Ruh-ul-Quran - Al-Baqara : 11
وَ اِذَا قِیْلَ لَهُمْ لَا تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ١ۙ قَالُوْۤا اِنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُوْنَ
وَ إِذَا : اور جب قِيلَ : کہاجاتا ہے لَهُمْ : انہیں لَا تُفْسِدُوا : نہ فسا دپھیلاؤ فِي الْأَرْضِ : زمین میں قَالُوْا : وہ کہتے ہیں اِنَّمَا : صرف نَحْنُ : ہم مُصْلِحُوْنَ : اصلاح کرنے والے
اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ زمین میں فساد نہ پید اکروتو ” جواب دیتے ہیں “ کہ ہم تو اصلاح کرنے والے لوگ ہیں۔
وَاِذَا قِیْلَ لَھُمْ لَا تُفْسِدُوْا فِیْ الْاَرْضِلا قَالُوْآ اِنَّمَانَحْنُ مُصْلِحُوْنَ ۔ اَلَآ اِنَّھُمْ ھُمُ الْمُفْسِدُوْنَ وَلٰکِنْ لَّا تَشْعُرُوْنَ ۔ (البقرۃ : 11 تا 12) (اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ زمین میں فساد نہ پید اکروتو ” جواب دیتے ہیں “ کہ ہم تو اصلاح کرنے والے لوگ ہیں۔ آگاہ رہو کہ یہی لوگ فساد برپا کرنے والے ہیں، لیکن یہ محسوس نہیں کررہے ہیں) فسادفی الارض کی حقیقت کسی بھی ادارے کی کامیابی کا دارومدار صرف ایک بات پر ہے کہ اس ادارے میں حکم اس شخصیت کا چلے جو اس ادارے کی مالک اور اس ادارے کی حقیقی سربراہ ہو اور اگر ایسا نہ ہو، تو پھر اس ادارے کو تباہی سے کوئی نہیں بچاسکتا۔ بالکل اسی طرح اس زمین کے صلاح و فساد کا انحصار صرف اس چیز پر ہے کہ اس کے اندر کس کا حکم اور کس کا قانون چلتا ہے، اس کے حقیقی خالق ومالک کا، یا کسی اور کا۔ اگر اس کے خالق ومالک کا حکم چلتا ہے، تو اس سے زمین پر امن و عدل کی بہار آئے گی اور ایک ایسا نظام قائم ہوگا، جس سے خیر و فلاح کی برکتیں ظہور میں آئیں گی اور اگر صورت اس کے برعکس ہو، تو اس کے ہر گوشہ میں فساد رونما ہوگا۔ اگرچہ اس فساد کو تہذیب و تمدن کے کتنے ہی خوشنما ناموں سے موسوم کیا جائے۔ انبیاء (علیہم السلام) چونکہ اس زمین میں اللہ کا قانون جاری کرنا چاہتے ہیں، اس وجہ سے ان کی جدوجہد اس زمین کی اصلاح کی حقیقی جدوجہد ہوتی ہے اور اس کی مخالفت کی راہ میں ہر قدم فساد کا قدم ہے، خواہ وہ بظاہر کتنے ہی نیک ارادہ سے اٹھایا جائے۔ یہود حق و باطل کی آمیزش سے ایک نظام برپا کرنا چاہتے ہیں، تو ظاہر ہے کہ آگ اور پانی کے ملاپ سے کبھی اصلاح کی امید نہیں کی جاسکتی۔ بلکہ اس کی اصلاح کی واحد صورت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جس صراط مستقیم کی طرف رہنمائی فرمائی ہے، اس کی ٹھیک ٹھیک پیروی کی جائے۔
Top