Ruh-ul-Quran - Al-Israa : 94
وَ مَا مَنَعَ النَّاسَ اَنْ یُّؤْمِنُوْۤا اِذْ جَآءَهُمُ الْهُدٰۤى اِلَّاۤ اَنْ قَالُوْۤا اَبَعَثَ اللّٰهُ بَشَرًا رَّسُوْلًا
وَمَا : اور نہیں مَنَعَ : روکا النَّاسَ : لوگ (جمع) اَنْ يُّؤْمِنُوْٓا : کہ وہ ایمان لائیں اِذْ : جب جَآءَهُمُ : ان کے پاس آگئی الْهُدٰٓى : ہدایت اِلَّآ : مگر اَنْ : یہ کہ قَالُوْٓا : انہوں نے کہا اَبَعَثَ : کیا بھیجا اللّٰهُ : اللہ بَشَرًا : ایک بشر رَّسُوْلًا : رسول
اور نہیں روکا لوگوں کو، اس بات سے کہ وہ ایمان لائیں جبکہ ان کے پاس ہدایت آگئی، مگر اس چیز نے کہ انھوں نے کہا کیا اللہ تعالیٰ نے ایک بشر ہی کو رسول بنا کر بھیج دیا۔
وَمَا مَنَعَ النَّاسَ اَنْ یُّؤْمِنُوْآ اِذْجَآئَ ھُمُ الْھُدٰٓی اِلاَّ ٓ اَنْ قَالُوْٓا اَبَعَثَ اللّٰہُ بَشَرًا رَّسُولاً ۔ (سورۃ بنٓیْ اسرآئِ یل : 94) (اور نہیں روکا لوگوں کو، اس بات سے کہ وہ ایمان لائیں جبکہ ان کے پاس ہدایت آگئی، مگر اس چیز نے کہ انھوں نے کہا کیا اللہ تعالیٰ نے ایک بشر ہی کو رسول بنا کر بھیج دیا۔ ) نبی کی بشریت ایمان کے راستے کی رکاوٹ رسول اللہ ﷺ کی جب رسول کی حیثیت سے بعثت ہوئی اور آپ ﷺ نے اہل مکہ کے سامنے یہ دعویٰ کیا کہ میں تمہاری طرف خصوصی طور پر اور ساری دنیا کی طرف عمومی طور پر اللہ تعالیٰ کا رسول بن کے آیا ہوں۔ اور آپ ﷺ نے اہل مکہ کو اپنی نبوت پر ایمان لانے کی دعوت دی۔ اور آپ ﷺ نے دلیل کے طور پر سب سے بڑی بات جو ان سے فرمائی وہ یہ تھی کہ نبوت کوئی دیکھی جانے والی چیز نہیں اور نہ جسم سے ظاہر ہونے والی کوئی ایسی چیز ہے جسے لوگ اپنی آنکھوں سے دیکھ سکیں۔ اس کا تعلق نبوت کا دعویٰ کرنے والے کے کردار سے ہے۔ اگر اس کا کردار ایک پیغمبر کا کردار ہے اور اس نے زندگی بھر کبھی جھوٹ نہیں بولا اور اپنی 40 سالہ زندگی جو نہ صرف کہ لوگوں کے اندر گزاری بلکہ ان کیآنکھوں کے سامنے اس طرحگزاری کہ بچپن اپنی قوم کی گود میں گزرا، لڑکپین حرم میں کھیلتے کودتے گزرا، اس کے بعد آپ ﷺ نے بکریاں چرائیں۔ ذرا بڑے ہوئے تو آپ ﷺ نے اپنے چچا کے ساتھ بیرون ملک کا سفر کیا، جوانی آئی تو آپ ﷺ تجارت کی طرف متوجہ ہوئے اور دوسرے تاجروں کے ساتھ مل کر تجارت فرمائی۔ حضرت خدیجہ طاہرہ ( رض) نے آپ ﷺ کی دیانت و امانت اور معاملہ فہمی کی شہرت سن کر اپنا مال آپ ﷺ کے حوالے کردیا اور اپنے کاروبار کا آپ ﷺ کو مختار بنادیا۔ پھر آپ ﷺ نے شادی فرمائی، آپ کے بچے ہوئے۔ شہر میں دوسرے لوگوں میں آپ ﷺ گھل مل کے رہے۔ حرم کی نشستوں میں آپ ﷺ کا اٹھنا بیٹھنا رہا۔ بعض جنگوں میں آپ ﷺ نے اپنی قوم کا ساتھ دیا۔ بےبس اور بےکس لوگوں کی مدد کے لیے مکہ کے اہل خیر نے ایک معاہدہ کیا جسے حلف الفضول کہا جاتا ہے، آپ ﷺ اس میں پیش پیش رہے۔ کہنا یہ ہے کہ آپ ﷺ نے اپنی قوم اور اپنے شہر والوں کے ساتھ ایک بھرپور زندگی گزاری۔ آپ ﷺ کی قوم آپ ﷺ کے شب و روز کے معمولات سے مکمل طور پر آگاہ تھی۔ آپ ﷺ کی زندگی ان کے لیے ایک کھلی کتاب تھی، جس کا ہر ورق ان کے سامنے تھا۔ جب آپ ﷺ کو نبوت دی گئی تو آپ ﷺ نے اپنی ذات اور اپنے کردار کو دلیل کے طور پر قوم کے سامنے پیش کیا اور کوہ صفا پر چڑھ کے پوچھا کہ لوگو ! تم پوری طرح میری زندگی سے واقف ہو، کیا تمہیں کبھی چالیس سالوں میں کسی ایک موقع پر بھی مجھ سے جھوٹ بولنے کا تجربہ ہوا ہے، میں نے کبھی کسی خیانت کا ارتکاب کیا، میں نے کبھی کسی کی دلآزاری کی، غور کیجیے جس شخص نے چالیس سال میں کبھی جھوٹ نہ بولا ہو اور زندگی کے شب و روز باد نسیم کی طرح بےعیب گزارے ہوں اور پھر وہ اپنی قوم سے صاف صاف پوچھتا ہو کہ بتائو تم میرے بارے میں کیا رائے رکھتے ہو۔ جب قوم نے اعتراف کیا کہ ہم نے کبھی آپ ﷺ کو جھوٹ بولتے نہیں سنا تو تب آپو نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے تمہاری طرف رسول بنا کے بھیجا ہے اور پھر آپ ﷺ نے ان کے سامنے اسلام کا پیغام پیش کیا۔ قوم نے جب دیکھا کہ اس عظیم ذات میں کوئی ایسی بات نہیں جسے ہم بطور اعتراض پیش کرسکیں، کوئی ایسی کمزوری نہیں جو تلاش کے باوجود بھی لوگوں کے سامنے پیش کی جاسکے۔ البتہ ایک بات ہے کہ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ نبوت و رسالت بہت بلند، بہت اعلیٰ وارفع اور بہت نازک مقام ہے۔ اس مقام پر کسی بشر کا فائز ہونا، ایک ناقابلِ فہم بات ہے۔ کہاں زمین پر بسنے والا ایک معمولی انسان، اور کہاں نبوت و رسالت کا مقام، ان دونوں میں یکجائی نہیں ہوسکتی۔ نبی بشر نہیں ہوسکتا اور بشر کو نبوت نہیں مل سکتی۔ محمد ﷺ اپنی ساری خوبیوں کے باوجود نہ صرف ایک بشر ہے بلکہ ایک غریب آدمی بھی ہے۔ اس آیت کریمہ میں پروردگار یہ فرما رہا ہے کہ جب ان کے سامنے ہدایت کھل کر آگئی، قرآن کریم کی فصاحت و بلاغت نے انھیں گنگ کر کے رکھ دیا۔ آنحضرت ﷺ کی نہایت دلآویز شخصیت میں ہزار کوشش کے باوجود جب کوئی کمزوری تلاش نہ کرسکے تو آخری بات انھوں نے یہ کہی کہ ہم ایک بشر کو رسول ماننے سے معذور ہیں۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ایک بشر کو رسول بنا کے بھیج دے انسان بھی عجیب واقع ہوا ہے۔ کبھی کبر کا شکار ہو کر نہ جانے اپنے آپ کو کیا سمجھنے لگتا ہے اور خدا کے سامنے جھکنے سے بھی انکار کردیتا ہے۔ اور کبھی اس حد تک اپنی آپ کو گرا لیتا ہے کہ پتھر کے گھڑے ہوئے بتوں کے سامنے سجدہ ریز ہوجاتا ہے اور عزت نفس سے محروم ہو کر بشریت کو ذلت کی علامت سمجھنے لگتا ہے۔ ذوق نے اسی کا ماتم کرتے ہوئے کہا تھا ؎ بشر جو اس تیرہ خاکداں میں پڑا یہ اس کی اپنی فروتنی ہے وگرنہ قندیلِ عرش میں بھی اسی کے جلوے کی روشنی ہے
Top