Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
228
229
230
231
232
233
234
235
236
237
238
239
240
241
242
243
244
245
246
247
248
249
250
251
252
253
254
255
256
257
258
259
260
261
262
263
264
265
266
267
268
269
270
271
272
273
274
275
276
277
278
279
280
281
282
283
284
285
286
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Ruh-ul-Quran - Al-Baqara : 168
یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ كُلُوْا مِمَّا فِی الْاَرْضِ حَلٰلًا طَیِّبًا١ۖ٘ وَّ لَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِ١ؕ اِنَّهٗ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ
يٰٓاَيُّهَا
: اے
النَّاسُ
: لوگ
كُلُوْا
: تم کھاؤ
مِمَّا
: اس سے جو
فِي الْاَرْضِ
: زمین میں
حَلٰلًا
: حلال
طَيِّبًا
: اور پاک
وَّلَا
: اور نہ
تَتَّبِعُوْا
: پیروی کرو
خُطُوٰتِ
: قدم (جمع)
الشَّيْطٰنِ
: شیطان
اِنَّهٗ
: بیشک وہ
لَكُمْ
: تمہارا
عَدُوٌّ
: دشمن
مُّبِيْنٌ
: کھلا
(اے لوگو ! کھائو زمین کی چیزوں میں سے حلال پاکیزہ اور شیطان کے نقش قدم کی پیروی نہ کرو، بیشک وہ تمہارا کھلا ہوا دشمن ہے۔
یٰٓاَیُّھَاالنَّاسُ کُلُوْا مِمَّا فِی الْاَرْضِ حَلٰـلًا طَیِّـبًا صلے ز وَّلَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِ ط اِنَّـہٗ لَکُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ۔ اِنَّمَا یَاْمُرُکُمْ بِالسُّوْٓئِ وَالْفَحْشَآئِ وَاَنْ تَقُوْلُوْا عَلَی اللّٰہِ مَالَا تَعْلَمُوْنَ (البقرۃ : 168 تا 169) (اے لوگو ! کھائو زمین کی چیزوں میں سے حلال پاکیزہ اور شیطان کے نقش قدم کی پیروی نہ کرو، بیشک وہ تمہارا کھلا ہوا دشمن ہے۔ وہ تو بس تمہیں برائی اور بےحیائی کی راہ سجھائے گا اور اس بات کی کہ تم اللہ کی طرف وہ باتیں منسوب کروجن کو تم نہیں جانتے) شرک کی ایک اور صورت سے اجتناب کا حکم گزشتہ رکوع سے جو نیا سلسلہ کلام شروع ہوا ہے اس کا آغاز ” توحید “ کی دعوت سے ہوا ہے۔ پھر ” توحید “ پر ایک زور دار دلیل بیان کی گئی ہے اور ساتھ ہی اظہارِ تعجب کرتے ہوئے یہ فرمایا گیا ہے کہ ایسے واضح دلائل کی موجودگی میں بھی انسانوں کا حال یہ ہے کہ وہ نہ صرف اللہ کے ساتھ دوسری قوتوں کو شریک ٹھہراتے ہیں بلکہ ان کے ساتھ ایسی محبت کرتے ہیں جیسی وہ اللہ سے کرتے ہیں۔ گویا ان کے شرک کی پہلی صورت یہ ہے کہ وہ اپنے دل و دماغ میں غیر اللہ کو اس طرح بسالیتے ہیں، جیسے اللہ کو بسانا چاہیے۔ ان کے ساتھ ان کی وارفتگی اور فدائیت کا حال یہ ہے کہ ان کے نزدیک اللہ اور غیر اللہ میں کوئی فرق نہیں۔ یہاں ان کے شرک کی دوسری صورت بیان کی جارہی ہے کہ ان کے دل و دماغ میں اللہ کے ساتھ ٹھہرائے گئے شریکوں کے لیے صرف ایک وابستگی اور تعلق ہی نہیں ہے بلکہ عملی زندگی پر اس کے اثرات بھی بہت گہرے ہیں۔ بالکل سامنے کی بات ہے کہ جب آدمی کسی کو اپنا اِلٰہ مانتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اس کی غیر مشروط عبادت، محبت اور اطاعت کا عہد کرتا ہے اور اپنے دل و دماغ کو اس تعلق سے معمور کرلیتا ہے۔ لیکن یہ تعلق صرف ایک دعویٰ ہی رہتا ہے، جب تک عملی زندگی میں اس کا اظہار نہیں ہوتا۔ عملی زندگی ہی سے اندازہ ہوتا ہے کہ کسی کے ساتھ عبودیت کے تعلق کا دعویٰ کرنے والا اپنے اس دعوے میں سچا ہے یا جھوٹا ہے۔ اگر وہ اپنے ہر معاملے اور ہر فیصلے میں اپنے تسلیم کردہ الٰہ کے فیصلے کو قبول کرتا ہے اور اس کے سامنے سرِ تسلیم خم کردیتا ہے تو سمجھا جائے گا کہ وہ اپنے دعوے میں سچا ہے۔ لیکن اگر اس کے عملی زندگی میں تمام فیصلے اس سے آزاد رہتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنے دعوے میں یا تو جھوٹا ہے اور یا وہ دعوے کی حقیقت کو نہیں جانتا۔ اس لیے اس آیت کریمہ میں عربوں سے خطاب کرکے کہا جارہا ہے کہ اگر تم اللہ کو الوہیت میں وحدہٗ لاشریک سمجھتے ہو تو پھر عملی زندگی میں اس کا اظہار ہونا چاہیے۔ اس کے اظہار کی آسان اور اولین شکل یہ ہے کہ تم اپنی غذا کے لیے ان چیزوں کو استعمال کرویا ان چیزوں کو غذا بنائو جنھیں اللہ نے حلال اور طیب ٹھہرایا ہے۔ ” حلال “ حلَّ سے ہے، جس کا معنی ہے ” گرہ کھول دینا “ حلال وہ چیز ہوتی ہے، اللہ تعالیٰ جس کی گرہ کھول دیتے ہیں یعنی اس سے پابندی ہٹالیتے ہیں اور بندوں کے لیے اس کے استعمال کی اجازت ہوجاتی ہے۔ طیب ” پاکیزہ “ چیز کو کہتے ہیں یعنی ایسی چیز کہ جو ظاہری گندگی سے بھی پاک ہو، عقلی اور اخلاقی مفاسد سے بھی مبرّا ہو اور ہر طرح کی باطنی اور شرک کی آلودگی سے محفوظ ہو یعنی تمہیں اپنی غذا ان چیزوں سے حاصل کرنی چاہیے جنھیں اللہ نے حلال ٹھہرایا ہے اور پاکیزہ بنایا ہے۔ عقلِ سلیم جن کی پاکیزگی کو محسوس کرتی ہے اور فطرتِ سلیمہ جس سے گھن نہیں کھاتی اور قوموں کا معروف ہمیشہ اس کی صحت پر اتفاق رکھتا ہے اور شرک کی کوئی آلودگی اس پر اثرانداز نہیں ہوسکی۔ زندگی کے معاملات پر تحلیل وتحریم کے حوالے سے اثر انداز ہونا یہ شرک کی سب سے جلی صورت ہے۔ شیطان نے ہمیشہ اسی راستے سے فائدہ اٹھایا ہے۔ لیکن عجیب بات یہ ہے کہ انسان نے ہمیشہ اس صورت کے جلی ہونے کے باوجود ارادۃً یا خطاً اس میں ٹھوکر کھائی ہے۔ ایک آدمی اللہ کو ماننے کا اقرار کرتا ہے، لیکن تحلیل و تحریم کا حق وہ صرف اللہ کو دینے کو تیار نہیں ہوتا۔ کبھی وہ اس کا حق شیطان کو دے دیتا ہے اور شیطانی قوتوں کے سو رنگ ہیں، جن کی پہچان میں ٹھوکر کھاتا ہے اور کبھی یہ حق اپنے معاشرے کو، کبھی سماج کو، کبھی پارلیمنٹ کو، کبھی آئین اور قانون کو دیتا ہے، جو کھلم کھلا ہر معاملے میں دخیل ہو کر اپنی بندگی کرواتے اور اپنی الوہیت منواتے ہیں۔ لیکن انسان کو اس کا احساس نہیں ہو تاکہ میں کسی شرک کا ارتکاب کر رہا ہوں حالانکہ کس قدر عجیب بات ہے کہ اگر پروردگارِ عالم کو ہمارے معاملات میں حلت و حرمت کے حوالے سے فیصلے کا اختیار نہیں یعنی وہ یہ اختیار نہیں رکھتا کہ ہماری جس بات کو چاہے حلال قرار دے دے اور جس کام کو چاہے حرام قرار دے دے تو پھر وہ آخر الٰہ کیسا ؟ لیکن عرب اس بات کو سمجھنے کے لیے تیار نہیں تھے اور آج کا انسان بھی اس کے لیے تیار نہیں۔ حتیٰ کہ مسلمان بھی کلمہ پڑھنے کے ساتھ ساتھ اس حوالے سے آزادی چاہتے ہیں اور صدیوں سے اس بات پر ان کا اصرار جاری ہے حالانکہ قرآن کریم نے اس بات کو واضح کیا ہے کہ اللہ کے حکم کے بغیر تحلیل وتحریم شرک ہے۔ اسی وجہ سے قرآن کریم میں شرک اور تحلیل و تحریم کا مضمون جگہ جگہ ایک ساتھ بیان ہوا ہے۔ وقال الذین اشرکوا لو شاء اللہ ماعبدنا من دونہ من شیء ولا حرمنا من دونہ من شیء ” اور مشرک کہتے ہیں کہ اگر اللہ چاہتا تو نہ ہم اس کے سو اکسی چیز کو پوج سکتے اور نہ اس کے بغیر کسی چیز کو حرام ٹھہراسکتے “۔ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ شرک اور تحلیل وتحریم دونوں ایک دوسرے سے متعلق ہیں۔ شائد یہی وجہ ہے کہ شیطان نے اسی معاملے میں ہمیشہ لوگوں کو گمراہ کرکے اپنی بندگی کروائی ہے۔ کتنے ایسے جانور ہیں جنھیں اللہ نے حلال ٹھہرایا لیکن مشرکینِ عرب نے شیطانی وسوسے پر ان کو اپنے لیے حرام ٹھہرایا اور کتنی حرام چیزیں ہیں جنھیں اللہ نے حرام ٹھہرایا لیکن دنیا نے نفسانی یا شیطانی وساوس میں مبتلا ہو کر انھیں اپنے لیے حلال کرلیا۔ قرآن کریم نے دونوں طرح کی مثالیں جابجا بیان کی ہیں۔ سورة مائدہ اور سورة انعام میں بطور خاص اس کی تفصیل آئے گی۔ حقیقت تو یہ ہے کہ شیطان نے جب حضرت آدم کی اولاد کو توحید کے راستے سے ہٹانے کا اعلان کیا تھا تو اس نے پوری صفائی اور جرأت کے ساتھ اس بات کا اظہار کیا تھا کہ حلت و حرمت کے حوالے سے بطور خاص اولادِ آدم کو نشانہ بنائوں گا۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اس نے پوجا پاٹ کے طریقوں اور بندگی کے مختلف اسالیب کی صورت میں انسانوں میں شرک داخل کیا۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ تحلیل وتحریم کے ذریعے اس نے انسان کے اندر جو شرک کی پرورش کی ہے، وہ بھی بجائے خود ایک قابل ذکر چیز ہے۔ اسی کا ذکر دوسری آیت کریمہ میں کیا گیا ہے۔” وہ تمہیں صرف کھانے پینے کی چیزوں میں ہی حلال کو حرام سے بدل کر اور حرام کو حلال سے بدل کر شرک میں مبتلا نہیں کرتا بلکہ اس کی دشمنی اتنی واضح ہے کہ وہ تو تمہیں ہر طرح کی برائی اور بےحیائی میں مبتلا کرنے کی کوشش کرتا ہے “۔ سوء اور فحشاء کا مفہوم سوء کا لفظ وسیع معنوں میں استعمال ہوتا ہے جسمانی اور مادی نقصان پر بھی بولا جاتا ہے اور ہر طرح کے گناہ پر بھی۔ یہاں ظاہر ہے کہ گناہ ہی مراد ہے۔ لیکن اکثر مفسرین اس سے ایسا گناہ مراد لیتے ہیں، جسے دیکھ کر ہر عقل مند شریف آدمی کو دکھ محسوس ہو اور فحشاء کا لفظ کھلی ہوئی بدکاری اور بےحیائی کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ قرآن کریم نے اس سے زنا، لواطت، اور ننگے ہو کر طواف کرنے جیسی برائیوں کی طرف اشارہ کیا ہے۔ لیکن جب سوء اور فحشاء دونوں ایک ساتھ جمع ہوجاتے ہیں تو یہ نہ صرف تمام چھوٹی برائیوں ہی کو اپنے اندر سمیٹ لیتے ہیں بلکہ ہر طرح کے مالی، جسمانی اور عقلی نقصانات اور کج رویاں بھی اس میں شامل ہوجاتی ہیں۔ یہ تو وہ گناہ اور بےحیائیاں ہیں جن کا تعلق انسانی معاملات اور انسانی اخلاق سے ہے۔ انھیں راستوں سے شیطانی قوتیں انسانوں میں داخل ہو کر تہذیب، ثقافت، اور تمدن کو تباہ کرتی ہیں۔ انھیں کے زیراثر اخلاقِ فاسدہ کی اشاعت کے لیے نام نہاد علوم بھی وجود میں آتے ہیں اور ان برائیوں کو اجتماعی شکل دے کر آئین اور قانون کو ان کی پاسبانی کا فرض سونپ دیا جاتا ہے۔ اس طرح سے الا ہوں یعنی خدائوں کی ایک فصل تیار ہوجاتی ہے، جو پوری قومی زندگی پر امر بیل کی طرح چھا جاتی ہے۔ قومیں اس شرک میں مبتلا ہوتی ہیں، لیکن وہ اپنی روشن خیالی میں مست رہ کر کبھی یہ سوچنے کی بھی زحمت نہیں کرتیں کہ ہم مسلمان کہلاتے ہوئے شرک کی کس دلدل میں جا اترے ہیں۔ وَاَنْ تَقُوْلُوْا عَلَی اللّٰہِ مَالَا تَعْلَمُوْنَ اس کی ایک شکل تو وہ ہے جو آنحضرت ﷺ کی بعثت کے وقت مشرکین میں موجود تھی کہ وہ اپنے بہت سارے مشرکانہ اعمال پر اسی بات سے دلیل لاتے تھے کہ یہ جو کچھ ہم مشرکانہ اعمال کررہے ہیں اگر اللہ کو یہ منظور نہ ہوتے تو ہم کبھی اسے نہ کرتے اور نہ کبھی ہمارے آبائواجداد اس میں مبتلا ہوتے۔ پروردگار کا اس سے ہمیں نہ روکنا یہ اس بات کی دلیل ہے کہ وہ اس پر خوش ہے۔ آج اس جدید دور میں فلسفے کے نام سے ہندوازم اور عیسائیت میں بالخصوص مذہب کے حوالے سے ایسی ایسی چیزیں متعارف کرائی جارہی ہیں اور ایسی ایسی بداعمالیوں پر مذہب سے دلیلیں تلاش کرکے لائی جارہی ہیں کہ پرانا شرک اس کے سامنے ماند پڑگیا ہے۔ یہ موقعہ نہیں کہ ہم اس کی وضاحت کریں۔ اس آیت کے پہلے لفظ اِنَّمَا یَاْمُرُکُمْ نے ایسی تمام کاوشوں پر کا یہ کہہ کرہ میں سراغ دے دیا ہے کہ یہ جو کچھ فلسفہ کے نام سے ہورہا ہے یا جو کچھ مشرکین مکہ کہتے تھے، یہ سب شیطان کا امر تھا اور ہے۔ امر کا معنی و مفہوم اَمَرَ کا معنی جس طرح ” حکم دینا “ ہوتا ہے، اسی طرح ” کوئی بات سمجھانا، مشورہ دینا، دل میں ڈالنا اور وسوسہ اندازی اور نگاہوں میں کھبا دینا “ بھی ہوتا ہے۔ حضرت عبداللہ ابن مسعود ( رض) کی حدیث سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ آدم کے بیٹے کے قلب میں ایک شیطانی الہام واثر ہوتا ہے اور دوسرا فرشتہ کی طرف سے۔ شیطانی وسوسہ کا اثر یہ ہوتا ہے کہ برے کام کرنے کے فوائد اور مصالح سامنے آتے ہیں اور حق کو جھٹلانے کی راہیں کھلتی ہیں۔ الہامِ فرشتہ کا اثر خیر اور نیکی پر انعام و فلاح کا وعدہ اور حق کی تصدیق پر قلب کا مطمئن ہونا ہوتا ہے۔ بڑے بڑے عرب شعراء بھی امر کو اس معنی میں استعمال کرتے رہے ہیں۔ ایک مشہور حماسی شاعر کا شعر ہے : اَمَرتُھُم اَمراً بِمُنعَرِجِ اللّوٰی فَلَم یَستَبِینُوا الرُّشدَ اِلاّ ضُحَی الغَدٍ (میں نے ان کو اپنے مشورے سے منعرج اللویٰ ہی میں آگاہ کردیا تھا لیکن میری بات ان کی سمجھ میں دوسرے دن کی صبح سے پہلے نہ آسکی) امر کا دوسر امعنی ہوتا ہے ” حکم دینا۔ “ اس معنی میں اس لفظ کا استعمال تو بہت معروف ہے۔ اس لحاظ سے بھی دیکھا جائے تو قرآن کریم کی یہ آیت کریمہ ہمارے سامنے آج ان حقائق کو کھولتی ہوئی دکھائی دیتی ہے، جن کا تصور بھی اس سے پہلے مشکل تھا۔ آج سے پہلے سوچا بھی نہ جاسکتا تھا کہ اس وسیع سطح پر کبھی شیطانی قوتیں اور کفر کی طاقتیں تمام مسلمانوں کو لادینیت کا حکم دے سکتی ہیں اور ان کی ایجنسیاں اور ان کے خفیہ ادارے، مسلمان ملکوں سے اس طرح مراسم مستحکم کرسکتے ہیں اور مسلمانوں میں سے اپنے ڈھب کے آدمی اس طرح تلاش کرسکتے ہیں کہ اسلام کے اساسی عقائد کے حوالے سے ان کے نظام تعلیم، ان کے دفاعی ادارے اور ان کی تہذیب و ثقافت میں اس طرح تبدیلیاں پیدا کردیں کہ امت مسلمہ کو اس وقت اس کی خبر ہو جب پانی سر سے گزر چکا ہو اور سیاسی اور حکومتی سطح پر غیر مسلم طاقتور حکومتیں اس طرح مسلمانوں کو لیڈ کریں اور ہر طرح کا دبائو ڈال کر اس طرح ان سے اپنے مطلب کے فیصلے کروائیں کہ امت مسلمہ ان کے سامنے بےبس دکھائی دیتی ہو۔ اس صورت حال کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ قرآن کریم کا یہ کہنا کہ شیطان تمہیں ہر طرح کی برائی اور بےحیائی کا حکم بھی دیتا ہے اور مشورہ بھی دیتا ہے۔ اس کا حقیقت میں کیا مفہوم ہے ؟ اور پھر اسی پر بس نہیں وہ امت مسلمہ کے راہنمائوں اور لیڈرانِ کرام کو مجبور کرتا ہے یا انھیں ذہنی غسل دیتا ہے کہ وہ اپنی قوم کو یہ یقین دلائیں کہ شیطان کی نمائندہ قوتیں جو کچھ تم سے کروا رہی ہیں، وہی اصل میں اللہ اور اس کے دین کا منشا ہے۔ تم نے اب تک اپنے دین کے نام سے جن باتوں کو ترجیح کے قابل سمجھ رکھا تھا وہ سراسر غلط تھا۔ اب تمہیں نئی روشنی میں آنکھیں کھول کر دیکھنا چاہیے اور پھر تمہیں اپنے اساسی عقائد میں تبدیلی بھی لانی پڑے تو اس سے دریغ نہیں کرنا چاہیے۔ جب کوئی شخص یا کوئی قوم شیطانی قوتوں کے ہتھے چڑھ جاتی ہے تو ان کے فیصلہ کرنے والے ذہنوں کی عجیب کیفیت ہوتی ہے۔ ایسالگتا ہے کہ وہ ذہنی طور پر بالکل بانجھ ہوگئے ہیں۔ اپنے سیاسی، قومی اور تہذیبی معاملات کو وقت کی غالب قوتوں کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ ادھر سے جو رہنمائی ملتی ہے اسی کے مطابق فیصلے کرنا یہ اپنی ذمہ داری سمجھتے اور اسی کو وقت کا تقاضا قرار دیتے ہیں۔ لیکن جہاں تک عام مذہبی رسوم کا تعلق ہے اس میں جب انھیں اللہ کے احکام کا حوالہ دیا جائے تو نہایت پست سطح پر اتر کر عام عوام کی طرح کے سہارے تلاش کرنے لگتے ہیں اور انھیں کو اپنی دینی زندگی کا حاصل سمجھتے ہیں۔ اگلی آیت کریمہ میں ان کے اسی رویے کا ذکر کیا جارہا ہے۔
Top