Ruh-ul-Quran - Al-Israa : 22
لَا تَجْعَلْ مَعَ اللّٰهِ اِلٰهًا اٰخَرَ فَتَقْعُدَ مَذْمُوْمًا مَّخْذُوْلًا۠   ۧ
لَا تَجْعَلْ : تو نہ ٹھہرا مَعَ اللّٰهِ : اللہ کے ساتھ اِلٰهًا اٰخَرَ : کوئی دوسرا معبود فَتَقْعُدَ : پس تو بیٹھ رہے گا مَذْمُوْمًا : مذمت کیا ہوا مَّخْذُوْلًا : بےبس ہو کر
اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کو شریک نہ کر، ورنہ تو سزاوار مذمت اور بےیارومددگار ہو کر رہ جائے گا۔
لاَ تَجْعَلْ مَعَ اللّٰہِ اِلٰـھًا اٰخَرَفَـتَقْـعُدَ مَذْ مُوْمًا مَّخْذُوْلاً ۔ (سورۃ بنٓیْ اسرآئِ یل : 22) (اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کو شریک نہ کر، ورنہ تو سزاوار مذمت اور بےیارومددگار ہو کر رہ جائے گا۔ ) اس آیت کریمہ میں واحد کے خطاب سے محسوس ہوتا ہے کہ شاید نبی کریم ﷺ کو خطاب کیا گیا ہے۔ لیکن یہ ضروری نہیں، عربی زبان میں بعض دفعہ واحد کا خطاب جمع کے لیے بھی آتا ہے، لیکن اگر اس تصور کو بھی قبول کرلیا جائے کہ خطاب آنحضرت ﷺ سے ہے تو تب بھی یہ خطاب اس لحاظ سے آپ ﷺ کو ہے کہ آپ ﷺ نوعِ انسانی کے امام ہیں۔ آپ ﷺ کو خطاب فرما کر پوری نوع انسانی کو متوجہ کرنا مقصود ہے کیونکہ ساری نوع انسان آپ ﷺ کی امت دعوت ہے۔ توحید ہی بنیاد ہے فرمایا یہ جارہا ہے کہ دنیا اور آخرت کی کامیابیاں اور سرفرازیاں صرف ایک صورت میں ممکن ہیں کہ آدمی اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی اور کو شریک نہ ٹھہرائے۔ نہ اس کی ذات میں، نہ صفات میں، نہ حقوق میں، نہ افعال میں۔ وہ وحدہ لاشریک ہے، کوئی اس جیسا نہیں۔ ہم صرف اسی کے بندے اور اسی کے احکام کے غیرمشروط طور پر پابند ہیں۔ وہی ہمیں زندگی دینے والا ہے، وہی موت دے گا۔ دنیا بھی اس کے ہاتھ میں ہے اور آخرت بھی اس کے ہاتھ میں۔ ہر مخلوق کو وہی روزی عطا کرتا ہے۔ اسی کو حق پہنچتا ہے کہ وہ اپنے بندوں سے کامل اطاعت کا مطالبہ کرے اور پھر قیامت کے دن ان کی زندگی کا حساب کتاب بھی لے۔ اور پھر اسی کے مطابق کسی کو جزا سے نوازے اور کسی کو سزا دے دے۔ جو شخص اللہ تعالیٰ کے بارے میں ان بنیادی تصورات پر یقین نہیں رکھتا جسے توحید کہتے ہیں اس کا دین اسلام سے کوئی رشتہ نہیں۔ اور قرآن کریم کی تعلیم اسے کوئی فائدہ نہیں دے گی۔
Top