Ruh-ul-Quran - Al-Israa : 74
وَ لَوْ لَاۤ اَنْ ثَبَّتْنٰكَ لَقَدْ كِدْتَّ تَرْكَنُ اِلَیْهِمْ شَیْئًا قَلِیْلًاۗۙ
وَلَوْلَآ : اور اگر نہ اَنْ : یہ کہ ثَبَّتْنٰكَ : ہم تمہیں ثابت قدم رکھتے لَقَدْ كِدْتَّ تَرْكَنُ : البتہ تم جھکنے لگتے اِلَيْهِمْ : ان کی طرف شَيْئًا : کچھ قَلِيْلًا : تھوڑا
اگر ہم نے آپ ﷺ کو جمائے نہ رکھا ہوتا تو قریب تھا کہ آپ ﷺ ان کی طرف کچھ نہ کچھ مائل ہوجاتے۔
وَلَوْلَآ اَنْ ثَـبَّـتْـنٰـکَ لَقَدْ کِدْتَّ تَرْکَنُ اِلَیْھِمْ شَیْئًا قَلِیْلاً ۔ اِذًا لَّاَ ذَقْـنٰـکَ ضِعْفَ الْحَیٰوۃِ وَضِعْفَ الْمَمَاتِ ثُمَّ لاَ تَجِدُلَکَ عَلَیْنَا نَصِیْرًا۔ وَاِنْ کَادُوْا لَیَسْتَفِزُّوْنَکَ مِنَ الْاَرْضِ لِیُخْرِجُوْکَ مِنْھَا وَاِذًا لاَّ یَلْبَثُوْنَ خِلٰـفَکَ اِلاَّ قَلِیْلاً ۔ (سورۃ بنٓیْ اسرآئِ یل : 74۔ 75۔ 76) (اگر ہم نے آپ ﷺ کو جمائے نہ رکھا ہوتا تو قریب تھا کہ آپ ﷺ ان کی طرف کچھ نہ کچھ مائل ہوجاتے۔ اگر ایسا ہوتا تو ہم آپ ﷺ کو زندگی اور موت دونوں کا دگنا عذاب چکھاتے، پھر آپ ﷺ ہمارے مقابلے میں کوئی مددگار نہ پاتے۔ اور بیشک انھوں نے ارادہ کرلیا ہے کہ اس سرزمین سے آپو کے قدم اکھاڑ دیں تاکہ وہ آپ ﷺ کو یہاں سے نکال دیں، (اور اگر انھوں نے یہ حماقت کی) تو آپ ﷺ کے بعد یہ نہیں ٹھہریں گے، مگر تھوڑا عرصہ۔ ) توجہ طلب باتیں پہلی دونوں آیتوں میں چند باتیں بطورخاص نہایت توجہ چاہتی ہیں۔ پہلی بات تو یہ کہ قرآن کریم میں قریش جس تبدیلی کے خواہش مند تھے اس کے لیے انھوں نے محض آنحضرت ﷺ سے گزارش کرنے پر اکتفا نہیں کیا بلکہ نہایت عیاری اور دبائو کے ساتھ آپ ﷺ کے سامنے یہ تجویز رکھی اور ساتھ ہی ساتھ معلوم ہوتا ہے کہ اپنے ایمان لانے کی یقین دہانی بھی کرائی۔ ان کا یہ وار اس قدر شدید تھا کہ پروردگار فرماتا ہے کہ اگر ہم آپ ﷺ کو ثابت قدم نہ رکھتے تو آپ ﷺ کچھ نہ کچھ ان کی طرف مائل ہوجاتے۔ اس سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ لادینی قوتوں کی وہ روایت جو قریش مکہ سے شروع ہوئی تھی اس میں ہر دور میں ایسی ہی کوششوں اور حشرسامانیوں کا اندازہ ہوتا ہے۔ البتہ یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ خیرالقرون کے بعد چند مواقع کو چھوڑ کر مسلمان اس طرح لادینی قوتوں کا مقابلہ نہیں کرسکے جو آنحضرت ﷺ کی سنت ہے۔ اقبال نے اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اصل حقیقت کی طرف توجہ دلانے کی کوشش کی تھی۔ نہ ستیزہ گاہ جہاں نئی، نہ حریفِ پنجہ شکن نئے وہی قوت اسداللّٰہی وہی مرحبی وہی عنتری اہلِ مکہ کی تمام کوششوں کے باوجود انھیں کامیابی نہیں ہوئی کیونکہ ان کا مطالبہ ابھی چل رہا تھا کہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے وحی آگئی۔ اور آپ ﷺ پر یہ بات پوری طرح واضح کردی گئی کہ قریش کے لیے آپ ﷺ کے دل میں قبولیتِ ایمان کی خواہش اپنی جگہ، لیکن اس کے لیے ان کی کسی باطل خواہش کو قبول نہیں کیا جاسکتا اور اللہ تعالیٰ کی کتاب میں کوئی ردوبدل نہیں ہوسکتا، کیونکہ ایسی کوئی کوشش بھی اتنا بڑا جرم ہے کہ اگر اس کے کرنے والے سیدالرسل بھی ہوں تو اللہ تعالیٰ انھیں بھی سخت عذاب کی وعید سنا رہا ہے اور اس طرح سے یہ بات قریش مکہ کو سنائی جارہی ہے کہ تم جس بات کی خواہش رکھتے ہو تمہیں اندازہ ہی نہیں کہ اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں وہ کتنا بڑا جرم ہے اور اس کے نتیجے میں کتنا بڑا عذاب نازل ہوسکتا ہے۔ عصمتِ انبیا کا مفہوم اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد کہ اگر ہم آپ ﷺ کو ثابت قدم نہ رکھتے تو آپ ﷺ کچھ نہ کچھ ان کے مطالبے کی طرف جھک جاتے لیکن ہم نے آپ ﷺ کو جھکنے نہ دیا۔ یہ دراصل عصمت کی تعبیر ہے کہ ہم نے جو آپ ﷺ کو معصومیت بخشی ہے اس کا تقاضاہی یہی ہے کہ آپ ﷺ مقامِ حق سے سرمو بھی ادھر ادھر نہیں ہوسکتے۔ اگر آپ ﷺ کے دل میں اس سے مختلف کوئی بات آئے گی تو آپ ﷺ کی معصومیت جس کے ہم محافظ ہیں وہ آپ ﷺ کو اپنی جگہ سے ہلنے نہ دے گی۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ عتاب کا رخ آپ ﷺ کی طرف نہیں بلکہ ہر اس شخص کی طرف ہے جو ایسی کسی کاوش کے حق میں ہو۔ چاہے وہ مشرکینِ مکہ ہوں اور چاہے آج کے دور کے نام نہاد مسلمان، جو اللہ تعالیٰ کی کتاب سے جہاد کے احکام نکالنے کے درپے ہیں۔ آنحضرت ﷺ کی تو تعریف کی جارہی ہے کہ حالات کا تقاضا یقینا یہ تھا کہ آپ ﷺ کی طبیعت میں قریش کے مطالبے کی طرف میلان پیدا ہوتا، لیکن آپ ﷺ چونکہ معصوم ہیں اس لیے اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کی معصومیت کی حفاظت کی جو آپ ﷺ کی نبوت کا لازمی حصہ ہے بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ ثابت قدمی جس کا ذکر اس آیت کریمہ میں کیا گیا ہے، وہ فرع ہے معصومیت کی۔ اور معصومیت لازمہ نبوت ہے۔ سرکارِدوعالم ﷺ کی عجیب شان ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عصمت کا ہاتھ ہر وقت آپ ﷺ کے دائیں بائیں رہتا ہے۔ اس لیے آپ ﷺ سے کسی غلط کام کے صدور کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اس کے باوجود آنحضرت ﷺ کی پاکیزگیِ فکر اور رفعتِ خیال کا عالم یہ تھا کہ حضرت قتادہ ( رض) فرماتے ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو آنحضرت ﷺ نے بارگاہِ ایزدی میں عرض کیا اللھم لاتکلنی الی نفسی طرفۃ عین (اے اللہ ! مجھے چشم زدن کے لیے بھی اپنے نفس کے سپرد نہ کرنا ) ۔ ہمیں اس سے یہ سبق ملتا ہے کہ جو شخص بھی دعوت حق کا فریضہ ادا کررہا ہو اسے ہر لمحہ ان آیات کو پیش نظر رکھنا چاہیے۔ مبادہ اس سے ایسی کوئی فروگزاشت ہوجائے جو اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا باعث بنے۔ اور ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے حضور التجا کرتے رہنا چاہیے یاحیی یاقیوم برحمتک استغیث لاتکلنی الی نفسی طرفۃ عین واصلح لی شانی کلہ۔ ہجرت کی طرف اشارہ تیسری آیت کریمہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اہل مکہ نے جب اپنی کوششوں کو ناکام ہوتے دیکھا اور آنحضرت ﷺ کو تبلیغ و دعوت میں مزید سرگرم پایا تو ان کا جوشِ غضب مزید بھڑکا۔ باہمی مشورے سے منصوبہ بندی کرنے لگے کہ آنحضرت ﷺ کو شہر سے نکال دیا جائے۔ قرآن کریم چونکہ اللہ تعالیٰ کی کتاب ہے اور اللہ تعالیٰ خوب جانتے ہیں کہ ان کی کون سے کوشش کامیاب ہوگی۔ اس لیے ان کے دوسرے منصوبوں کا ذکر نہیں کیا جس میں آنحضرت ﷺ کو قتل کرنا بھی شامل تھا۔ البتہ ان کے اس ارادے پر تنبہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ اگر انھوں نے آپ ﷺ کو اس قدر پریشان کردیا کہ آپ ﷺ شہر چھوڑنے پر مجبور ہوگئے تو انھیں معلوم ہونا چاہیے کہ پھر وہ بھی اس شہر میں ایک مختصر مدت کے سوا رہ نہیں سکیں گے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا قانون یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا رسول، اللہ تعالیٰ کی طرف سے اتمامِ حجت کے لیے آتا ہے۔ وہ جب تک اپنی قوم میں رہتا ہے تو اس کی قوم عذاب الٰہی کے نزول سے بچی رہتی ہے، لیکن جب اس کی قوم کی اذیت رسانیاں اور سازشیں اسے نکلنے پر مجبور کردیتی ہیں تو پھر وہ قوم اللہ تعالیٰ کے عذاب کے لیے غیرمحفوظ ہوجاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا رسول اپنی قوم میں ایسے ہوتا ہے جیسے جسم میں روح ہوتی ہے۔ اور جب وہ ہجرت کرجاتا ہے تو یہ جسد بےروح ہوجاتا ہے۔ تو جس طرح جسدِ بےروح کو دیر تک گھر میں نہیں رکھا جاسکتا بلکہ اسے جلد ہی قبرستان میں دفن کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اسی طرح اہل مکہ سے کہا جارہا ہے کہ تم نے اگر نبی کریم ﷺ کو یہاں سے نکلنے پر مجبور کیا تو تم اپنے آپ کو درحقیقت غیرمحفوظ کرلو گے۔ تمہارا وجود بےروح ہو کر رہ جائے گا۔ چناچہ ہم دیکھتے ہیں کہ جیسے ہی آنحضرت ﷺ نے مدینہ کی طرف ہجرت فرمائی تو ایک سال کے بعد ہی بدر کے میدان میں مشرکینِ مکہ کی صفِ اول کی قیادت قتل ہوگئی اور دوسری صف گرفتار ہوگئی۔ اور جنگ خندق میں عرب بھر سے ان کا رعب و دبدبہ اٹھ گیا اور 8 سال کے عرصہ کے بعد جو کہ قوموں کی زندگی میں نہایت ناقابلِ ذکر عرصہ ہے مکہ فتح ہوگیا اور ایک ہی سال کے بعدمشرکینِ عرب کو عرب سے نکل جانے کا نوٹس دے دیا گیا۔ چنانحہ آنحضرت ﷺ کی زندگی کے آخری دنوں میں پورا جزیرہ عرب مکمل طور پر کفر اور شرک سے پاک ہوگیا۔ حضور ﷺ ابھی مکہ میں تھے جب یہ سورت نازل ہوئی ہے اور اس وقت یہ پیشگوئی کی گئی کہ حضور ﷺ کے یہاں سے تشریف لے جانے کے بعد یہ لوگ مکہ میں زیادہ عرصہ تک ٹھہر نہیں سکیں گے۔ یعنی انھیں نکال دیا جائے گا۔ تو اس وحی کے نزول سے نو دس سال میں اس پیشگوئی کی صداقت کو ہر شخص نے اپنی سر کی آنکھوں سے دیکھ لیا۔
Top