Ruh-ul-Quran - Al-Israa : 90
وَ قَالُوْا لَنْ نُّؤْمِنَ لَكَ حَتّٰى تَفْجُرَ لَنَا مِنَ الْاَرْضِ یَنْۢبُوْعًاۙ
وَقَالُوْا : اور وہ بولے لَنْ نُّؤْمِنَ : ہم ہرگز ایمان نہیں لائیں گے لَكَ : تجھ پر حَتّٰى : یہانتک کہ تَفْجُرَ : تو رواں کردے لَنَا : ہمارے لیے مِنَ الْاَرْضِ : زمین سے يَنْۢبُوْعًا : کوئی چشمہ
اور انھوں نے کہا ہم تو تمہاری بات ہرگز نہیں مانیں گے جب تک تم ہمارے لیے زمین کو پھاڑ کر کوئی چشمہ نہ جاری کردو۔
وَقَالُوْا لَنْ نُّؤْمِنَ لَکَ حَتّٰی تَفْجُرَلَنَا مِنَ الْاَرْضِ یَنْبُوْعًا۔ اَوْتَکُوْنَ لَکَ جَنَّـۃٌ مِّنْ نَّخِیْلٍ وَّعِنَبٍ فَـتُـفَجِّرَ الْاَنْھٰرَخِلٰـلَھَا تَفْجِیْرًا۔ اَوْتُسْقِطَ السَّمَآئَ کَمَا زَعَمْتَ عَلَیْنَا کِسَفًا اَوْتَا تِیَ بِاللّٰہِ وَالْمَلٰٓئِکَۃِ قَبِیْلاً ۔ اَوْیَکُوْنَ لَکَ بَیْتٌ مِّنْ زُخْرُفٍ اَوْتَرْقٰی فِی السَّمَآئِ ط وَلَنْ نُّوْمِنَ لِرُقِـیِّکَ حَتّٰی تُنَزِّلَ عَلَیْنَا کِـتٰبـًا نَّـقْرَؤْہٗ ط قُلْ سُبْحَانَ رَبِّیْ ھَلْ کُـنْتُ اِلاَّبَشَرًا رَّسُوْلاً ۔ (سورۃ بنٓیْ اسرآئِ یل : 90۔ 91۔ 92۔ 93) (اور انھوں نے کہا ہم تو تمہاری بات ہرگز نہیں مانیں گے جب تک تم ہمارے لیے زمین کو پھاڑ کر کوئی چشمہ نہ جاری کردو۔ اور یا تمہارے پاس کھجوروں اور انگوروں کا ایک باغ نہ ہوجائے، پھر تم اس کے بیچ بیچ میں نہریں نہ دوڑا دو ۔ یا تم ہم پر آسمان سے ٹکڑے نہ گرا دو جیسا کہ تم دعویٰ کرتے ہو یا اللہ اور فرشتوں کو سامنے نہ لاکھڑا کردو۔ یا تمہارے لیے سونے کا ایک گھر نہ بن جائے یا تم آسمان پر نہ چڑھ جاؤ اور ہم تمہارے چڑھنے کا بھی یقین نہ کریں گے جب تک تم وہاں سے ہم پر کوئی کتاب نہ اتارو جسے ہم پڑھیں، اے پیغمبر ﷺ ان سے کہہ دیجیے پاک ہے میرا پروردگار، میں تو بس ایک بشر ہوں، اللہ کا رسول ﷺ ۔ ) ایمان کے لیے قریش کی شرائط ان آیات میں قریش اور دیگر مشرکین کے مطالبات بلکہ شرائط ذکر کی گئی ہیں جن کے ساتھ انھوں نے اپنے ایمان کو مشروط کر رکھا تھا کہ پہلے آپ ﷺ یہ کارنامے ہمیں بروئے کار لا کردکھائیں تب ہم مانیں گے کہ آپ ﷺ واقعی اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں اور ہم آپ ﷺ پر ایمان لے آئیں گے۔ اور اگر آپ ﷺ ایسا نہیں کرتے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ ﷺ اللہ تعالیٰ کے رسول نہیں۔ اب ذرا ان کے مطالبات غور سے دیکھئے۔ 1 کہ آپ ﷺ ہماری آنکھوں کے سامنے زمین کو پھاڑ کر ایک چشمہ نکال کردکھائیں۔ 2 یا یہ کہ دیکھتے ہی دیکھتے آپ ﷺ کھجوروں اور انگوروں کے ایک باغ کے مالک ہوجائیں اور اس کے بیچ بیچ میں بہت سی نہریں نکال کردکھائیں۔ 3 یا یہ کہ آسمان سے آپ ﷺ ہم پر کچھ ٹکڑے گرا دیں جیسا کہ آپ ﷺ کہتے رہتے ہیں کہ اگر تم ایمان نہیں لائو گے تو تم پر آسمان سے عذاب آسکتا ہے اور یا یہ کہ اللہ تعالیٰ اور فرشتوں کو ہمارے سامنے لا کھڑا کریں، ہم اپنی آنکھوں سے انھیں دیکھیں۔ 4 یا یہ کہ آپ ﷺ کے پاس ایک سونے کا مکان ہو یا آپ ﷺ ہماری آنکھوں کے سامنے آسمان پر چڑھ جائیں، لیکن ہم اسے اس وقت تک نہیں مانیں گے جب تک آپ ﷺ ہماری آنکھوں کے سامنے آسمان پر نہ چڑھیں اور پھر وہاں سے کوئی کتاب لے کر نہ آئیں جسے ہم خود پڑھ کر دیکھیں۔ ان مطالبات کو غور سے دیکھئے ان میں کہیں بھی سنجیدگی نظر آتی ہے۔ جن قوموں کو زندگی کے حقائق سے پیار ہوتا ہے اور وہ اپنی عاقبت کو سنوارنا چاہتی ہیں، کیا وہ اسی طرح کی باتیں کیا کرتی ہیں۔ لیکن قرآن کریم نے ان کے مطالبات کا جواب ایسے فصیح وبلیغ جملے میں ارشاد فرمایا ہے جس کی نظیر لانا انسان کے بس کی بات نہیں۔ بالکل ایک دوسرے پہلو سے ان پر ان کی غلطی واضح کی گئی ہے بشرطیکہ وہ اسے سمجھنا چاہیں۔ وہ پہلو یہ ہے کہ زمین سے چشمے نکالنا، کھجوروں اور انگوروں کے باغات پتھریلی زمین میں پیدا کردینا اور بہت ساری نہروں کا رواں دواں کردینا یا آسمان سے ٹکڑوں کا برسانا اور کسی کا آسمان پر چڑھنا اترنا اور اچانک سونے کا محل وجود میں آجانا، ان میں کون سا کام ہے جسے کرنے کا میں نے کبھی دعویٰ کیا ہو۔ یا ان میں سے کسی چیز کا میری دعوت سے تعلق ہو اور پھر جو میں پیغام تمہارے لیے لایا ہوں جس میں تمہاری دنیا اور آخرت کی بھلائی ہے ان میں سے کون سی بات ہے جو ان سے وابستہ ہے۔ میں نے ہمیشہ تمہیں اللہ تعالیٰ کی طرف بلایا، اس کی وحدانیت کی تعلیم دی، اس کی قدرت کاملہ کا بار بار تمہارے سامنے تذکرہ کیا، اسی سے ڈرنے اور اسی سے امیدیں باندھنے کی ترغیب دی، اسی کی بندگی میں شب و روز گزارنے کی تلقین کی اور میں نے اپنے آپ کو ہمیشہ ایک بشر اور بندے کی حیثیت سے تمہارے سامنے پیش کیا۔ یہ جن مطالبات کو تم لے بیٹھے ہو، کیا ان کا پورا کرنا کسی بشر کا کام ہوسکتا ہے۔ یہ تو اللہ تعالیٰ کی قدرت کے کام ہیں۔ وہی خالق کائنات ہے اور وہی جب چاہے بستیوں کو ویران کرسکتا ہے اور ویرانوں کو باغات میں تبدیل کرسکتا ہے۔ وہ چاہے تو سمندروں سے آگ اٹھنے لگے اور چاہے تو صحرائوں میں حباب تیرنے لگیں۔ میرا دعویٰ تو صرف یہ ہے کہ میں تمہارے طرح ایک انسان ہوں لیکن اللہ تعالیٰ نے مجھے تمہاری ہدایت کے لیے رسول بنا کے بھیجا۔ مجھ پر ایک کتاب اتاری ہے، تم میری تعلیمات کو غور سے دیکھو، میری زندگی کے معمولات کو دیکھو، قرآن کریم کے دیے ہوئے نظام زندگی کو پڑھو، کوئی بات کہنی ہے تو ان سے متعلق کہو، کیونکہ یہ وہ باتیں ہیں جن کا تعلق میری رسالت سے ہے۔ رہی وہ باتیں جن کا مطالبہ تم مجھ سے کررہے ہو، ان کا نہ میں نے دعویٰ کیا ہے اور نہ میرا ان سے کوئی تعلق ہے۔
Top