Ruh-ul-Quran - Al-Israa : 45
وَ اِذَا قَرَاْتَ الْقُرْاٰنَ جَعَلْنَا بَیْنَكَ وَ بَیْنَ الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَةِ حِجَابًا مَّسْتُوْرًاۙ
وَاِذَا : اور جب قَرَاْتَ : تم پڑھتے ہو الْقُرْاٰنَ : قرآن جَعَلْنَا : ہم کردیتے ہیں بَيْنَكَ : تمہارے درمیان وَبَيْنَ : اور درمیان الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو لَا يُؤْمِنُوْنَ : ایمان نہیں لاتے بِالْاٰخِرَةِ : آخرت پر حِجَابًا : ایک پردہ مَّسْتُوْرًا : چھپا ہوا
جب آپ ﷺ قرآن پڑھ کر سناتے ہیں تو ہم آپ ﷺ کے اور ان کے درمیان جو آخرت پر ایمان نہیں رکھتے، ایک مخفی پردہ حائل کردیتے ہیں۔
وَاِذَا قَرَاْتَ الْقُرْاٰنَ جَعَلْنَا بَیْنَکَ وَبَیْنَ الَّذِیْنَ لاَ یُوْمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَۃِ حِجَابًا مَّسْتُوْرًا۔ وَجَعَلْنَا عَلٰی قُلُوْبِہِمْ اَکِنَّـۃً اَنْ یَّفْقَہُوْہُ وَفِیْٓ اٰذانِہِمْ وَقْرًا ط وَاِذَا ذَکَرْتَ رَبَّکَ فِی الْقُرْاٰنِ وَحْدَہٗ وَلَّوْا عَلٰٓی اَدْبَارِھِمْ نُفُوْرًا۔ (سورۃ بنٓیْ اسرآئِ یل : 45۔ 46) (جب آپ ﷺ قرآن پڑھ کر سناتے ہیں تو ہم آپ ﷺ کے اور ان کے درمیان جو آخرت پر ایمان نہیں رکھتے، ایک مخفی پردہ حائل کردیتے ہیں۔ اور ہم ان کے دلوں پر پردہ ڈال دیتے ہیں کہ وہ اس کو نہ سمجھیں اور ان کے کانوں میں ثقل پیدا کردیتے ہیں، اور جب آپ ﷺ قرآن میں تنہا اپنے رب کا ذکر کرتے ہیں تو وہ نفرت کے ساتھ پیٹھ پھیر لیتے ہیں۔ ) ہدایت سے متعلق اللہ تعالیٰ کا قانون ہم پیچھے پڑھ چکے ہیں کہ توحید کی حقیقت کو سمجھانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اسلوب بدل بدل کر اور مختلف پیرایوں میں مشرکین کو سمجھانے کی کوشش کی ہے۔ لیکن تعجب کی بات ہے کہ ان کی اکثریت نہ صرف سمجھنے سے قاصر ہے بلکہ اس کی مخالفت میں ہر طرح سے کمر بستہ ہے اور آنحضرت ﷺ کی معجزانہ کاوشیں بھی ان پر اثر دکھاتی نظر نہیں آتیں۔ چناچہ ان آیات میں اس بات کا جواب دیا گیا ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ایک قانون ہے کہ وہ اپنے بندوں کو ایک خاص حد تک تبلیغ و دعوت کے ذریعے پیغمبروں ( علیہ السلام) کی معرفت دین کو پیش کرتا ہے۔ پیغمبر ( علیہ السلام) اپنی تمام ممکن مساعی کو بروئے کار لاتے ہیں۔ ہمدردی و خیرخواہی کا ایک ایک قطرہ ان کے لیے نچوڑ دیتے ہیں۔ ان کی غلط سے غلط حرکت پر بھی مشتعل ہونے کی بجائے دعائیں دیتے اور تبلیغ و دعوت میں تیزی پیدا کردیتے ہیں اور یہ کاوشیں چند دنوں تک نہیں رہتیں بلکہ سالوں پر محیط ہوجاتی ہیں۔ لیکن جب اس کے جواب میں مخالفین کی مخالفت بڑھتی چلی جاتی ہے اور وہ اذیت رسانی کی نہ صرف کہ آخری حدوں تک پہنچ جاتے ہیں بلکہ پیغمبر ( علیہ السلام) کے قتل کے منصوبے بنانے لگتے ہیں تو تب اللہ تعالیٰ کا قانونِ ہدایت حرکت میں آتا ہے جس کی وجہ سے ان کے دلوں سے قبولیت کی استعداد چھین لی جاتی ہے۔ ان کے حواس اور ان کی عقل ہدایت کے لیے معطل کردیے جاتے ہیں۔ پیغمبر ( علیہ السلام) اور ان کی قوم کے درمیان ایسا باریک پردہ حائل کردیا جاتا ہے کہ وہ پیغمبر ( علیہ السلام) کو دیکھ کر بھی نہیں دیکھتے۔ ان کے کانوں میں ثقل پیدا کردیا جاتا اور ان کے دلوں پر محرومی کے پردے تان دیے جاتے ہیں۔ اس کے بعد ہدایت اپنا کام چھوڑ دیتی ہے کیونکہ اس کا سر رشتہ اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے، پیغمبر ( علیہ السلام) کا کام دعوت و تبلیغ ہے، کسی کے دل کو بدلنا نہیں۔ یہ وجہ ہے کہ جس کی وجہ سے یہ لوگ قرآن سے فائدہ نہیں اٹھا رہے۔ دوسری آیت میں ان کے مرض کی شدت کو بیان کرنے کے لیے یہ بھی بتلایا گیا ہے کہ ان کے بگاڑ کا حال تو یہ ہے کہ انھیں اللہ تعالیٰ کی ذات کی نسبت بتوں سے زیادہ دلچسپی ہے۔ آنحضرت ﷺ جب قرآن کریم پڑھ کر سناتے ہیں جس میں اللہ تعالیٰ کی صفات کو بیان کیا گیا ہے اور اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کی گئی ہے تو بجائے خوش ہونے کے وہ اس لیے بگڑ جاتے ہیں کہ ہمارے بتوں کا تذکرہ کیوں نہیں کیا جارہا، صرف اللہ تعالیٰ کی ہی حمد و ثنا کیوں کی جارہی ہے۔ چناچہ وہ نفرت سے بھاگ کھڑے ہوتے ہیں۔ ان سے یہ بھی نہیں ہوسکتا کہ وہ بےدلی ہی سے ہی سہی قرآن پاک کو سننے کی زحمت گوارا کرلیں۔ ہمارے قدیم مفسرین نے ان آیات کا شان نزول بیان کیا ہے اور ان کے چند خصائص بھی بیان کیے گئے ہیں، ہم اسے معارف القرآن سے نقل کرتے ہیں۔ آیات کا شان نزول آیات مذکورہ میں سے پہلی و دوسری آیت میں جو مضمون آیا ہے اس کا ایک خاص شان نزول ہے جو قرطبی نے سعید بن جبیر ( رح) سے نقل کیا ہے کہ جب قرآن میں سورة ٔ تبت یدا ابی لہب نازل ہوئی جس میں ابو لہب کی بیوی کی بھی مذمت مذکور ہے تو اس کی بیوی نبی کریم ﷺ کی مجلس میں گئی۔ اس وقت حضرت صدیق اکبر ( رض) مجلس میں موجود تھے اس کو دور سے دیکھ کر آنحضرت ﷺ سے عرض کیا کہ آپ ﷺ یہاں سے ہٹ جائیں تو بہتر ہے کیونکہ یہ عورت بڑی بدزبان ہے۔ یہ ایسی باتیں کہے گی جس سے آپ ﷺ کو تکلیف پہنچے گی۔ آپ ﷺ نے فرمایا نہیں اس کے اور میرے درمیان اللہ تعالیٰ پردہ حائل کردیں گے۔ چناچہ وہ مجلس میں پہنچی مگر رسول اللہ ﷺ کو نہ دیکھ سکی تو حضرت صدیق اکبر ( رض) سے مخاطب ہو کر کہنے لگی کہ آپ ( رض) کے ساتھی نے ہماری ہجو کی ہے۔ حضرت صدیق اکبر ( رض) نے فرمایا کہ واللہ وہ تو کوئی شعر ہی نہیں کہتے جس میں عادۃً ہجو کی جاتی ہے تو وہ یہ کہتی ہوئی چلی گئی کہ تم بھی ان کی تصدیق کرنے والوں میں سے ہو۔ اس کے چلے جانے کے بعد حضرت صدیق اکبر ( رض) نے عرض کیا کہ کیا اس نے آپ ﷺ کو نہیں دیکھا۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ جب تک وہ یہاں رہی ایک فرشتہ میرے اور اس کے درمیان پردہ کرتا رہا۔ دشمنوں کی نظر سے مستور رہنے کا ایک عمل حضرت کعب ( رض) فرماتے ہیں کو رسول اللہ ﷺ جب مشرکین کی آنکھوں سے مستور ہونا چاہتے تو قرآن کی تین آیتیں پڑھ لیتے تھے۔ اس کے اثر سے کفار آپ ﷺ کو نہ دیکھ سکتے تھے۔ وہ تین آیتیں یہ ہیں، ایک آیت سورة کہف میں ہے یعنی اِنَّا جَعَلْنَا عَلٰی قُلُوْبِھِمْ اَکِنَّۃً اَنْ یَّفْقَھُوْہُ وَفِیْٓ اِذَا نِھِمْ وَقْرًا۔ دوسری آیت سورة نحل میں ہے : اُوْلٰئِکَ الَّذِیْنَ طَبَعَ اللّٰہُ عَلٰی قُلُوْبِھِمْ وَسَمْعِھِمْ وَاَبْصَارِھِمْ ۔ اور تیسری آیت سورة جاثیہ میں ہے : اَفَرَأیْتَ مَنِ اتَّخَدَ اِلٰـھَہٗ ھَوَاہُ وَاَضَلَّہُ اللّٰہُ عَلٰی عِلْمٍ وَخَتَمَ عَلٰی سَمْعِہٖ وَقَلْبِہٖ وَجَعَلَ عَلٰی بَصَرِہٖ غِشَاوَۃً ۔ حضرت کعب ( رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کا یہ معاملہ میں نے ملک شام کے ایک شخص سے بیان کیا۔ اس کو کسی ضرورت سے رومیوں کے ملک میں جانا تھا وہاں گیا اور ایک زمانہ تک وہاں مقیم رہا پھر رومی کفار نے اس کو ستایا تو وہ وہاں سے بھاگ نکلا۔ ان لوگوں نے اس کا تعاقب کیا۔ اس شخص کو وہ روایت یاد آگئی اور مذکورہ تین آیتیں پڑھیں۔ قدرت نے ان کی آنکھوں پر ایسا پردہ ڈالا کہ جس راستہ پر چل رہے تھے اسی راستہ پر دشمن گزر رہے تھے مگر وہ ان کو نہ دیکھ سکتے تھے۔ امام ثعلبی کہتے ہیں کہ حضرت کعب ( رض) سے جو روایت نقل کی گئی ہے میں نے رئے کے رہنے والے ایک شخص کو بتائی۔ اتفاق سے ویلم کے کفار نے اس کو گرفتار کرلیا۔ کچھ عرصہ ان کی قید میں رہا پھر ایک روز موقع پا کر بھاگ کھڑا ہوا۔ یہ لوگ اس کے تعاقب میں نکلے مگر اس شخص نے بھی یہ تین آیتیں پڑھ لیں۔ اس کا یہ اثر ہوا کہ ان کی آنکھوں پر ایسا پردہ ڈال دیا گیا کہ وہ اس کو نہ دیکھ سکے حالانکہ ساتھ ساتھ چل رہے تھے اور ان کے کپڑے ان کے کپڑوں سے چھو جاتے تھے۔ امام قرطبی کہتے ہیں کہ ان تینوں کے ساتھ وہ آیات سورة یٰسین کی بھی ملالی جائیں جن کو آنحصرت ﷺ نے ہجرت کے وقت پڑھا تھا جبکہ مشرکین مکہ نے آپ ﷺ کے مکان کا محاصرہ کر رکھا تھا۔ آپ ﷺ نے یہ آیات پڑھیں اور ان کے درمیان سے نکلتے ہوئے چلے گئے بلکہ ان کے سروں پر مٹی ڈالتے ہوئے گئے ان میں سے کسی کو خبر نہیں ہوئی۔ وہ آیات سورة یٰسین کی ہیں۔ یٰسٓ وَالْقُرْاٰنِ الْحَکِیْمِ اِنَّکَ لِمَنَ الْمُرْسَلِیْنَ عَلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ تَنْزِیْلَ الْعَزِیْزِ الرَّحِیْمِ لِتُنْذِرَ قَوْمًا مَّآ اُنْدِرَاٰبَآئُ ھُمْ فَھُمْ غٰفِلُوْنَ ۔ لَقَدْ حَقَّ الْقَوْلِ عَلٰٓی اَکْثَرِھِمْ فَھُمْ لاَیُوْمِنُوْنَ ۔ اِنَّا جَعَلْنَا فِیْٓ اَعْنَاقِھِمْ اَغْلاَلاً فَہِیَ اِلٰی الْاَذْقَانِ فَھُمْ مُّقْمَحُوْنَ ۔ وَجَعَلْنَا مِنْ بَیْنِ اَیْدِیْھِمْ سَدًّا وَّ مِنْ خَلْفَھُمْ سَدًّا فَاَغْشَیْنٰھُمْ فَھُمْ لاَیُبْصِرُوْنَ ۔ امام قرطبی فرماتے ہیں کہ مجھے خود اپنے ملک اندلس میں قرطبہ کے قریب قلعہ منثور میں یہ واقعہ پیش آیا کہ میں دشمن کے سامنے بھاگا اور ایک گوشہ میں بیٹھ گیا۔ دشمن نے دو گھوڑے سوار میرے تعاقب میں بھیجے اور میں بالکل کھلے میدان میں تھا کہ کوئی چیز پردہ کرنے والی نہ تھی مگر میں سورة یٰسین کی یہ آیتیں پڑھ رہا تھا۔ یہ دونوں سوار میرے برابر سے گزرے پھر جہاں سے آئے تھے یہ کہتے ہوئے لوٹ گئے کہ یہ شخص کوئی شیطان ہے کیونکہ وہ مجھے دیکھ نہ سکے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو مجھ سے اندھا کردیا تھا۔ (قرطبی) نَحْنُ اَعْلَمُ بِمَا یَسْتَمِعُوْنَ بِہٖٓ اِذْیَسْتَمِعُوْنَ اِلَیْکَ وَاِذْھُمْ نَجْوٰٓی اِذْ یَقُوْلُ الظّٰلِمُوْنَ اِنْ تَتَّبِعُوْنَ اِلاَّ رَجُلاً مَّسْحُوْرًا۔ اُنْظُرْکَیْفَ ضَرَبُوْا لَکَ الْاَمْثَالَ فَضُلُّوْا فَلاَ یَسْتَطِیْعُوْنَ سَبِیْلاً ۔ (سورۃ بنٓیْ اسرآئِ یل : 47۔ 48) (ہم خوب جانتے ہیں جس غرض کے لیے یہ اسے سنتے ہیں، جب یہ آپ ﷺ کی طرف کان لگاتے ہیں اور (ہم خوب جانتے ہیں) جب یہ سرگوشیاں کرتے ہیں، اس وقت یہ ظالم کہتے ہیں کہ تم ایک ایسے آدمی کی پیروی کررہے ہو جس پر جادو کردیا گیا ہے۔ دیکھئے یہ کس طرح آپ ﷺ کے لیے مثالیں بیان کرتے ہیں، پس وہ گمراہ ہوگئے، اب وہ سیدھے راستے پر چل نہیں سکتے۔ ) آنحضرت ﷺ کی باتیں قریش برے ارادوں سے سنتے تھے گزشتہ آیات میں ہم نے پڑھا ہے کہ مشرکینِ مکہ اور اشرافِ قریش کبھی قرآن کریم کو سننا بھی گوارا نہیں کرتے تھے۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ جیسے ان کا حواس اور ان کی عقلیں قرآن پاک سننے سے مائوف ہوگئی ہیں۔ لیکن اس آیت کریمہ سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ کبھی کبھی بہت کان لگا کر قرآن کریم اور آنحضرت ﷺ کی باتوں کو سنتے تھے۔ لیکن یہ ان کا سننا قرآن کریم کی وضاحت کے مطابق ہدایت قبول کرنے کے لیے نہ تھا بلکہ محض اس لیے سنتے تھے تاکہ انھیں کوئی ایسی بات ہاتھ آئے جس سے وہ آنحضرت ﷺ اور قرآن کریم کے خلاف دھول اڑا سکیں، بدگمانیاں پھیلا سکیں اور لوگوں کے ذہنوں کو مسموم کرسکیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب یہ لوگ آپس میں سرگوشیاں کرتے ہیں اور انھیں باہم مشوروں کا موقع ملتا ہے اور وہ کوشش کرتے ہیں کہ قرآن اور صاحب قرآن کے خلاف کوئی بات بنا سکیں تو پھر اس کے سوا اور وہ کچھ نہیں کہہ پاتے کہ یہ ایک ایسے آدمی کی دعوت ہے جو سحرزدہ ہے۔ یعنی جو اپنے آپ کو پیغمبر کہتا ہے، اس کی اپنی حالت درست نہیں، اس پر کسی نے جادو کردیا ہے اور وہ جادو کے اثرات سے نہ جانے کیا کچھ کہتا رہتا ہے۔ دوسری آیت کریمہ میں اسی بات کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا گیا ہے کہ ہزار کوشش کے باوجود انھیں قرآن کریم اور صاحب قرآن کے بارے میں جب کوئی بات ایسی نہیں ملتی جسے وہ پر اپیگنڈے کا موضوع بنا سکیں تو پھر آپ ﷺ کے لیے مختلف مثالیں گھڑنا شروع کردیتے ہیں۔ کبھی آپ ﷺ کو مسحورکہتے ہیں، کبھی مجنون کہتے ہیں، کبھی شاعر کہتے ہیں اور کبھی کاہن کہتے ہیں۔ لیکن جب ان میں سے کوئی بھی سمجھدار آدمی اس پر اعتراض کرتا ہے جیسے ولید بن مغیرہ کے بارے کہا جاتا ہے کہ جب اس کے سامنے اس طرح کی باتیں کہی گئیں تو اس نے کہا کہ ہم شعر کے تمام اصناف سے واقف ہیں۔ قرآن کریم نہ شعر ہے اور نہ محمد ﷺ شاعر ہیں۔ کاہنوں کی بھی ہم نے باتیں سنی ہیں۔ آپ ﷺ میں کاہنوں والی بھی کوئی بات نہیں۔ آپ ﷺ کی ذہانت و فطانت کا مکہ بھر میں کوئی جواب نہیں تو انھیں مجنون کیسے کہا جاسکتا ہے، تو تمام اشراف اس کے پیچھے پڑگئے کہ پھر تم ہی بتائو ہم اسے کیا کہیں ؟ تو اس نے بہت سوچ سمجھ کے جواب دیا، کہ اور تو کوئی بات کہنا مشکل ہے البتہ تم اسے مسحور، یعنی سحرزدہ کہہ سکتے ہو۔ یعنی یہ ایک ایسی بات ہے جو کسی کے بارے میں بھی کہی جاسکتی ہے۔ اس لیے کہ اس کی کوئی ظاہری علامتیں تو ہوتی نہیں۔ یہاں غور کرنے کی بات یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ کے مخالفین کسی ایک الزام پر متفق نہیں۔ قرآن کریم اور آنحضرت ﷺ کی شخصیت کے سامنے وہ اپنے آپ کو بےبس محسوس کرتے ہیں۔ گمراہی سے نکلنا نہیں چاہتے اور مخالفت میں ان کے پاس کوئی ہتھیار نہیں۔ اس لیے مجبوراً جو جی میں آتا ہے کہہ گزرتے ہیں لیکن جب وہ یہ دیکھتے ہیں کہ اسلام آہستہ آہستہ اپنا راستہ بنا رہا ہے تو پھر جب کسی پر شبہ بھی ہوتا ہے کہ وہ اسلام سے متاثر ہورہا ہے تو آخری یہی بات اسے سمجھانے کے لیے کہی جاتی تھی کہ یہ تو ایک سحرزدہ شخص کی باتیں ہیں جن سے تم متاثر ہورہے ہو۔ یہ گویا ایک ایسے ذہن کی کہانی ہے جسے مخالفت نے بالکل اندھا کردیا ہے اور مخالفت کے بےاثر ہونے نے اسے پاگل بنادیا ہے۔ ان میں سے ہر شخص مخالفت کرنا چاہتا ہے لیکن مخالفت کا طریقہ سجھائی نہیں دیتا۔ سب مل کر باہمی مشاورت سے بھی کسی ایک بات پر جمع نہیں ہو پاتے تو ایسے لوگوں سے بجائے سر مارنے کے یہ بہتر ہے کہ انھیں ان کے حال پر چھوڑ دیا جائے۔ وہ وقت دور نہیں جب حقیقت ان کے سامنے کھل کر آجائے گی۔
Top