانا کھلاکر اس کا بدل پورا کردیں۔ لیکن اگلی آیت کے نازل ہونے کے بعد بیمار اور مسافر کے لیے بھی یہ رعائت منسوخ ہوگئی۔ اب ان کے لیے قضاشدہ روزوں کی جگہ بھی روزے رکھناہی ضروری ٹھہرا۔ آیت کے آخری جملے میں ارشاد فرمایا گیا ہے قضا روزے کا جو فدیہ مقرر کیا گیا ہے یہ ایک خوشحال آدمی سے کم سے کم مطالبہ ہے، اس کا پورا کرنا ضروری ہے۔ لیکن اگر کوئی شخص ایک سے زیادہ مسکینوں کو کھانا کھلانا چاہے یا ان کے ساتھ کوئی اور نیکی کرے تو یہ بہت اچھی بات ہے اور اس کے بعد یہ بھی اشارہ کردیا گیا کہ فدیہ کی محض اجازت دی گئی ہے یہ روزے کا بدل نہیں ہوسکتا۔ بہتر تو یہ ہے کہ تم روزہ ہی رکھنے کی کوشش کرو اور وہ وقت دور نہیں جب یہ اجازت ختم ہوجائے گی۔ چناچہ اگلی آیت کریمہ کے نازل ہونے کے بعد یہ اجازت منسوخ کردی گئی۔ فدیہ کا مفہوم ہماری گزشتہ بحث میں باربار فدیہ کا ذکر آیا ہے بہتر ہے کہ اس کی تفصیل اور ضروری مسائل ذکر کردئیے جائیں۔ ایک روزہ کا فدیہ نصف صاع گندم یا اس کی قیمت ہے، نصف صاع ہمارے مروجہ سیر یعنی اسی تولہ کے حساب سے تقریباً پونے دو سیر ہوتے ہیں۔ اس کی بازاری قیمت معلوم کرکے کسی غریب مسکین کو مالکانہ طور پردے دینا ایک روزہ کا فدیہ ہے بشرطیکہ کسی مسجد، مدرسہ کی خدمت کے معاوضہ میں نہ ہو۔ مسئلہ : ایک روزہ کے فدیہ کو دو آدمیوں میں تقسیم کرنا یا چند روزوں کے فدیہ کو ایک ہی شخص کو ایک تاریخ میں دینا درست نہیں، جیسا کہ شامی نے بحوالہ بحراز قنیہ نقل کیا ہے اور بیان القرآن میں اسی کو نقل کیا گیا ہے۔ مگر حضرت نے امداد الفتاویٰ میں فتویٰ اس پر نقل کیا ہے کہ یہ دونوں صورتیں جائز ہیں شامی نے بھی فتویٰ اس پر نقل کیا ہے۔ البتہ امداد الفتاویٰ میں ہے کہ احتیاط اس میں ہے کہ کئی روزوں کا فدیہ ایک تاریخ میں ایک کو نہ دے، لیکن دے دینے کی گنجائش بھی ہے۔ یہ فتویٰ مورخہ 1353 ؁ھ امدادالفتاویٰ جلد دوم صفحہ 124 میں منقول ہے۔ مسئلہ : اگر کسی کو فدیہ ادا کرنے کی بھی وسعت نہ ہو تو وہ فقط استغفار کرے اور دل میں نیت رکھے کہ جب ہوسکے گا ادا کروں گا۔ (بیان القرآن)
Top