Ruh-ul-Quran - Al-Israa : 21
اُنْظُرْ كَیْفَ فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلٰى بَعْضٍ١ؕ وَ لَلْاٰخِرَةُ اَكْبَرُ دَرَجٰتٍ وَّ اَكْبَرُ تَفْضِیْلًا
اُنْظُرْ : دیکھو كَيْفَ : کس طرح فَضَّلْنَا : ہم نے فضیلت دی بَعْضَهُمْ : ان کے بعض (ایک) عَلٰي : پر بَعْضٍ : بعض (دوسرا) وَلَلْاٰخِرَةُ : اور البتہ آخرت اَكْبَرُ دَرَجٰتٍ : سب سے بڑے درجے وَّاَكْبَرُ : اور سب سے برتر تَفْضِيْلًا : فضیلت میں
دیکھو ہم نے ان کے ایک کو دوسرے پر کس طرح فضیلت دے رکھی ہے اور آخرت درجات اور فضیلت کے اعتبار سے کہیں بڑھ کر ہے۔
اُنْظُرْکَیْفَ فَضَّلْنَا بَعْضَھُمْ عَلٰی بَعْضٍ ط وَلَـلْاٰخِرَۃُ اَکْبَرُدَرَجٰتٍ وَّاَکْبَرُ تَفْضِیْلاً ۔ (سورۃ بنٓیْ اسرآئِ یل : 21) (دیکھو ہم نے ان کے ایک کو دوسرے پر کس طرح فضیلت دے رکھی ہے اور آخرت درجات اور فضیلت کے اعتبار سے کہیں بڑھ کر ہے۔ ) اونچ نیچ میں حکمت اس آیت کریمہ میں ہر غور و فکر کرنے والے کو غور و فکر کی دعوت دی گئی ہے کہ تم دنیا میں بسنے والے انسانوں کو دیکھو رزق میں، عزت میں، عہدہ و منصب میں، شکل و صورت میں، طاقت اور قوت میں کس طرح ایک کو دوسرے پر برتری حاصل ہے۔ بظاہر انسان یہ چاہتا ہے کہ سب انسان برابر ہونے چاہئیں، لیکن وہ یہ بھول جاتا ہے کہ انسانوں کا ہر لحاظ سے برابر ہونا خلاف فطرت بھی ہے اور خلاف حکمت بھی۔ اگر سب لوگ برابر ہوتے تو دنیا کا نظام معطل ہوجاتا۔ کوئی کسی سے کسی کام میں تعاون نہ کرتا۔ اور یہ کسی طرح ممکن نہ تھا کہ ہر کام ہر آدمی بجالاتا۔ قدرت کی تقسیم ہے کہ کوئی کپڑا بنتا ہے، کوئی کاشتکاری کرتا ہے، کوئی جوتا بناتا ہے، کوئی بال کاٹتا ہے، کوئی تعلیم دیتا ہے، کوئی تعلیم پاتا ہے، کوئی مزدوری کرتا ہے، کوئی مزدوری لیتا ہے، کوئی رہنمائی دیتا ہے، کوئی رہنمائی قبول کرتا ہے۔ یہی تقسیم انسانی زندگی کی ہمہ ہمی ہے۔ اسی سے یہاں کی سرگرمیاں وابستہ ہیں اور اسی میں انسان کی مسرتیں پنہاں ہیں۔ اور دوسری بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ اس اونچ نیچ اور تقسیم کے نتیجے میں انسانوں کی محنت اور سعی و کاوش کا حسن جھلکتا ہے۔ محنت کرنے والا آگے نکل جاتا ہے، بیکار پیچھے رہ جاتا ہے۔ ذہانتیں نئے نئے راستے تلاش کرلیتی ہیں اور لکیر کا فقیر راستہ ناپتا رہتا ہے۔ جب ہم ان مصالح پر غور کرتے ہیں تو صاف نظر آتا ہے کہ سوائے اس تقسیم کے جسے جبراً پیدا کیا گیا ہے اور سوائے اس تفضیل کے جسے ظلم سے وجود دیا گیا ہے باقی ہر وہ تقسیم اور ہر وہ فضیلت جو فطری مساعی کا نتیجہ ہے وہ فطرت کا تقاضا بھی ہے اور خوشیوں کی ضمانت بھی۔ اسی طرح قیامت کے دن بھی سب لوگ یکساں مراتب کے حامل نہیں ہوں گے حالانکہ وہاں خوشیوں کا مسرتوں کے سوا کچھ نہیں ہوگا کیونکہ وہاں کی مسرتیں اور وہاں کے مناصب بھی دنیا کے ایمان و عمل کا نتیجہ اور عکس ہوں گے۔ اس لیے وہ بھی عین مبنی برصداقت ہوں گے۔ مزیدبراں آخرت چونکہ دنیا کی نسبت بہت وسیع اور بہت عظیم ہے اس لیے وہ اپنے درجات و مراتب کے لحاظ سے بھی بہت عظیم ہوگی۔ یہ کہہ کر پروردگار نے اپنے بندوں کو شوق دلایا ہے کہ اگر تم جنت کے بیش بہا مناصب چاہتے ہو تو وہاں بھی ایک کو دوسرے سے آگے بڑھنے کے امکانات میسر ہیں۔ ایمان و عمل میں آگے بڑھنے کی کوشش کرو، قربانی و ایثار کی نئی نئی شمعیں جلائو۔ اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لیے ہمتوں کا آخری قطرہ تک نچوڑ دو ، تو جنت کی بڑی سے بڑی نعمت کو حاصل کیا جاسکتا ہے۔
Top