Ruh-ul-Quran - Al-Israa : 106
وَ قُرْاٰنًا فَرَقْنٰهُ لِتَقْرَاَهٗ عَلَى النَّاسِ عَلٰى مُكْثٍ وَّ نَزَّلْنٰهُ تَنْزِیْلًا
وَقُرْاٰنًا : اور قرآن فَرَقْنٰهُ : ہم نے جدا جدا کیا لِتَقْرَاَهٗ : تاکہ تم اسے پڑھو عَلَي : پر النَّاسِ : لوگ عَلٰي مُكْثٍ : ٹھہر ٹھہر کر وَّنَزَّلْنٰهُ : اور ہم نے اسے نازل کیا تَنْزِيْلًا : آہستہ آہستہ
اور قرآن کو ہم نے تھوڑا تھوڑا کرکے اتارا تاکہ آپ ﷺ اسے لوگوں کو ٹھہر ٹھہر کر سنائیں اور ہم نے اس کو نہایت اہتمام سے اتارا۔
وَقُرْاٰنًا فَرَقْنٰـہُ لِتَقْرَاَہٗ عَلَی النَّاسِ عَلٰی مُکْثٍ وَّنَزَّلْنٰـہُ تَنْزِیْلاً ۔ (سورۃ بنٓیْ اسرآئِ یل : 106) (اور قرآن کو ہم نے تھوڑا تھوڑا کرکے اتارا تاکہ آپ ﷺ اسے لوگوں کو ٹھہر ٹھہر کر سنائیں اور ہم نے اس کو نہایت اہتمام سے اتارا۔ ) قرآن کے بتدریج اترنے کی حکمت یہ ایک اعتراض کا جواب ہے جو مشرکین کی طرف سے کیا گیا لیکن انھیں یقینا بنی اسرائیل نے اس پر آمادہ کیا، کیونکہ مشرکین آسمانی کتابوں کے بارے میں کچھ نہیں جانتے تھے۔ بنی اسرائیل نے انھیں یہ بات سمجھائی کہ ہماری کتابیں تو یکبارگی نازل ہوئیں۔ اگر یہ صاحب اللہ تعالیٰ کے نبی ﷺ ہیں تو ان پر کتاب ایک ہی دفعہ کیوں نہیں نازل ہوئی۔ معلوم ہوتا ہے کہ یہ محنت سے یا کسی کی مدد سے جتنا حصہ تیار کرلیتے ہیں وہ لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی کتاب کہہ کر سنا دیتے ہیں، پروردگار نے اس کا جواب دیتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ ہم نے اس کتاب کو تھوڑا تھوڑا کرکے اتارا ہے، کیونکہ اگر ہم اسے یکبارگی مکمل کتاب کی شکل میں اتارتے تو آنحضرت ﷺ چونکہ امی ہیں اور آپ ﷺ کی امت کی غالب اکثریت بھی امی ہے تو ان کے لیے اس کتاب کو محفوظ کرنا مشکل ہوجاتا۔ حکمت کی بات بھی یہ تھی کہ تبلیغ و دعوت کے نتیجے میں جیسی جیسی ضرورتیں پیش آتی جائیں اس کے مطابق قرآن کریم کی صورت میں ہدایات ملتی رہیں۔ اور جیسے جیسے مخالفت آگے بڑھے اور اذیتیں ناقابلِ برداشت ہونے لگیں تو حضرت جبرائیل اللہ تعالیٰ کے تسلی آمیز پیغامات لے کر اتریں اور اپنی ذات میں بھی آنحضرت ﷺ کے لیے تسکین کا باعث بنیں۔ اور جو مختلف سوالات مخالفین کی طرف سے کیے جائیں تو وقت پر اس کا جواب نازل ہونے پر مخالفین کو مطمئن کیا جاسکے۔ علما نے اس سلسلے میں بہت سی مصلحتیں لکھی ہیں، لیکن اس آیت میں قرآن کریم نے یہ کہا ہے کہ ہم نے اس لیے تھوڑا تھوڑا قرآن کریم نازل کیا ہے کہ یہ اہتمام کا تقاضا بھی تھا اور اس کتاب کی شان کے لائق بھی۔ اور مزید یہ بات کہ تعلیم و تربیت کی ضرورتوں میں سے ایک ضرورت یہ بھی تھی کہ آپ ﷺ تھوڑا تھوڑا ٹھہر ٹھہر کر لوگوں کو پڑھ کر سنائیں تاکہ وہ اسے ساتھ ساتھ یاد کرتے چلے جائیں، اس سے ان کے عمل میں پختگی آئے، ایمان میں تازگی پیدا ہو اور دل میں خشیت الٰہی اترتی چلی جائے۔
Top