Ruh-ul-Quran - Al-Israa : 95
قُلْ لَّوْ كَانَ فِی الْاَرْضِ مَلٰٓئِكَةٌ یَّمْشُوْنَ مُطْمَئِنِّیْنَ لَنَزَّلْنَا عَلَیْهِمْ مِّنَ السَّمَآءِ مَلَكًا رَّسُوْلًا
قُلْ : کہ دیں لَّوْ كَانَ : اگر ہوتے فِي الْاَرْضِ : زمین میں مَلٰٓئِكَةٌ : فرشتے يَّمْشُوْنَ : چلتے پھرتے مُطْمَئِنِّيْنَ : اطمینان سے رہتے لَنَزَّلْنَا : ہم ضرور اتارتے عَلَيْهِمْ : ان پر مِّنَ السَّمَآءِ : آسمان سے مَلَكًا : فرشتہ رَّسُوْلًا : اتارتے
اے پیغمبر ﷺ کہہ دیجیے ! اگر زمین میں فرشتے اطمینان سے چلتے پھرتے ہوتے تو ہم ضرور آسمان سے کسی فرشتے ہی کو ان کے لیے پیغمبر بنا کے بھیجتے۔
قُلْ لَّوْکَانَ فِی الْاَرْضِ مَلٰٓئِکَۃٌ یَّمْشُوْنَ مُطْمَئِـنِّیْنَ لَنَزَّلْنَا عَلَیْہِمْ مِّنَ السَّمَآئِ مَلَکًا رَّسُوْلاً ۔ (سورۃ بنٓیْ اسرآئِ یل : 95) (اے پیغمبر ﷺ کہہ دیجیے ! اگر زمین میں فرشتے اطمینان سے چلتے پھرتے ہوتے تو ہم ضرور آسمان سے کسی فرشتے ہی کو ان کے لیے پیغمبر بنا کے بھیجتے۔ ) انبیا کے بشر ہونے کی حکمت گزشتہ آیت کریمہ میں اہل مکہ کا آپ ﷺ پر ایمان نہ لانے کا جو سبب بیان کیا گیا ہے اس آیت کریمہ میں اس کا جواب دیا گیا ہے۔ اور جواب اتنا سادہ، اتنا واضح، اتنا مسکت اور اتنا حکیمانہ ہے کہ اس سے بہتر جواب کے بارے میں سوچا بھی نہیں جاسکتا۔ جواب کا حاصل یہ ہے کہ تم یہ بتائو کہ زمین پر بسنے والے کیا انسانوں کے علاوہ کوئی اور مخلوق ہیں، کیا وہ فرشتے ہیں۔ اگر تو ایسا ہے تو پھر تو یقینا اللہ تعالیٰ کو چاہیے تھا کہ ان کی ہدایت کے لیے کسی فرشتے کو بھیجتا لیکن جب زمین پر رہنے والے انسان ہی ہیں تو پھر ان کی ہدایت کے لیے انسان کے علاوہ کسی اور کو کیسے بھیجا جاسکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا رسول دنیا میں صرف زندگی گزارنے کے لیے نہیں آتا بلکہ وہ انسانوں کی اصلاح کے لیے آتا ہے۔ ایک ایک شخص کے دل میں اللہ تعالیٰ کی محبت اور اس کی بندگی کے جذبات پیدا کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی ذات اور اس کی صفات کا صحیح شعور دماغوں میں اتارتا ہے پھر اسے اس کے مقصد زندگی سے آگاہ کرتا ہے۔ پھر انسانوں کو اجتماعی زندگی گزارنے کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے شریعت پہنچاتا ہے اور ان کی عملی زندگی پر اس کا انطباق کرکے دکھاتا ہے۔ زندگی کے تمام شعبوں میں اس طرح رہنمائی مہیا کرتا ہے کہ کہیں بھی انسانوں کو کوئی دشواری پیش نہیں آتی۔ جو لوگ اس کی رہنمائی کو قبول کرتے ہیں ان سے ایک معاشرہ تشکیل کرتا ہے اور اس نئے دین کی مخالفت کرنے والوں کی مخالفت کو برداشت کرنے اور ان سے عہدہ برآء ہونے کی تربیت دیتا ہے۔ حق و باطل کی یہ کشمکش اگر حرب و ضرب کے دور میں داخل ہوجاتی ہے تو اس میں بھی پوری طرح ان کی قیادت کرتا ہے۔ غرضیکہ انفرادی اور اجتماعی زندگی کے جتنے مدارج ہیں ان میں ایک ایک ایک مرحلے پر تربیت کا اس طرح سامان کرتا ہے کہ کہیں بھی رہنمائی کا جھول پیدا نہیں ہوتا اور ایک ایسی مکمل زندگی وجود میں آتی ہے جس سے بہتر زندگی کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ تصور کیجیے کہ اگر بشر کی بجائے کسی فرشتے کو اس کام کے لیے بھیجا جاتا تو وہ اسے کیسے سرانجام دے سکتا تھا اور اس پر ایمان لانے والے اس سے کیا استفادہ کرسکتے تھے۔ نہ وہ نظر آتا کہ اس کی پیروی کرسکیں، نہ اسے بھوک لگتی، نہ اسے کسی تکلیف کا احساس ہوتا، نہ اس کے اندر انسانی احساسات ہوتے، نہ اس کی بیوی ہوتی، نہ بچے ہوتے، نہ اسے کھانے پینے کی ضرورت لاحق ہوتی، نہ اسے انسانی معاملات سے سابقہ پڑتا، تو وہ اسوہ حسنہ جس کی رہنمائی اور پیروی میں امت کا کردار تشکیل پاتا ہے، وہ کہاں سے وجود میں آتا۔ اس لیے عقل اور حکمت کی بات اس کے سوا اور کوئی نہیں ہوسکتی کہ معلم، مربی اور پیغمبر مخلوق کی اسی صنف میں سے ہونا چاہیے جس صنف کی رہنمائی کے لیے اسے بھیجا جارہا ہو۔ نبی کریم ﷺ چونکہ انسانوں کی رہنمائی کے لیے دنیا میں تشریف لائے تو اس لیے آپ ﷺ کو بشرپیدا کیا گیا۔ آپ ﷺ اپنی ذات اور ذاتی ضروریات میں یقینا باقی انسانوں کی طرح ایک انسان اور ایک بشر ہیں اور یہی ہمارا ایمان ہونا چاہیے لیکن اپنے کمالات اور مراتب کے اعتبار سے آپ ﷺ خیرالبشر ہیں جس کا ہمسر نہ کوئی انسان ہوسکتا ہے اور نہ کوئی فرشتہ ہوسکتا ہے۔
Top