Ruh-ul-Quran - Al-Baqara : 179
وَ لَكُمْ فِی الْقِصَاصِ حَیٰوةٌ یّٰۤاُولِی الْاَلْبَابِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ
وَلَكُمْ : اور تمہارے لیے فِي : میں الْقِصَاصِ : قصاص حَيٰوةٌ : زندگی يّٰٓاُولِي الْاَلْبَابِ : اے عقل والو لَعَلَّكُمْ : تاکہ تم تَتَّقُوْنَ : پرہیزگار ہوجاؤ
اور تمہارے لیے قصاص میں زندگی ہے اے عقل والو ! تاکہ تم حدود الٰہی کی پابندی کرو
وَلَکُمْ فِی الْقِصَاصِ حَیٰوۃٌ یّٰٓاُولِی الْاَلْبَابِ ” اے عقلمندو ! تمہارے لیے قصاص میں زندگی ہے “ تم اگر چاہتے ہو کہ دنیا میں امن قائم ہو اور انسانوں کی جان محفوظ ہوجائے تو اس کے سوا کوئی صورت ممکن نہیں کہ تم قصاص سے کام لو پورے عدل اور انصاف سے مساوات کی روح کے مطابق اگر ہر خون کا بدلہ ملے اور ہر قاتل کیفر کردار کو پہنچے تو کوئی وجہ نہیں ہے کہ دنیا میں امن قائم نہ ہوسکے لیکن یہ اسی صورت میں ممکن ہے کہ تم خالص اور غیرجانبدار عقل سے کام لو۔ تم عقل سے سوچنے کی بجائے جذبات سے سوچتے ہو اسی کا نتیجہ ہے کہ آج دنیا نے اس کا عجیب فلسفہ تراش لیا ہے کہ جب کوئی آدمی کسی کو قتل کرتا ہے تو اس کا یہ کام اس کی ذہنی ناہمواری، دماغی بیماری اور نفسیاتی عوارض کا نتیجہ ہوتا ہے۔ وہ ایک بیمار ہے جس کی وجہ سے اس سے اس طرح کے اعمال ظہور پذیر ہوتے ہیں تو بیمار آدمی تو ہمدردی کا مستحق ہوتا ہے نہ کہ سزا کا ‘ اس لیے قاتل کو سزا دینا سراسر اس پر ظلم ہے۔ یوں تو یہ فلسفہ بہت قدیم ہے لیکن قریبی دور میں بطور خاص اس کی بڑی پزیرائی ہوئی، گاندھی اور ٹالسٹائی جیسے لوگ اس کے وکیل رہے۔ چناچہ اسی جذباتیت کا نتیجہ ہے کہ بہت سارے ملکوں نے پھانسی کی سزا ختم کردی حالانکہ معمولی عقل کا آدمی بھی اس کو سمجھتا ہے کہ ہر بیماری رحم و مروت کی مستحق نہیں ہوتی اور نہ ہر زخم مرہم سے مندمل ہوتا ہے۔ اگر کسی آدمی کو سرطان (کینسر) ہوجائے تو آپ اس کے علاج کی کوشش کرتے ہیں لیکن جب آپ دیکھتے ہیں کہ یہ جسم میں پھیلنا شروع ہوگیا ہے۔ تو ایسی صورتحال میں کوئی رحیم وکریم ڈاکٹر بھی یہ مشورہ دینے کی جرأت نہیں کرے گا کہ بیمار عضو تو ہمدردی کا مستحق ہے اس کو باقی رہنے دیجیے بلکہ وہ تو پہلی فرصت میں اس جوڑ کو کاٹ دے گا تاکہ جسم کے باقی اعضاء کو بچایاجاسکے۔ مجرمانہ ذہنیت کا علاج عقل اور حکمت سے ہونا چاہیے چوری، ڈاکہ، زنا اور قتل یہ ایسی بیماریاں ہیں کہ جن کا وجود جسدِامت کے لیے متعدی مرض کی حیثیت رکھتا ہے اور جن کو چھوڑ دینا باقی جسدِ امت کو ہلاک کرنے کے مترادف ہے۔ قرآن کریم کہتا ہے کہ تم یہ سمجھتے ہو ایک آدمی تو قتل ہوگیا لیکن دوسرا آدمی اس کے قصاص میں قتل نہیں ہونا چاہیے اس طرح سے دو آدمیوں کا نقصان ہوگا۔ لیکن اگر تم عقل سے کام لو اور جذبات سے اپنے آپ کو الگ کرلوو تو تب تمہیں اندازہ ہوگا کہ ایک آدمی کا قاتل پوری انسانیت کا قاتل ہے۔ اس آدمی کو بچانے کا مطلب یہ ہے کہ تم پوری انسانیت کو قتل کردینا چاہتے ہو کیونکہ ہلاکت کی طرف جو شگاف اس نے کھولا ہے تم اسے بند نہیں کرنا چاہتے۔ قرآن کریم کہتا ہے کہ اے عقلمندو ! اگر تم اس بات کو سمجھ جاؤ تو ممکن ہے کہ تم انسانیت کو تباہی سے بچا لو اور اگر نہیں سمجھو گے تو اس کا نتیجہ تمہاری آنکھوں کے سامنے ہے اور تاریخ بھی اس کے شواہد سے معمو رہے۔ آپ امریکہ ہی کو لے لیجیے ! ذہنی بالیدگی، نفسیاتی آسودگی، کے جتنے وسائل وہاں میسر ہیں شائد کہیں اور نہ ہوں اور اس کے ساتھ ساتھ ان کے احتسابی ادارے اتنے مضبوط ہیں کہ ہم اس کا تصور بھی نہیں کرسکتے۔ باایں ہمہ جرائم کی رفتار جس قدر وہاں تیز ہے ترقی پذیرممالک تو اس کی گرد کو بھی نہیں پہنچ سکتے۔ ان کے فیڈرل بیورو آف انویسٹی گیشن کی سالانہ رپورٹیں پڑھ کر دیکھ لیجیے آپ حیران رہ جائیں گے کہ وہاں قتل کی وارداتیں دوسرے جرائم کے ساتھ ساتھ کس کثرت سے ہوتی ہیں۔ اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ انھوں نے عقل کے اس فیصلے کو تسلیم نہیں کیا۔ اس کے بالمقابل سعودی عرب کو دیکھ لیجیے وہاں چونکہ قانونِ قصاص نافذ ہے، اس لیے وہاں گنتی کی وارداتیں ہوتی ہیں۔ اس لیے فرمایا : لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ ۔ تم مستقبل کے اندیشوں سے اسی صورت بچ سکتے ہو کہ اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ قانونِ قصاص کو قبول کرلو۔ مغرب اور امریکہ کو مظلوم سے زیادہ ظالم سے ہمدردی ہے حیرانی کی بات یہ ہے کہ انسانی اقدار اور اخلاق کا تقاضایہ ہے کہ جو شخص یا جو خاندان کسی حادثے یا نقصان سے دوچار ہوتا ہے اس سے ہمدردی کی جائے اور اس کے نقصان کی تلافی کی کوشش کی جائے اور جو شخص اس نقصان کا باعث بنتا ہے اسے مجرم قرار دے کر قرار واقعی سزا دی جائے اور اسے انسانیت کا دشمن سمجھا جائے۔ لیکن یورپ اور امریکہ کے دانشوروں کا عجیب حال ہے اور انہی کے پیروکار مشرقی دانشور بھی انھیں کی جگالی کرنے لگے ہیں۔ آپ ان کے دلائل دیکھئے ان کا رویہ ملاحظہ فرمائیے، آپ کو اندازہ ہوگا کہ انھیں متاثر ہونے والے فریق سے کوئی ہمدردی نہیں بلکہ ان کی ساری ہمدردی اس شخص یا اس گروہ کے ساتھ ہیں جو دوسروں کو نقصان پہنچاتا ہے اور پھر یہ ثابت بھی ہوجاتا ہے کہ انھوں نے نقصان پہنچایا ہے۔ لیکن یہ دانشور اپنی پوری دانش اور علم کا سرمایہ لے کر اسے بچانے کے لیے اٹھ کھڑے ہوتے ہیں، جس کا گھر لٹ رہا ہے اس سے انھیں کوئی ہمدردی نہیں ہے، لیکن چو رکے ہاتھ نہیں کٹنے چاہئیں یہ سنگدلی ہے۔ جس کی عزت لٹتی ہے، وہ ان کے نزدیک قابل توجہ نہیں، رحم کے قابل وہ ہے جس کو اس جرم کی پاداش میں قانون سزادینا چاہتا ہے۔ اسی طرح جو شخص خاک وخوں میں غلطاں ہوتا ہے اور اپنے پیچھے بیوہ اور یتیم چھوڑ جاتا ہے، جنھیں سہارا دینے والا کوئی نہیں ‘ کتنی زندگیاں ہیں جو اس حادثے کی وجہ سے اندھیروں میں ڈوب جاتی ہیں۔ لیکن جس شخص کی درندگی اور سنگدلی نے یہ ظلم ڈھایا اور ایک گھر کا چراغ بجھایا ہے جب اس کے گلے تک قانون کا ہاتھ پہنچتا ہے یا یہ ثابت ہوجاتا ہے کہ یہ شخص قاتل ہے تو فوراً قانون کے محافظ اور قانون کی بالادستی کے علمبردار اس کی مدد کو آپہنچتے ہیں۔ کبھی کسی نفسیاتی عارضہ کا بہانہ اور کبھی انسانیت کے نام سے ایک جان بچانے کی کوشش۔ یہ مغرب اور امریکہ کا وہ رویہ ہے جس نے ان کو مجرموں کا ساتھی بنادیا ہے اور شائد اسی کے نتائج ہیں کہ ان کا حکمران اور پالیسی ساز طبقہ پوری دنیا کے لیے سب سے زیادہ ظالم ثابت ہورہا ہے اور وہ اسے ظلم سمجھنے کے لیے بھی تیار نہیں۔ ان کی انسانیت اس حدتک مرگئی ہے کہ وہ درندگی کو انسانیت کا نام دینے لگے ہیں۔ قرآن کریم شائداسی صورتحال کی طرف لَعَلَّـکُمْ تَتَّقُوْنَ کہہ کرمتوجہ کررہا ہے۔ حرمتِ جان کے بعد حرمت مال حرمتِ جان کے بعد جس چیز کی حرمت اسلامی معاشرے میں بےحد اہمیت کی حامل ہے اور جس کا حرمت جان سے نہایت گہرا رشتہ ہے بلکہ اگر یہ کہا جائے تو شائد غلط نہ ہو کہ حرمت جان کو جب بھی کوئی صدمہ پہنچتا یا نقصان لاحق ہوتا ہے تو بالعموم حرمت مال کے تصور کے مجروح ہونے کے بعد پہنچتا ہے۔ جب بھی معاشرے میں مال و دولت سے تعلق حدود سے تجاوز کرتا ہے تو پھر مال و دولت کے حصول میں دست درازیاں ہونے لگتی ہیں حد سے بڑھتی ہوئی طلب کے نتیجے میں جائز ناجائز اور حرام و حلال کی تمیز مٹنے لگتی ہے۔ پھر یہی رشتہ سب رشتوں پر غالب آجاتا ہے، تمام اقدار اس کے سامنے ماند پڑجاتی ہیں۔ رحم، مروت، ہمدردی، مدد، اعانت، غریب پروری، دوسرے کی ملکیت کا احترام، ان میں سے ایک ایک چیز اپنی قدر کھو دیتی ہے، تمام جذبات پر حبِّ مال کا جذبہ غالب آجاتا ہے۔ رشتے اسی رشتے سے وجود میں آتے اور اسی سے ٹوٹنے لگتے ہیں۔ اس کی موجودگی عزت کی علامت بن جاتی ہے اور اس سے محرومی ذلت کے مترادف سمجھ لی جاتی ہے۔ اس کی اس اہمیت اور خطرناکی کی وجہ سے حرمت جان کے قانون کو بیان کرنے کے بعد حرمت مال کے قانون کی طرف توجہ فرمائی گئی ہے۔ حرمت مال کے تحفظ اور اس کی تقویت کے لیے سب سے پہلے یہ بات ضروری ہے کہ قانون ہر آدمی کے حقوق متعین کرے اور اس کے مرنے کے بعد اس کے وارثوں کے حقوق متعین اور محفوظ کردئیے جائیں اور دوسرے لوگوں میں یہ اخلاقی سپرٹ پیدا کی جائے کہ وہ اس قانون کا احترام کریں۔ چناچہ اگلی آیت کریمہ میں حرمت مال کے ضمن میں ایک عارضی قانون کے ذریعے سے اعزہ اور اقربا کے حقوق کا تعین کرکے ان کی حفاظت کا سامان کیا گیا ہے۔ کُتِبَ عَلَیْکُمْ اِذَا حَضَرَ اَحَدَکُمُ الْمَوْتُ اِنْ تَرَکَ خَیْرَنِ ا صلے ج الْوَصِیَّۃُ لِلْوَالِدَیْنِ وَالْاَقْرَبِیْنَ بِالْمَعْرُوْفِ ج حَقًّا عَلَی الْمُتَّقِیْنَ ۔ (جب تم میں سے کسی کی موت کا وقت آپہنچے اور وہ کچھ مال چھوڑ رہا ہو تو تم پر فرض کیا گیا ہے والدین اور قرابت مندوں کے لیے دستور کے مطابق وصیت کرنا یہ حق ہے اللہ سے ڈرنے والوں کے لیے) (البقرۃ : 180) حرمتِ قانون کا عارضی قانون یہ آیات کریمہ معلوم ہوتا ہے مدینہ منورہ کے قیام کے ابتدائی سالوں میں نازل ہوئی ہیں۔ یہ وہ وقت ہے جب ابھی مدینے میں مخلوط آبادی ہے مسلمان، غیرمسلم اور منافقین ملے جلے رہ رہے ہیں۔ مدینے کے اطراف میں اعراب کا بسیرا ہے اور مضافاتی علاقوں میں یہود رہ رہے ہیں۔ آبادی کے ایک بڑے حصے نے ابھی تک اسلام قبول نہیں کیا۔ جس کی وجہ سے ابھی تک مدینے کی ریاست کو پوری طرح پائوں جمانے کا موقعہ نہیں ملا۔ ریاست کی ناتمام شکل کی وجہ سے بعض معاملات میں مکمل ہدایات یا مستقل قانون دینے کا ابھی وقت نہیں آیا لیکن ساتھ ہی ساتھ مسلمانوں کے معاملات کو درست کرنے اور ہر سطح پر ان کی تربیت کی انتہائی ضرورت ہے جسے التوا میں نہیں ڈالاجاسکتا۔ اس ضروت کے پیش نظر قرآن کریم نے بعض معاملات میں عارضی قوانین دیئے ہیں، جو مستقل قوانین آنے کے بعد منسوخ ہوگئے، انھیں میں سے وراثت کے قوانین بھی ہیں۔ ابھی تک چونکہ ایک مستقل تفصیلی قانون نازل نہیں ہوا تھا لیکن حرمت مال کا تصور برابر اس کا تقاضاکررہا تھا۔ اس لیے قرآن کریم نے اس ضرورت کو پورا کرنے کے لیے ہر مرنے والے کو یہ حکم دیا کہ وہ مرنے سے پہلے ایک وصیت کرے جس میں اپنے والدین اور اپنے اقربا کے حقوق کا تعین کرے۔ کُتِبَ عَلَیْکُمْ کا معنی ہے ” تم پر فرض کردیا گیا ہے “ کَتَبَ کے ساتھ جب علٰیآتا ہے تو اس کے معنی میں فرضیت پیدا ہوجاتی ہے۔ اس جملے کا ترجمہ ہوگا کہ تم میں سے ہر شخص کے لیے وصیت کرنا فرض قرار دیا گیا ہے۔ لیکن ساتھ ہی دو شرائط کا ذکر بھی فرمایا، ایک تو یہ کہ جب تم محسوس کرو کہ موت کا وقت قریب آرہا ہے بیماری بڑھتی جارہی ہے صحت کے امکانات کم ہوتے جارہے ہیں اور کمزوری روز بروز بڑھتی جارہی ہے تو سمجھ لو کہ موت اب زیادہ دور نہیں۔ دوسری شرط یہ ہے کہ تم اپنے پیچھے کوئی مال چھوڑ کر جا رہے ہو۔ اگر مرنے والا گھر میں سوائے غربت کے اور کچھ نہیں چھوڑرہا تو اس کے لیے وصیت کی کیا ضرورت ہے ؟ کیونکہ وصیت کا مقصد یہ ہے کہ بعد میں وارث اپنااپنا حصہ مقرر نہ ہونے کی وجہ سے لڑناشروع نہ کردیں اور عدم تعین کی صورت میں چونکہ اس کا غالب اندیشہ ہوتا ہے اس لیے فرمایا اگر تم اپنے پیچھے کوئی مال چھوڑ رہے ہو تو وصیت ضرور کرو۔ وصیت کا معنی ہوتا ہے ” کسی بڑے کی طرف سے چھوٹوں کو تلقین و ہدایت کرنا یاحکم دینا “۔ یہ زندگی میں کیا جائے یا موت کے وقت کے قریب دونوں صورتوں میں اس کا مفہوم ایک ہی ہے۔ مال خیر ہے یہاں دیکھئے مال کو خیر سے تعبیر کیا گیا ہے تاکہ یہ نہ سمجھاجائے کہ اسلام رہبانیت کا دین ہے اور اس میں مال و دولت سے نفرت سکھائی جاتی ہے مال و دولت بجائے خود سرتاپا خیر ہے۔ یہ فی ذاتہٖ کوئی شر نہیں رکھتا البتہ اس کا غلط استعمال اور اسے غلط حیثیت دے دینے سے زندگی میں مفاسد پیدا ہوتے ہیں۔ یہ زندگی کی بہت اہم ضرورت ہے اور ایک بہت بڑی قوت ہے۔ لیکن جب اس سے تعلق میں بگاڑ پیدا ہوتا ہے یا اس کا استعمال غلط ہوتا ہے تو پھر اس سے زیادہ تباہ کن چیز بھی کوئی نہیں۔ حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی (رح) فرماتے تھے : (زندگی کشتی کی مانند ہے اور مال و دولت دریا کے پانی کی طرح، کشتی کی اصل قوت پانی ہے، اگر پانی نہ ہو تو کشتی بےکا رہے۔ لیکن یہ قوت اس وقت تک ہے جب تک یہ پانی کشتی کے نیچے ہے لیکن اگر خدانخواستہ یہ کشتی کے اندر داخل ہوجائے تو پھر کشتی کے لیے اس سے زیادہ تباہ کن کوئی چیز نہیں۔ اسی طرح مال و دولت بھی جب تک ہاتھ کی چھڑی ہے یا جیب کی گھڑی تو کوئی نقصان نہیں دیتی۔ لیکن جب یہ دل کا محبوب بن جائے تو پھر اس سے زیادہ مہلک چیز کوئی نہیں ) وصیت سے متعلق تفصیل عربوں کا معروف یہ تھا کہ ان کے دوتہائی مال میں اولاد کے حصے مقرر تھے اور ایک تہائی مال میں مرنے والا اپنے والدین اور اقربا کے لیے وصیت کرتا تھا جس میں وہ ان کے حقوق کا تعین کردیتا تھا۔ چناچہ اسلام نے مستقل قانونِ میراث دینے سے پہلے اس معروف کو باقی رکھا اور اس پر عمل کرنے کا حکم دیا۔ یہاں اسی کا حکم دیا گیا ہے کہ تم پر یہ بات فرض کردی گئی ہے کہ اپنی موت کے قریب تم اپنے چھوڑے ہوئے مال میں والدین اور قریبی عزیزوں کے حقوق مقرر کردو اور ان کے لیے وصیت چھوڑجاؤ اور اس وقت کے حالات میں اسے حق یعنی واجب قرار دیا گیا۔ لیکن قانونِ میراث کے نازل ہوجانے کے بعد ایک تو یہ بات منسوخ ہوگئی کہ دوتہائی صرف اولاد کے لیے ہوگا اور ایک تہائی میں والدین اور قریبی عزیزوں کے وصیت کے ذریعے حصے مقرر کیے جائیں گے۔ اللہ نے تمام وارثوں کے حقوق متعین فرمادئیے، اب کسی کو اس میں کمی بیشی کرنے کا حق نہ رہا اور دوسرا یہ حکم دیا گیا کہ اب تم اپنے کسی وارث کے لیے وصیت نہیں کرسکتے یعنی اللہ نے جو اس کے لیے حق مقرر کردیا ہے تم وصیت کے ذریعے نہ اسے کم کرسکتے ہو نہ زیادہ کرسکتے ہو۔ ہاں ! ایک صورت ممکن ہے کہ اگر تم اپنے کسی وارث کو زیادہ دینا چاہتے ہو مثلاً تم یہ دیکھتے ہو کہ وہ اپنے بھائیوں میں مالی اعتبار سے سب سے کمزور ہے یا کوئی اور ضرورت اسے لاحق ہے جسے پورا کرنے کے لیے اس کے پاس وسائل نہیں اور تم اس ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے اسے فائدہ پہنچانا چاہتے ہو تو پھر تم اپنے وارثوں کو اپنی بیماری کے دنوں میں جمع کرکے ان سے وصیت کرنے کی اجازت لے لو۔ اگر وہ اس پر راضی ہوجائیں تو اب تم ان سے متعلق وصیت کرسکتے ہو اور اگر وہ راضی نہ ہوں تو پھر تمہیں کسی بھی وارث کے لیے وصیت کرنے کا کوئی حق نہیں۔ حجۃ الوداع میں ڈیڑھ لاکھ انسانوں کے سامنے آنحضرت ﷺ نے اس کا اعلان فرمایا : لَاوَصِیَّۃَ لِوَارِثٍ ” وارث کے لیے کوئی وصیت نہیں “۔ یہ حدیث معنوی طور پر متواتر سمجھی جاتی ہے۔ دوسری یہ بات کہ اس میں وصیت کرنا جو فرض قرار دیا گیا تھا احکامِ میراث آجانے کے بعد وہ فرضیت بھی ساقط ہوگئی۔ البتہ اگر کسی آدمی کے پاس لوگوں کی امانتیں ہوں یا کسی کا قرض یا کسی کے حقوق اس کے ذمہ ہوں تو حضور کا ارشاد ہے کہ بغیر وصیت کیئے اس پر تین دن نہیں گزرنے چاہئیں اور تیسری یہ بات کہ ایک تہائی میں اب بھی وصیت کرنے کی اجازت ہے۔ ایسا شخص جو اس کے وارثوں میں شامل نہیں، چاہے وہ رشتہ داروں میں سے ہو اور چاہے بےگانہ۔ ایک تہائی میں اس کے لیے وصیت کرسکتا ہے۔ اسی طرح کسی بھی دینی یارفاہی ادارے کو اگر وہ کچھ دینا چاہتا ہے تو ایک تہائی مال میں سے اس کے لیے بھی وصیت کرسکتا ہے۔ بعض اہل علم کا خیال ہے کہ ایک تہائی مال میں وصیت کرنا اب بھی ضروری ہے تاکہ اگر خاندان میں کچھ ایسے لوگ موجود ہوں مثلاً پوتا یا نواسہ جو انتہائی ضرورتمند ہیں لیکن وراثت میں ان کے لیے کوئی حصہ نہیں تو یہ وصیت ان کے لیے حوصلے کا سامان ہوسکتی ہے۔ ان آیات کے نزول کے زمانے میں قانون کے نفاذ کا زیادہ تر دارومدار شاہدوں اور گواہوں کی امانت ودیانت پر تھا اور خود وصیت بھی عموماً زبانی کی جاتی تھی اور جو گواہوں ہی کے واسطے سے وارثوں تک پہنچتی تھی۔ اب اگر یہ گواہ گواہی میں خیانت کرے تو وراثت کے حقوق میں اختلاف پیدا ہوسکتا ہے۔ اس لیے اگلی آیت کریمہ میں گواہوں کو تنبیہ کی گئی ہے۔ ارشاد فرمایا :
Top