Ruh-ul-Quran - Al-Israa : 89
وَ لَقَدْ صَرَّفْنَا لِلنَّاسِ فِیْ هٰذَا الْقُرْاٰنِ مِنْ كُلِّ مَثَلٍ١٘ فَاَبٰۤى اَكْثَرُ النَّاسِ اِلَّا كُفُوْرًا
وَلَقَدْ صَرَّفْنَا : ور ہم نے طرح طرح سے بیان کیا لِلنَّاسِ : لوگوں کے لیے فِيْ : میں هٰذَا الْقُرْاٰنِ : اس قرآن مِنْ : سے كُلِّ مَثَلٍ : ہر مثال فَاَبٰٓى : پس قبول نہ کیا اَكْثَرُ النَّاسِ : اکثر لوگ اِلَّا : سوائے كُفُوْرًا : ناشکری
ہم نے اس قرآن میں لوگوں کو طرح طرح سے سمجھایا، لیکن اکثر لوگ انکار پر ہی اڑے ہوئے ہیں۔
وَلَقَدْ صَرَّفْنَا لِلنَّاسِ فِیْ ھٰذَا الْقُرْاٰنِ مِنْ کُلِّ مَثَلٍ ز فَاَبٰٓی اَکْثَرُالنَّاسِ اِلاَّ کُـفُوْرًا۔ (سورۃ بنٓیْ اسرآئِ یل : 89) (ہم نے اس قرآن میں لوگوں کو طرح طرح سے سمجھایا، لیکن اکثر لوگ انکار پر ہی اڑے ہوئے ہیں۔ ) اللہ تعالیٰ کی بےپایاں رحمت اور انسانی رویہ تصریف : کا معنی تو ” پھیرنا “ ہوتا ہے، لیکن جب اسے کلام میں اس طرح استعمال کیا جاتا ہے جیسے یہاں استعمال ہوا ہے تو پھر اس کا معنی ایک حقیقت کو مختلف اسلوبوں اور گوناگوں پیرایوں سے بیان کرنا ہوتا ہے۔ اور مِنْ کُلِّ مَثَلٍ سے اسی کی تاکید ہوتی ہے۔ لیکن بعض اہل علم کا خیال ہے کہ ضرب مثل سے مراد حکمت و معرفت کی بات کہنا ہے۔ اس لحاظ سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اس آیت میں فرما رہے ہیں کہ ہم نے قریش مکہ اور دوسرے لوگوں کو مختلف اسلوبوں اور گوناگوں پہلوئوں سے اور ہر طرح کی مثال سے کام لے کر سمجھانے کی کوشش کی ہے۔ اور قرآن کریم میں ہم نے حکمت و معرفت کے موتی بکھیرے ہیں۔ عقیدے کی ایک ایک بات کو مختلف طریقوں سے پانی کردیا ہے۔ انسانی فطرت کو مختلف مثالوں سے اجاگر کرنے کی کوشش کی۔ انسانی اعمال کے انجام کو قوموں کی تاریخ میں تول تول کر دکھایا ہے لیکن حیرت کی بات ہے کہ قریش کے رویئے میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ چند سعید لوگوں کے علاوہ ان کا کفر بڑھتا ہی چلا گیا اور اب ان کا حال یہ ہے کہ ایسے ایسے مطالبات نبی کریم ﷺ سے کیے جارہے ہیں جو تاریخ میں وہ امتیں کرتی رہی ہیں جو مٹ جانے کے راستے پر چل رہی تھیں اور بالآخر مٹ گئیں۔
Top