Ruh-ul-Quran - Al-Baqara : 175
اُولٰٓئِكَ الَّذِیْنَ اشْتَرَوُا الضَّلٰلَةَ بِالْهُدٰى وَ الْعَذَابَ بِالْمَغْفِرَةِ١ۚ فَمَاۤ اَصْبَرَهُمْ عَلَى النَّارِ
اُولٰٓئِكَ : یہی لوگ الَّذِيْنَ : جنہوں نے اشْتَرَوُا : مول لی الضَّلٰلَةَ : گمراہی بِالْهُدٰى : ہدایت کے بدلے وَالْعَذَابَ : اور عذاب بِالْمَغْفِرَةِ : مغفرت کے بدلے فَمَآ : سو کس قدر اَصْبَرَھُمْ : بہت صبر کرنے والے وہ عَلَي : پر النَّارِ : آگ
یہی لوگ ہیں جنھوں نے گمراہی کو ہدایت پر اور عذاب کو مغفرت پر ترجیح دی یہ کس قدر صبر کرنے والے ہیں جہنم کی آگ پر۔
اُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ اشْتَرَوُا الضَّلٰـلَۃَ بِالْھُدٰے وَالْعَذَابَ بِالْمَغْفِرَۃِ ج فَمَآ اَصْبَرَھُمْ عَلَی النَّارِ ۔ (البقرۃ : 175) (یہی لوگ ہیں جنھوں نے گمراہی کو ہدایت پر اور عذاب کو مغفرت پر ترجیح دی یہ کس قدر صبر کرنے والے ہیں جہنم کی آگ پر) اللہ تعالیٰ نے انسان کی فطرت اس طرح سے بنائی ہے کہ اس کے بنائو اور بگاڑ دونوں میں ایک ترتیب اور تدریج پائی جاتی ہے۔ اصلاح کا عمل بھی یکلخت اپنا کام مکمل نہیں کرلیتا بلکہ آہستہ آہستہ دلوں میں اس کی جوت لگتی ہے۔ ایک احساس سا کروٹیں لینے لگتا ہے پھر دماغ اس کی تائید کرتا ہے زبان اقرار کرتی ہے اور باقی اعضاء وجوارح اس کی تعمیل میں لگ جاتے ہیں۔ اس پر ایک زمانہ گزرتا ہے کہ پھر نیکی کا شعور، ایک مزاج اور ایک رویے میں ڈھلنے لگتا ہے۔ جو دھیرے دھیرے اصلاح کے عمل کو آگے بڑھاتا ہے اور ایک وقت آتا ہے جب سیرت و کردار کا خوبصورت محل تعمیر ہوجاتا ہے۔ بالکل اسی طرح بگاڑ بھی یکلخت اپنے پنجے نہیں گاڑتاوہ بھی ایک ترتیب اور تدریج سے آگے بڑھتا ہے۔ ایمان میں کمزوری بےعملی کو پیدا کرتی ہے، بےعملی آہستہ آہستہ بد عملی کا روپ دھارتی ہے اور یہی بدعملی جب انسان پر غالب آجاتی ہے تو اس کا وہ رویہ وجود میں آتا ہے جو ہر برائی کی طرف لپکتا ہے اور ہر نیکی سے نفور اختیار کرتا ہے۔ ہر بری بات اچھی لگنے لگتی ہے، بری مجلسوں میں دل لگنے لگتا ہے، برے لٹریچر کو دماغ قبول کرنے لگتا ہے، آخر ایک ایسا وقت آتا ہے جب جنت، جہنم، ایمان کی باتیں، حتی کہ خدا رسول تک مفروضہ معلوم ہونے لگتے ہیں۔ ہر برائی نیکی کے مقابلے میں ترجیح کے قابل دکھائی دیتی ہے اور اگر کوئی مغفرت اور بخشش کی باتیں کرتا ہے تو ایسا شخص بھڑک کر اور برہم ہو کر یہ کہتا ہے کہ تمہاری جنت سے مجھے جہنم زیادہ عزیز ہے۔ چناچہ بگاڑ کا یہی وہ تدریجی عمل اور تکمیلی شکل ہے جس کا اس آیت کریمہ میں ذکر فرمایا جارہا ہے کہ اہل کتاب ہوں یا مشرکینِ عرب خدا فراموشی کے نتیجے میں خود فراموشی کے عذاب کا شکار ہوگئے ہیں۔ نفع وضرر کے پیمانے ان کے یہاں جواب دے چکے ہیں۔ وہ ایک ایسے مریض کی طرح جس کے منہ کا مزہ بگڑ جائے اسے شہد بھی کڑوا لگتا ہے، انھیں نیکی کی ہر بات بری لگتی ہے۔ وہ ہدایت کی ہر بات سے بدکتے ہیں اور گمراہی کی طرف لپکتے ہیں۔ مغفرت اور بخشش کی باتیں ان کے نزدیک دقیانوسی ہیں۔ وہ اس بات سے بیخبر نہیں ہیں کہ گمراہی کے نتائج کیا ہوتے ہیں، لیکن ان کا بگاڑ اس حد تک پہنچ گیا ہے کہ انھیں اللہ کے عذاب سے بھی ڈر نہیں لگتا۔ اس پر تعجب کا اظہار کرتے ہوئے پروردگار فرماتے ہیں : فَمَآ اَصْبَرَھُمْ عَلَی النَّارِ ، مَااَصبَرَ ، مَااَحسَنَ کی طرح اظہار تعجب کے لیے ہے۔ مطلب یہ ہے کہ ان کی دیدہ دلیری دیکھئے کہ ہدایت کی جگہ ضلالت اور مغفرت کی جگہ عذاب کو ترجیح دے رہے ہیں۔ اس جرأت اور ڈھٹائی کا کیا جواب ہے ؟ اگلی آیت کریمہ میں ان کے اس انتہا پسندانہ رویے کا سبب بیان کیا گیا ہے۔
Top