Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
228
229
230
231
232
233
234
235
236
237
238
239
240
241
242
243
244
245
246
247
248
249
250
251
252
253
254
255
256
257
258
259
260
261
262
263
264
265
266
267
268
269
270
271
272
273
274
275
276
277
278
279
280
281
282
283
284
285
286
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Ruh-ul-Quran - Al-Baqara : 143
وَ كَذٰلِكَ جَعَلْنٰكُمْ اُمَّةً وَّسَطًا لِّتَكُوْنُوْا شُهَدَآءَ عَلَى النَّاسِ وَ یَكُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَیْكُمْ شَهِیْدًا١ؕ وَ مَا جَعَلْنَا الْقِبْلَةَ الَّتِیْ كُنْتَ عَلَیْهَاۤ اِلَّا لِنَعْلَمَ مَنْ یَّتَّبِعُ الرَّسُوْلَ مِمَّنْ یَّنْقَلِبُ عَلٰى عَقِبَیْهِ١ؕ وَ اِنْ كَانَتْ لَكَبِیْرَةً اِلَّا عَلَى الَّذِیْنَ هَدَى اللّٰهُ١ؕ وَ مَا كَانَ اللّٰهُ لِیُضِیْعَ اِیْمَانَكُمْ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ بِالنَّاسِ لَرَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ
وَكَذٰلِكَ
: اور اسی طرح
جَعَلْنٰكُمْ
: ہم نے تمہیں بنایا
اُمَّةً
: امت
وَّسَطًا
: معتدل
لِّتَكُوْنُوْا
: تاکہ تم ہو
شُهَدَآءَ
: گواہ
عَلَي
: پر
النَّاسِ
: لوگ
وَيَكُوْنَ
: اور ہو
الرَّسُوْلُ
: رسول
عَلَيْكُمْ
: تم پر
شَهِيْدًا
: گواہ
وَمَا جَعَلْنَا
: اور نہیں مقرر کیا ہم نے
الْقِبْلَةَ
: قبلہ
الَّتِىْ
: وہ کس
كُنْتَ
: آپ تھے
عَلَيْهَآ
: اس پر
اِلَّا
: مگر
لِنَعْلَمَ
: تاکہ ہم معلوم کرلیں
مَنْ
: کون
يَّتَّبِعُ
: پیروی کرتا ہے
الرَّسُوْلَ
: رسول
مِمَّنْ
: اس سے جو
يَّنْقَلِبُ
: پھرجاتا ہے
عَلٰي
: پر
عَقِبَيْهِ
: اپنی ایڑیاں
وَاِنْ
: اور بیشک
كَانَتْ
: یہ تھی
لَكَبِيْرَةً
: بھاری بات
اِلَّا
: مگر
عَلَي
: پر
الَّذِيْنَ
: جنہیں
ھَدَى
: ہدایت دی
اللّٰهُ
: اللہ
وَمَا كَانَ
: اور نہیں
اللّٰهُ
: اللہ
لِيُضِيْعَ
: کہ وہ ضائع کرے
اِيْمَانَكُمْ
: تمہارا ایمان
اِنَّ
: بیشک
اللّٰهَ
: اللہ
بِالنَّاسِ
: لوگوں کے ساتھ
لَرَءُوْفٌ
: بڑا شفیق
رَّحِيْمٌ
: رحم کرنے والا
اسی طرح ہم نے تمہیں ایک ” امت وسط “ بنایاتا کہ تم لوگوں پر گواہی دینے والے بنو اور رسول تم پر گواہی دینے والا بنے اور جس قبلہ پر تم تھے ہم نے اس کو صرف اس لئے قبلہ بنایا تھا کہ ہم ممیز کردیں ان لوگوں کو جو رسول کی پیروی کرنے والے ہیں ان لوگوں سے جو پیٹھ پیچھے پھرجانے والے ہیں۔ بیشک یہ بات بھاری ہے مگر ان لوگوں پر جن کو اللہ ہدایت نصیب کرے، اور اللہ تعالیٰ تمہارے ایمان کو ضائع کرنے والا نہیں۔ یقین جانو اللہ تو لوگوں کے ساتھ بڑا مہربان اور رحیم ہے۔
وَکَذٰلِکَ جَعَلْنٰـکُمْ اُمَّۃً وَّ سَطًا لِّـتَـکُوْنُوْا شُھَدَآئَ عَلَی النَّاسِ وَیَکُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَیِْکُمْ شَھِیْدًاط وَمَا جَعَلْنَا الْقِبْلَۃَ الَّتِیْ کُنْتَ عَلَیْھَآ اِلَّا لِنَعْلَمَ مَنْ یَّتَّبِعُ الرَّسُوْلَ مِمَّنْ یَّنْقَلِبُ عَلٰی عَقِبَیْہِ ط وَاِنْ کَانَتْ لَکَبِیْرَۃً اِلَّا عَلَی الَّذِیْنَ ھَدَی اللّٰہُ ط وَمَا کَانَ اللّٰہُ لِیُضِیْعَ اِیْمَانَکُمْ ط اِنَّ اللّٰہَ بِالنَّاسِ لَرَئُ وْفٌ رَّحِیْمٌ۔ (اسی طرح ہم نے تمہیں ایک ” امت وسط “ بنایاتا کہ تم لوگوں پر گواہی دینے والے بنو اور رسول تم پر گواہی دینے والا بنے اور جس قبلہ پر تم تھے ہم نے اس کو صرف اس لیے قبلہ بنایا تھا کہ ہم ممیز کردیں ان لوگوں کو جو رسول کی پیروی کرنے والے ہیں ان لوگوں سے جو پیٹھ پیچھے پھرجانے والے ہیں۔ بیشک یہ بات بھاری ہے مگر ان لوگوں پر جن کو اللہ ہدایت نصیب کرے، اور اللہ تعالیٰ تمہارے ایمان کو ضائع کرنے والا نہیں۔ یقین جانو اللہ تو لوگوں کے ساتھ بڑا مہربان اور رحیم ہے) (البقرۃ : 143) کَذٰلِکَ کا مفہوم یہ آیت کریمہ اپنی معنوی گہرائی اور امت کی ذمہ داریوں کے اعتبار سے نہایت معرکۃ الآرا آیت ہے۔ اس کا ایک ایک لفظ قابل غور ہے، لیکن ہم تفصیل اور اطناب سے بچتے ہوئے چند ناگزیر حقائق کے ذکر پر اکتفا کریں گے۔ سب سے پہلے کذلک پر توجہ دیجئے اس کا معنی ہے ” اسی طرح “ ہم نے تمہیں اسی طرح امت وسط بنایا ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ اشارہ کس طرف ہے ؟ معمولی غور وفکر سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ سیاق کلام میں جو موضوع زیربحث ہے اسی کی طرف اشارہ ہے۔ بنی اسرائیل پر کئی پہلوئوں سے تنقید ہوئی ہے۔ لیکن آخر میں دو باتوں پر زیادہ زور دیا گیا ہے۔ ایک تو یہ ہے کہ تمہیں اللہ نے اسلام کی دولت دے کر دنیا کی قیادت کے منصب پر فائز کیا تھا۔ لیکن تم اس شاہراہِ ہدایت سے محروم ہو کر یہودیت اور نصرانیت کی دلدل میں اتر گئے۔ تم نے اپنے لیے ایک ایک حصارکھینج لیا۔ یہود نے یہودیت کے تنگ نائے سے نکلنے سے انکار کردیا اور عیسائیت نے عیسائیت ہی کو عافیت کدہ سمجھا اور اپنے اپنے مخصوص پیغمبر پر اکتفا کرکے باقی سب پیغمبروں کو ماننے سے انکار کردیا۔ شریعت میں بھی اپنی مرضی سے کمی بیشی کی اور اپنے اپنے گروہ کو حق کا اجارہ دار سمجھ کر حق کو اپنی ذات میں محدود کرلیا۔ اللہ کا دین جو ہوا اور پانی کی طرح سب کی ضرورت ہے، تم نے اسے گروہوں میں بانٹ دیا اور جب بھی اللہ کے کسی پیغمبر نے تمہیں اس گمراہی سے نکالنے کی کوشش کی تو تم نے اس کو یا تو قتل کردیا اور یا مخالفت سے بےبس کردیا۔ چناچہ گزشتہ آیات میں اللہ نے اس صراط مستقیم کی طرف راہنمائی کرتے ہوئے ان میں سے ایک ایک گمراہی پر تنقید کی اور ان کے آبائو اجداد کی شہادت سے اسلام کی صراط مستقیم کو ان کے سامنے کھول دیا۔ یہاں فرمایا جارہا ہے کہ جس طرح ہم نے دوبارہ انسانوں کو صراط مستقیم کی خبر دی ہے، اسی طرح ہم نے اس صراط مستقیم کے علمبردار بنا کر مسلمانوں کو امت وسط بنایا ہے تاکہ دنیا میں وہ فرض انجام دیں جس فرض کی ادائیگی کا کبھی اہل کتاب کو پابند کیا گیا تھا۔ دوسری بات جو سمجھ میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو بیت المقدس کی صورت میں ان کی مرکز کی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے قبلہ دیا تھا لیکن اس کا رخ بیت اللہ کی طرف رکھ کر اور تمام قربانیوں کا رخ بیت اللہ کی طرف مقرر فرماکر یہ بھی واضح کردیا تھا کہ سب سے پہلا گھر جسے اللہ نے دنیا کے کعبہ کی فضیلت سے نوازا تھا وہ بیت اللہ ہی تھا۔ بیت المقدس تمہیں تمہاری ملی ضرورتوں کے تحت عطا کیا جارہا ہے۔ اسے قبلہ بنا کر بیت اللہ کی اصل حیثیت سے انکار نہ کردینا اور اس سے یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کرلینا کہ قبلہ ہر امت کے لیے مرکز ہدایت اور شیرازہ بندی کا سب سے اہم ذریعہ ہوتا ہے لیکن اصل مقصود و مطلوب اللہ کی ذات ہوتی ہے۔ اسی کے حکم سے قبلہ کا تعین ہوتا ہے اور اسی کے حکم سے قبلہ کی تحویل ہوتی ہے۔ لیکن یہود و نصاریٰ نے اس حقیقت کو نظر انداز کرکے پہلے بیت ِ ابراہیمی کے قبلہ ہونے سے انکار کیا اور پھر بیت المقدس میں مشرق ومغرب کے جھگڑے میں پڑگئے اور بیت المقدس کے باہر مشرق ومغرب کو مقدس سمجھ کر جہت پرستی کا آغاز کردیا اور اس طرح گمراہی درگمراہی میں مبتلا ہوتے چلے گئے۔ حالانکہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) جو یہود و نصاریٰ دونوں کے لیے اصل پیشوا کی حیثیت رکھتے ہیں۔ انھیں خوب معلوم ہے کہ ُ ان کا قبلہ کون سا تھا ؟ مقام ابراہیم کہاں تھا ؟ انھوں نے بیٹے کی قربانی کہاں دی تھی ؟ اور نبی آخرالزمان اور آخری امت کے لیے کہاں کھڑے ہوکرانھوں نے دعائیں مانگی تھیں ؟ اپنی کتابوں کی تعلیم کے باعث وہ ان باتوں میں سے ہر بات کو جانتے تھے۔ لیکن انھوں نے تاریخ کے مختلف ادوار میں ایک ایک کرکے ان صداقتوں کو فراموش کردیا۔ گزشتہ آیات میں اللہ تعالیٰ نے ان صداقتوں اور اہل کتاب کی جسارتوں کا ذکر فرماکرازسرِ نو انسانوں کو صراط مستقیم کی ہدایت عطا فرمائی ہے۔ فرمایا : جس طرح ہم نے تمہیں اس ہدایتِ گم گشتہ سے ازسر نو وابستہ کیا ہے اسی طرح اے مسلمانو ! ہم نے تمہیں ایک ” امت وسط “ بنایا ہے۔ امتِ مسلمہ کے امت وسط ہونے کا مفہوم وَسَطْ کا لفظ وَلَدْ کی طرح مذکر مؤنث، واحد اور جمع سب کے لیے آتا ہے۔ وہ چیز جودو طرفوں کے بالکل بیچ میں ہو اسے وسط کہا جاتا ہے۔ اسی طرح کسی کی بھی معاملے کے مختلف پہلوئوں میں سے جو پہلو درمیان میں ہوتا ہے اسے ” اوسط الامور “ کہا جاتا ہے اور یہ بھی کہا جاتا ہے خیرالامور اوسطہا معاملات میں بہتر اس کا اوسط ہوتا ہے۔ کسی بھی تقریب میں سب سے اہم شخصیت کی نشست عین درمیان میں ہوتی ہے اور یہ اس کے لیے عزت کی علامت ہوتی ہے۔ امت اسلامیہ کو امت وسط کہنے کا شائد یہی مطلب ہے کہ آپ دنیا کی تمام قوموں میں امت وسط کی حیثیت رکھتے ہیں یعنی آپ کا مقام سب سے بلند ہے اور اللہ نے آپ کو تمام قوموں میں فضیلت سے نوازا ہے۔ یعنی وہ فضیلت جو کبھی بنی اسرائیل کو دی گئی تھی ان کی معزولی کے بعد وہ فضیلت آپ کو دی جارہی ہے دوسرے لفظوں میں یہ کہا جارہا ہے کہ آج سے آپ دنیا کی امامت کے منصب پر فائز کیے جارہے ہیں۔ یہی بات قرآن کریم میں ایک دوسری جگہ کنتم خیرا مۃ ” تم سب سے بہتر امت ہو “ کے الفاظ میں دہرائی گئی ہے۔ اس لفظ کی معنویت میں مزید غور و فکر سے کام لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ لفظ اس قدر وسیع معنویت اپنے اندر رکھتا ہے کہ کسی دوسرے لفظ سے اس کے ترجمہ کا حق ادا نہیں کیا جاسکتا۔ اس سے مراد ایک ایسا اعلیٰ اور اشرف گروہ ہے جو عدل و انصاف اور توسط کی روش پر قائم ہو۔ عدل و انصاف کی وجہ سے اس کی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں ایک اعتدال کی کیفیت ہو اور اپنی ذمہ داریوں کے حوالے سے ایک ایسی حیثیت کا حامل ہو کہ جو دنیا کے لیے مینارہ نور بھی ہو اور کمزوروں کے لیے سب سے بڑا سہارا ہو۔ جس طرح دنیا رہنمائی کے لیے اس کی طرف دیکھے اسی طرح اپنی بےبسی میں مدد اور اعانت کی اسی سے طالب ہو۔ وہ خیر اور بھلائی کی ایک ایسی قوت ہو کہ اس کی موجودگی میں کسی پر ظلم نہ ہوسکے۔ نہ وہ کسی پر ظلم کرے اور نہ وہ کسی پر ظلم ہونے دے۔ کسی امت کا عدل و انصاف پر قائم رہنا اس کی بقا کی دلیل ہے اور عدل اور انصاف کی قوت بن جانا، دنیا اور اہل دنیا کی بقا کا ضامن ہے۔ اس لحاظ سے جب ہم مزید تدبر سے کام لیتے ہیں تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ اللہ نے اس امت کو انھیں دونوں حیثیتوں کا نمائندہ بنایا ہے۔ اس کی اپنی ذات میں اس کے تمام اداروں سمیت اعتدال کی ایک ایسی روش پائی جاتی ہے جس سے سرمو انحراف کرنے کی اجازت نہیں۔ اور یہی اس کی زندگی اور اس کی اخلاقی اور روحانی صحت کی ضامن ہے۔ جس طرح انسانی جسم اس وقت تک صحت مند رہتا ہے جب تک جسمانی اخلاط میں ایک اعتدال اور تناسب پایا جاتا ہے۔ اگر ان اخلاط میں سے کوئی افراط وتفریط کا شکار ہوجائے تو جسم بیمار ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ انسانی جسم کا حسن اس کے اسی اعتدال سے قائم ہے۔ اس کے اعضاء کا تناسب، اس کے مزاج کی یکسانی، اس کے رنگ وروپ کی ہم آہنگی، اس کے صوتی زیروبم کی دلآویزی، اور اس کے لب و لہجہ کی چاشنی یہ سب مل کر ایک ایسے اعتدال اور تناسب کو جنم دیتے ہیں جسے حسن کا نام دیا جاتا ہے۔ یہی حال ہر قوم کی معنوی زندگی کا بھی ہے اس کی بھی اصل روح جسمانی اعتدال کے ساتھ ساتھ روحانی اور اخلاقی اعتدال ہی ہے۔ امت وسط کہہ کر اسی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ اس امت کے پورے نظام زندگی کا ذکر کرنا تو اس مختصر صحبت میں ممکن نہیں ہم صرف چند باتوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ امتِ وسط عقائد کے اعتبار سے سب سے پہلی چیز جس سے قوموں کی شیرازہ بندی ہوتی اور فکر وعمل کی دنیا تعمیر ہوتی ہے وہ اس کے بنیا دی تصورات ہوتے ہیں، جن کو شریعت کی زبان میں عقائد کہا جاتا ہے۔ انھیں پر پوری دینی زندگی کا دارومدا رہے۔ اس حوالے سے جب ہم دیکھتے ہیں تو ہر مذہب کے بنیادی عقائد تین ہی رہے ہیں۔ توحید، رسالت اور آخرت۔ لیکن جب ہم ان عقائد کی تفصیل اور ان قوموں کے اندر ان کے اثرات کا جائزہ لیتے ہیں تو محسوس ہوتا ہے کہ وہ قومیں جو اپنے پاس آسمانی مذاہب ہونے کا دعویٰ کرتی ہیں خود ان کے عقائد اور ان پر ان کا عمل ایک ایسی افراط وتفریط کا شکار ہے جس سے زیادہ افراط وتفریط کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ یہود ایک طرف اللہ کو ذات وصفات میں ایک ماننے کا دعوٰی کرتے ہیں اور ساتھ ہی حضرت عزیر (علیہ السلام) کو اللہ کا بیٹا بھی کہتے ہیں۔ عیسائی بھی توحید کے قائل ہیں، لیکن ساتھ ہی نہ صرف کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ کا بیٹا کہتے ہیں بلکہ اقانیمِ ثلاثہ کے گورکھ دھندے کو انھوں نے عقائد کا محور بنا رکھا ہے۔ رسالت کے بھی قائل ہیں، لیکن پیغمبر کو انسان ماننے کی بجائے اللہ کا بیٹا سمجھتے ہیں اور جن پیغمبروں کو انسان تسلیم کرتے ہیں ان کی معصومیت کو اپنی کتابوں میں انھوں نے بری طرح مجروح کررکھا ہے۔ غور کیجئے ! کہ جو پیغمبر اپنے کردار میں نمونہ نہیں بن سکتا وہ لوگوں کے سامنے پیغمبری کا فرض کیسے انجام دے سکتا ہے۔ آخرت کو مانتے ہیں، لیکن نجات کا دارومدار نسل اور نسب پر رکھتے ہیں۔ اور اپنے آبائوا جداد کو اپنی نجات کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ اگر اس بنیاد کو تسلیم کرلیا جائے تو پھر آخرت میں جزا اور سزا کا کیا تصور باقی رہ جاتا ہے۔ ان تمام مذاہب کے مقابل میں اسلامی عقائد کو دیکھ لیجئے۔ توحید ہے تو بالکل خالص، بالکل بےمیل، ہر آلودگی سے پاک اور ہر طرح کے شرک سے بالا۔ رسالت ہے، تو رسول کی ذات اس کی صفات اور اس کے پیغام میں کہیں جھول اور کہیں فاصلہ دکھائی نہیں دیتا۔ رسالت کو پیغام اور پیغامبر دونوں کا مرقع بنایا گیا ہے۔ رسول اپنی سیرت و کردار میں انسانیت کا ایک ایسا اعلیٰ نمونہ ہے جس میں ہر طبقہ زندگی کے لیے رہنمائی موجود ہے۔ آخرت کے تصور کو اس طرح پوری زندگی پر حاوی کردیا گیا ہے کہ انسان کا کوئی عمل اس سے آزاد نہیں۔ جزا اور سزا کے تصور کو بےلاگ بنادیا گیا ہے۔ اللہ کے نبیوں اور اس کے نیک بندوں کے احترام کی حدود واضح کی گئی ہیں۔ شفاعت کا صحیح تصور دے کر انسان کو اپنے اعمال کا ذمہ دار بنایا گیا ہے۔ اس سے آپ اندازہ لگالیجئے کہ دوسرے مذاہب کے اعتقادی افراط وتفریط کے مقابلے میں اسلامی عقائد میں کس حد تک اعتدال کارفرما ہے۔ عبادت کے اعتبار سے مذہب کا ایک بہت بڑا شعبہ عبادت ہے۔ تمام دوسرے مذاہب کو دیکھئے کہ وہ نظریاتی طور پر یہ تسلیم کرتے ہیں کہ عبادت اللہ ہی کی ہونی چاہیے لیکن عملی طور پر انھوں نے دنیاکو دو حصوں میں تقسیم کررکھا ہے۔ ایک طرف سیکولر دنیا ہے، جن کی پوری زندگی بندگی کے تصور سے بےگانہ ہے۔ دوسری طرف وہ مذہبی طبقہ ہے جو راہبانہ زندگی کا قائل ہے۔ عیسائیت بھی رہبانیت کو مذہب کی میراث سمجھتی ہے اور ہندو ازم بھی جوگی ازم کو مذہب کا حقیقی پرتو سمجھتا ہے اس کے مقابلے میں اسلام کا تصور عبادت کس قدر اپنے اندر اعتدال رکھتا ہے۔ وہ جس طرح رہبانیت سے انکار کرتا ہے اسی طرح سیکولرازم سے بھی انکار کرتا ہے۔ وہ جس طرح ترک دنیا کو گمراہی سمجھتا ہے اسی طرح پوری زندگی کو اللہ کے احکام سے آزاد کرکے انسان کے حوالے کردینے کو بھی گمراہی سمجھتا ہے۔ معاشرت اور تمدن کے حوالے سے معاشرتی اور تمدنی پہلو سے دیکھیں تو دنیا کے مذاہب چونکہ اپنی معاشرت اور اپنے تمدن کو مذہب سے آزاد کرچکے ہیں اس لیے ان میں افراط وتفریط کا ہونا ناگزیر ہے۔ لیکن بعض باتیں تو ان میں ایسی مضحکہ خیز ہیں کہ جس کی کوئی توجیہ کرنا ممکن نہیں۔ مثلاً ایک طرف تو عیسائیت کے وہ اخلاقی نظریات دیکھئے جو وہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی تعلیمات کی روشنی میں پیش کرتے ہیں کہ دشمن ان کے ساتھ کوئی بھی سلوک کرے وہ صبر، درگزر اور حسن اخلاق کی تعلیم دیتے ہیں۔ لیکن دوسری طرف ان کا وہ رویہ ہے جس کی آج پوری دنیا شکار ہے۔ اولا تو ان کا مذہبی طبقہ ہر جگہ اپنی تہذیب کو اپنے مذہب کا پرتو قرار دیتا ہے لیکن اگر ایسا نہ بھی سمجھاجائے اور صرف ان کے تہذیبی دعوئوں کو ان کی تعلیم اور تجربات کا نچوڑ سمجھا جائے تو آج جس طرح انھوں نے دوسری قوموں کے سامنے اپنی تہذیب اپنے تمدن، اور اپنے اخلاق کی نمائش کی ہے وہ تو انسانیت کے لیے نہایت سبق آموز ہے۔ عرب تو بیٹیوں کو زندہ درگور کرتے تھے، انہوں نے نسلیں زندہ درگور کردی ہیں۔ تاتاریوں کا ظلم، تاریخ کے منہ پر ایک بدنما داغ ہے۔ لیکن افغانستان، عراق، چیچینیا، بوسینیا، فلسطین، اور کشمیر میں ان کے مظالم تو دنیابھر کے مظالم کو شرما دینے کے لیے کافی ہیں۔ اس کے مقابلے میں مسلمانوں کے اپنے دور عروج میں عدل و احسان کی جو مثالیں قائم کی ہیں اور جس طرح صرف انسانوں کو نہیں بلکہ حیوانوں، کھیتیوں، شاہراہوں اور عام آبادیوں کو جو حقوق دئیے اس سے تہذیبی اعتدال کا پتہ چلتا ہے انسانوں میں مساوات تہذیب کا پہلا سبق بھی ہے اور اس کا ثمرہ بھی۔ اس لحاظ سے اسلام کا نظام معاشرت، نظام معیشت، اور نظام سیاست قدم قدم پر اس کی عکاسی کرنے کے لیے کافی ہیں۔ لیکن یہودیت، نصرانیت اور ہندو مت نے جس طرح انسانی حقوق اور انسانی اخوت اور مساوات کی مٹی پلید کی ہے تاریخ میں اس کی مثال نہیں مل سکتی۔ ہندوازم میں تو عجیب افراط وتفریط پائی جاتی ہے۔ ایک طرف تو وہ کسی جانور کے خون بہانے کے بھی روادار نہیں، موذی جانوروں تک کو مارنا پسند نہیں کرتے۔ سانپ کو دودھ پلاتے ہیں اور بندر اور لومڑیاں ان کی آبادیوں میں پلتے ہیں اور دوسری طرف حال یہ ہے کہ انسانوں جیسے انسان جنھیں یہ شودر کہہ کریاد کرتے ہیں ان کے بارے میں ان کا رویہ ہے کہ کسی بھی شودر کو قتل کردینا ان کے نزدیک نہ صرف کہ گناہ نہیں بلکہ ثواب ہے۔ ان کے ملکوں میں اور ان کی سرزمین پر کتے بلیوں اور موذی جانوروں تک کو امان ہے لیکن اگر کوئی شودر ان کی بستیوں میں آجائے تو وہ واپس نہیں جاسکتا۔ کسی بھی مندر کے دروازے پر اس کا بلیدان کرنا مذہبی فریضہ سمجھتے ہیں۔ یہ سوچ کر تعجب ہوتا ہے کہ جس طرح باقی انسان ہیں اسی طرح شودر بھی انسان ہیں، وہ بھی باقی انسانوں کی طرح ماں باپ کے گھر پیدا ہوتے ہیں، ان کے گھر میں بھی سورج کی روشنی اترتی ہے۔ ان کے کھیتوں میں بھی فصلیں لہلہاتی ہیں۔ ان کی آبادیوں میں بھی گھنگھور گھٹائیں جھوم کر آتی ہیں۔ ان کے یہاں بھی موسم بدلتے ہیں۔ ان کے موسم بہار میں بھی پھول کھلتے اور کلیاں چٹکتی ہیں۔ پھر آخر انھوں نے ایسا کیا جرم کیا ہے ؟ کہ وہ باقی ہندئوں کی طرح انسانوں جیسی زندگی نہیں گزارسکتے۔ وہ ہندو وں کی عبادت گاہوں میں نہیں جاسکتے۔ وہ ان کے بھشن نہیں سن سکتے۔ درحقیقت یہی انسان کی وہ بےاعتدالی ہے جسے اسلام نے آکر اعتدال میں تبدیل کیا ہے۔ اور اسی اعتدال کے باعث مسلمانوں کو امت وسط قراردیا گیا ہے۔ امتِ وسط کا فریضہ منصبی شہادت حق لِتَکُوْنُوْا شُھَدَآئَ عَلَی النَّاسِ وَیَکُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَیِْکُمْ شَھِیْدًا ” امت محمدیہ کو ایک معتدل اور بہترین امت اس لیے بنایا ہے تاکہ وہ لوگوں پر حق کے گواہ بنیں۔ یہ اس امت کا فریضہ منصبی اور اس کے قیام کی ضرورت کا بیان ہے۔ اسی منصب پر بنی اسرائیل کو فائز کیا گیا تھا انھوں نے مسلسل اللہ سے کیے گئے عہد و پیمان توڑے۔ اس کی شریعت میں تبدیلیاں کیں اس کی صراط مستقیم گم کردی اور اس کے مقرر کیے ہوئے قبلہ سے منحرف ہوگئے اور جن شہادتوں کے وہ امین بنائے گئے تھے ان شہادتوں کا حق ادا کرنے سے منحرف ہوگئے۔ ایسی صورتحال میں نوع انسانی کی سب سے پہلی اور سب سے بڑی ضرورت اگر کوئی ہوسکتی تھی تو وہ یہی تھی کہ اللہ تعالیٰ ایک ایسی امت برپا کرے جو اللہ کی سیدھی راہ پر قائم ہو جو خود عدل کی تصویر ہو، اور دنیا میں عدل قائم کرنے کے لیے اٹھے۔ اسی عدل و احسان کو قائم کرنے کے لیے اللہ نے جو دین بھیجا ہے اس دین کی خود بھی عامل بنے اور قیامت تک لوگوں کے سامنے اس دین کی گواہی بھی دے۔ سب سے پہلے اسی گواہی کے منصب پر اللہ کے رسول کو کھڑا کیا گیا تاکہ ان کا طریقہ اور عمل امت کے لیے نمونہ بھی ٹھہرے اور سنت بھی بنے۔ آئیے اب دیکھتے ہیں کہ انھوں نے دنیا میں دین کی اس گواہی کا فرض کیسے انجام دیا۔ جب آپ دنیا میں نبوت دے کر مبعوث کیے گئے تو پوری دنیا میں ایک شخص بھی اللہ کو ماننے والا اس کی اطاعت کرنے والا اور اپنی زندگی کو اس کے احکام کے مطابق گزارنے والا موجود نہیں تھا۔ آپ نے جب لوگوں کے سامنے اس گواہی کا حق ادا کرتے ہوئے اعلان فرمایا کہ لوگو ! اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، وہی حاکم حقیقی اس کائنات اور تم سب کا اصل مالک اور آقا ہے۔ تم اسی کا رزق کھاتے ہو، اسی نے تمہیں زندگی دی ہے۔ وہی تمہیں زندگی کی تمام نعمتیں عطا کرتا ہے۔ اسی نے تمہیں عقل و شعور سے بہرہ ور کیا ہے، لیکن یہ عقل و شعور سے بہرہ ور زندگی اور یہ نعمتوں سے گراں بار زندگی اس لیے تو نہیں دی کہ ایک دن وجود میں آئے اور پھر خود رو پودے کی طرح مل دل کر ختم ہوجائے۔ اس نے ہر دور میں زندگی گزارنے کے لیے رہنما کتابیں بھیجیں، معلم اور مربی بناکر رسولوں کو مبعوث کیا تاکہ وہ تمہیں زندگی گزارنے کا طریقہ سکھائیں اور یہ بتائیں کہ تمہارا آقا کن باتوں سے راضی ہوتا ہے اور کن باتوں سے ناراض ہوتا ہے۔ میں بھی اسی لیے بھیجا گیا ہوں اور مجھ پر ایک کتاب اتاری گئی ہے اور میں اپنی سچائی اور کتاب کے برحق ہونے کی گواہی دیتا ہوں۔ میری زندگی کا ایک ایک لمحہ، میری دل آویز شخصیت، میری بےداغ سیرت و کردار، دیانت اور امانت سے بھرپور میرے معاملات اور مکارمِ اخلاق سے روشن میرے طور اطوار تمہارے سامنے ہیں، میری زندگی کا ایک ایک لمحہ تمہارے سامنے گزرا ہے۔ ان میں کہیں بھی جھوٹ اور شک کا شائبہ نہیں، یہ وہ سچی گواہی ہے جو میں تمہارے سامنے پیش کررہا ہوں۔ ہم سب کی زندگی کا ایک ایک لمحہ محفوظ ہورہا ہے ہمارا کوئی عمل بھی ہمارے خالق ومالک کے علم سے باہر نہیں۔ ایک دن ایسا آئے گا جب وہ ہم سب کو اپنے سامنے کھڑا کرکے ہمارے اعمال کا حساب لے گا سوچ لو اس وقت تمہارا جواب کیا ہوگا۔ میں نہایت ہمدردی اور خیرخواہی سے تمہارے سامنے وہ نسخہ شفا پیش کر رہا ہوں جسے اللہ نے مجھ پر اتارا ہے اور جس پر عمل کرکے تم اپنی زندگی اور آخرت کو سنوار سکتے ہو۔ لیکن اس کے جواب میں قوم نے وہی کیا جو ہر قوم اپنے پیغمبروں سے کرتی آئی ہے۔ زندگی کا کوئی دکھ ایسا نہیں جو آپ کو نہ پہنچایا گیا ہو۔ نماز پڑھتے ہوئے آپ کے سر پر اونٹ کی اوجھ ڈالی گئی جسے حضرت فاطمہ نے کسی کی مدد سے بڑی مشکل سے آپ کے سر سے اتارا اور آپ سر اٹھانے کے قابل ہوسکے۔ آپ کے گلے میں پٹکا ڈال کر آپ کی جان لینے کی کوشش کی گئی۔ آپ کے راستے میں کانٹے بچھائے گئے، آپ کے سر مبارک پر راکھ ڈالی گئی۔ لیکن آپ نے ہر تکلیف اٹھا کر اللہ کا پیغام اس کے بندوں تک پہنچایا۔ وہ گالیاں دیتے رہے آپ دعائیں دیتے رہے۔ انھوں نے آپ کے لیے زندگی دشوار تر کردی، آپ اللہ سے ان کے لیے رحمتیں مانگتے رہے۔ مکہ نے جب بری طرح آپ کی طرف سے اپنے دل و دماغ بند کرلیے تو آپ نے طائف کا رخ کیا۔ لیکن طائف کے اوباشوں نے آپ کی دعوت کے جواب میں ظلم اور بربریت کے سارے ریکارڈ توڑ ڈالے۔ طائف کا کوئی پتھر ایسا نہیں جس نے آپ کے جسم کے کسی نہ کسی حصے کو زخمی نہ کیا ہو۔ آپ کا وہ خون جس کا جواب کوثر وتسنیم میں بھی نہیں، آپ کے زخموں سے بہتارہا۔ آپ کا وہ جسمِ اطہر جس کا ایک ایک رونگھٹا عرش معلی سے بھی افضل ہے، وہ زخموں سے خونچگاں ہوتا رہا۔ آپ کی وہ عزت و حرمت جس کے دامن میں فرشتے نماز پڑھنا فخر محسوس کریں ان اوباشوں کی زبانوں سے گھائل ہوتی رہی۔ آپ کی وہ شخصیت جس کا جواب پوری کائنات میں نہیں، اسے طائف میں بری طرح ہلکا کرنے کی کوشش کی گئی۔ پھر آخر ایک وقت آیا کہ آپ کو وطن بھی چھوڑنا پڑا اللہ کا گھرجو آپ کو دنیا کی ہر چیز سے زیادہ عزیز تھا اس سے بھی جدائی برداشت کرنا پڑی۔ مدینہ کی سرزمین نے آپ کی قدم بوسی کی لیکن دشمن نے یہاں بھی چین نہ لینے دیا۔ مسلسل آپ کو لڑائیوں میں جانے پر مجبور کیا گیا۔ آپ کے عزیزوں کے لاشے اٹھے، آپ خود میدانِ جنگ میں زخمی ہوئے، وہ دندانِ مبارک شہید ہوئے، جن سے قرآن پاک کی شعائیں پھوٹا کرتی تھیں اس دہن سے خون بہا جس کا لعاب بیماروں کی شفا اور کڑوے پانی کو میٹھا کردیتا تھا۔ سالوں تک جاں سپاری اور جاں فروشی کے جاں گسل لمحات سے گزرنے کے بعد وہ معاشرہ وجود میں آیاجو اس کائنات کا حاصل تھا۔ اس انسان نے جنم لیا صدیوں سے زندگی جس کی راہ تک رہی تھی۔ وہ عدالتیں وجود میں آئیں جہاں صرف اللہ کا قانون فیصلے کرتا تھا۔ وہ بازار اور منڈیاں بنیں جہاں پر کاروبار کرنے والے اپنے سے زیادہ دوسروں کا خیال رکھنے والے تھے۔ وہ گلی کو چے وجود میں آئے جن میں جرم کا کوئی تصور نہیں تھا۔ شہروں کے شہر ایسے لوگوں سے معمور ہوئے جیسے لوگوں کو چشم فلک نے آج تک نہ دیکھا تھا۔ رت بدل گئی موسم تبدیل ہوگیا انسانیت کی قسمت سنور گئی۔ انسانیت کو ایک ایسی بہار نصیب ہوئی جس میں صرف خدا خوفی، راست بازی، انسان دوستی، علم پروری اور آخرت کی جستجو کے پھول کھلتے تھے۔ بارہ لاکھ مربع میل علاقے پر اس انقلاب کی ٹھنڈی چھائوں پھیل گئی اور ڈیڑھ لاکھ کے قریب ایسے انسانوں کی ایک مضبوط قوم تیار ہوگئی جو حق کی سربلندی اور باطل کی سرکوبی کے سوا کوئی مقصد نہیں رکھتی تھی۔ تب آپ نے آخری حج میں لوگوں سے پوچھا کہ لوگو ! ہوسکتا ہے کہ اگلے سال تم مجھے نہ دیکھو۔ قیامت کے دن تم سے میرے بارے میں پوچھا جائے گا کہ جس شہادتِ حق کے منصب پر مجھے فائز کیا گیا تھا اس منصب کی ذمہ داریوں کو میں نے ادا کیا یا نہیں ؟ کیا میں نے اللہ کا دین تم تک پہنچایا ؟ کیا میں نے امانت کا حق ادا کیا ؟ کیا میں نے تمہارے ساتھ خیرخواہی کی ؟ ایک ایک سوال پر لوگ چیخ رہے تھے کہ یارسول اللہ ! آپ نے اپنی ذمہ داری کا پورا حق ادا کردیا۔ آپ نے تین دفعہ آسمان کی طرف انگلی اٹھا کر فرمایا کہ یا اللہ ! تو گواہ رہ تیری مخلوق میرے بارے میں گواہی دے رہی ہے۔ ظاہر ہے کہ آپ ہمیشہ کی عمر لے کر نہیں آئے تھے۔ 63 سالہ عمر طبعی اور 23 سالہ عمر رسالت گزار کر آپ اپنے اللہ سے جاملے۔ لیکن وہ شہادتِ حق جس کی ذمہ داری آپ نے ادا کی تھی اسے بعد کی نسلوں کے لیے اس امت کے سپرد کرگئے جسے آپ نے تربیت کیا تھا اور آپ نے مختلف وقتوں میں یہ بات سمجھائی کہ لوگو ! تم میں سے ہر نسل اس امانت کی ادائیگی کی ذمہ دار ہے۔ کل کو تم سے پوچھا جائے گا کہ جس طرح میں نے یہ حقِ امانت ادا کیا تھا کیا تم نے بھی ایسا ہی کیا ؟ کیا تم نے ویسے ہی دکھ اٹھائے جیسے میں نے اٹھائے تھے ؟ کیا تم نے اسی احساسِ ذمہ داری کا ثبوت دیا جیسے میں نے دیا تھا ؟ کیا تم نے اللہ کے دین کو گھر سے لے کر ایوانِ حکومت تک نافذ اور برپاکرکے یہ ثابت کیا کہ اللہ کا دین اب بھی قابل عمل ہے جس طرح آپ نے صحابہ کے سپرد یہ ذمہ داری کی اور انھیں باربار اس کا احساس بھی دلایا اسی طرح قرآن کریم کی یہ آیت قیامت تک آنے والے مسلمانوں کو یہ احساس دلاتی رہے گی کہ کل کو تم سے اسی ذمہ داری کے حوالے سے پوچھا جائے گا کہ تم نے اپنی اگلی نسل تک یہ امانت پہنچائی یانھیں پہنچائی ؟ کیا تم نے یہ ثابت کیا کہ ڈرنا صرف اللہ سے چاہیے ؟ بھروسے کے قابل صرف وہی ذات ہے، سر صرف اسی کے سامنے جھکنا چاہیے، امیدیں صرف اسی سے باندھنی چاہییں، آئین اسی کا واجب الاطاعت ہے۔ وہی ہے جو مطاع مطلق ہے۔ اس کے سوا کسی کی غیر مشروط اطاعت نہیں ہوسکتی۔ اس کے حکم کے مقابلے میں کسی کا حکم نہیں چل سکتا۔ اس کی اطاعت کا وہ طریقہ معتبر ہوگا، جو طریقہ اللہ کے رسول نے چھوڑا ہے، جسے ہم سنت رسول کہتے ہیں۔ قرآن بار بار پوچھتا ہے کہ لوگو بتائو جو امانت حضور اور آپ کے صحابہ چھوڑ گئے، وہ کہاں ہے ؟ وہ ایثار، وہ استقامت، وہ ذات رسالتِ مآب سے بےپناہ محبت، جو حضرت ابوبکر صدیق ( رض) ہمارے حوالے کرگئے تھے، وہ کہاں ہے ؟ حضرت فاروقِ اعظم ( رض) کا وہ عدل کہاں ہے ؟ جو وہ دنیا کو دے کر گئے تھے۔ اور حضرت عثمان ( رض) کی وہ شرم وحیا جو ان کی شناخت بن گئی تھی، کہاں ہے ؟ اور کہاں ہے وہ علی ( رض) کا فقر، جس پر انھیں فخر تھا اور جس کی انھوں نے وراثت چھوڑی تھی ؟ اسلام کا وہ پورا نظام زندگی جو صحابہ کے گھروں سے لے کر ان کے معاشرے کے ایک ایک ادارے اور ان کی ریاست کے ایک ایک شعبے اور ان کی حکومت کے ایک ایک ایوان میں برسر اقتدار تھا۔ وہ ہم نے کہاں کھودیا ؟ ہمارے گھروں میں فقر نہیں سرمایہ داری ہے، ہمارے پاس عدل نہیں جانب داری ہے، ہمارے پاس رحم ومروت نہیں ظلم اور جہالت ہے، ہمارے پاس شرم وحیا نہیں ہر چورا ہے پر ہم نے حوا کی بیٹیوں کو بےحیائی کی تصویر بنا کر اس طرح آویزاں کردیا ہے کہ حیا کا جنازہ نکل گیا ہے۔ ہمارے نصاب تعلیم سے قرآن کریم کی آیات کھرچی جارہی ہیں۔ جہاد جسے اسلام کی چوٹی کہا گیا ہے وہ ایک گالی بن کر رہ گیا ہے۔ حکومت کے ایوانوں سے اللہ کے دین کا مذاق اڑایا جاتا ہے۔ اور طاقتور حکمرانوں کا کلمہ پڑھا جارہا ہے۔ لیکن قرآن کریم ہم سے باربار کہہ رہا ہے کہ سوچو ! کل کو حق شہادت کے حوالہ سے تم سے پوچھا جائے گا، کیا جواب دو گے ؟ وَمَا جَعَلْنَا الْقِبْلَۃَ الَّتِیْ کُنْتَ عَلَیْھَآ اِلَّا لِنَعْلَمَ مَنْ یَّتَّبِعُ الرَّسُوْلَ مِمَّنْ یَّنْقَلِبُ عَلٰی عَقِبَیْہِ تحویلِ قبلہ اتباعِ رسول ﷺ کا امتحان بھی ہے تحویلِ قبلہ پر جو ردعمل ہونے والا تھا۔ اس کے جواب کے لیے ذہنوں کو تیار کیا جارہا تھا۔ چناچہ اس سلسلے میں مخالفین کے اعتراضات کا جواب دیا گیا اور پھر فوراً بعد اس امت کی حقیقت کو نمایاں کرنے کے لیے ان کی اصل حیثیت کو واضح کیا گیا تاکہ وہ اپنی شناخت میں غلطی نہ کریں اور یہی شناخت تحویلِ قبلہ کی باعث بھی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پہلے مخالفین کا جواب دیا گیا ہے اس کے بعد امت کی شناخت کے حوالے سے اس کی ضرورت کا احساس دلایا گیا ہے اور ساتھ یہ بات بھی واضح کی گئی ہے کہ تحویلِ قبلہ امت کی ضرورت تو ہے لیکن ساتھ ہی اس امت کو ہر طرح کی کمزوریوں سے دور کرنے کے لیے ایک آزمائش بھی ہے۔ چناچہ پیش نظر آیت کے حصے میں اسی کی طرف اشارہ فرمایا گیا ہے۔ اس وقت مخاطب دو طرح کے لوگ تھے ایک عرب، جو اپنے وطنی اور نسلی تفاخر میں بری طرح مبتلا تھے اور جاہلیت کے تعصبات نے ان کے رویے میں اور بھی سختی پیدا کردی تھی۔ دوسرے بنی اسرائیل تھے، جن کا نسل پرستی کا غرور کسی سے ڈھکا چھپا نہ تھا۔ وہ اپنے سوا کسی کو تسلیم کرنے کے لیے ہی تیار نہ تھے۔ چناچہ ان دونوں کے تعصبات اور فخر و غرور کے دعوئوں کا یہاں پوری طرح امتحان لیا گیا ہے کہ اگر تو یہ لوگ سوچ سمجھ کر اسلام کے دائرے میں آئے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ اللہ کا حکم ہر طرح کی وابستگیوں پر غالب ہے تو ان کے لیے تحویلِ قبلہ محض اللہ کا ایک حکم ہے جسے تسلیم کرنا ان کے لیے کوئی مشکل نہیں۔ لیکن اگر ان کے اندر وابستگیوں کے بت اب تک قائم ہیں تو وہ یقینا اپنے اپنے قبلے پر اصرار کریں گے۔ بیت المقدس بنی اسرائیل کا قبلہ تھا اور بیت اللہ عربوں کا۔ جب بیت المقدس کو قبلہ بنایا گیا تو عرب اسے اپنی قوم پرستی کے بت پر ناقابلِ برداشت ضرب سمجھتے تھے۔ جسے برداشت کرنے کے لیے مضبوط ایمان کی ضرورت تھی اور جب بیت اللہ کو قبلہ بنایا گیا تو یہ بات بنی اسرائیل کے لیے کسی طرح بھی قابل قبول نہ تھی کیونکہ وہ نسل پرستی کے غرور میں مبتلا تھے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ہم نے دو دفعہ اسی لیے کعبہ کو بدلا تاکہ ان دونوں گروہوں کا اچھی طرح امتحان ہوجائے اور دونوں کو ان کی اپنی نگاہوں میں بھی اور لوگوں کے سامنے بھی نمایاں کردیا جائے کہ ان میں سے کون اسرائیلیت اور عربیت کا پرستا رہے اور کون صرف اللہ کا بندہ اور رسول ﷺ کا فرمانبردار ہے۔ یہاں یہ بات ذہن میں رہے کہ مکہ معظمہ میں جب آنحضرت ﷺ کو نماز پڑھنے کا حکم ہوا تو اس میں صحابہ اور تابعین کا اختلاف ہے کہ اس وقت آنحضرت ﷺ کو بیت اللہ کی طرف منہ کرنے کا حکم ہوا تھا یا بیت المقدس کی طرف۔ حضرت عبداللہ ابن عباس کا قول یہ ہے کہ پہلے ہی دن سے قبلہ بیت المقدس تھا، جو ہجرت کے بعد بھی سولہ سترہ مہینے تک باقی رہا۔ اس کے بعدبیت اللہ کو قبلہ بنانے کے احکام نازل ہوئے۔ البتہ رسول اللہ ﷺ کا عمل مکہ مکرمہ میں یہ تھا کہ آپ حجرِ اسود اور رکن یمانی کے درمیان نماز پڑھتے تھے تاکہ بیت اللہ بھی سامنے رہے اور بیت المقدس بھی۔ البتہ مدینہ طیبہ پہنچنے کے بعددونوں قبلوں کی طرف منہ کرنا ممکن نہ رہا اس لیے جب تک بیت اللہ کو قبلہ بنانے کا حکم نہیں آیا آپ نے بیت المقدس ہی کی طرف منہ کرکے نمازیں پڑھیں۔ وَاِنْ کَانَتْ لَـکَبِیْرَۃً اِلَّا عَلَی الَّذِیْنَ ھَدَی اللّٰہُ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ قبلہ تبدیل کرلینا واقعی ایک بہت مشکل کام ہے کیونکہ انسان کی فطرت یہ ہے کہ جن چیزوں کا تعلق اس کے عقیدے اور دین سے ہو اس میں وہ ہمیشہ جذباتی ہوجاتا ہے اور کبھی بھی اپنی پرانی روش بدلنے کے لیے تیار نہیں ہوتا اور یہاں تو قبلہ کا تبدیل کرنا پیش نظر تھا اور یہ کوئی دین کی عام بات نہیں تھی بلکہ ایک امت کے مرکز کے تبدیل ہونے کا سوال تھا اس لیے یہ ایک بہت بڑی آزمائش تھی۔ لیکن یہ مشکل ان لوگوں کے لیے تھی جو ابھی تک اپنی روایات کے اسیر اور اپنے جذبات کے بندے تھے۔ لیکن جن لوگوں کو اللہ نے ہدایت دی اور وہ جانتے تھے کہ اصل چیز قبلہ نہیں بلکہ اللہ کا حکم ہے۔ ان کے لیے اللہ کے حکم کے سامنے جھک جانا کوئی مشکل کام نہیں تھا۔ چناچہ وہ بڑی آسانی اور نہائت آمادگی کے ساتھ اللہ کے حکم کے سامنے جھک گئے۔ لیکن یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ پروردگار خود فرما رہے ہیں کہ قبلہ کی تبدیلی کوئی آسان کام نہیں کیونکہ ہر ایک کو اپنے موروثی قبلے سے غائت درجہ جذباتی تعلق ہوتا ہے، تو پھر پروردگار نے آخر لوگوں کو اس امتحان میں کیوں ڈالا ؟ کیونکہ مشکل امتحان میں ناکامی کا بھی ویسے ہی اندیشہ ہوتا ہے جیسے کامیابی کی امید ہوتی ہے۔ ایک سوال کا جواب آیت کے آخری حصے میں اس کا جواب دیا گیا ہے کہ تمہیں اس سخت آزمائش میں اس لیے نہیں ڈالا گیا کہ تمہارا ایمان ضائع ہوجائے بلکہ اس لیے ڈالا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے ساتھ رئوف بھی ہے اور رحیم بھی ہے۔ اس کی رأفت اور اس کی رحیمی کا یہ تقاضا ہوا کہ وہ اپنے بندوں کو اس امتحان میں ڈالے۔ اس کو مثال سے یوں سمجھنا چاہیے کہ جس باپ کو اپنے بچوں سے حقیقی محبت ہوتی ہے وہ ہر وقت اپنے بچوں کی ترقی اور ان کی بہتری کے لیے سوچتا ہے۔ اور اگر وہ سمجھ دار باپ ہے تو وہ یہ بھی جانتا ہے کہ کوئی ترقی بھی بغیر محنت اور تکلیف اٹھائے نصیب نہیں ہوتی۔ چناچہ وہ بیوقوف باپ کی طرح یہ کبھی نہیں چاہے گا کہ اگر بیٹے کی تعلیمی ترقی کے لیے دوسرے شہر یا دوسرے ملک جانا ضروری ہے تو اسے اس لیے نہ جانے دے کہ پردیس میں رہنا کوئی آسان کام نہیں۔ وہاں مختلف صعوبتوں سے واسطہ پڑسکتا ہے اور اگر یہ معلوم ہو کہ بیٹے کو آگے بڑھنے کے لیے مختلف قسم کے کورسز، ایکسرسائزز اور مشقوں سے گزرنا پڑے گا تو محض بیٹے کی محبت کی وجہ سے کبھی بھی بیٹے کو ان مشقتوں سے بچانا نہیں چاہے گا کیونکہ یہی وہ مشکلات ہیں جن سے گزرنے کے بعد بیٹا کسی حیثیت کے قابل ہوسکتا ہے۔ کوئی شخص اتھلیٹ بننا چاہتا ہے تو روزانہ دوڑنے کے سوا چارہ نہیں۔ چاہے ابتدائی چند دنوں میں اس کے اعصاب احتجاج کرنے لگیں۔ جسے تیراکی سیکھنی ہے، اسے پانی کی موجوں سے لڑنا پڑتا ہے۔ یہاں ایک ایسی امت تیار کی جارہی ہے، جسے دنیا کی امامت سپرد کی جارہی ہے اور جس نے شہادتِ حق کا فرض انجام دینا ہے، یہ کیسے ممکن ہے کہ اسے ایمان اور یقین کی آزمائشوں سے نہ گزارا جائے۔ محض اس خوف سے کہ کہیں وہ ناکام نہ ہوجائے۔ جو قوم ایسے خوفوں میں مبتلا ہوتی ہے، اسے ناکامیوں سے کوئی نہیں بچا سکتا۔ بےمعر کہ دنیا میں ابھرتی نہیں قومیں جو ضرب کلیمی نہیں رکھتا وہ ہنر کیا صحیح بخاری میں بروایت ابن عازب ( رض) اور ترمذی میں بروایت ابن عباس منقول ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ کا قبلہ بیت اللہ کو بنادیا گیا تو لوگوں نے سوال کیا کہ جو مسلمان اس عرصہ میں انتقال کرگئے جبکہ نماز بیت المقدس کی طرف ہوا کرتی تھی اور بیت اللہ کی طرف نماز پڑھنا ان کو نصیب نہیں ہوا ان کا کیا حال ہوگا ؟ اس پر یہ آیت نازل ہوئی جس میں نماز کو ایمان کے لفظ سے تعبیر کرکے واضح کردیا کہ ان کی نمازیں سب صحیح اور مقبول ہوچکی ہیں ان کے معاملے میں تحویلِ قبلہ کا کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ بخاری کی اس روایت کے مطابق یقینا لوگوں نے یہ سوال کیا ہوگا اور اس کا جواب بھی دیا گیا لیکن سیاق کلام کے حوالہ سے جو کچھ ہم نے عرض کیا ہے دونوں میں کوئی تضاد نہیں۔ ایسی آزمائشوں میں ڈالا جانا امت کی مضمر صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کے لیے اللہ کی صفت رأفت کا اظہار ہے اور اسی میں لوگوں کے اعتراض کا جواب بھی ہے۔ اگلی آیت کریمہ میں تحویلِ قبلہ کا حکم اور اس کے ضروری احکام بیان کیے گئے ہیں اور آنحضرت ﷺ کے حوالے سے ایک نہایت دل نواز بات کہی گئی ہے۔
Top