Ruh-ul-Quran - Al-Israa : 49
وَ قَالُوْۤا ءَاِذَا كُنَّا عِظَامًا وَّ رُفَاتًا ءَاِنَّا لَمَبْعُوْثُوْنَ خَلْقًا جَدِیْدًا
وَقَالُوْٓا : اور وہ کہتے ہیں ءَاِذَا : کیا۔ جب كُنَّا : ہم ہوگئے عِظَامًا : ہڈیاں وَّرُفَاتًا : اور ریزہ ریزہ ءَاِنَّا : کیا ہم یقینا لَمَبْعُوْثُوْنَ : پھر جی اٹھیں گے خَلْقًا : پیدائش جَدِيْدًا : نئی
اور کہتے ہیں کہ جب ہم ہڈیاں اور چورا چورا ہوجائیں گے تو ہم ازسرنو اٹھائے جائیں گے۔
وَقَالُوْٓائَ اِذَا کُنَّا عِظَامًاوَّرُفَا تًائَ اِنَّا لَمَبْعُوْثُوْنَ خَلْقًا جَدِیْدًا۔ (سورۃ بنٓیْ اسرآئِ یل : 49) (اور کہتے ہیں کہ جب ہم ہڈیاں اور چورا چورا ہوجائیں گے تو ہم ازسرنو اٹھائے جائیں گے۔ ) مشرکین کا اصل مرض پیچھے ہم پڑھ چکے ہیں کہ مشرکین کا اصل مرض آخرت کا انکار تھا۔ انھیں اس بات میں سخت استبعاد معلوم ہوتا تھا کہ جب ہم فنا کی گھاٹ اتر جائیں گے اور ہمیں لحد میں اتار دیا جائے گا تو ایک مدت کے بعد یقینا زمین ہمارے جسموں کو کھاجائے گی اور ہماری ہڈیاں ریزہ ریزہ ہوجائیں گی تو ہمیں کس طرح ازسرنو زندہ کرکے اٹھایا جائے گا۔ ہمارا جسم نہ جانے مٹی کی کس تہہ میں مٹی بن کر شامل ہوچکا ہوگا۔ دوبارہ زندگی کس قالب میں ڈالی جائے گی : اک معمہ ہے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا مذہب کے نام پر محض خیالی تصورات پر اصرار کرنا یہ تو کوئی اچھی بات نہیں، انھیں نہ جانے ہمیں ماننے پر کیوں مجبور کیا جارہا ہے۔ صحیح بات یہی ہے کہ یہی زندگی حقیقی زندگی ہے، یہیں کی خوشیاں اور غم اپنی آخری حیثیت رکھتے ہیں۔ اس کے بعد کسی زندگی کا تصور خام خیالی کے سوا کچھ نہیں، ایسے سراب کی پیچھے بھاگنے کی کیا ضرورت ہے جو نہ عقل کی گرفت میں آتا ہے اور نہ اس کی کوئی توجیہ ممکن ہے۔ پروردگار نے دوسری آیت میں اس کا جواب دیتے ہوئے ارشاد فرمایا۔
Top