Ruh-ul-Quran - Al-Israa : 36
وَ لَا تَقْفُ مَا لَیْسَ لَكَ بِهٖ عِلْمٌ١ؕ اِنَّ السَّمْعَ وَ الْبَصَرَ وَ الْفُؤَادَ كُلُّ اُولٰٓئِكَ كَانَ عَنْهُ مَسْئُوْلًا
وَلَا تَقْفُ : اور پیچھے نہ پڑ تو مَا لَيْسَ : جس کا نہیں لَكَ : تیرے لیے۔ تجھے بِهٖ : اس کا عِلْمٌ : علم اِنَّ : بیشک السَّمْعَ : کان وَالْبَصَرَ : اور آنکھ وَالْفُؤَادَ : اور دل كُلُّ : ہر ایک اُولٰٓئِكَ : یہ كَانَ : ہے عَنْهُ : اس سے مَسْئُوْلًا : پرسش کیا جانے والا
اور اس کے درپے نہ ہوا کرو جس چیز کا تمہیں علم نہ ہو کیونکہ کان، آنکھ اور دل ان میں سے ہر ایک چیز کی پرسش ہونی ہے۔
وَلاَ تَقْفُ مَا لَیْسَ لَکَ بِہٖ عِلْمٌ ط اِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَا وَالْفُئَوا دَکُلُّ اُوْلٰٓئِکَ کَانَ عَنْہُ مَسْـْٔوْلاً ۔ (سورۃ بنٓیْ اسرآئِ یل : 36) (اور اس کے درپے نہ ہوا کرو جس چیز کا تمہیں علم نہ ہو کیونکہ کان، آنکھ اور دل ان میں سے ہر ایک چیز کی پرسش ہونی ہے۔ ) ظن و گمان کی بجائے علم کی پیروی کی ہدایت ” اس دفعہ کا منشا یہ ہے کہ لوگ اپنی انفرادی و اجتماعی زندگی میں وہم و گمان کی بجائے علم کی پیروی کریں۔ اسلامی معاشرے میں اس منشاء کی ترجمانی وسیع پیمانے پر اخلاق میں ‘ قانون میں ‘ سیاست اور انتظام ملکی میں ‘ علوم و فنون اور نظام تعلیم میں ‘ غرض ہر شعبہ حیات میں کی گئی۔ اور ان بیشمار خرابیوں سے فکر و عمل کو محفوظ کردیا گیا جو علم کی بجائے گمان کی پیروی کرنے سے انسانی زندگی میں رونما ہوتی ہیں۔ اخلاق میں ہدایت کی گئی کہ بدگمانی سے بچو اور کسی شخص یا گروہ پر بلا تحقیق کوئی الزام نہ لگائو۔ قانون میں یہ مستقل اصول طے کرلیا گیا کہ محض شب ہے میں کسی کے خلاف کوئی کارروائی نہ کی جائے۔ تفتیش جرائم میں یہ قاعدہ مقرر کیا گیا کہ گمان میں کسی کو پکڑنا اور مار پیٹ کرنا یا حوالات میں دے دینا قطعی ناجائز ہے۔ غیر قوموں کے ساتھ برتائو میں یہ پالیسی متعین کردی گئی کہ تحقیق کے بغیر کسی کے خلاف کوئی قدم نہ اٹھایا جائے اور نہ مجرد شبہات پر افواہیں پھیلائی جائیں۔ نظام تعلیم میں بھی ان نام نہاد علوم کو ناپسند کیا گیا جو محض ظن و گمان اور لا طائل قیاسات پر مبنی ہیں۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ عقائد میں اوہام پرستی کی جڑ کاٹ دی گئی اور ایمان لانے والوں کو یہ سکھایا گیا کہ صرف اس چیز کو مانیں جو خدا اور رسول کے دیے ہوئے علم کی رو سے ثابت ہو۔ “ (تفہیم القرآن)
Top