Ruh-ul-Quran - Al-Baqara : 168
یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ كُلُوْا مِمَّا فِی الْاَرْضِ حَلٰلًا طَیِّبًا١ۖ٘ وَّ لَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِ١ؕ اِنَّهٗ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ
يٰٓاَيُّهَا : اے النَّاسُ : لوگ كُلُوْا : تم کھاؤ مِمَّا : اس سے جو فِي الْاَرْضِ : زمین میں حَلٰلًا : حلال طَيِّبًا : اور پاک وَّلَا : اور نہ تَتَّبِعُوْا : پیروی کرو خُطُوٰتِ : قدم (جمع) الشَّيْطٰنِ : شیطان اِنَّهٗ : بیشک وہ لَكُمْ : تمہارا عَدُوٌّ : دشمن مُّبِيْنٌ : کھلا
(اے لوگو ! کھائو زمین کی چیزوں میں سے حلال پاکیزہ اور شیطان کے نقش قدم کی پیروی نہ کرو، بیشک وہ تمہارا کھلا ہوا دشمن ہے۔
یٰٓاَیُّھَاالنَّاسُ کُلُوْا مِمَّا فِی الْاَرْضِ حَلٰـلًا طَیِّـبًا صلے ز وَّلَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِ ط اِنَّـہٗ لَکُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ۔ اِنَّمَا یَاْمُرُکُمْ بِالسُّوْٓئِ وَالْفَحْشَآئِ وَاَنْ تَقُوْلُوْا عَلَی اللّٰہِ مَالَا تَعْلَمُوْنَ (البقرۃ : 168 تا 169) (اے لوگو ! کھائو زمین کی چیزوں میں سے حلال پاکیزہ اور شیطان کے نقش قدم کی پیروی نہ کرو، بیشک وہ تمہارا کھلا ہوا دشمن ہے۔ وہ تو بس تمہیں برائی اور بےحیائی کی راہ سجھائے گا اور اس بات کی کہ تم اللہ کی طرف وہ باتیں منسوب کروجن کو تم نہیں جانتے) شرک کی ایک اور صورت سے اجتناب کا حکم گزشتہ رکوع سے جو نیا سلسلہ کلام شروع ہوا ہے اس کا آغاز ” توحید “ کی دعوت سے ہوا ہے۔ پھر ” توحید “ پر ایک زور دار دلیل بیان کی گئی ہے اور ساتھ ہی اظہارِ تعجب کرتے ہوئے یہ فرمایا گیا ہے کہ ایسے واضح دلائل کی موجودگی میں بھی انسانوں کا حال یہ ہے کہ وہ نہ صرف اللہ کے ساتھ دوسری قوتوں کو شریک ٹھہراتے ہیں بلکہ ان کے ساتھ ایسی محبت کرتے ہیں جیسی وہ اللہ سے کرتے ہیں۔ گویا ان کے شرک کی پہلی صورت یہ ہے کہ وہ اپنے دل و دماغ میں غیر اللہ کو اس طرح بسالیتے ہیں، جیسے اللہ کو بسانا چاہیے۔ ان کے ساتھ ان کی وارفتگی اور فدائیت کا حال یہ ہے کہ ان کے نزدیک اللہ اور غیر اللہ میں کوئی فرق نہیں۔ یہاں ان کے شرک کی دوسری صورت بیان کی جارہی ہے کہ ان کے دل و دماغ میں اللہ کے ساتھ ٹھہرائے گئے شریکوں کے لیے صرف ایک وابستگی اور تعلق ہی نہیں ہے بلکہ عملی زندگی پر اس کے اثرات بھی بہت گہرے ہیں۔ بالکل سامنے کی بات ہے کہ جب آدمی کسی کو اپنا اِلٰہ مانتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اس کی غیر مشروط عبادت، محبت اور اطاعت کا عہد کرتا ہے اور اپنے دل و دماغ کو اس تعلق سے معمور کرلیتا ہے۔ لیکن یہ تعلق صرف ایک دعویٰ ہی رہتا ہے، جب تک عملی زندگی میں اس کا اظہار نہیں ہوتا۔ عملی زندگی ہی سے اندازہ ہوتا ہے کہ کسی کے ساتھ عبودیت کے تعلق کا دعویٰ کرنے والا اپنے اس دعوے میں سچا ہے یا جھوٹا ہے۔ اگر وہ اپنے ہر معاملے اور ہر فیصلے میں اپنے تسلیم کردہ الٰہ کے فیصلے کو قبول کرتا ہے اور اس کے سامنے سرِ تسلیم خم کردیتا ہے تو سمجھا جائے گا کہ وہ اپنے دعوے میں سچا ہے۔ لیکن اگر اس کے عملی زندگی میں تمام فیصلے اس سے آزاد رہتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنے دعوے میں یا تو جھوٹا ہے اور یا وہ دعوے کی حقیقت کو نہیں جانتا۔ اس لیے اس آیت کریمہ میں عربوں سے خطاب کرکے کہا جارہا ہے کہ اگر تم اللہ کو الوہیت میں وحدہٗ لاشریک سمجھتے ہو تو پھر عملی زندگی میں اس کا اظہار ہونا چاہیے۔ اس کے اظہار کی آسان اور اولین شکل یہ ہے کہ تم اپنی غذا کے لیے ان چیزوں کو استعمال کرویا ان چیزوں کو غذا بنائو جنھیں اللہ نے حلال اور طیب ٹھہرایا ہے۔ ” حلال “ حلَّ سے ہے، جس کا معنی ہے ” گرہ کھول دینا “ حلال وہ چیز ہوتی ہے، اللہ تعالیٰ جس کی گرہ کھول دیتے ہیں یعنی اس سے پابندی ہٹالیتے ہیں اور بندوں کے لیے اس کے استعمال کی اجازت ہوجاتی ہے۔ طیب ” پاکیزہ “ چیز کو کہتے ہیں یعنی ایسی چیز کہ جو ظاہری گندگی سے بھی پاک ہو، عقلی اور اخلاقی مفاسد سے بھی مبرّا ہو اور ہر طرح کی باطنی اور شرک کی آلودگی سے محفوظ ہو یعنی تمہیں اپنی غذا ان چیزوں سے حاصل کرنی چاہیے جنھیں اللہ نے حلال ٹھہرایا ہے اور پاکیزہ بنایا ہے۔ عقلِ سلیم جن کی پاکیزگی کو محسوس کرتی ہے اور فطرتِ سلیمہ جس سے گھن نہیں کھاتی اور قوموں کا معروف ہمیشہ اس کی صحت پر اتفاق رکھتا ہے اور شرک کی کوئی آلودگی اس پر اثرانداز نہیں ہوسکی۔ زندگی کے معاملات پر تحلیل وتحریم کے حوالے سے اثر انداز ہونا یہ شرک کی سب سے جلی صورت ہے۔ شیطان نے ہمیشہ اسی راستے سے فائدہ اٹھایا ہے۔ لیکن عجیب بات یہ ہے کہ انسان نے ہمیشہ اس صورت کے جلی ہونے کے باوجود ارادۃً یا خطاً اس میں ٹھوکر کھائی ہے۔ ایک آدمی اللہ کو ماننے کا اقرار کرتا ہے، لیکن تحلیل و تحریم کا حق وہ صرف اللہ کو دینے کو تیار نہیں ہوتا۔ کبھی وہ اس کا حق شیطان کو دے دیتا ہے اور شیطانی قوتوں کے سو رنگ ہیں، جن کی پہچان میں ٹھوکر کھاتا ہے اور کبھی یہ حق اپنے معاشرے کو، کبھی سماج کو، کبھی پارلیمنٹ کو، کبھی آئین اور قانون کو دیتا ہے، جو کھلم کھلا ہر معاملے میں دخیل ہو کر اپنی بندگی کرواتے اور اپنی الوہیت منواتے ہیں۔ لیکن انسان کو اس کا احساس نہیں ہو تاکہ میں کسی شرک کا ارتکاب کر رہا ہوں حالانکہ کس قدر عجیب بات ہے کہ اگر پروردگارِ عالم کو ہمارے معاملات میں حلت و حرمت کے حوالے سے فیصلے کا اختیار نہیں یعنی وہ یہ اختیار نہیں رکھتا کہ ہماری جس بات کو چاہے حلال قرار دے دے اور جس کام کو چاہے حرام قرار دے دے تو پھر وہ آخر الٰہ کیسا ؟ لیکن عرب اس بات کو سمجھنے کے لیے تیار نہیں تھے اور آج کا انسان بھی اس کے لیے تیار نہیں۔ حتیٰ کہ مسلمان بھی کلمہ پڑھنے کے ساتھ ساتھ اس حوالے سے آزادی چاہتے ہیں اور صدیوں سے اس بات پر ان کا اصرار جاری ہے حالانکہ قرآن کریم نے اس بات کو واضح کیا ہے کہ اللہ کے حکم کے بغیر تحلیل وتحریم شرک ہے۔ اسی وجہ سے قرآن کریم میں شرک اور تحلیل و تحریم کا مضمون جگہ جگہ ایک ساتھ بیان ہوا ہے۔ وقال الذین اشرکوا لو شاء اللہ ماعبدنا من دونہ من شیء ولا حرمنا من دونہ من شیء ” اور مشرک کہتے ہیں کہ اگر اللہ چاہتا تو نہ ہم اس کے سو اکسی چیز کو پوج سکتے اور نہ اس کے بغیر کسی چیز کو حرام ٹھہراسکتے “۔ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ شرک اور تحلیل وتحریم دونوں ایک دوسرے سے متعلق ہیں۔ شائد یہی وجہ ہے کہ شیطان نے اسی معاملے میں ہمیشہ لوگوں کو گمراہ کرکے اپنی بندگی کروائی ہے۔ کتنے ایسے جانور ہیں جنھیں اللہ نے حلال ٹھہرایا لیکن مشرکینِ عرب نے شیطانی وسوسے پر ان کو اپنے لیے حرام ٹھہرایا اور کتنی حرام چیزیں ہیں جنھیں اللہ نے حرام ٹھہرایا لیکن دنیا نے نفسانی یا شیطانی وساوس میں مبتلا ہو کر انھیں اپنے لیے حلال کرلیا۔ قرآن کریم نے دونوں طرح کی مثالیں جابجا بیان کی ہیں۔ سورة مائدہ اور سورة انعام میں بطور خاص اس کی تفصیل آئے گی۔ حقیقت تو یہ ہے کہ شیطان نے جب حضرت آدم کی اولاد کو توحید کے راستے سے ہٹانے کا اعلان کیا تھا تو اس نے پوری صفائی اور جرأت کے ساتھ اس بات کا اظہار کیا تھا کہ حلت و حرمت کے حوالے سے بطور خاص اولادِ آدم کو نشانہ بنائوں گا۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اس نے پوجا پاٹ کے طریقوں اور بندگی کے مختلف اسالیب کی صورت میں انسانوں میں شرک داخل کیا۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ تحلیل وتحریم کے ذریعے اس نے انسان کے اندر جو شرک کی پرورش کی ہے، وہ بھی بجائے خود ایک قابل ذکر چیز ہے۔ اسی کا ذکر دوسری آیت کریمہ میں کیا گیا ہے۔” وہ تمہیں صرف کھانے پینے کی چیزوں میں ہی حلال کو حرام سے بدل کر اور حرام کو حلال سے بدل کر شرک میں مبتلا نہیں کرتا بلکہ اس کی دشمنی اتنی واضح ہے کہ وہ تو تمہیں ہر طرح کی برائی اور بےحیائی میں مبتلا کرنے کی کوشش کرتا ہے “۔ سوء اور فحشاء کا مفہوم سوء کا لفظ وسیع معنوں میں استعمال ہوتا ہے جسمانی اور مادی نقصان پر بھی بولا جاتا ہے اور ہر طرح کے گناہ پر بھی۔ یہاں ظاہر ہے کہ گناہ ہی مراد ہے۔ لیکن اکثر مفسرین اس سے ایسا گناہ مراد لیتے ہیں، جسے دیکھ کر ہر عقل مند شریف آدمی کو دکھ محسوس ہو اور فحشاء کا لفظ کھلی ہوئی بدکاری اور بےحیائی کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ قرآن کریم نے اس سے زنا، لواطت، اور ننگے ہو کر طواف کرنے جیسی برائیوں کی طرف اشارہ کیا ہے۔ لیکن جب سوء اور فحشاء دونوں ایک ساتھ جمع ہوجاتے ہیں تو یہ نہ صرف تمام چھوٹی برائیوں ہی کو اپنے اندر سمیٹ لیتے ہیں بلکہ ہر طرح کے مالی، جسمانی اور عقلی نقصانات اور کج رویاں بھی اس میں شامل ہوجاتی ہیں۔ یہ تو وہ گناہ اور بےحیائیاں ہیں جن کا تعلق انسانی معاملات اور انسانی اخلاق سے ہے۔ انھیں راستوں سے شیطانی قوتیں انسانوں میں داخل ہو کر تہذیب، ثقافت، اور تمدن کو تباہ کرتی ہیں۔ انھیں کے زیراثر اخلاقِ فاسدہ کی اشاعت کے لیے نام نہاد علوم بھی وجود میں آتے ہیں اور ان برائیوں کو اجتماعی شکل دے کر آئین اور قانون کو ان کی پاسبانی کا فرض سونپ دیا جاتا ہے۔ اس طرح سے الا ہوں یعنی خدائوں کی ایک فصل تیار ہوجاتی ہے، جو پوری قومی زندگی پر امر بیل کی طرح چھا جاتی ہے۔ قومیں اس شرک میں مبتلا ہوتی ہیں، لیکن وہ اپنی روشن خیالی میں مست رہ کر کبھی یہ سوچنے کی بھی زحمت نہیں کرتیں کہ ہم مسلمان کہلاتے ہوئے شرک کی کس دلدل میں جا اترے ہیں۔ وَاَنْ تَقُوْلُوْا عَلَی اللّٰہِ مَالَا تَعْلَمُوْنَ اس کی ایک شکل تو وہ ہے جو آنحضرت ﷺ کی بعثت کے وقت مشرکین میں موجود تھی کہ وہ اپنے بہت سارے مشرکانہ اعمال پر اسی بات سے دلیل لاتے تھے کہ یہ جو کچھ ہم مشرکانہ اعمال کررہے ہیں اگر اللہ کو یہ منظور نہ ہوتے تو ہم کبھی اسے نہ کرتے اور نہ کبھی ہمارے آبائواجداد اس میں مبتلا ہوتے۔ پروردگار کا اس سے ہمیں نہ روکنا یہ اس بات کی دلیل ہے کہ وہ اس پر خوش ہے۔ آج اس جدید دور میں فلسفے کے نام سے ہندوازم اور عیسائیت میں بالخصوص مذہب کے حوالے سے ایسی ایسی چیزیں متعارف کرائی جارہی ہیں اور ایسی ایسی بداعمالیوں پر مذہب سے دلیلیں تلاش کرکے لائی جارہی ہیں کہ پرانا شرک اس کے سامنے ماند پڑگیا ہے۔ یہ موقعہ نہیں کہ ہم اس کی وضاحت کریں۔ اس آیت کے پہلے لفظ اِنَّمَا یَاْمُرُکُمْ نے ایسی تمام کاوشوں پر کا یہ کہہ کرہ میں سراغ دے دیا ہے کہ یہ جو کچھ فلسفہ کے نام سے ہورہا ہے یا جو کچھ مشرکین مکہ کہتے تھے، یہ سب شیطان کا امر تھا اور ہے۔ امر کا معنی و مفہوم اَمَرَ کا معنی جس طرح ” حکم دینا “ ہوتا ہے، اسی طرح ” کوئی بات سمجھانا، مشورہ دینا، دل میں ڈالنا اور وسوسہ اندازی اور نگاہوں میں کھبا دینا “ بھی ہوتا ہے۔ حضرت عبداللہ ابن مسعود ( رض) کی حدیث سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ آدم کے بیٹے کے قلب میں ایک شیطانی الہام واثر ہوتا ہے اور دوسرا فرشتہ کی طرف سے۔ شیطانی وسوسہ کا اثر یہ ہوتا ہے کہ برے کام کرنے کے فوائد اور مصالح سامنے آتے ہیں اور حق کو جھٹلانے کی راہیں کھلتی ہیں۔ الہامِ فرشتہ کا اثر خیر اور نیکی پر انعام و فلاح کا وعدہ اور حق کی تصدیق پر قلب کا مطمئن ہونا ہوتا ہے۔ بڑے بڑے عرب شعراء بھی امر کو اس معنی میں استعمال کرتے رہے ہیں۔ ایک مشہور حماسی شاعر کا شعر ہے : اَمَرتُھُم اَمراً بِمُنعَرِجِ اللّوٰی فَلَم یَستَبِینُوا الرُّشدَ اِلاّ ضُحَی الغَدٍ (میں نے ان کو اپنے مشورے سے منعرج اللویٰ ہی میں آگاہ کردیا تھا لیکن میری بات ان کی سمجھ میں دوسرے دن کی صبح سے پہلے نہ آسکی) امر کا دوسر امعنی ہوتا ہے ” حکم دینا۔ “ اس معنی میں اس لفظ کا استعمال تو بہت معروف ہے۔ اس لحاظ سے بھی دیکھا جائے تو قرآن کریم کی یہ آیت کریمہ ہمارے سامنے آج ان حقائق کو کھولتی ہوئی دکھائی دیتی ہے، جن کا تصور بھی اس سے پہلے مشکل تھا۔ آج سے پہلے سوچا بھی نہ جاسکتا تھا کہ اس وسیع سطح پر کبھی شیطانی قوتیں اور کفر کی طاقتیں تمام مسلمانوں کو لادینیت کا حکم دے سکتی ہیں اور ان کی ایجنسیاں اور ان کے خفیہ ادارے، مسلمان ملکوں سے اس طرح مراسم مستحکم کرسکتے ہیں اور مسلمانوں میں سے اپنے ڈھب کے آدمی اس طرح تلاش کرسکتے ہیں کہ اسلام کے اساسی عقائد کے حوالے سے ان کے نظام تعلیم، ان کے دفاعی ادارے اور ان کی تہذیب و ثقافت میں اس طرح تبدیلیاں پیدا کردیں کہ امت مسلمہ کو اس وقت اس کی خبر ہو جب پانی سر سے گزر چکا ہو اور سیاسی اور حکومتی سطح پر غیر مسلم طاقتور حکومتیں اس طرح مسلمانوں کو لیڈ کریں اور ہر طرح کا دبائو ڈال کر اس طرح ان سے اپنے مطلب کے فیصلے کروائیں کہ امت مسلمہ ان کے سامنے بےبس دکھائی دیتی ہو۔ اس صورت حال کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ قرآن کریم کا یہ کہنا کہ شیطان تمہیں ہر طرح کی برائی اور بےحیائی کا حکم بھی دیتا ہے اور مشورہ بھی دیتا ہے۔ اس کا حقیقت میں کیا مفہوم ہے ؟ اور پھر اسی پر بس نہیں وہ امت مسلمہ کے راہنمائوں اور لیڈرانِ کرام کو مجبور کرتا ہے یا انھیں ذہنی غسل دیتا ہے کہ وہ اپنی قوم کو یہ یقین دلائیں کہ شیطان کی نمائندہ قوتیں جو کچھ تم سے کروا رہی ہیں، وہی اصل میں اللہ اور اس کے دین کا منشا ہے۔ تم نے اب تک اپنے دین کے نام سے جن باتوں کو ترجیح کے قابل سمجھ رکھا تھا وہ سراسر غلط تھا۔ اب تمہیں نئی روشنی میں آنکھیں کھول کر دیکھنا چاہیے اور پھر تمہیں اپنے اساسی عقائد میں تبدیلی بھی لانی پڑے تو اس سے دریغ نہیں کرنا چاہیے۔ جب کوئی شخص یا کوئی قوم شیطانی قوتوں کے ہتھے چڑھ جاتی ہے تو ان کے فیصلہ کرنے والے ذہنوں کی عجیب کیفیت ہوتی ہے۔ ایسالگتا ہے کہ وہ ذہنی طور پر بالکل بانجھ ہوگئے ہیں۔ اپنے سیاسی، قومی اور تہذیبی معاملات کو وقت کی غالب قوتوں کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ ادھر سے جو رہنمائی ملتی ہے اسی کے مطابق فیصلے کرنا یہ اپنی ذمہ داری سمجھتے اور اسی کو وقت کا تقاضا قرار دیتے ہیں۔ لیکن جہاں تک عام مذہبی رسوم کا تعلق ہے اس میں جب انھیں اللہ کے احکام کا حوالہ دیا جائے تو نہایت پست سطح پر اتر کر عام عوام کی طرح کے سہارے تلاش کرنے لگتے ہیں اور انھیں کو اپنی دینی زندگی کا حاصل سمجھتے ہیں۔ اگلی آیت کریمہ میں ان کے اسی رویے کا ذکر کیا جارہا ہے۔
Top