Ruh-ul-Quran - Al-Israa : 111
وَ قُلِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِیْ لَمْ یَتَّخِذْ وَلَدًا وَّ لَمْ یَكُنْ لَّهٗ شَرِیْكٌ فِی الْمُلْكِ وَ لَمْ یَكُنْ لَّهٗ وَلِیٌّ مِّنَ الذُّلِّ وَ كَبِّرْهُ تَكْبِیْرًا۠   ۧ
وَقُلِ : اور کہ دیں الْحَمْدُ : تمام تعریفیں لِلّٰهِ : اللہ کے لیے الَّذِيْ : وہ جس نے لَمْ يَتَّخِذْ : نہیں بنائی وَلَدًا : کوئی اولاد وَّلَمْ يَكُنْ : اور نہیں ہے لَّهٗ : اس کے لیے شَرِيْك : کوئی شریک فِي الْمُلْكِ : سلطنت میں وَلَمْ يَكُنْ : اور نہیں ہے لَّهٗ : اس کا وَلِيٌّ : کوئی مددگار مِّنَ : سے۔ سبب الذُّلِّ : ناتوانی وَكَبِّرْهُ : اور اس کی بڑائی کرو تَكْبِيْرًا : خوب بڑائی
اور کہہ دیجیے کہ ہر طرح کی تعریف اللہ تعالیٰ کے لیے ہے جس کے نہ کوئی اولاد ہے اور نہ اس کی حکمرانی میں اس کا کوئی ساجھی ہے، اور نہ اس کو ذلت سے بچانے کے لیے کسی مددگار کی ضرورت ہے، اور اس کی بڑائی بیان کرو جیسا کہ اس کا حق ہے۔
وَقُلِ الْحَمْدُلِلّٰہِ الَّذِیْ لَمْ یَتَّخِذْ وَلَدًا وَّلَمْ یَکُنْ لَّہٗ شَرِیْکٌ فِی الْمُلْکِ وَلَمْ یَکُنْ لَّہٗ وَلِیٌّ مِّنَ الذُّلِّ وَکَبِّرْہُ تَکْبِیْرًا۔ (سورۃ بنٓیْ اسرآئِ یل : 111) (اور کہہ دیجیے کہ ہر طرح کی تعریف اللہ تعالیٰ کے لیے ہے جس کے نہ کوئی اولاد ہے اور نہ اس کی حکمرانی میں اس کا کوئی ساجھی ہے، اور نہ اس کو ذلت سے بچانے کے لیے کسی مددگار کی ضرورت ہے، اور اس کی بڑائی بیان کرو جیسا کہ اس کا حق ہے۔ ) حضرت انس ( رض) فرماتے ہیں کہ بنی عبدالمطلب میں جب کوئی بچہ زبان کھولنے کے قابل ہوجاتا تو اس کو آپ ﷺ یہ آیت سکھا نے کی ترغیب دیتے تھے۔ اتمامِ حجت اور اعلانِ حق حضرت ابوہریرہ ( رض) فرماتے ہیں کہ ایک روز میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ باہر نکلا، اس طرح کہ میرا ہاتھ آپ ﷺ کے ہاتھ میں تھا۔ آپ ﷺ کا گزر ایک ایسے شخص پر ہوا جو بہت شکستہ حال اور پریشان تھا۔ آپ ﷺ نے پوچھا کہ تمہارا یہ حال کیسے ہوگیا ؟ اس شخص نے عرض کیا کہ بیماری اور تنگدستی نے مجھے اس حال کو پہنچا دیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ میں تمہیں چند کلمات بتاتا ہوں، وہ پڑھو گے تو تمہاری بیماری اور تنگدستی جاتی رہے گی۔ وہ کلمات یہ تھے، تَوَکَّلْتُ عَلٰی الْحَیِّ الَّذِیْ لاَیَمُوْتُ اَلْحَمْدُلِلّٰہِ الِّذْیْ اِلٰی آخرالایہ۔ یہ آخری آیت ایک طرح سے مشرکین پر اتمامِ حجت بھی ہے اور ان کے تمام عقائدباطلہ کے مقابلے میں اعلانِ حق بھی، کہ مشرکین کچھ بھی کہتے رہیں، آنحضرت ﷺ کو حکم دیا گیا ہے کہ آپ ﷺ یہ اعلان کردیں کہ میں تمہارے سامنے توحیدِ کامل کا پیغام لے کر آیا ہوں۔ اس میں اس بات کے لیے کوئی گنجائش نہیں کہ اللہ تعالیٰ کی کوئی اولاد ہے، کیونکہ اولاد کی ضرورت زوال پذیر شخصیتوں کو ہوتی ہے جو اس بات کا اندیشہ رکھیں کہ بڑھاپے میں ہمیں کون سنبھالے گا۔ اللہ تعالیٰ ہر طرح کی احتیاج سے پاک ہے، اس کی ذات کے لیے کبھی زوال نہیں۔ وہ حیی اور قیوم ہے، اس کی بادشاہی میں کوئی ساجھی اور شریک نہیں، پوری کائنات کا نظام اس کے احکام سے چل رہا ہے، کائنات کا ایک ایک ذرہ اس سے زندگی اور زندگی کے قیام کی بھیک مانگتا ہے۔ اسے شریک کی ضرورت تب ہوسکتی ہے جب اسے کائنات کے کسی گوشے میں اپنی حکومت اور نگرانی میں کمزوری کا اندیشہ ہو۔ وہ ایسے ہر اندیشے سے پاک ہے۔ کائنات کی ہر مخلوق اس کے خوان نعمت سے فیض پا رہی ہے۔ اس کے سامنے کائنات کا بڑے سے بڑا کُرّہ کمزوروں کی طرح تعمیل احکام کررہا ہے۔ انسانوں اور باقی مخلوقات کی بڑائی اسی میں ہے کہ تم سب مل کر اس کی کبریائی کے نغمے گائو اور اپنے قلب و دماغ میں اس کی کبریائی کو راسخ کرلو اور دنیا کے علم و دانش پر یہ بات واضح کردو کہ دنیا کی تمام ابتری کا علاج صرف اس بات میں ہے کہ اللہ تعالیٰ کی بڑائی اور اس کی کبریائی کو تسلیم کیا جائے اور زندگی کے ہر شعبے میں اس کو بنیادی اصول تسلیم کرکے زندگی کی تعمیر کی جائے۔
Top