Ruh-ul-Quran - Al-Israa : 52
یَوْمَ یَدْعُوْكُمْ فَتَسْتَجِیْبُوْنَ بِحَمْدِهٖ وَ تَظُنُّوْنَ اِنْ لَّبِثْتُمْ اِلَّا قَلِیْلًا۠   ۧ
يَوْمَ : جس دن يَدْعُوْكُمْ : وہ پکارے گا تمہیں فَتَسْتَجِيْبُوْنَ : تو تم جواب دو گے (تعمیل کروگے) بِحَمْدِهٖ : اسکی تعریف کے ساتھ وَتَظُنُّوْنَ : اور تم خیال کروگے اِنْ : کہ لَّبِثْتُمْ : تم رہے اِلَّا : صرف قَلِيْلًا : تھوڑی دیر
جس دن وہ تمہیں پکارے گا، تم اس کی حمد کرتے ہوئے اس کے حکم کی تعمیل کرو گے، اور تم یہ گمان کرو گے کہ تم نہیں رہے (دنیا اور برزخ میں) مگر تھوڑی سی مدت۔
یَوْمَ یَدْعُوْکُمْ فَتَسْتَجِیْبُوْنَ بِحَمْدِہٖ وَتَظُنُّوْنَ اِنْ لَّبِثْـتُمْ اِلاَّ قَلِیْلاً ۔ (سورۃ بنٓیْ اسرآئِ یل : 52) (جس دن وہ تمہیں پکارے گا، تم اس کی حمد کرتے ہوئے اس کے حکم کی تعمیل کرو گے، اور تم یہ گمان کرو گے کہ تم نہیں رہے (دنیا اور برزخ میں) مگر تھوڑی سی مدت۔ ) پروردگار براہ راست کفار سے مخاطب ہو کر فرماتا ہے کہ آج جبکہ تم نبی کریم ﷺ کی بات سننے کے روادار نہیں ہو اور قرآن کریم سے رخ پھیر لیتے ہو اور تمہاری اکڑ روزبروز بڑھتی جارہی ہے، اس وقت کیا کرو گے جب قیامت کے دن حضرت اسرافیل کے واسطے سے یا براہ راست اللہ تعالیٰ تمہیں آواز دے گا کہ قبروں سے نکلو اور محشر میں پہنچ جاؤ۔ تو تم سب زندہ ہو کر میدانِ حشر میں اس طرح پہنچو گے کہ تمہاری زبانوں پر اللہ تعالیٰ کی حمدوثنا ہوگی۔ فَتَسْتَجِیْبُوْنَ بِحَمْدِہٖ ۔ استجابت کے معنی کسی کے بلانے پر حکم کی تعمیل کرنا اور حاضر ہونا ہے۔ کفار سے کہا جارہا ہے کہ تمہیں قیامت کے دن جب بلایا جائے گا تو آج جبکہ تم کوئی بات سننے کو تیار نہیں ہو، اس وقت فوراً تم اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل کرو گے۔ اور مزید یہ کہ صرف تعمیل ہی نہیں کرو گے بلکہ تمہاری زبانوں پر اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا جاری ہوگی۔ اور معلوم ہوتا ہے کہ اس میں مسلم اور غیرمسلم کا کوئی امتیاز نہیں ہوگا۔ سب اللہ تعالیٰ کی تعریف کرتے ہوئے محشر کی طرف بڑھیں گے۔ امامِ تفسیر حضرت سعید بن جبیر ( رح) نے فرمایا کہ کفار بھی اپنی قبروں سے نکلتے وقت سُبْحَانَ اللّٰہِ وَبِحَمْدِکَ کے الفاظ کہتے ہوئے نکلیں گے، مگر اس وقت کا حمد و ثنا انھیں کوئی نفع نہیں دے گا کیونکہ جب مرنے کے بعد زندگی دیکھیں گے تو غیراختیاری طور پر ان کی زبان سے اللہ تعالیٰ کی حمدوثنا کے الفاظ نکلیں گے۔ وہ کوئی ایسا عمل نہیں ہوگا جس پر جزا مرتب ہو۔ بعض مفسرین کا خیال ہے کہ حمدوثنا صرف صاحب ایمان لوگوں کے ساتھ مخصوص ہے کیونکہ کافروں کے بارے میں تو قرآن کریم نے بتایا ہے کہ جب وہ قیامت کے دن اٹھیں گے تو یہ کہتے ہوئے اٹھیں گے کہ ہائے ہماری قسمت، ہمیں کس نے قبر سے زندہ کر اٹھایا۔ لیکن ان دونوں باتوں میں کوئی تعارض نہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ قبروں سے نکلتے وقت تو سب اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کریں گے، لیکن جب کافروں کو مومنوں سے الگ ہونے کا حکم دیا جائے گا تو اس وقت ان کی زبانوں سے وہ کلمات بھی نکلیں گے جس کا قرآن کریم میں ذکر کیا گیا ہے۔ امامِ قرطبی فرماتے ہیں کہ قبروں سے اٹھتے ہوئے بھی لوگ اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کریں گے اور سب معاملات کا خاتمہ بھی حمد پر ہوگا۔ اور جب اہل محشر کے اعمال کا فیصلہ کردیا جائے گا تو سب کی زبانوں پر اللہ رب العالمین کی حمد جاری ہوجائے گی۔
Top