Ruh-ul-Quran - Al-Israa : 70
وَ لَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِیْۤ اٰدَمَ وَ حَمَلْنٰهُمْ فِی الْبَرِّ وَ الْبَحْرِ وَ رَزَقْنٰهُمْ مِّنَ الطَّیِّبٰتِ وَ فَضَّلْنٰهُمْ عَلٰى كَثِیْرٍ مِّمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِیْلًا۠   ۧ
وَلَقَدْ : اور تحقیق كَرَّمْنَا : ہم نے عزت بخشی بَنِيْٓ اٰدَمَ : اولاد آدم وَحَمَلْنٰهُمْ : اور ہم نے انہیں سواری دی فِي الْبَرِّ : خشی میں وَالْبَحْرِ : اور دریا وَرَزَقْنٰهُمْ : اور ہم نے انہیں رزق دیا مِّنَ : سے الطَّيِّبٰتِ : پاکیزہ چیزیں وَفَضَّلْنٰهُمْ : اور ہم نے اہنیں فضیلت دی عَلٰي : پر كَثِيْرٍ : بہت سی مِّمَّنْ خَلَقْنَا : اس سے جو ہم نے پیدا کیا (اپنی مخلوق) تَفْضِيْلًا : بڑائی دیکر
اور ہم نے بنی آدم کو عزت بخشی، اور خشکی اور تری دونوں میں ان کو سواری عطا کی اور ان کو پاکیزہ چیزوں کا رزق دیا، اور ہم نے انھیں نمایاں فضیلت دی بہت سی چیزوں پر جن کو ہم نے پیدا فرمایا۔
وَلَقَدْ کَرَّمْنَا بَنِـْیٓ اٰدَمَ وَحَمَلْنٰـھُمْ فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَرَزَقْـنٰـھُمْ مِّنَ الطَّیِّبٰتِ وَفَضَّلْنٰـھُمْ عَلٰی کَثِیْرٍ مِّمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِیْلاً ۔ (سورۃ بنٓیْ اسرآئِ یل : 70) (اور ہم نے بنی آدم کو عزت بخشی، اور خشکی اور تری دونوں میں ان کو سواری عطا کی اور ان کو پاکیزہ چیزوں کا رزق دیا، اور ہم نے انھیں نمایاں فضیلت دی بہت سی چیزوں پر جن کو ہم نے پیدا فرمایا۔ ) انسان کو ذمہ داری کی یاددہانی گزشتہ تین آیات میں پروردگارِ عالم نے جو بحری نعمتیں عطا فرمائیں اور بحری سفر کی سہولتیں دے کر بیشمار خزانوں کے راستے کھول دیے، ان کا ذکر فرمایا۔ اور ساتھ ہی ساتھ مشرکین کا وہ طرز عمل جو سراسر ناشکری سے عبارت ہے، اس کا ذکر فرما کر ان کو شرم دلائی اور ان کی حماقت پر انھیں متنبہ کیا۔ اب پیش نظر آیت کریمہ میں انسان کو جو مجموعی طور پر نعمتیں عطا کی گئی ہیں اور انسان کو جو مقام و مرتبہ بخشا گیا ہے اس کا ذکر فرما کر انسان کو ذمہ داریوں کا احساس دلایا گیا ہے۔ انسان کا اگر قدوقامت دیکھا جائے تو وہ ایک ساڑھے پانچ اور چھ فٹ کا ایک کمزور سا وجود ہے جس کے مقابلے میں اللہ تعالیٰ نے بڑے بڑے وجود پیدا کیے، لیکن اسے عقل و علم، گویائی، پاکیزہ صورت، معتدل قامت اور معاش و معاد کی تدابیر اور تمام چیزوں پر استیلا اور تسخیر عطا فرما کر اسے باقی اکثر مخلوقات پر جو فضیلت بخشی گئی ہے وہ ایک ایسی نعمت ہے جس کا انسان کبھی شکر ادا نہیں کرسکتا۔ اگر وہ اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی ان صلاحیتوں پر ٹھیک ٹھیک عمل کرکے معرفتِ خداوندی کی دولت کو پا لیتا اور اس راستہ کو اختیار کرلیتا ہے جو انبیا و رسل نے سکھایا ہے اور اپنے فرائض کو صحیح طور پر بجا لاتا ہے تو فی الحقیقت بحر و بر کا سلطان ہے۔ زمین کا خلیفہ اور مسجودِ ملائک ہے۔ اسی میں انبیا اور رسل پیدا ہوئے، حتیٰ کہ نبی کریم ﷺ کا وجودِمبارک اس کے لیے سرمایہ افتخار ہے۔ لیکن اگر یہ اپنی حیثیت گم کردیتا ہے، بجائے اللہ تعالیٰ کا بندہ بننے کے مادہ اور شیطان کا بندہ بن کر رہ جاتا ہے۔ آخرت کو منزل بنانے کی بجائے دنیا کی محبت میں گم ہوجاتا ہے، تو پھر یہ اپنی ذات کے لیے ایک داغ سے بڑھ کر کچھ نہیں۔” جگر “ نے ٹھیک کہا : گھٹے اگر تو بس ایک مشت خاک ہے انساں بڑھے تو وسعت کونین میں سما نہ سکے انسان کی عظمت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پروردگار نے ارشاد فرمایا کہ انسان کو ہم نے عزت عطا کی ہے، ورنہ وہ اپنی ذات میں اس قدر کمزور اور اس قدر ناتواں ہے کہ بہت سی دوسری مخلوقات کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔ لیکن ہم نے اسے غیرمعمولی صلاحیتیں دے کر بلند عزائم عطا کرکے عقل و علم کا شعور دے کر اور اس کے دل کو اللہ تعالیٰ کی معرفت دے کر اور اس کے احساسات کو محبت کی گہرائی بخش کر ہم نے وہ عزت عطا کی ہے جو بیشتر مخلوقات کو عطا نہیں کی۔ اسے زمین پر قسم قسم کی سواریاں دیں، جھکڑے سے لے کر ہوائی جہاز تک اس کے زیراستعمال ہیں۔ سمندر میں بھی اسے سواریوں سے نوازا، کشتیاں اس کی سیر کے لیے ہیں اور بحری جہاز اس کے سفر کے لیے۔ اس کا بےحساب تجارتی سامان انھیں جہازوں کے ذریعے ملکوں ملکوں پہنچتا ہے اور انسانوں کی ضرورتوں اور ترقیات کے کام آتا ہے۔ اس طرح سے بر و بحر میں اسے طیبات کا وہ رزق عطا فرمایا گیا ہے کہ جس کا شمار ممکن نہیں، جس کے تنوع کو دیکھ کر آدمی کی عقل دنگ رہ جاتی ہے، پھر انسان کو قوت ایجاد دی گئی ہے جس نے ان نعمتوں میں غیرمعمولی اضافہ کردیا ہے۔ یہ سب کچھ انسان کو اس لیے عطا ہوا ہے تاکہ وہ ان نعمتوں کی قدر کرے، ان کا حق ادا کرے اور اپنی ذمہ داریوں کو محسوس کرے۔ اللہ تعالیٰ نے اسے زمین پر جن فرائض کی بجاآوری کے لیے بھیجا ہے ان کی فکر کرے۔ اور اللہ تعالیٰ کی زمین پر بجائے فساد برپا کرنے کے انسانوں کی خیروفلاح کا انتظام کرے اور اللہ تعالیٰ کی ناشکری کرنے کی بجائے اس کا شکرگزار اور فرمانبردار بندہ بن کر رہے۔
Top