Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
228
229
230
231
232
233
234
235
236
237
238
239
240
241
242
243
244
245
246
247
248
249
250
251
252
253
254
255
256
257
258
259
260
261
262
263
264
265
266
267
268
269
270
271
272
273
274
275
276
277
278
279
280
281
282
283
284
285
286
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Ruh-ul-Quran - Al-Baqara : 155
وَ لَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَیْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَ الْجُوْعِ وَ نَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَ الْاَنْفُسِ وَ الثَّمَرٰتِ١ؕ وَ بَشِّرِ الصّٰبِرِیْنَۙ
وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ
: اور ضرور ہم آزمائیں گے تمہیں
بِشَيْءٍ
: کچھ
مِّنَ
: سے
الْخَوْفِ
: خوف
وَالْجُوْعِ
: اور بھوک
وَنَقْصٍ
: اور نقصان
مِّنَ
: سے
الْاَمْوَالِ
: مال (جمع)
وَالْاَنْفُسِ
: اور جان (جمع)
وَالثَّمَرٰتِ
: اور پھل (جمع)
وَبَشِّرِ
: اور خوشخبری دیں آپ
الصّٰبِرِيْن
: صبر کرنے والے
بیشک ہم تمہیں آزمائیں گے کسی قدر خوف، بھوک، اور مالوں اور جانوں اور پھلوں کی کمی سے اور ان ثابت قدموں کو خوشخبری سنا دیجئے۔
وَلَنَبْلُوَنَّـکُمْ بِشَیْئٍ مِنَ الْخَوْفِ وَالْجُوْعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَالْاَنْفُسِ وَالثَّمَرٰتِ ط وَبَشِّرِ الصّٰبِرِیْنَ ۔ اَلَّذِیْنَ اِذَآ اَصَابَتْھُمْ مُصِیْبَۃٌ لا قَالُوْآ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّـآ اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ ۔ اُوْلٰٓئِکَ عَلَیْھِمْ صَلَوٰتٌ مِّنْ رَّبِّھِمْ وَرَحْمَۃٌ قف وَاُوْلٰٓئِکَ ھُمُ الْمُھْتَدُوْنَ ۔ (البقرۃ : 155 تا 157) (بےشک ہم تمہیں آزمائیں گے کسی قدر خوف، بھوک، اور مالوں اور جانوں اور پھلوں کی کمی سے اور ان ثابت قدموں کو خوشخبری سنادیجئے۔ جن کا حال یہ ہے کہ جب ان کو کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو وہ کہتے ہیں کہ بیشک ہم اللہ ہی کے لیے ہیں اور ہم اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں۔ یہی لوگ ہیں جن پر ان کے رب کی عنایتیں ہیں اور رحمت ہے اور یہی لوگ راہ یاب ہونے والے ہیں) آئندہ پیش آنے والی مشکلات کی طرف اجمالی اشارہ پہلی آیت کریمہ میں بظاہر ان آزمائشوں کی طرف اجمالی اشارہ ہے جو آئندہ مراحل میں پیش آنے والی ہیں۔ لیکن غور وفکر سے اگر اس آیت کو پڑھا جائے تو اس کے الفاظ میں بعض اور حقائق بھی مضمر ہیں۔ مثلاً پہلے لفظ ہی کو دیکھئے وَلَنَبْلُوَنَّـکُمْ ” ہم تمہیں ضرور آزمائیں گے “۔ اس میں دو باتیں نہایت قابل توجہ ہیں۔ پہلی بات تو یہ کہ اس میں لام اور نون ثقیلہ تاکید درتاکید کے لیے لائے گئے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم جس طرح کی مشکلات کا ذکر کررہے ہیں ان کا آنا بےحد یقینی ہے۔ وہ اس راہ کی لازمی سنتیں ہیں۔ جب بھی کوئی مرد خدا یا کوئی قافلہ حق اس راہ پر چلا ہے تو کبھی ایسا نہیں ہوا کہ اسے اس طرح کی مشکلات سے دوچار نہ ہونا پڑاہو۔ جس طرح ایک کاشت کار کاشتکاری کے دوران موسم کی شدت سے دوچار ہوتا ہے اسے محنت کرتے ہوئے پسینہ بہانا پڑتا ہے۔ اس کے جسمانی اعصاب کا باربار امتحان ہوتا ہے اور پھر وہ کبھی امیدویاس کے مراحل سے بھی گزرتا ہے، اگر کوئی کاشتکار یہ کہے کہ مجھے زمین میں محنت کرنے سے انکار نہیں لیکن میں ان مشکلات کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں۔ تو اسے یہی جواب سننا پڑے گا کہ یہ مشکلات تو اس کام کے لوازم ہیں۔ ان کے بغیر کاشتکاری یا زمین سے فصل وصول کرنے کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ یہی حال اللہ کے دین کی سربلندی اور اسے مخلوقِ خدا تک پہنچانے کا بھی ہے۔ جو شخص بھی انسانی اصلاح کے لیے کوشش کرے گا اس کے لیے یہ یقینی ہے کہ وہ انسانوں کی مخالفت سے دو چا رہو۔ مخالفین کے جو بس میں ہوگا وہ کر گزریں گے۔ اسے اگر اپنے فرض سے بےپناہ تعلق ہے تو اسے ان تمام مخالفتوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ یہ قدم قدم بلائیں یہ سواد کوئے جاناں وہ یہیں سے لوٹ جائے جسے زندگی ہو پیاری اسی حقیقت کو ذہن نشین کرانے کے لیے پروردگار نے تاکیدی لب و لہجہ اختیار فرمایا۔ مومن کی آزمائش سنت اللہ ہے دوسری یہ بات کہ اس لفظ میں متکلم کا صیغہ استعمال ہوا ہے کہ ہم تمہیں آزمائیں گے حالانکہ وہ مخالفتیں اور آزمائشیں دشمنوں کی جانب سے پیش آئیں گی لیکن پروردگار اسے اپنی طرف منسوب فرما رہے ہیں۔ اس میں درحقیقت اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ مخالفت تو یقینا دشمن ہی کریں گے لیکن یہ سب کچھ اللہ کے اس قانون کے تحت ہوگا جو ازل سے اللہ تعالیٰ نے اہل حق اور اہل باطل میں امتیاز کے لیے مقرر کررکھا ہے۔ اگر حق کی خاطر مصائب نہ برداشت کرنا پڑیں اور ایمان کی کوئی قیمت ادا نہ کرنی پڑے تو پھر پتہ کیسے چلے گا کہ مخلص کون ہے ؟ اور منافق کون ؟ جب قدم قدم پر ایمان اور اخلاص کی آزمائش ہوتی ہے تو مخلص مومن ہر طرح کی تکلیف کو خندہ پیشانی سے برداشت کرتے ہیں حتی کہ اس راستے میں انھیں سرکٹوانے سے بھی دریغ نہیں ہوتا۔ وہ جانتے ہیں کہ اللہ سے تعلق کا دعویٰ اور اس کے دین سے وابستگی کا دعویٰ محبت اور عقیدت کا سب سے بڑ ادعویٰ ہے اور کبھی ایسا نہیں ہوا کہ کسی شخص نے محبت کا دعویٰ کیا ہو اور اسے آزمایا نہ گیا ہو۔ ؎ محبت کے مقدر میں کہاں آرام اے ہمدم کہیں شعلہ کہیں بجلی کہیں سیماب ہوتی ہے اگر محبت آزمائشوں سے نہ گزرے تو ہر بوالہوس محبت کا دعویٰ لے کر کھڑا ہوجائے اور مخلص اور غیرمخلص اور سچے اور جھوٹے کی تمیز ختم ہوجائے۔ اس لیے اللہ نے یہ قانون ٹھہرادیا کہ جو شخص بھی ہم سے تعلق کا دعویٰ کرے گا، ہم اس کی آزمائش کے لیے اسباب ضرور پیدا کریں گے۔ اسی قانون کے تحت مسلمانوں سے کہا جارہا ہے کہ تمہیں عنقریب ان مراحل سے گزرنا پڑے گا اور تم ان تمام آزمائشوں سے دوچار کیے جاؤ گے، جن کا برداشت کرنا دنیوی حالات کے اعتبار سے بالعموم مشکل ہوتا ہے۔ البتہ اس نے کسی حد تک اطمینان دلانے کے لیے بشیء کا لفظ استعمال کیا۔ جس کا معنی ہوتا ہے ’ کسی قدریا کچھ ‘ جس کا مطلب یہ ہے کہ یہ آزمائشیں تو تمہیں ضرور پیش آئیں گی، لیکن وہ اس قدر نہیں ہوں گی، جو تمہاری عزیمت و استقامت کے لیے شکست دینے والی ہوں۔ اس لیے دل شکستہ اور پست ہمت ہونے کی بجائے تمہیں ہمت سے کام لینا چاہیے کہ اگر تم نے ہمت نہ ہاری تو تم ان حالات پر ضرور قابو پالو گے۔ خوف جو مشکلات پیش آسکتی ہیں ان میں سب سے پہلے ” خوف “ کا ذکر فرمایا۔ خوف سے مراد ہے دشمنوں کی طرف سے حملہ کا خوف۔ جیسا کہ میں اس سے پہلے عرض کرچکا ہوں کہ قریش اور یہود دونوں نے اسلام اور مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی طاقت کو دیکھ کر سوچنا شروع کردیا تھا کہ کس طرح مسلمانوں کی قوت توڑی جائے اور کس طرح اس نوزائیدہ تحریک کو ختم کیا جاسکے۔ اس کے لیے انھوں نے آپس میں حملہ کی منصوبہ بندی شروع کردی۔ کعب بن اشرف نے باقاعدہ خط و کتابت کے ذریعے قریش مکہ کو اکسایا اور ہر ممکن طریقے سے اپنی حمائیت کا یقین دلایا اور کرز بن جابر فہری نے باقاعدہ سواروں کا ایک دستہ لے کر مدینہ منورہ کی اس چراگاہ پر شب خون مارا جس میں آنحضرت ﷺ کے جانور بھی چرتے تھے اور وہ کئی اونٹ ہانک کرلے گیا اور چرواہوں کو قتل کردیا۔ اسی طرح دوسرے قبائل کی طرف سے بھی ہر وقت اندیشہ رہتا تھا کہ مدینے پر کہیں حملہ نہ کردیں۔ خود آنحضرت ﷺ کی ذات گرامی بھی ان خطرات کی زد میں تھی۔ یہود کی جانب سے ہر وقت آپ پر حملے کا اندیشہ رہتا تھا۔ پہرے کے بغیر آپ کے لیے رات کو سونا مشکل ہوگیا تھا۔ دن کے وقت بھی آنحضرت ﷺ اگر نگاہوں سے اوجھل ہوجاتے تو صحابہ بےچینی سے آپ کو تلاش کرنے لگتے اور پھر یہ اندیشے محض اندیشے نہ رہے ان کی آپس کی ملی بھگت سے جنگ بدر وجود میں آئی اور وہیں سے لڑائیوں کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہوگیا اور یہ سلسلہ اس وقت تک چلتارہاجب تک مسلمانوں نے اپنے تمام حریفوں کا زور توڑ نہیں دیا۔ معاشی مشکلات دوسرا لفظ اس آیت کریمہ میں جو مشکلات کے حوالے سے آیا ہے وہ ہے ” جوع “۔ اس کا معنی تو ” بھوک “ ہے۔ لیکن مراد اس سے وہ معاشی مشکلات ہیں جو قریش اور یہود کی مشترکہ مخالفت کے باعث وجود میں آئیں۔ اس وقت ملک کی بیشتر تجارت اور معاشی وسائل عملاً یہود اور قریش کے قبضے میں تھے۔ یہ دونوں گروہ چونکہ مسلمانوں کے بد ترین دشمن تھے اس لیے دونوں نے مسلمانوں کے لیے ہر طرح کی مالی مشکلات پیدا کرنے کی کوشش کی۔ مسلمانوں کو کاروبار سے بےدخل کیا، قبائل میں ان کے خلاف نفرت اور عداوت کے ایسے بیج بوئے کہ کسی قبیلے سے تعلق قائم کرنا آسان نہ رہا۔ راستے پرخطر بنادئیے گئے مسلمانوں کے لیے ہر طرح کا سفر خطرات سے کھیلنے سے کم نہیں تھا۔ پھر مدینہ جیسی چھوٹی سی بستی پر ہر طرف سے ہجرت کرکے آنے والے مسلمانوں کا معاشی بوجھ بھی معاشی مشکلات پیدا کرنے کا ایک بہت بڑا سبب تھا۔ انھیں معاشی مشکلات کا نتیجہ تھا کہ آنحضرت ﷺ اور مسلمانوں کو پیٹ پر پتھر باندھنا پڑتے تھے اور اکثر فاقوں کی نوبت آتی تھی۔ لیکن صحابہ کے ایمان اور ایثار کی انتہا ہے کہ انھوں نے ان مشکلات کو اپنے ایمان کی آزمائش سمجھ کر نہایت حوصلے سے برداشت کیا۔ مال اور جان کی کمی اس کے بعد ” اموال اور انفس “ میں کمی کی طرف اشارہ فرمایا گیا ہے۔ ظاہر ہے کہ جب دشمنوں کی طرف سے آئے دن مسلمانوں کو جنگ و جہاد میں جانے پر مجبور کیا جائے گا تو یہ دونوں چیزیں اس راستے میں کام آئیں گی۔ سر بھی کٹیں گے اور اسلحہ جنگ پر مال بھی خرچ ہوگا اور جہادی مصروفیات کے باعث مسلمان اپنے کاروبار اور کھیتی باڑی پر زیادہ توجہ نہیں دے سکیں گے۔ تو مالی مشکلات میں اور زیادہ اضافہ ہوگا۔ انھیں مشکلات کا نتیجہ تھا کہ جنگوں میں مسلمانوں کے پاس نہ مناسب اسلحہ ہوتا تھا نہ رسد اور کمک کی آسانیاں ہوتی تھیں۔ بعض دفعہ مسلمان سپاہی مناسب لباس تک سے محروم ہوتے تھے۔ لیکن مسلمانوں کی حوصلہ مندی اللہ پر بےپناہ ایمان اور جرأت اور استقامت نے ان تمام مشکلات کو خندہ پیشانی سے برداشت کیا۔ ثمرات میں کمی اس کے بعد ” ثمرات “ کا ذکر فرمایا ہے حالانکہ ثمرات کا شمار اموال ہی میں ہوتا ہے الگ سے اس کا ذکر معلوم ہوتا ہے عرب کے شیوہ مخاطبت کے مطابق ہے۔ عربوں میں عام طور پر مال کا لفظ اونٹ، بھیڑ بکریوں اور درہم و دینار پر بولا جاتا تھا۔ ثمرات کا لفظ عام طور پر پھلوں اور کھجوروں کے لیے مستعمل تھا۔ مدینہ منورہ میں خوراک کا زیادہ تر دارومدار کھجور ہی پر تھا۔ جنگی حالات چونکہ وقت کے پابند نہیں ہوتے کسی وقت بھی ایسا ہوسکتا ہے کہ کھجور پکی ہوئی ہو اور جنگ کے لیے نکلنا ناگزیر ہوجائے۔ ایسی صورتحال میں باقی اموال کی کمی کے ساتھ ساتھ اس طرح کا کوئی حادثہ بڑی مشکل کا باعث بن سکتا ہے۔ معلوم یہ ہوتا ہے کہ پروردگار نے تمام ممکن خطرات کو مسلمانوں کی آنکھوں کے سامنے رکھ دیا اور انھیں یہ بتادیا کہ تم نے اسلام قبول کرکے ایک بہت بڑا فیصلہ کیا ہے اور مستقل امت بن کر پورے عرب کو اپنا دشمن بنالیا ہے۔ اب معاملہ صرف قریش سے نہیں بلکہ قریش اور یہود و نصاریٰ ایک متحدہ محاذ کی شکل میں تمہارے لیے مشکلات پیدا کریں گے۔ لیکن تمہیں اس بات کا یقین رکھنا چاہیے کہ اگر تم نے اسلام میں آنے کا اقدام سوچ سمجھ کر کیا ہے اور تم اپنے ایمان میں مخلص اور راست باز ہو تو پھر یہ آزمائشیں تمہارا کچھ نہیں بگاڑ سکیں گی۔ البتہ تمہیں ان کے مقابلے میں صبر کے تقاضوں کو پورا کرنا ہوگا اور صبر کرنے والوں کی پہچان یہ ہے کہ جب ان پر کوئی مصیبت آتی ہے تو وہ بجائے پریشان ہونے کے فوراً پکار اٹھتے ہیں : اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّـآ اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ اس مختصر سے جملے میں اس عقیدے کا بیان ہے جس کی چٹان پر مومن کی پوری زندگی صبر و استقامت کی تصویر بن کر ایستادہ رہتی ہے۔ دنیا انھیں تکلیفوں سے مضمحل کرنے یا ختم کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ اور ان کا حال یہ ہے کہ وہ پہلے ہی اپنی نفی کرچکے ہیں۔ ان کا کہنا یہ ہے کہ ہم تو محض اللہ کے بندے ہیں ہر لحاظ سے اس کی ” ملک “ ہمارا اپنا کچھ بھی نہیں۔ نہ بیوی نہ بچے نہ مال نہ جائداد، نہ وطن نہ خاندان، نہ جسم نہ جان ؎ جو کچھ ہے سب خدا کا، وہم و گماں ہمارا انسان کے سارے رنج وغم اور درد و حسرت کی بنیاد صرف اسقدر ہوتی ہے کہ وہ اپنی محبوب چیزوں کو اپنا سمجھتا ہے۔ لیکن جب ذہن اس عام مغالطہ سے خالی ہوگیا تو اب گلہ اور شکوہ کیسا ؟ اور رنج وملال کیوں ؟ جب آدمی کو اس بات کا یقین ہوجاتا ہے کہ میرا سب کچھ اللہ کا ہے اور میرے پاس اس کی امانت ہے تو پھر اللہ کے راستے میں دے دینے اور قربان کردینے میں اسے تأمل نہیں ہوتا بلکہ وہ حقِ امانت کی ادائیگی کے لیے پریشان رہتا ہے کہ نہ جانے میں اس امانت کا حق ادا کرسکوں گا یا نہیں اور جب اسے نظر آتا ہے کہ امانت مانگی جارہی ہے تو اس کی خوشی کی کوئی انتہا نہیں رہتی کہ مجھے موقعہ مل رہا ہے کہ میں امانت ادا کرکے سرخرو ہوجاؤں۔ بندے کا مال، اولاد، اثر ورسوخ، حتی کہ جان بھی اللہ کی امانت ہے۔ ان میں سے جسے بھی اللہ کے راستے میں دینے کا موقعہ آجائے مومن اسے دیتا ہوا کبھی نہیں گھبراتا بلکہ وہ بڑے سے بڑے خطرہ دیکھ کر بھی پکار اٹھتا ہے کہ میں تو اللہ ہی کا ہوں میرا سب کچھ اللہ کا ہے تو اس میں گھبرانے کی کیا بات ہے بلکہ فکر کی بات تو یہ ہے کہ یہ سب کچھ دے کر بھی شاید سرخرو نہ ہوسکوں۔ ؎ جان دی، دی ہوئی اسی کی تھی حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا صحابہ کی مثالوں سے تاریخ بھری ہوئی ہے۔ جنگ خندق میں صحابہ نے جب دیکھا کہ سارا عرب ان کے مخالف امڈ آیا ہے اور آندھی کی طرح مدینہ کے افق پر چھا گیا ہے۔ بچنے کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ لیکن عجیب بات یہ ہے کہ انھوں نے گھبرانے کی بجائے یہ کہا : ھذا ماوعدنا اللہ ورسولہ وصدق اللہ ورسولہ ومازادھم الا ایمانا وتسلیما ” یہ جو کچھ ہم دیکھ رہے ہیں یہ تو وہی چیز ہے جس کا ہم سے ہمارے اللہ اور اس کے رسول نے وعدہ کیا تھا اور اللہ اور اس کے رسول نے سچ کہا تھا (یہ مصائب تم پر آئیں گے تمہاری آزمائشیں ہوں گی دیکھنا صبر کا دامن نہ چھوڑنا) “۔ اس صورتحال نے ان کے ایمان و تسلیم میں اور اضافہ کردیا۔ صحابہ نے اسکندریہ کا محاصرہ کررکھا تھا۔ مقوقسِ مصرنے ایک دن مسلمانوں کے وفد سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ایک طرف رومی فوجیں ہماری مدد کے لیے پہنچا ہی چاہتی ہیں۔ دوسری طرف دریائے نیل نے تمہارا راستہ روک رکھا ہے اور تمہارے سامنے ہم ہیں۔ اس طرح تم تین طرف سے گھرگئے ہو، صرف تمہارے پاس ایک راستہ کھلا ہے جس سے تم پسپا ہوسکتے ہو۔ میں تمہیں پسپائی کا موقعہ دینا چاہتا ہوں اور اس کے ساتھ تمہارے افسروں اور تمہارے ہر سپاہی کو زرِ نقد بھی دیا جائے گا۔ اگر تم میری پیش کش قبول کرلو تو بچ جاؤ گے۔ ورنہ چند روز کے بعد تمہاری لاشیں دفن کرنے والا بھی کوئی نہ ہوگا۔ مسلمان اس کی باتیں سن کر ہنسے اور کہنے لگے کہ موت سے تم ڈرتے ہو ہم نہیں۔ ہم تو شہادت کو اللہ کا انعام سمجھتے ہیں۔ اور یہ کندھوں پر سر اسی کی امانت سمجھ کر اٹھائے پھرتے ہیں تم نے تو ہمارے لیے منزل قریب کردی۔ یہ ہمارے لیے خوشی کا موقعہ ہے پریشانی کا نہیں۔ 1857 ء میں جنگ آزادی کے جرم میں جن لوگوں کو گرفتار کیا گیا، ان میں حضرت یحییٰ تھا نیسری بھی تھے۔ انھیں اور ان کے ساتھیوں کو سزائے موت سنائی گئی۔ چند دنوں کے بعد جب ان کی صحت کی رپورٹ مانگی گئی تو انگریز یہ جان کر حیران رہ گیا کہ موت کی سزا سننے کے بعدان کی صحتیں پہلے سے اچھی ہوگئی ہیں اور ان کے چہروں سے خوشیوں کی بہاریں پھوٹ رہی ہیں۔ اس نے تحقیق کا حکم دیا کہ معلوم کرو کہ ان کی خوشی کا سبب کیا ہے ؟ تو قیدیوں نے انھیں بتایا کہ ہم اور ہمارا سب کچھ اللہ ہی کی ملک ہے۔ ہم اسی کے لیے جیتے اور اسی کے لیے مرتے ہیں اور ہمیں ایک دن اللہ ہی کے روبرو حاضر ہونا ہے۔ ہمارے لیے اس سے بڑھ کر اور کیا خوشی کا موقعہ ہوگا کہ جس کی رضا کے لیے ہم زندگی کا بوجھ اٹھائے پھرتے تھے آج اسی کی رضا کے لیے اسے اتارنے کا موقعہ آگیا ہے۔ چناچہ جیسے جیسے وہ وقت قریب آتا جارہا ہے ویسے ویسے ہماری خوشیوں میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ یہ پھانسی کی تکلیف تو چند لمحوں کی تکلیف ہے لیکن جب ہم اللہ کے حضور سرخرو ہو کر پہنچیں گے تو وہاں سارے قرضے بیباک ہوجائیں گے۔ ہر کھوئی ہوئی نعمت وصول ہوجائے گی۔ اجر وثواب کی صورت میں وہ نعمتیں ملیں گی جس کا آج ہم تصور بھی نہیں کرسکتے۔ اندازہ کیجئے ! یہ مختصر سا جملہ اور کلمہ صبر کرنے والوں کی کتنی بڑی ڈھال ہے، جس پر وہ مصیبت کے ہر وار کو روکتے ہیں۔ لیکن اس سے یہ نہ سمجھا جائے کہ وہ یہ کہہ کر آسانی سے اپنے آپ کو دشمن کے سپرد کردیتے ہیں کہ ہم تو اللہ ہی کے ہیں تم اللہ کے راستے میں ہمیں مارنا چاہتے ہو تو ہم حاضر ہیں بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ بڑے سے بڑے خطرے اور بڑی سے بڑی مصیبت کے سامنے یہ کہتے ہوئے تن کر کھڑے ہوجاتے ہیں اور پھر کسی بھی خطرے سے ٹکراتے ہوئے یہی قول ان کے لیے قوت کا سامان بن جاتا ہے کہ ہم تو ہیں ہی اللہ کے، ہمارے پاس جو کچھ ہے اللہ کی رضا کے لیے نچھاور کردیں گے۔ ہمیں اس پر کوئی گھبراہٹ نہیں کہ ہماری جان چلی جائے گی۔ ہم جان سے بےگانہ ہو کر دشمن سے اور پہاڑوں سے ٹکرائیں گے۔ سمندروں میں کود جائیں گے، ہم موت کا تعاقب کریں گے وہ ہم سے پیچھا چھڑائے گی۔ تیسری آیت میں فرمایا کہ یہ وہ لوگ ہیں جن پر اللہ کی عنایات ہوتی ہیں اور رحمتیں برستی ہیں۔ وہ ہماری خاطر پہاڑوں سے ٹکراتے ہیں تو ہم ان کے لیے قوت کا سامان بن جاتے ہیں اور یہی لوگ ہیں جو درحقیقت ہدایت کا راستہ پا رہے ہیں۔ انھوں نے اس راز کو پالیا ہے کہ زندگی ہماری منزل نہیں بلکہ اللہ کے دین کی سربلندی اور اس کی رضا کا حصول ہماری منزل ہے اور یہ وہ منزل ہے جس میں اگر زندگی اور ہمارا سب کچھ کام آجائے تو ہم نے ہدایت کا راستہ پالیا اور یہی راستہ انھیں آخرت تک لے جائے گا جہاں وہ اپنے انھیں کارناموں کے باعث اللہ کی جنت کے مستحق ٹھہریں گے۔
Top