Ruh-ul-Quran - Al-Israa : 11
وَ یَدْعُ الْاِنْسَانُ بِالشَّرِّ دُعَآءَهٗ بِالْخَیْرِ١ؕ وَ كَانَ الْاِنْسَانُ عَجُوْلًا
وَيَدْعُ : اور دعا کرتا ہے الْاِنْسَانُ : انسان بِالشَّرِّ : برائی کی دُعَآءَهٗ : اس کی دعا بِالْخَيْرِ : بھلائی کی وَكَانَ : اور ہے الْاِنْسَانُ : انسان عَجُوْلًا : جلد باز
(اور انسان برائی کا اس طرح طالب بنتا ہے جس طرح اس کو بھلائی کا طالب بننا چاہیے، اور انسان بڑا ہی جلد باز ہے۔
وَیَدْعُ الْاِنْسَانُ بِالشَّرِّدُعَآء ہٗ بِالْخَیْرِ ط وَکَانَ الْاِنْسَانُ عَجُوْلاً ۔ (سورۃ بنٓیْ اسرآئِ یل : 11) (اور انسان برائی کا اس طرح طالب بنتا ہے جس طرح اس کو بھلائی کا طالب بننا چاہیے، اور انسان بڑا ہی جلد باز ہے۔ ) مخالفین کا طرز عمل روئے سخن قرآن کریم کے مخالفین کی طرف ہے جن کا طریقہ یہ تھا کہ بجائے آنحضرت ﷺ کی دعوت کو قبول کرنے یا اس پر سنجیدگی سے غور کرنے کے وہ اپنے خبث باطن کے اظہار یا آنحضرت ﷺ کو زچ کرنے کے لیے بار بار عذاب کا مطالبہ کرتے۔ نبی کریم ﷺ ازراہِ ہمدردی و غمخواری جب انھیں یہ سمجھاتے کہ تم اللہ تعالیٰ کے دین کو مذاق مت سمجھو، اسی دین سے تمہاری زندگی وابستہ ہے، اسی سے تمہاری دنیا کی کامیابیاں ہیں اور اسی سے اخروی سعادتیں متعلق ہیں۔ اگر تم نے اسے قبول کرنے کی بجائے اس سے تمسخر کارویہ جاری رکھا تو مجھے اندیشہ ہے کہ پہلی امتوں کی طرح تم پر اللہ تعالیٰ کا عذاب نہ ٹوٹے، تو وہ بدبخت بجائے اس سے فکرمند ہونے کے اس کا مذاق اڑاتے اور جب بھی آپ ﷺ ان سے مخاطب ہوتے تو وہ عذاب کی بحث چھیڑ کے بیٹھ جاتے تو ان کی حماقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پروردگار ارشاد فرما رہے ہیں کہ انسان کا بھی عجیب حال ہے، وہ بجائے خیر کے طالب ہونے کے برائی طلب کرتا ہے، یعنی بجائے اس کے کہ وہ آگے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کے دین کو قبول کرے وہ اس کی بجائے عذاب کو دعوت دے رہا ہے حالانکہ بجائے خود یہ چیز کس قدر احمقانہ ہے اور مزید یہ فرمایا کہ نبی کریم ﷺ بار بار انھیں یہ بات سمجھا چکے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا عذاب کوئی کھیل نہیں، وہ تو زندگی کی جڑ اکھاڑ کے رکھ دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ تو مخلوقات کے لیے انتہائی رحیم و کریم ہے اور انسان تو تمام مخلوقات میں گل سرسبد کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس لیے کبھی بھی وہ انسانوں کو سزا دینے میں جلدی نہیں کرتا۔ مہلت پہ مہلت دیتا چلا جاتا ہے، لیکن جب وہ دیکھتا ہے (اور اس کا علم یقینا ہر طرح کی غلطی سے پاک ہے) کہ اب ان لوگوں میں ایمان لانے کی کوئی رمق باقی نہیں رہی تو پھر وہ سزا دینے میں تأمل نہیں کرتا۔ اس وقت یہ لوگ مہلت کے دور سے گزر رہے ہیں۔ بجائے اس کے کہ یہ اس سے فائدہ اٹھائیں وہ اور دلیر ہوتے جارہے ہیں لیکن انھیں اندازہ نہیں کہ ان کی جلد بازیاں، ان کے لیے کہیں تباہی کا باعث نہ بن جائیں۔
Top