Ruh-ul-Quran - Al-Israa : 78
اَقِمِ الصَّلٰوةَ لِدُلُوْكِ الشَّمْسِ اِلٰى غَسَقِ الَّیْلِ وَ قُرْاٰنَ الْفَجْرِ١ؕ اِنَّ قُرْاٰنَ الْفَجْرِ كَانَ مَشْهُوْدًا
اَقِمِ : قائم کریں آپ الصَّلٰوةَ : نماز لِدُلُوْكِ : ڈھلنے سے الشَّمْسِ : سورج اِلٰى : تک غَسَقِ : اندھیرا الَّيْلِ : رات وَ : اور قُرْاٰنَ : قرآن الْفَجْرِ : فجر (صبح) اِنَّ : بیشک قُرْاٰنَ الْفَجْرِ : صبح کا قرآن كَانَ : ہے مَشْهُوْدًا : حاضر کیا گیا
(نماز کا اہتمام کیجیے زوال آفتاب کے اوقات سے لے کر رات کے تاریک ہونے تک (نیز ادا کیجیے) فجر کی نماز، بیشک فجر کی نماز کا مشاہدہ کیا جاتا ہے۔
اَقِمِ الصَّلٰوۃَ لِدُلُوْکِ الشَّمْسِ اِلٰی غَسَقِ الَّیْلِ وَقُرْاٰنَ الْفَجْرِ ط اِنَّ قُرْاٰنَ الْفَجْرِ کَانَ مَشْھُوْدًا۔ (سورۃ بنٓیْ اسرآئِ یل : 78) (نماز کا اہتمام کیجیے زوال آفتاب کے اوقات سے لے کر رات کے تاریک ہونے تک (نیز ادا کیجیے) فجر کی نماز، بیشک فجر کی نماز کا مشاہدہ کیا جاتا ہے۔ ) نماز کا حکم دینے کی وجہ گزشتہ رکوع کی آخری آیات میں ہم پڑھ چکے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نہایت ناگفتہ بہ حالات سے گزر رہے تھے۔ مسلمانوں کی اکثریت حبشہ کی طرف ہجرت کرچکی تھی۔ کچھ لوگ مدینہ منورہ میں سکونت پذیر ہوچکے تھے۔ آنحضرت ﷺ کے ساتھ مسلمانوں کی نہایت مختصر تعداد مکہ معظمہ میں باقی تھی۔ اور دوسری طرف حال یہ تھا کہ قریش مکہ شب و روز منصوبے بنا رہے تھے اور کوئی نہ کوئی آخری اقدام کرنے کی فکر میں تھے۔ آنحضرت ﷺ کی زندگی سخت خطرے میں تھی۔ مکہ والوں کا رویہ دیکھ کر آپ ﷺ نے طائف کا رخ کیا کہ شاید وہاں اللہ تعالیٰ کے دین کے لیے کچھ انصار میسر آجائیں، لیکن وہاں جو صورتحال پیش آئی، تاریخ کا ہر طالب علم آج تک اس سے تکلیف محسوس کررہا ہے۔ حضور ﷺ مکہ معظمہ تشریف لائے تو حالات پہلے سے بھی زیادہ دگرگوں تھے۔ پروردگار نے گزشتہ آیات میں آپ ﷺ کو تسلی بھی دی اور قریش مکہ کو وارننگ بھی۔ اس آیت کریمہ میں ایسے نا گفتہ بہ حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے آپ ﷺ کو نماز کے اہتمام کا حکم دیا جارہا ہے کیونکہ اس سے پہلے بھی ہمیں اسی کتاب مقدس میں بتایا گیا ہے کہ مشکل سے مشکل حالات میں ایک مومن کے لیے ضروری ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ ہی سے مدد طلب کرے، کیونکہ بگڑے ہوئے انسانوں کی اکثریت سے محفوظ رکھنے والا اس کے سوا اور کوئی نہیں۔ اور اس سے مدد مانگنے کا سب سے اہم ذریعہ یہ ہے کہ رات کی تنہائیوں میں اللہ تعالیٰ کے سامنے اپنی بےبسی کا اظہار کیا جائے اور کافروں کے ناپاک ارادوں کو ناکام کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ سے مدد طلب کی جائے۔ چناچہ مدد طلب کرنے اور استعانت کا سب سے مجرب نسخہ جو قرآن کریم بار بار ذکر کرتا ہے اور یہاں بھی اسی کا حکم دیا گیا ہے، وہ نماز ہے۔ کیونکہ نماز ایک ایسی عبادت ہے جس میں کمزور سے کمزور انسان اللہ تعالیٰ کی کبریائی سے اپنا تعلق جوڑ لیتا ہے۔ وہ اپنی ذات میں قطرہ ہو کر سمندر کا حصہ بن جاتا ہے۔ نماز کا قیام اس کے اندر اولولعزمی پیدا کرتا ہے۔ نماز کا رکوع صرف ایک ذات کے سامنے جھکنا سکھاتا ہے اور قومہ ساری دنیا کے سامنے تن جانے کی تعلیم دیتا ہے۔ اور سجود اور قعود عبودیت کا سارا اثاثہ اللہ تعالیٰ کے حضور ڈھیر کرکے قربانی و ایثار کا پیکر بن جانا سکھاتا ہے۔ اس طرح سے دل و دماغ میں ایک آسودگی اور دنیا کی قوتوں کی طرف سے بےنیازی اور اللہ تعالیٰ پر بےپناہ اعتماد اور توکل کی کیفیت پیدا ہوتی ہے کہ پھر ہر طرح کی مخالفتیں اس کے سامنے پتلیوں کا تماشا معلوم ہوتی ہیں۔ نمازوں کی فرضیت مشہور روایات کے مطابق یہ سورت معراج شریف کے بعد نازل ہوئی ہے اور روایات میں ہم یہ بات پڑھ چکے ہیں کہ معراج ہی کے سفر میں پانچ نمازیں مسلمانوں پر فرض کی گئیں۔ پہلے پچاس نمازوں کا حکم دیا گیا، پھر آنحضرت ﷺ کی بار بار کی گزارش پر پچاس کی بجائے پانچ رہ گئیں لیکن ساتھ ہی فرمایا مَایُبَدَّلُ الْقَوْلُ لَدَیَّ میرے یہاں حکم تبدیل نہیں کیا جاتا، پچاس نمازیں پچاس ہی رہیں گی، البتہ ہم نے یہ قانون بنا لیا ہے کہ اس امت کے لوگوں کی ہر نیکی دس گناہ اجر پائے گی۔ اس اصول کے مطابق ایک نماز دس نمازوں کے برابر ہوگی۔ مسلمان پانچ نمازیں پڑھیں گے لیکن ہمارے یہاں اسے پچاس لکھا جائے گا۔ چناچہ اس آیت کریمہ میں معلوم ہوتا ہے کہ انھیں پانچ نمازوں کے اوقات کی طرف اشارہ فرمایا گیا۔ اگر ہمارے سامنے نمازوں کے اوقات اور دوسرے احکام سے متعلق تفصیلات نہ ہوتیں تو ممکن ہے ہمارے لیے ان اشاروں سے نماز کے اوقات کا تعین مشکل ہوتا، لیکن اب جبکہ ہم پانچ نمازوں کی تفصیلات سے واقف ہیں تو ہم ان اشاروں کو سمجھ سکتے ہیں۔ چناچہ علما نے اس کی تصریح کرتے ہوئے فرمایا کہ اس آیت میں دلوک شمس کے وقت نماز قائم کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اس لحاظ سے جب ہم الفاظ پر غور کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ” لام “ یہاں ’ ’ علیٰ “ کے معنی میں ہے جس کا معنی ہے ” پَر “۔ اور ” دلوک “ زوال کو بھی کہتے ہیں اور غروب کو بھی۔ لیکن یہاں زوال کے معنی میں ہے۔ اس لحاظ سے آیت کا معنی ہوگا نماز قائم کیجیے، زوالِ شمس پر یعنی زوال شمس کے اوقات میں۔ چناچہ جب ہم زوال شمس کو دیکھتے ہیں تو ہمیں اس کے زوال کے تین مدارج معلوم ہوتے ہیں۔ چناچہ جب اس کا زوال شروع ہوتا ہے اس وقت تو وہ بالکل سروں پر ہوتا ہے۔ اس طرح سے پہلے زوال کو ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ وہ وقت ہے جب سورج سمت راس سے مغرب کی طرف اترتا ہے۔ پھر وہ آہستہ آہستہ نگاہوں کے محاذات پر آجاتا ہے یعنی آنکھوں کی بالکل سیدھ میں۔ چناچہ دوسرا زوال اس کا یہاں سے شروع ہوتا ہے، یہاں سے ڈھلتے ڈھلتے جب وہ افق کے کنارے پر پہنچتا ہے تو تیسرا زوال اس کا غروب کی شکل اختیار کرجاتا ہے۔ چناچہ ان اوقات میں نماز قائم کرنے کا حکم دیا گیا ہے، تو مراد اس سے ظہر، عصر اور مغرب تین نمازیں ہیں۔ پہلے زوال سے ظہر کا وقت شروع ہوتا ہے، دوسرے سے عصر کا اور تیسرے کے بعد مغرب کا وقت ہوجاتا ہے۔ ” غسق “ عربی زبان میں اندھیرے کے گہرا ہوجانے کو کہتے ہیں۔ غروبِ آفتاب کے بعد افق پر سرخی چھا جاتی ہے، پھر آہستہ آہستہ یہ سرخی سفیدی میں تبدیل ہوجاتی ہے، پھر سفیدی کی جگہ تاریکی لے لیتی ہے اور تاریکی جب گہری ہوجاتی ہے تو ہر طرف اندھیرا چھا جاتا ہے۔ یہ وہ وقت ہے جسے ہم عشاء کا وقت کہتے ہیں۔ اس طرح سے اس آیت کے پہلے حصے میں چار نمازوں کا ذکر فرمایا گیا ہے۔ وقرآن الفجر : قرآن کے لفظ کو اگر قرأ سے مصدر سمجھا جائے تو پھر اس کا معنی ہوگا، صبح کی نماز میں قرآن کریم کی تلاوت۔ اس سے شاید صبح کی نماز میں قرآن کی تلاوت کا خاص اہتمام کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور آنحضرت ﷺ کی سنت سے بھی یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ ﷺ فجر کی نماز میں خصوصی طور پر طویل سورتیں تلاوت فرمایا کرتے تھے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ قرآن سے نماز مراد لی جائے، کیونکہ قرآن کریم کا اسلوب یہ ہے کہ وہ کبھی نماز کے لیے صلوٰۃ کا لفظ استعمال کرتا ہے اور کبھی اس کے کسی اہم رکن کا ذکر کرکے نماز مراد لیتا ہے۔ کبھی قیام سے، کبھی رکوع سے، کبھی قرآن کریم کی تلاوت سے اور کبھی سجدے سے نماز مراد لی گئی ہے۔ اس طرح سے صبح کی نماز کی خاص اہمیت کا اظہار ہوتا ہے اور وجہ اس کی یہ ہے کہ اِنَّ قُرْاٰنَ الْفَجْرِ کَانَ مَشْھُوْدًا بیشک فجر کی نماز یا فجر کی تلاوت بڑی حضوری کی چیز ہے، یہ وہ وقت ہے جب دل و دماغ اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لیے یکسو ہوتے ہیں۔ اور دوسرا ترجمہ یہ ہے کہ فجر کی نماز کی گواہی دی گئی ہے یا اس کا مشاہدہ کیا جاتا ہے۔ مفہوم دونوں کا یہ ہے کہ جیسا احادیثِ مبارکہ میں وارد ہوا ہے کہ فجر کی نماز میں رات اور دن کے فرشتے حاضر ہوتے ہیں۔ رات کی ڈیوٹی ختم ہوتی ہے اور دن کی ڈیوٹی شروع ہورہی ہوتی ہے۔ نماز میں دونوں کو جمع ہونے کا موقع ملتا ہے۔ اس لحاظ سے وہ نہایت خوشی اور مسرت سے مسلمانوں کے اجتماع کا مشاہدہ بھی کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے یہاں ان کی ذکر اللہ میں مشغولیت کی گواہی بھی دیتے ہیں۔ اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے اس امت پر جو پانچ وقت کی نمازیں فرض فرمائی ہیں اس آیت کریمہ میں ان کے اوقات کی طرف اشارے فرمائے گئے۔ ظاہر ہے کہ اشاروں کی یہ زبان امت کی ضرورت کے لیے کافی نہ ہوسکتی تھی اس لیے پروردگار نے حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کو آنحضرت ﷺ کے پاس بھیجا اور انھوں نے احادیث کی گواہی کے مطابق دو دن مسلسل بیت اللہ کے سامنے آنحضرت ﷺ کو تمام نمازیں پڑھائیں۔ پہلے دن تمام نمازیں اول وقت میں پڑھی گئیں اور دوسرے روز آخر وقت میں۔ اور پھر پلٹ کر حضرت جبرائیل (علیہ السلام) نے آنحضرت ﷺ سے کہا کہ یہ ہیں تمام انبیائے کرام کے نمازوں کے اوقات۔ آپ ﷺ ان اوقات کے درمیان کے اوقات میں نمازیں پڑھیں۔ امت کے لیے یہی مسنون اوقات ہیں اور اس کی مزید تفصیلات آنحضرت ﷺ کے ارشادات میں دیکھی جاسکتی ہیں۔ اوقاتِ صلوٰۃ کے تعین میں حکمت ان اوقات میں سب سے زیادہ دو باتیں توجہ طلب ہیں۔ پہلی بات یہ کہ سورج کے معمولات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ سورج شب و روز کے تمام اوقات میں قیام، رکوع اور سجود میں رہتا ہے۔ اسی طرح وہ تمام چیزیں جن پر سورج کا عکس پڑتا ہے وہ بھی اس کے ساتھ ساتھ اپنے رب کے آگے برابر قیام، رکوع اور سجود میں رہتی ہیں۔ چناچہ قرآن کریم کی بعض آیات میں بتایا گیا ہے کہ کوئی چیز ایسی نہیں جو اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا نہ کرتی ہو۔ اور مزید یہ بھی بتایا گیا ہے کہ جو کچھ آسمان و زمین میں ہے وہ اللہ تعالیٰ کو سجدہ کرتا ہے۔ حتیٰ کہ ہر وجود کا سایہ بھی صبح و شام اللہ تعالیٰ کے سامنے سجدہ ریز ہوتا ہے۔ اس طرح سے انسان کو توجہ دلائی گئی ہے کہ تم بڑی بڑی قوتوں کے سامنے جھکتے ہو حالانکہ کائنات کی تمام چھوٹی بڑی چیزیں اللہ تعالیٰ کے سامنے جھکتی اور سجدہ ریز ہوتی ہیں۔ نمازوں کے اوقات کو دیکھ کر یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ نمازوں کے یہ اوقات مقرر کرنے میں ایک مصلحت شاید یہ بھی ہے کہ آفتاب پرستوں کے اوقاتِ عبادت سے اجتناب کیا جائے۔ آفتاب ہر زمانے میں مشرکین کا سب سے بڑا یا بہت بڑا معبود رہا ہے اور اس کے طلوع و غروب کے اوقات خاص طور پر ان کے اوقاتِ عبادت رہے ہیں۔ اس لیے ان اوقات میں تو نماز پڑھنا حرام کردیا گیا۔ اس کے علاوہ آفتاب کی پرستش زیادہ تر اس کے عروج کے اوقات میں کی جاتی رہی ہے۔ لہٰذا اسلام میں حکم دیا گیا کہ تم دن کی نمازیں زوال آفتاب کے بعد پڑھنی شروع کرو اور صبح کی نماز طلوع آفتاب سے پہلے پڑھ لیا کرو۔ اس طرح سے نماز کے ساتھ ساتھ اس کے اوقات بھی توحید کی نہ صرف تعلیم دیتے ہیں بلکہ اس کا علی الاعلان اظہار بھی ہیں۔
Top