Ruh-ul-Quran - Al-Israa : 42
قُلْ لَّوْ كَانَ مَعَهٗۤ اٰلِهَةٌ كَمَا یَقُوْلُوْنَ اِذًا لَّابْتَغَوْا اِلٰى ذِی الْعَرْشِ سَبِیْلًا
قُلْ : کہ دیں آپ لَّوْ كَانَ : اگر ہوتے مَعَهٗٓ : اسکے ساتھ اٰلِهَةٌ : اور معبود كَمَا : جیسے يَقُوْلُوْنَ : وہ کہتے ہیں اِذًا : اس صورت میں لَّابْتَغَوْا : وہ ضرور ڈھونڈتے اِلٰى : طرف ذِي الْعَرْشِ : عرش والے سَبِيْلًا : کوئی راستہ
کہہ دیجیے اگر اس کے ساتھ کچھ اور اِلٰہ بھی ہوتے جس طرح یہ کہتے ہیں تو وہ تلاش کرتے عرش والے کی طرف کوئی راستہ (چڑھائی کردیتے)
قُلْ لَّوْکَانَ مَعَہٗٓ اٰلِھَۃٌ کَمَا یَقُوْلُوْنَ اِذًا لاَّبْتَغَوْا اِلٰی ذِی الْعَرْشِ سَبِیْلاً ۔ (سورۃ بنٓیْ اسرآئِ یل : 42) (کہہ دیجیے اگر اس کے ساتھ کچھ اور اِلٰہ بھی ہوتے جس طرح یہ کہتے ہیں تو وہ تلاش کرتے عرش والے کی طرف کوئی راستہ (چڑھائی کردیتے) ۔ توحید پر ایک عقلی اور واقعاتی دلیل اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کی دلیل پیش فرمائی گئی ہے کہ مشرک لوگ کبھی تو اللہ تعالیٰ کے ساتھ دوسرے اِلٰہ ہونے کا دعویٰ کرتے تھے اور کبھی کائنات کے اس نظام کو کسی حکومت کے نظام پر قیاس کرتے ہوئے یہ کہتے کہ خدائے اعظم اور معبودِ اعظم تو ایک ہی ہے، البتہ اس کے نیچے بہت سی دیویاں اور دیوتا ہیں جن کو اس نے اپنے اختیارات سونپ رکھے ہیں۔ کوئی قسمتیں بناتا اور بگاڑتا ہے، کوئی زمین کی دیکھ بھال کررہا ہے، کوئی آسمانوں کے نظام کو سنبھالے ہوئے ہے، کسی کے ہاتھ میں زندگی کا سررشتہ ہے اور کسی کے قبضے میں رزق کی کنجیاں ہیں۔ پروردگار ارشاد فرماتا ہے کہ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ اللہ کی ذات کی طرح اور بھی خدا ہیں تو اس سے زیادہ نامعقول بات اور کوئی نہیں ہوسکتی۔ اس لیے کہ اس کائنات کا نظام خود بول رہا ہے کہ اس کی ایک ایک کڑی باہم ایک دوسرے کے ساتھ اس قدر پیوست ہے کہ اسے ایک دوسرے سے الگ نہیں کیا جاسکتا۔ ایک دانہ گندم اس وقت تک نہیں اگتا اور ایک گٹھلی سے اس وقت تک سوئی نہیں پھوٹتی جب تک تمام عناصر بروئے کار نہیں آجاتے۔ زمین کی زرخیزی اپنا کام کرتی ہے، ہوا اپنا رول ادا کرتی ہے، سورج کی گرمی اپنی خدمت انجام دیتی ہے، پانی آبیاری کا فرض نبھاتا ہے، موسم اپنی ڈیوٹی سرانجام دیتا ہے۔ غرضیکہ پورے گردوپیش میں جس جس کو جو فرض سونپا گیا ہے وہ اسے ادا کرتا ہے تو ایک دانہ گندم اگتا ہے۔ اور گھاس کا ایک تنکا سر اٹھاتا ہے۔ جس کائنات کے نظام کی وحدت کا یہ عالم ہو اس میں دوسرے خدا کی گنجائش کہاں۔ اگر یہاں دوسرا خدا ہوتا تو کبھی تو اس نظام میں کوئی تبدیلی آتی۔ سورج مشرق کی بجائے کبھی تو مغرب سے نکلتا، کبھی تو زمین کی گردش میں فرق آتا، کبھی تو چاند اپنے مدار کو چھوڑتا، کبھی ثوابت اور سیارے اپنے فرائض میں کمی کرتے، کبھی زندگی اور موت ایک دوسرے سے ہم عناں ہوتیں، کبھی دماغ اپنی حدود سے تجاوز کرتے، لیکن آج تک کسی چیز میں فرق واقع نہ ہونا، یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اس کائنات کا نظام ایک کے ہاتھ میں ہے اور وہی اس کائنات کا خالق بھی ہے اور حاکم بھی۔ اور اگر یہ سمجھ لیا جائے کہ خدائے اعظم تو ایک ہی ہے لیکن اس کے نیچے بہت سے چھوٹے حکمران ہیں جن میں اختیارات کی تقسیم کردی گئی ہے۔ تو پھر اس سوال کا کوئی جواب ہونا چاہیے کہ اس زمین کی تاریخ ہمیں یہ بتاتی ہے کہ اس زمین پر حکومتیں بدلتی اور بگڑتی رہتی ہیں اور اس کا سبب یہ ہوتا ہے کہ ہر صاحب اختیار بڑے اختیار کی ہوس میں اپنی حدود سے تجاوز کرنے لگتا ہے۔ ہر صوبیدار مرکز کو ہتھیانے کی کوشش میں ہوتا ہے جس کے نتیجے میں مرکز کمزور ہوجاتا ہے اور صوبیدار خودمختار ہوجاتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ایک حکومت کئی حکومتوں میں تقسیم ہوجاتی ہے۔ اس کائنات میں آخر یہ حادثہ کیوں نہیں ہوا جبکہ اقتدار کی فطرت کبھی نہیں بدلتی۔ سعدی مرحوم نے ٹھیک کہا : ہفت اقلیمے بگیرد پادشاہ ہم چناں در بند اقلیمے دگر کہ ایک بادشاہ اگر سات ملکوں پر بھی قابض ہوجائے تو اس پر کبھی قناعت نہیں کرتا، وہ کسی اور ملک پر قبضہ کرنے کے بارے میں فکرمند رہتا ہے لیکن اس کائنات کے اختیارات رکھنے والوں نے آج تک کبھی کوئی ایسی کوشش نہیں کی۔ اس کی وجہ یہ نہیں کہ اقتدار کی فطرت بدل گئی ہے وجہ یہ ہے کہ اس کائنات میں اللہ تعالیٰ کی ذات کے سوا کوئی اقتدار کا مالک نہیں۔ دیوتا اور دیویاں محض ایجادِ بندہ ہیں جس کی کوئی حقیقت نہیں۔ سروری زیبا فقط ذات بےہمتا کو ہے حکمراں ہے اک وہی باقی بتان آذری سُبْحٰنَہٗ وَتَعٰلٰی عَمَّا یَقُوْلُوْنَ عُلُوًّا کَبِیْرًا۔ (سورۃ بنٓیْ اسرآئِ یل : 43) (وہ پاک اور بہت برتر ہے ان باتوں سے جو یہ کہتے ہیں۔ ) اللہ تعالیٰ ہر شرک سے منزہ ہے مشرکین نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ جن مختلف قوتوں کو شریک کر رکھا تھا ان کی طرف اللہ تعالیٰ کی مختلف صفات بھی منسوب کر رکھی تھیں۔ کسی کو کسی قوت کا امین سمجھتے تھے اور کسی کو کسی قوت کا۔ اور انہی کے آئینہ میں وہ اللہ تعالیٰ کی صفات کو پہچاننے کی کوشش کرتے تھے۔ سبحان کلمہ تنزیہ ہے۔ کسی لمبی چوڑی دلیل دینے کی بجائے پروردگار کا طریقہ یہ ہے کہ وہ لغو سے لغو بات جو اس کی طرف منسوب کی جاتی ہے اسے رد کرنے کے لیے اس لفظ کا استعمال فرماتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ تم جن خرافات کو اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کررہے ہو، اللہ تعالیٰ ان سے ہر طرح سے پاک اور برتر ہے۔ کوئی شخص سورج اور چاند کے چہروں پر سیاہیاں پھینکنے کی کوشش کرے اور اپنے تئیں یہ سمجھے کہ میں شاید ایسا کرسکتا ہوں تو اس کا جواب یہ نہیں کہ اسے روشنی اور سیاہی کا سبق پڑھایا جائے بلکہ اس کا صحیح جواب یہی ہے کہ سورج اور چاند تمہاری اس لغو حرکت سے بہت بلند واقع ہوئے ہیں۔ نہ تم سورج کی روشنی کو ماند کرسکتے ہو اور نہ تم چاند کی چاندنی کو گدلا کرسکتے ہو اور اللہ تعالیٰ کی ذات کی طرف جو ان مخلوقات سے بےحد بلند ہے کسی غلط بات کا انتساب اس سے بھی زیادہ حماقت ہے۔
Top