Ruh-ul-Quran - Al-Baqara : 178
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ عَلَیْكُمُ الْقِصَاصُ فِی الْقَتْلٰى١ؕ اَلْحُرُّ بِالْحُرِّ وَ الْعَبْدُ بِالْعَبْدِ وَ الْاُنْثٰى بِالْاُنْثٰى١ؕ فَمَنْ عُفِیَ لَهٗ مِنْ اَخِیْهِ شَیْءٌ فَاتِّبَاعٌۢ بِالْمَعْرُوْفِ وَ اَدَآءٌ اِلَیْهِ بِاِحْسَانٍ١ؕ ذٰلِكَ تَخْفِیْفٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَ رَحْمَةٌ١ؕ فَمَنِ اعْتَدٰى بَعْدَ ذٰلِكَ فَلَهٗ عَذَابٌ اَلِیْمٌ
يٰٓاَيُّهَا : اے الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو اٰمَنُوْا : ایمان لائے كُتِب : فرض کیا گیا عَلَيْكُمُ : تم پر الْقِصَاصُ : قصاص فِي الْقَتْلٰي : مقتولوں میں اَلْحُرُّ : آزاد بِالْحُرِّ : آزاد کے بدلے وَالْعَبْدُ : اور غلام بِالْعَبْدِ : غلام کے بدلے وَالْاُنْثٰى : اور عورت بِالْاُنْثٰى : عورت کے بدلے فَمَنْ : پس جسے عُفِيَ : معاف کیا جائے لَهٗ : اس کے لیے مِنْ : سے اَخِيْهِ : اس کا بھائی شَيْءٌ : کچھ فَاتِّبَاعٌ : تو پیروی کرنا بِالْمَعْرُوْفِ : مطابق دستور وَاَدَآءٌ : اور ادا کرنا اِلَيْهِ : اسے بِاِحْسَانٍ : اچھا طریقہ ذٰلِكَ : یہ تَخْفِيْفٌ : آسانی مِّنْ : سے رَّبِّكُمْ : تمہارا رب وَرَحْمَةٌ : اور رحمت فَمَنِ : پس جو اعْتَدٰى : زیادتی کی بَعْدَ : بعد ذٰلِكَ : اس فَلَهٗ : تو اس کے لیے عَذَابٌ : عذاب اَلِيْمٌ : دردناک
اے ایمان والو ! تم پر فرض کیا گیا ہے مقتولوں کا قصاص لینا، آزاد کے بدلے آزاد اور غلام کے بدلے غلام اور عورت کے بدلے عورت، پھر جس کسی کے لیے اس کے بھائی کی طرف سے کچھ معاف کردیا گیا تو اس کے لیے دستور کی پیروی کرنا اور خوبی کے ساتھ اس کو ادا کرنا ہے۔ یہ تمہارے رب کی طرف سے ایک آسانی اور مہربانی ہے پھر جو زیادتی کرے اس فیصلہ کے بعد تو اس کے لیے دردناک عذاب ہے
یٰٓاَیُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الْقِصَاصُ فِی الْقَتْلٰی ط اَلْحُرُّ بِالْحُرِّ وَالْعَبْدُ بِالْعَبْدِ وَالْاُنْثٰی بِالْاُنْثٰی ط فَمَنْ عُفِیَ لَہٗ مِنْ اَخِیْہِ شَیْئٌ فَاتِّبَاعٌ م بِالْمَعْرُوْفِ وَاَدَآئٌ اِلَیْہِ بِاِحْسَانٍ ط ذٰلِکَ تَخْفِیْفٌ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَرَحْمَۃٌ ط فَمَنِ اعْتَدٰی بَعْدَ ذٰلِکَ فَلَہٗ عَذَابٌ اَلِیْمٌ۔ وَلَکُمْ فِی الْقِصَاصِ حَیٰوۃٌ یّٰآُولِی الْاَلْبَابِ لَعَلَّـکُمْ تَتَّقُوْنَ ۔ اے ایمان والو ! تم پر فرض کیا گیا ہے مقتولوں کا قصاص لینا، آزاد کے بدلے آزاد اور غلام کے بدلے غلام اور عورت کے بدلے عورت، پھر جس کسی کے لیے اس کے بھائی کی طرف سے کچھ معاف کردیا گیا تو اس کے لیے دستور کی پیروی کرنا اور خوبی کے ساتھ اس کو ادا کرنا ہے۔ یہ تمہارے رب کی طرف سے ایک آسانی اور مہربانی ہے پھر جو زیادتی کرے اس فیصلہ کے بعد تو اس کے لیے دردناک عذاب ہے۔ اور تمہارے لیے قصاص میں زندگی ہے اے عقل والو ! تاکہ تم حدود الٰہی کی پابندی کرو) (البقرۃ : 178 تا 179) قصاص کا معنی و مفہوم قصاص عام مفہوم میں ” خون کے بدلے “ کو کہتے ہیں۔ یعنی قاتل کے ساتھ وہی کیا جائے جو اس نے مقتول کے ساتھ کیا ہے۔ لیکن اس کا لفظی معنی ” مماثلت “ ہے۔ جس سے قصاص کی اصل روح کی طرف اشارہ معلوم ہوتا ہے کیونکہ مماثلت کا مساوات کے بغیرحق ادا نہیں ہوتا اور حقیقی مساوات اور ہر سطح پر مساوات قصاص کی اصل روح ہے۔ اسی طرح اس کا معنی ” کسی کے پیچھے اس کے نقش قدم کے ساتھ ساتھ چلنا “ بھی ہے۔ قرآن کریم نے مختلف آیات میں اس لفظ کو اس معنی میں استعمال کیا ہے۔ مثلاً سورة قصص آیت نمبر 11 میں فرمایا گیا ہے : وَقَالَتْ لِاُخْتِہٖ قُصِّیْہِ ز فَبَصُرَتْ بِہٖ عَنْ جُنُبٍ وَّھُمْ لَایَشْعُرُوْنَ ۔ (اور اس نے اس کی بہن سے کہا اس کے پیچھے پیچھے جا تو وہ دور سے اسے دیکھتی رہی اور لوگوں کو اس کا علم نہیں ہوا) قصیہ قصاص سے ہے اور اس کا معنی ہے اس کے پیچھے پیچھے جاؤ “ یہ امر واحد مونث حاضر ہے۔ اس معنی میں بھی اس طرف اشارہ معلوم ہوتا ہے کہ قصاص کے مفہوم میں قاتل کا کھوج لگانا اس کا تعاقب کرنا، اس کے نقوش قدم کو تلاش کرنا اور پھر اس کے ساتھ ساتھ چلتے ہوئے قاتل تک پہنچنا اور آخر اسے کیفر کردار تک پہنچانایہ قصاص کا مقصد ہے۔ لفظ کا معنی جان لینے کے بعد آیت کریمہ کے الفاظ پر غور کیجیے۔ فرمایا : مسلمانوں تم پر مقتولوں کے بارے میں قصاص لینا فرض کیا گیا ہے۔ قَتْلٰی ” قتیل “ کی جمع ہے اور قتیل ” مقتول “ کو کہتے ہیں۔ اس میں دیکھئے کہ مسلمانوں کو خطاب کرکے مقتولوں کے قصاص کی فرضیت کا ذکر فرمایا گیا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ اس خطاب کے اصل مخاطب کون ہیں ؟ مقتول کے ورثایاعام مسلمان معاشرہ ؟ اگر مقتول کے ورثا مراد لیے جائیں اور یہ سمجھا جائے کہ قصاص لینا ان پر فرض کیا گیا ہے تو پھر انھیں قاتل یا اس کے خاندان سے کسی طرح کی مفاہمت کی اجازت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتاجب کہ ہم جانتے ہیں کہ اسلام نے مقتول کے وارثوں کو قاتل سے مفاہمت کی اجازت دی ہے۔ وہ چاہیں تو قاتل کو قصاص معاف کردیں چاہیں تو دیت پر سمجھوتہ کرلیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس میں خطاب وارثوں کو نہیں بلکہ مسلمان معاشرے یا ان کی نمائندہ حکومت کو ہے۔ ایک آدمی کا قتل، جسدِ امت کے ایک عضوکا کٹ جانا ہے اسلام کی نگاہ میں اگر کہیں قتل ہوتا ہے تو وہ اگرچہ براہ راست نقصان اس گھر اور اس خاندان کا ہے جس کے ساتھ مقتول کی رشتہ داری ہے اور وہی براہ راست صدمہ کا شکار بھی ہوں گے۔ لیکن حقیقت میں یہ نقصان صرف مقتول کے وارثوں کا نھیں بلکہ پوری مسلمان سوسائٹی اور مسلمان معاشرے کا ہے کیونکہ مسلمان جسدِ واحد کی حیثیت رکھتے ہیں جسم کا اگر ایک عضو کٹ جائے یا ہاتھ کی ایک انگلی کٹ جائے تو یہ نقصان صرف ہاتھ کا ہی نہیں بلکہ پورے جسم کا ہے۔ انگلی کٹنے کی تکلیف صرف ہاتھ ہی محسوس نہیں کرتا بلکہ پورا جسم اس سے بےچین اور بےخواب ہوتا ہے۔ اسی طرح جب کوئی مسلمان قتل ہوتا ہے تو وہ جسدِ امت کا ایک عضو کٹتا ہے۔ مسلمان اگر ایک عمارت کی مانند ہیں تو عمارت کی ایک دیوارگرتی ہے اور اگر وہ ایک درخت کی حیثیت رکھتے ہیں تو اس کا ایک تنا ٹوٹتا ہے اس لحاظ سے مقتول صرف اپنے خاندان کا مسئلہ نہیں بلکہ مسلمان معاشرے اور اسلامی حکو مت کا مسئلہ ہے بلکہ اس سے ایک قدم آگے بڑھ کر یہ کہنا چاہیے کہ سوال صرف مسلمان کا نھیں بلکہ مسلمانوں کے زیر تحفظ کسی غیر مسلم کی جان بھی جاتی ہے تو تب بھی پورے اسلامی معاشرے کو بےچین ہوجانا چاہیے کیونکہ قرآن کریم یہ کہتا ہے کہ ایک آدمی کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے ارشاد ہے : مَنْ قَتَلَ نَفْسًام بِغَیْرِ نَفْسٍ اَوْفَسَادٍ فِی الْاَرْضِ فَکَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِیْعًا ط وَمَنْ اَحْیَاھَا فَکَاَنَّمَآاَحْیَا النَّاسَ جَمِیْعًا ط جس نے کسی جان کو بغیر اس کے کہ اس نے کسی کی جان ماری ہو یا زمین میں فساد مچایاہو قتل کردیا تو گویا اس نے سارے ہی لوگوں کو قتل کردیا اور جس نے اس کو زندہ کیا تو گویا سب لوگوں کو زندہ کیا) (المآئدہ : 32) ایک آدمی کا قتل انسانیت کا قتل ہے اس طرح سے قرآن کریم ایک شخص کے قتل کو مقتول کے وارثوں کا نھیں انسانیت کا مسئلہ قرار دیتا ہے۔ اس لحاظ سے اس نقصان کی تلافی کے لیے بےقراری اور بےچینی صرف مقتول کے وارثوں کو نہیں ہونی چاہیے بلکہ پورے مسلمان معاشرے، پوری انسانیت، اور اسلامی حکومت کو ہونی چاہیے۔ قتل اللہ تعالیٰ کے قانون کی پامالی ہے اگر ایک اور پہلو سے دیکھا جائے تو یہ معاملہ اور بھی اہمیت اختیار کرجاتا ہے۔ وہ پہلو یہ ہے کہ جس طرح ایک شخص کا قتل انسانیت کا قتل ہے اسی طرح ایک شخص کا قتل اللہ کے قانون کی پامالی بھی ہے۔ حرمت جان کا تصور اور اس کی حفاظت کا قانون اللہ کی ہر شریعت میں موجود رہا ہے اور ہر دور کے رسول نے اپنی اپنی امت کو اس کی تعلیم دی ہے اور بنی اسرائیل کو بڑی تاکید کے ساتھ اس حکم کا پابند کیا گیا ہے۔ تو مسلمان معاشرے میں جب ایک شہ رگ کٹتی ہے تو اس کے ساتھ ہی اللہ کے ایک قانون کی ایک دفعہ گرجاتی ہے۔ جب کہیں بھی خون بہتا ہے تو اس کے ساتھ ہی اللہ کے قانون کی بےحرمتی اور پامالی ہوتی ہے تو اس بےحرمتی اور پامالی کو روکنا صرف مقتول کے وارثوں کی ذمہ داری نہیں بلکہ تمام مسلمان معاشرے کی ذمہ داری ہے۔ اس لیے اس آیت کریمہ میں مسلمان معاشرے یا اسلامی حکومت پر مقتول کے قاتل سے قصاص لینا فرض کیا گیا ہے اور اس قصاص کے عمل کو تکمیل تک پہنچانے کے لیے جو کچھ کرنے کی ضرورت ہوتی ہے ان میں سے ایک ایک اسلامی حکومت کی ذمہ داری ہے۔ قاتل کا کھوج لگانا، اس کی تحقیق وتفتیش کے لیے تمام وسائل بروئے کار لانا اور اگر قاتل کسی بڑی حیثیت کا مالک یا کسی بڑے گینگ سے تعلق رکھتا ہے تو پوری قوت سے اس پر ہاتھ ڈالنا اور پھر عدالت میں اس معاملے کو لے جاکرفیصلے تک پہنچانا اور پھر فیصلے کو نافذ کرنا، ان میں سے کوئی بات بھی مقتول کے وارثوں کے ذمہ نہیں بلکہ یہ تمام حکومت کے فرائض ہیں۔ اس لیے کہ قاتل کی تحقیق و تفتیش عام لوگوں کے بس کی بات نہیں ہوتی اور مقتول ضروری نہیں کہ اپنے پیچھے ایسے وسائل چھوڑ جائے جس سے اس کے وارث تحقیق و تفتیش کی ذمہ داری کا بوجھ اٹھاسکیں اور پھر اگر قاتل یا اس کا خاندان بڑی حیثیت کا مالک ہوتوان سے عہد برأ ہونامقتول کے وارثوں کے لیے بسا اوقات ممکن نہیں ہوتا۔ مزید تشویش کی بات یہ ہے کہ بسا اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ حالات کی ستم ظریفی یا دبائو کے باعث مقتول کے وارث تحقیق وتفتیش کے چکر میں پڑنے کی زحمت ہی گوارا نہیں کرتے اور بعض ایسے بھی ہوتے ہیں کہ وہ اپنے لیے اسے خطرہ سمجھ کر قاتل کی ہم نوائی کرنا شروع کردیتے ہیں یا اس سے لاتعلق ہوجاتے ہیں۔ ان تمام مشکلات کو سامنے رکھتے ہوئے حکومت پر یہ ذمہ داری ڈالی گئی ہے کہ قاتل کی تلاش کرے اور اسے کیفر کردار تک پہنچائے۔ البتہ ! اس میں حکومت کو بعض باتوں کا پابند بھی کیا گیا ہے اورا سے اپنے طور پر فیصلہ کرنے کی مکمل آزادی نہیں دی گئی۔ ان کے لیے یہ لازم ٹھہرایا گیا ہے کہ وہ بجائے خود فیصلہ کرنے کے مقتول کے اولیا کو یہ اختیار دے کہ وہ اسلامی قانون کی حدود کے اندرقاتل کے ساتھ جو معاملہ کرنا چاہیں کریں۔ اسے قتل کردیں یا اس سے خوں بہا لے لیں، حکومت کا کام ان کے لیے ایسے حالات اور ایسا تحفظ فراہم کرنا ہے جس میں وہ اپنے اختیار کے مطابق فیصلہ کرسکیں۔ مقتول کے وارثوں کو یہ اختیار دینادوررس نتائج کا حامل ہے۔ چناچہ مقتول کے وارث جب دیکھتے ہیں کہ قاتل پر ہم کو اختیار دے دیا گیا ہے اور ہم چاہیں تو قصاص میں اس کی جان لے سکتے ہیں اور چاہیں تو اس کے ساتھ کوئی نرم رویہ بھی اختیار کرسکتے ہیں۔ تو اس اختیار مل جانے سے ان کے بہت بڑے اور بہت گہرے زخم کے اندمال کی ایک صورت پیدا ہوجاتی ہے۔ ان کا گیا ہوا عزیز واپس تو نہیں آسکتا لیکن ان کو ایک حوصلہ ضرور ملتا ہے کہ ہم اس معاشرے میں تنہا نہیں اور پھر جب اس اختیار کے بعد وہ قاتل کو معاف کریں گے یا اس سے دیت لینے پر راضی ہوجائیں گے تو یہ قاتل اور اس کے خاندان پر براہ راست ان کا احسان ہوگا۔ جس سے اس انتہائی خطرناک دشمنی میں کمی ہونے کی امید کی جاسکتی ہے۔ قتل دو خاندانوں میں انتقام کی آگ بھردیتا ہے اور یہ معافی ازسر نوٹوٹے ہوئے دلوں کو جوڑ دینے کا کام کرسکتی ہے۔ اس لیے اسلام نے مقتول کے اولیا کو یہ حق دیا تاکہ اس ظلم کے آثار مٹائے جاسکیں۔ اگر یہ سارا اختیار پولیس اور عدالت ہی کو سونپ دیا جاتاجیسا کہ موجودہ قوانین میں ہے تو پھر ان بہتر نتائج کے پیدا ہونے کی امید نہیں کی جاسکتی۔ قصاص کی روح کو زندہ کرنے والی ہدایت اب اگر مقتول کے وارث یہ فیصلہ کرلیں کہ ہمیں بہرصورت قاتل سے قصاص ہی لینا ہے اور ہم کسی مفاہمت کے لیے تیار نہیں تو پھر قرآن کریم نے اس آیت کریمہ کے دوسرے جز میں ایک ایسی ہدایت عطا فرمائی ہے جس نے قصاص کی روح کو زندہ کردیا ہے۔ قصاص کا تصور تو اسلام سے پہلے بھی موجود تھا لیکن وہ ایک انتہائی انتقام کی شکل اختیار کرچکا تھا۔ جس میں عدل اور احسان کا کوئی شمہ باقی نہیں رہا تھا۔ اگر کسی بڑے قبیلے کا کوئی فرد مارا جاتا اور قاتل چھوٹے قبیلے کا ہوتا تو بڑے قبیلے کے سردار مطالبہ کرتے کہ ہم اپنے مقتول کے بدلے میں صرف ایک قاتل کو ہی قصاص میں قتل نہیں کریں گے بلکہ ہم اپنی حیثیتِ عرفی کے مطابق قاتل کے ساتھ مزید چند افراد کا خون بھی بہائیں گے کیونکہ اس چھوٹے قبیلے کا ایک فرد ہمارے قبیلے کے ایک فرد کے برابر نہیں ہوسکتا۔ اسی طرح اگر مقتول کسی چھوٹے قبیلے کا ہوتا اور قاتل کسی بڑے قبیلے کا تو اولاً تو بڑے اور طاقتور قبیلے سے کسی طرح کا قصاص لینے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتاکیون کہ وہ یہ دعویٰ کرتے کہ ان کا کوئی فرد چونکہ ہمارے کسی فرد کے برابر نہیں تو ہم ایک معمولی آدمی کے قتل کے بدلے میں اپنے نہایت معزز قاتل کا گلا کیسے پیش کردیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا کہ یا تو اس مقتول کا خون رائیگاں جاتا اور یا پھر انھیں مجبوراً دیت لیناپڑتی۔ ممکن ہے آپ کے ذہن میں یہ بات آئے کہ یہ تو دور جاہلیت کی باتیں ہیں جبکہ ہر قبیلہ اپنے آپ کو سب سے زیادہ معزز خیال کرتا تھا۔ آج کا دور تو علم کی روشنی کا دور ہے آج تو اس طرح کی باتوں کی کوئی گنجائش نہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ آج کی جاہلیتِ جدیدہ جاہلیتِ قدیمہ سے بھی زیادہ انسانیت کی قاتل ہے۔ آج کی طاقتور دنیا سے کوئی کمزور ملک قصاص کا مطالبہ نہیں کرسکتا۔ اب تو اندھیر نگری کا عالم یہ ہے کہ دنیا کے پانچ بڑے ملک اپنے پاس ” ویٹو “ کا اختیار رکھتے ہیں جس کی موجود گی میں کسی ایسے معاملے کا تصفیہ نہیں ہوسکتا جو ان کی ہوائے نفس اور مفادات کے مطابق نہ ہو۔ امریکہ طاقت کے زعم میں یہ بات کہتا ہوا ہرگز نہیں شرماتا کہ ہمیں دنیا کے کسی بھی ملک پر حملہ کرنے کا حق ہے اور کسی دوسرے ملک کو ہمارے ملک یا ہماری فوج کے خلاف عالمی عدالتِ انصاف میں جانے کا کوئی حق نہیں۔ جاہلیتِ قدیمہ میں انسان انسان پر ظلم توڑتا تھا لیکن اس کی وسعت بڑی محدود تھی اور پھر اسی جاہلیت میں کچھ لوگ ایسے بھی تھے جو ظلم کو ظلم کہتے تھے۔ لیکن آج کے دور میں ظلم کی وسعتوں سے زمین تنگ ہوگئی ہے اور ظلم کو الفاظ کا وہ جامہ پہنادیا گیا ہے کہ وہ ظلم ہونے کے باجود عدل دکھائی دیتا ہے۔ اس لیے قرآن کریم نے اس آیت میں حکم دیا کہ قاتل اور مقتول انسان ہونے کے لحاظ سے سب برابر ہیں کسی کو کسی پر کوئی فوقیت نہیں۔ جو قتل کرے گا وہی قتل کے بدلے میں قتل کیا جائے گا، چاہے وہ کسی بھی حیثیت کا مالک ہو اور ہر مقتول کے قتل کا بدلہ قاتل سے لیا جائے گا، چاہے وہ مقتول اپنی حیثیت میں کتنا بھی فروترکیوں نہ ہو۔ آزاد کے بدلے آزاد، غلام کے بدلے غلام، عورت کے بدلے عورت، سب برابر پکڑے جائیں گے کوئی ان میں تبدیلی نہیں کرسکتا کوئی یہ نہیں کہہ سکے گا کہ ہمارا غلام تمہارے آزاد سے بہتر ہے۔ اس لیے ہم اپنے غلام کے بدلے میں آزاد کی جان لیں گے اور اپنی عورت کے بدلے میں مرد کو قتل کریں گے۔ اس مساواتِ انسانی کا اعلان فرماکر زمانہ جاہلیت کی تمام بےاعتدالیوں اور ناہمواریوں کا خاتمہ کردیا۔ یہود نے بھی اس معاملے میں شریف اور رذیل اور اسرائیلی اور غیر اسرائیلی کے درمیان امتیاز قائم کررکھا تھا، اس اعلان سے وہ بھی ختم ہوگیا۔ اسلام نے خلافتِ راشدہ اور اس کے بعد بھی اسی کامل مساوات کے ساتھ فیصلے کیے۔ لیکن عدل و مساوات کے علمبردار یورپ اور امریکہ کو آج بھی کالوں اور گوروں کے امتیاز پر نظر ڈالنے کی کبھی جرأت نہیں ہوئی۔ فَمَنْ عُفِیَ لَہٗ مِنْ اَخِیْہِ شَیْئٌ ” پس جس کسی کے لیے اس کے بھائی کی طرف سے کچھ رعائت کی گئی “۔ اس جملے کے الفاظ پر غور کیجیے ! اخ ” بھائی “ کس کو قرار دیا جارہا ہے ؟” مقتول کے قاتل “ کو۔ مقتول کے وارثوں سے کہا جارہا ہے کہ اس میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ قاتل نے تمہیں ایسا زخم لگایا ہے جس کی تلافی اور اندمال کی کوئی صورت نہیں ہے۔ لیکن اس کے باوجود تمہیں معلوم ہے کہ وہ تمہارا انسانی بھائی ہے اور اگر وہ کسی وقتی اشتعال میں آکر یا غلط فہمی سے ایسا کر بیٹھا ہے تو ہوسکتا ہے کہ وہ دینی بھائی بھی ہو۔ اس طرح بھائی کہہ کر پروردگار سفارش فرما رہے ہیں کہ تم اپنے بھائی کے ساتھ نرمی اختیار کرو۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اسلام قتل جیسے معاملات کو بھی ہیجان کا ذریعہ بننے نہیں دیتا۔ وہ قتل کو بھی قابل راضی نامہ سمجھتا ہے۔ وہ اس آگ کو الائو بنانے کی بجائے اسے بجھادینا چاہتا ہے۔ لیکن ساتھ ہی وہ یہ بھی نہیں چاہتا کہ اس ذہنیت کو پنپنے کا موقعہ دیا جائے اور لوگوں کی جانیں غیرمحفوظ ہوجائیں۔ دونوں پہلوئوں کا توازن کرتے ہوئے اگر مقتول کے وارث انسانی اخوت کے رشتہ کا پاس کرتے ہوئے قاتل کے ساتھ یہ رعائیت کرنے کے لیے تیار ہوجائیں کہ ہم قصاص نہیں دیت لے لیں گے تو پھر قاتل اور اس کے قبیلے کو ہدایت کی جارہی ہے : فَاتِّبَاعٌ م بِالْمَعْرُوْفِ وَاَدَآئٌ اِلَیْہِ بِاِحْسَانٍ ” قاتل اور اس کے خاندان والوں کا فرض ہے کہ وہ احسان مندی اور شکرگزاری کے جذبے کے ساتھ معروف کے مطابق دیت ادا کریں اور دیت کی ادائیگی نہایت احسن طریق سے کریں “۔ معروف کا مفہوم معروف کا لفظ قرآن کریم نے کئی جگہ استعمال کیا ہے۔ اس سے مراد عربوں کا وہ طریقہ ہے جس پر عموماً ان کے معاشرے کا اتفاق ہوتا ہے اور جسے تمام عقلاء عقل کی بات سمجھتے اور عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور جس میں کوئی بات مذہب کے مزاج سے متصادم نہیں ہوتی۔ اسلام نے متعدد مواقع پر اس کو قبول کیا ہے جب تک اللہ کی طرف سے کوئی حکم نہیں آیا تو آنحضرت ﷺ نے معروف پر عمل فرمایا اور جب حکم آگیا تو حکم خداوندی کے بعد تو کسی بھی حکم کی کوئی اہمیت باقی نہیں رہ جاتی تو معروف کی اہمیت بھی ختم ہوجاتی ہے۔ قصاص کے معاملے میں بھی عرب کا ایک معروف تھا کہ اگر دیت کی ادائیگی کا فیصلہ ہوجاتا تو ان کے ہاں دیت کی جو مالیت مقرر تھی اور جو ان کا معروف کہلاتی تھی، قرآن کریم نے اسی کو باقی رکھا اور اسلام نے اسے قانون کی حیثیت دے دی۔ یہاں اہل عرب کا وہی رواج اور دستور مراد ہے۔ ان کے ہاں جو دیت مروج تھی اور جسے اسلام نے قانونی شکل دے دی وہ سواونٹ یا ہزار دینار یادس ہزار درہم تھے۔ درہم آج کل کے مروجہ وزن کے اعتبار سے تقریباً ساڑھے تین ماشہ چاندی کا ہوتا ہے، تو پوری دیت دوہزار نوسو تولے آٹھ ماشے چاندی ہوگی یعنی 36 سیر 36 تولے 8 ماشے۔ اس دیت کے بارے میں فرمایا جارہا ہے کہ تم پر اگر مقتول کے وارثوں نے احسان کیا ہے تو تمہیں اس کی قدر کرتے ہوئے حسن نیت کے ساتھ اس کی ادائیگی کرنی چاہیے کیونکہ اگر نیت اچھی نہ ہو تو دیت میں چونکہ عام طور پر اونٹ، بکریاں، غلہ اور کھجور وغیرہ ادا کی جاتی تھی، تو اس میں بڑی آسانی سے دھوکہ دیاجاسکتا تھا کہ جانور دئیے جائیں تو مریل دئیے جائیں، محض گنتی پوری کردی جائے اور غلہ یاکھجور ادا کی جائے تو وہ بھی گھٹیا اور ردی قسم کی تو اس طرح سے کہنے کو تو دیت ادا ہوجائے گی لیکن حقیقت میں دیت نہیں ہوگی۔ کہا دیکھو تم ایسا نہ کرنا بلکہ احسان کا جواب احسان سے دینا اور دیت کی ادائیگی میں فیاضی اور کشادہ دلی کا ثبوت دینا۔ مزید فرمایا کہ قصاص میں قتل کی بجائے اللہ نے جو دیت کی اجازت دی ہے یہ تمہارے رب کی طرف سے تخفیف اور رحمت ہے۔ اس لیے اگر ایک طرف تمہیں مقتول کے وارثوں کا شکر گزار ہونا چاہیے تو دوسری طرف اللہ کا بھی شکر بجالانا چاہیے۔ اعْتَدٰیکا مفہوم آخر میں فرمایا : فَمَنِ اعْتَدٰی بَعْدَ ذٰلِکَ فَلَہٗ عَذَابٌ اَلِیْمٌ ” اس پر بھی جو زیادتی کرے تو اس کے لیے عذاب الیم ہے “۔ روئے سخن دونوں کی طرف ہے قاتل کی طرف بھی اور مقتول کے وارثوں کی طرف بھی کیونکہ زیادتی کا امکان دونوں طرف سے ہوسکتا ہے۔ بعض دفعہ مقتول کے وارث یہ سازش کرتے ہیں کہ اس وقت تو دیت لے کر اپنی مالی مشکلات کو دور کرلیں اور بظاہر قاتل کو معاف کردیں لیکن جب کوئی مناسب موقعہ ہاتھ آئے گا تو ہم اس قاتل کو ٹھکانے لگادیں گے اور یہ محض مفروضہ نہیں مقتول کے وارث اگر ایسا نہ بھی سوچنا چاہیں تو عموماً دائیں بائیں کے لوگ انھیں ایسا سوچنے پر مجبور کردیتے ہیں۔ اسلام نے دیت کو جواز دے کر اگر قاتل پر احسان کیا ہے کہ اس کی جان بچ گئی ہے تو مقتول کے وارثوں پر بھی احسان کیا ہے کہ مرنے والے کے یتیم بچوں کی گزر بسر کا ایک ذریعہ پیدا ہوگیا ہے۔ لیکن لوگ ہمیشہ یہ کہہ کرمقتول کے وارثوں کو اشتعال دلاتے ہیں کہ تم نے اپنے مرحوم کا خون بیچ ڈالا، تم نے اس کی قیمت لے لی یا تم نے ڈر کر یہ سمجھوتہ کرلیا۔ اسی طرح قاتل اور اس کے وارث وہ بھی بعض دفعہ سوچتے ہیں کہ ایک طرف پھانسی کا پھندا ہے اور دوسری طرف دیت کی مالیت ہے۔ اس وقت اگر ہم دیت دے کر جان بخشی کرالیں اور زندگی بچ جائے تو اس وقت ایسا کرلینا چاہیے۔ لیکن جب کبھی موقعہ ہاتھ آئے گا تو ہم ان کو کوئی نہ کوئی نقصان پہنچانے کی کوشش کریں گے۔ دونوں سے فرمایا جارہا ہے کہ سمجھوتہ اور تصفیہ ہوجانے کے باعث دونوں میں سے جس نے بھی زیادتی ارتکاب کیا تو اس کے لیے دردناک عذاب ہے۔ دنیا میں تو تم ایک دوسرے سے فریب کرسکتے ہو لیکن اللہ کے عذاب سے نہیں بچ سکو گے۔ قصاص میں زندگی ہے آنحضرت ﷺ کی بعثت سے پہلے جس طرح دنیا بدامنی کا جہنم بنی ہوئی تھی، اس کا ایک بہت بڑا سبب یہ تھا کہ انسانوں میں مساوات ختم ہوگئی تھی اونچ نیچ اور ذات پات کے تصور نے انسانوں کے ایک طبقے کو ظالم اور دوسرے کو مظلوم بنادیا تھا۔ لوگ قتل ہوتے تھے اور قاتل کو اس کے بدلے میں مارے جانے کا کوئی اندیشہ نہیں ہوتا تھا۔ جب ظالم اور قاتل کو ظلم کی چھٹی مل جائے اور یک طرفہ خون بہتا رہے تو پھر خوں ریزی اور فساد سے دنیا محفوظ نہیں ہوسکتی۔ آج بھی دنیا اپنی ساری ترقی اور روشنیِ علم وہنر کے باوجود بدامنی کا جہنم بنی ہوئی ہے۔ اس کا سبب بھی یہی عدم مساوات اور ظالم کو ظلم کی کھلی چھوٹ ملنا ہے۔ اس پر ارشاد فرمایا جارہا ہے :
Top