Ruh-ul-Quran - Al-Israa : 50
قُلْ كُوْنُوْا حِجَارَةً اَوْ حَدِیْدًاۙ
قُلْ : کہ دیں كُوْنُوْا : تم ہوجاؤ حِجَارَةً : پتھر اَوْ : یا حَدِيْدًا : لوہا
کہہ دیجیے کہ تم پتھر بن جائو یا لوہا،
قُلْ کُوْنُوْا حِجَارَۃً اَوْحَدِیْدًا۔ اَوْخَلْقًا مِّمَّا یَکْبُرُفِیْ صُدُوْرِکُمْ ج فَسَیَقُوْلُوْنَ مَنْ یُّعِیْدُنَا ط قُلِ الَّذِیْ فَطَرَکُمْ اََوَّلَ مَرَّۃٍ ج فَسَیُنْغِضُوْنَ اِلَیْکَ رُئُ وْسَہُمْ وَیَقُوْلُوْنَ مَتٰی ھُوَ ط قُلْ عَسٰٓی اَنْ یَّکُوْنَ قَرِیْبًا۔ (سورۃ بنٓیْ اسرآئِ یل : 50۔ 51) (کہہ دیجیے کہ تم پتھر بن جاؤ یا لوہا، یا کوئی اور مخلوق جو تمہارے خیال میں ان سے بھی سخت ہو، پھر وہ کہیں گے کہ ہمیں کون دوبارہ زندہ کرے گا، کہہ دیجیے، وہی جس نے تمہیں پہلی مرتبہ پیدا کیا، پھر وہ آپ ﷺ کے آگے سر ہلائیں گے اور کہیں گے کہ یہ کب ہوگا ؟ آپ ﷺ کہہ دیجیے کہ عجب نہیں کہ اس کا وقت قریب ہی آپہنچا ہو۔ ) بعث بعدالموت پر دلیل تم یہ سمجھتے ہو کہ جب ہم بوسیدہ ہڈیاں اور چورا چورا ہوجائیں گے تو ہمیں دوبارہ اس لیے زندہ نہیں کیا جاسکتا کیونکہ بوسیدہ ہڈیاں یا ہڈیوں کا چورا زندگی کو قبول نہیں کرسکتا۔ پروردگار فرماتا ہے کہ تم اگر پتھر یا لوہا بھی ہوجاؤ یا اس سے بھی کوئی سخت چیز جس کے بارے میں تمہارا گمان ہو کہ وہ زندگی کو بالکل قبول نہیں کرسکتی تو یاد رکھو تمہیں پھر بھی دوبارہ زندہ ہونا ہوگا۔ وہ حیران ہو کر یا ازرہ استہزاء کہیں گے کہ ہمیں کون زندہ کرے گا ؟ ان کے خیال میں بوسیدہ ہڈیوں یا ہڈیوں کے چورے میں دوبارہ زندگی کا پیدا کیا جانا ایک ناممکن سی بات ہے تو ان سے کہا جائے گا کہ تمہیں وہی پیدا کرے گا جس نے تمہیں پہلی مرتبہ پیدا کیا تھا۔ تمہاری خودفریبی کا سبب یہ ہے کہ تم صرف یہ دیکھ رہے ہو کہ ہر مخلوق مرنے کے بعد مکمل طور پر فنا ہوجاتی ہے۔ یعنی مٹی بن کر گل سڑ جاتی ہے۔ اب اس میں دوبارہ زندگی کا پیدا ہونا ایک ناممکن بات ہے۔ لیکن تم یہ نہیں سمجھتے کہ جب تمہیں پہلی مرتبہ پروردگار عدم سے وجود میں لایا تو تمہارا نام و نشان تک نہ تھا۔ اب جبکہ تم دنیا میں زندگی گزار کے گئے ہو تو تمہارا ایک نام تو ہے، تمہارے آثار بھی ہیں، تمہیں تو نہیں معلوم لیکن اللہ تعالیٰ کو خوب معلوم ہے کہ تمہاری ریڑھ کی ہڈی کے بقیہ اجزاء کہاں ہیں۔ تم چاہے انھیں کیسا بھی گیا گزرا سمجھو اور اس میں اور زندگی میں کیسا بھی استبعاد محسوس کرو لیکن اللہ تعالیٰ کی قدرت کے سامنے ایسی کوئی چیز مانع نہیں ہوسکتی۔ وہ چاہے تو سراب میں حباب اٹھا سکتا ہے، وہ چاہے تو سمندر کو ایک لمحہ میں پایاب بنا سکتا ہے۔ اس کی قدرت سے قومیں فنا کے گھاٹ اتر جاتی ہیں اور مردہ زمین بارش کے چند چھینٹوں سے زندہ ہوجاتی ہے۔ اور اس کے حیات بخش پیغام سے قومیں ازسرنو زندگی کا پیغام لے کر اٹھتی ہیں اور تاریخ میں اپنا نام چھوڑ جاتی ہیں۔ تمہیں جب تک اللہ تعالیٰ کی قدرت کا یقین نہیں آئے گا اس وقت تک قیامت تمہارے لیے ایک پہیلی بنی رہے گی۔ قرآن کریم کہتا ہے کہ وہ لوگ رسول اللہ ﷺ کا جواب سن کر مذاق کے طور پر سر ہلائیں گے اور خندہ استہزاء کے ساتھ پوچھیں گے کہ اچھا کب آئے گا وہ لمحہ، جب قیامت آئے گی، تو اللہ تعالیٰ آنحضرت ﷺ کو حکم دے رہا ہے کہ آپ ﷺ ان سے کہہ دیجیے کہ ممکن ہے کہ وہ لمحہ قریب ہی آلگا ہو لیکن میں اس کے بارے میں تعین سے کچھ نہیں کہہ سکتا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے کسی کو اس کے وقوع کا یقینی علم نہیں دیا، لیکن تم یہ بتائو کہ اگر کسی چیز کے بارے میں یہ تو معلوم ہو کہ وہ ہو کے رہے گی لیکن یہ معلوم نہ ہو کہ وہ کب ہوگی تو کیا اس کا انکار کردیتے ہیں۔ اگر ایسا ہے تو تم اپنی موت کا انکار کیوں نہیں کردیتے۔ کیونکہ ہر شخص جانتا ہے کہ موت آئے گی لیکن یہ کوئی نہیں جانتا کہ اس کی موت کا وقت کون سا ہے۔ محض وقت کا علم نہ ہونے کی وجہ سے کوئی شخص اپنی موت کا انکار نہیں کرتا، تو تم قیامت کا انکار کیسے کرسکتے ہو۔ رہی یہ بات کہ تم یہ کہو کہ ہمیں تو قیامت کے آنے کا یقین ہی نہیں تو اس کا کوئی علاج کسی کے پاس نہیں کیونکہ یہ ایسا علم ہے جس پر عقل تو شہادت دیتی ہی ہے، اخلاق بھی پکار پکار کر کہتے ہیں کہ قیامت کا آنا تکمیلِ اخلاق کے لیے انتہائی ضروری ہے لیکن اس کے علاوہ دنیا کی تاریخ ہمیں یہ بتاتی ہے کہ جب بھی کبھی کوئی پیغمبر اہل دنیا کی اصلاح کے لیے آیا ہے اس نے قیامت کے آنے کی خبر ضرور دی ہے اور ہر قوم نے دوسری قوم تک اس صداقت کی امانت کو منتقل کیا ہے۔ افراد کی شہادتیں بعض دفعہ پایہ ٔ ثبوت سے گر جاتی ہیں لیکن اقوام کی شہادتوں کا انکار کرنا اپنے وجود کے انکار کے مترادف ہے۔
Top