Ruh-ul-Quran - Al-Baqara : 170
وَ اِذَا قِیْلَ لَهُمُ اتَّبِعُوْا مَاۤ اَنْزَلَ اللّٰهُ قَالُوْا بَلْ نَتَّبِعُ مَاۤ اَلْفَیْنَا عَلَیْهِ اٰبَآءَنَا١ؕ اَوَ لَوْ كَانَ اٰبَآؤُهُمْ لَا یَعْقِلُوْنَ شَیْئًا وَّ لَا یَهْتَدُوْنَ
وَاِذَا : اور جب قِيْلَ : کہا جاتا ہے لَهُمُ : انہیں اتَّبِعُوْا : پیروی کرو مَآ اَنْزَلَ : جو اتارا اللّٰهُ : اللہ قَالُوْا : وہ کہتے ہیں بَلْ نَتَّبِعُ : بلکہ ہم پیروی کریں گے مَآ اَلْفَيْنَا : جو ہم نے پایا عَلَيْهِ : اس پر اٰبَآءَنَا : اپنے باپ دادا اَوَلَوْ : بھلا اگرچہ كَانَ : ہوں اٰبَآؤُھُمْ : ان کے باپ دادا لَا يَعْقِلُوْنَ : نہ سمجھتے ہوں شَيْئًا : کچھ وَّلَا يَهْتَدُوْنَ : اور نہ ہدایت یافتہ ہوں
جب ان سے کہا جائے کہ تابعداری کرو اس حکم کی جو اللہ نے نازل فرمایا ہے۔ تو کہتے ہیں ہرگز نہیں ! ہم تو تابعداری کریں گے اس کی جس پر ہم نے اپنے آبائواجداد کو پایا ہے۔ کیا اس صورت میں بھی جب کہ ان کے باپ دا دا نہ کچھ سمجھتے رہے ہوں اور نہ راہ ہدایت پر رہے ہوں ؟
وَاِذَا قِیْلَ لَھُمُ اتَّبِعُوْا مَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ قَالُوْا بَلْ نَتَّبِعُ مَآاَلْفَیْنَا عَلَیْہِ اٰبَآئَ نَا ط اَوَلَوْ کَانَ اٰبَآؤُھُمْ لَایَعْقِلُوْنَ شَیْئًا وَّلاَ یَھْتَدُوْنَ ۔ (البقرۃ : 170) (جب ان سے کہا جائے کہ فرمانبرداری کرو اس حکم کی جو اللہ نے نازل فرمایا ہے۔ تو کہتے ہیں ہرگز نہیں ! ہم تو فرمانبرداری کریں گے اس کی جس پر ہم نے اپنے آبائواجدا دکو پایا ہے۔ کیا اس صورت میں بھی جب کہ ان کے باپ دا دا نہ کچھ سمجھتے رہے ہوں اور نہ راہ ہدایت پر رہے ہوں ؟ ) آبائو اجداد کی اندھی تقلید جب مشرکین سے یہ کہا جاتا کہ تم نے جو مشرکانہ رسوم بنا رکھی ہیں اور اپنی مرضی سے حلال و حرام کے فیصلے کر رکھے ہیں بلکہ خود ساختہ شریعت بنا رکھی ہے۔ آخر اس کا کیا جواز ہے ؟ تمہارے سامنے اللہ کے احکام پیش کیے جارہے ہیں۔ اللہ کا پیغمبر نہایت محکم دلائل کے ساتھ تمہارے سامنے اللہ کا دین پیش کررہا ہے، تو تم اسے قبول کرنے سے کیوں گریز کررہے ہو ؟ تو وہ جواب میں یہ کہتے کہ ہم کسی ہدایت کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں۔ ہمارے پاس ہدایت کا صرف ایک ہی سرچشمہ ہے، وہ ہمارے آبائواجداد ہیں۔ ہم نے جو روایت ان سے پائی ہے ہم اسے چھوڑ نہیں سکتے کیونکہ اپنے بڑوں کی تقلید کرنا اچھی قوموں کا ہمیشہ طریقہ رہا ہے۔ قرآن کریم نے اس پر تنقید کرتے ہوئے تقلید اور پیروی کے لیے ایک اصول دے دیا ہے۔ جس کو بنیاد بنا کر یہ فیصلہ کیا جاسکتا ہے کہ کس کی پیروی صحیح ہے اور کس کی پیروی غلط۔ قرآن کریم کے عطا کردہ اصول کا حاصل یہ ہے کہ کسی بات کا آبائواجدا د کی میراث یا روایت بن جانا نہ اس کے غلط ہونے کا ثبوت ہے اور نہ اس کے صحیح ہونے کا کیونکہ جنھیں آبائواجداد کہا جاتا ہے، وہ بھی اپنی اولاد کی طرح انسان ہی تھے۔ ان میں اچھے لوگ بھی تھے اور برے بھی، عقل والے بھی اور کم عقل بھی اور آج ان کی اولاد کل کو اپنی اولاد کے لیے آبائواجدا کی حیثیت ہی اختیار کرجائے گی۔ تو آج ان کی جو اچھی یا بری حالت ہے یہ آبائو اجدا دبن جانے سے بدل تو نہیں جائے گی۔ اس لیے محض کسی کا دنیا سے چلا جانا اور ان کا باپ دادا کہلانا نہ ان کے اچھے ہونے کی دلیل ہے اور نہ ان کے برے ہونے کی۔ اس لیے ان کی باتوں اور ان کے کاموں کے بارے میں یا ان کے مذہبی خیالات کے حوالے سے صرف یہ بات کافی نہیں ہے کہ وہ مرحوم ہوچکے ہیں، اس لیے ان کی ہر بات قبول کرلی جائے بلکہ ان کے خیالات ان کی روایات اور ان کے فیصلوں کو غیر جانبداری سے دیکھا جائے گا کہ ان کی حیثیت کیا ہے ؟ اگر تو ان کا تعلق مجرد عقل سے تعلق رکھنے والی باتوں سے ہے تو انھیں عقل کے ترازو میں تولا جائے گا۔ اگر عقل صحیح انھیں قبول کرلے تو پورے احترام سے انھیں قبول کرلیا جائے گا ورنہ محض اس لیے اسے قبول نہیں کیا جاسکتا کہ وہ ہمارے بڑے لوگوں کی باتیں ہیں۔ اگر ان کی باتوں کا تعلق دین اور مذہب سے ہے تو پھر یہ دیکھاجائے گا کہ کیا اس کی کوئی مضبوط اور قابل اعتماد سند ہے یا نہیں ؟ اگر واقعی کوئی مضبوط اور قابل اعتماد سند ان کی باتوں اور عقائد کو حضرت اسماعیل سے وابستہ کردے تو یقینا اس کے سامنے سرجھکادیا جائے گا۔ لیکن اگر یہ معلوم ہو کہ یہ سب خانہ ساز باتیں ہیں تو محض آبائو اجداد کا احترام ان باتوں کو قبول کرنے کے لیے کافی نہیں۔ تو اس کا مطلب یہ ہے کہ عقل کی باتوں میں حجت اور دلیل عقل کو ہونا چاہیے اور دین کی باتوں میں واجب التسلیم دین کے حوالے کو ہونا چاہیے۔ جس طرح غلط بات کو آج کے کسی آدمی کے حوالے سے قبول نہیں کیا جاسکتا، اسی طرح آبائواجداد کے حوالے سے بھی قبول کرنا گمراہی ہے۔ لیکن بعض لوگوں نے اس آیت اور اس طرح کی دوسری آیات کو ائمہ فقہ کی تقلید اور عدم تقلید کی بحث میں کھینچ لیا ہے۔ اولاً تو اس بحث سے ان آیات کا براہ راست کوئی تعلق نہیں لیکن اگر اس کے مفہوم سے اس حوالے سے بھی کوئی بات سمجھی جاسکتی ہے تو وہ بھی بالکل واضح ہے کہ شرعی مسائل دو طرح کے ہیں۔ ایک تو وہ ہیں جن کے بارے میں قرآن وسنت کے احکام بالکل واضح ہیں اور دوسرے وہ ہیں جو اجتہاد اور قیاس کے ذریعے قرآن وسنت سے استنباط کیئے جاتے ہیں۔ تو اگر کسی عالم کے بارے میں یہ اطمینان ہوجائے کہ اس کے پاس قرآن وسنت کا علم بھی ہے اور اسے درجہ اجتہاد بھی حاصل ہے کہ جو احکام صراحتہً قرآن وسنت میں نہیں ان کو نصوص قرآن وسنت سے بذریعہ قیاس نکال سکتا ہے۔ تو ایسے عالم مجتہد کی تقلید اور اتباع بالکل جائز ہے کیونکہ ایسے عالم کی تقلید کا مطلب اس کا حکم ماننا اور اس کا اتباع کرنا نہیں ہے بلکہ اس کی تقلید اور اتباع اللہ کے حکم کی اطاعت اور اس کا اتباع ہے۔ امام قرطبی نے اسی آیت کے ضمن میں یہی بات اپنے طریقے سے فرمائی ہے۔ تعلق قوم بھذہ الایۃ فی ذم التقلید (الیٰ ) وھذا فی الباطل صحیح اما التقلید فی الحق فاصل من اصول الدین وعصمۃ من عصم المسلمین یلجاء الیھا الجاھل المقصرّعن درک النظر (قرطبی، ص 194، ج 2) کچھ لوگوں نے اس آیت کو تقلید کی مذمت میں پیش کیا ہے اور یہ باطل کے معاملہ میں تو صحیح ہے۔ لیکن حق کے معاملہ میں تقلید سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔ حق میں تقلید کرنا تو دین کے اصول میں سے ایک مستقل بنیاد ہے اور مسلمانوں کے دین کی حفاظت کا بہت بڑا ذریعہ ہے کہ جو شخص اجتہاد کی صلاحیت نہیں رکھتا وہ دین کے معاملہ سے تقلید ہی پر اعتماد کرتا ہے۔
Top