Ruh-ul-Quran - Al-Israa : 103
فَاَرَادَ اَنْ یَّسْتَفِزَّهُمْ مِّنَ الْاَرْضِ فَاَغْرَقْنٰهُ وَ مَنْ مَّعَهٗ جَمِیْعًاۙ
فَاَرَادَ : پس اس نے ارادہ کیا اَنْ : کہ يَّسْتَفِزَّهُمْ : انہیں نکال دے مِّنَ : سے الْاَرْضِ : زمین فَاَغْرَقْنٰهُ : تو ہم نے اسے غرق کردیا وَمَنْ : اور جو مَّعَهٗ : اس کے ساتھ جَمِيْعًا : سب
پس فرعون نے ارادہ کیا کہ موسیٰ (علیہ السلام) اور بنی اسرائیل کو زمین سے اکھاڑ پھینکے، تو ہم نے اس کو اور جو اس کے ساتھ تھے سب کو غرق کردیا۔
فَاَرَادَاَنْ یَّسْتَـفِزَّھُمْ مِّنَ الْاَرْضِ فَاَغْرَقْـنٰـہُ وَمَنْ مَّعَہٗ جَمِیْعًا۔ وَّقُلْنَا مِنْ م بَعْدِہٖ لِبَنِیْٓ اِسْرَآئِ یْلَ اسْکُنُوا الْاَرْضَ فَاِذَا جَآئَ وَعْدُالْاٰخِرَۃِ جِئْنَا بِکُمْ لَفِیْفًا۔ (سورۃ بنٓیْ اسرآئِ یل : 103۔ 104) (پس فرعون نے ارادہ کیا کہ موسیٰ (علیہ السلام) اور بنی اسرائیل کو زمین سے اکھاڑ پھینکے، تو ہم نے اس کو اور جو اس کے ساتھ تھے سب کو غرق کردیا۔ اور اس کے بعد ہم نے بنی اسرائیل سے کہا کہ اب تم زمین میں بسو، پھر جب آخرت کا وعدہ آجائے گا تو ہم تم سب کو اکٹھا کرکے لائیں گے۔ ) قریش کے لیے آئینہ فرعون اور آل فرعون کی تمام تر سختیوں اور اذیتوں کے باوجودجب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی تبلیغ و دعوت کا سلسلہ نہ رکا اور آپ ( علیہ السلام) مسلسل اپنے مشن میں آگے بڑھتے رہے تو فرعون نے ارادہ کیا کہ انھیں سرزمینِ مصر سے نکال دے اور ایسی صورتحال پیدا کردے کہ ان کے پائوں اکھڑ جائیں اور وہ کسی طرح مصر میں رہنے کے قابل نہ رہیں اور ہجرت پر مجبور ہوجائیں، تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے ساتھیوں کو نکالنا چاہا لیکن ہم نے اس کی اس جسارت کی پاداش میں اسے اور اس کے ساتھیوں کو اکٹھے بحر قزم میں غرق کردیا۔ اب ہم نے بنی اسرائیل سے یہ کہا کہ دیکھو تم پر اللہ تعالیٰ کا کتنا بڑا انعام ہوا ہے کہ ہم نے تمہیں فرعونیوں کے ظلم سے نجات دی ہے۔ اب تم اس زمین میں رہو، بسو۔ مراد اس سے ارض مقدس ہے جس کا بنی اسرائیل سے وعدہ تھا۔ لیکن ساتھ ہی انھیں یاد دلایا کہ اس انعام کو پانے کے بعد کہیں آخرت کے وعدے کو نہ بھول جانا۔ تمہیں اندازہ ہونا چاہیے کہ جس طرح ہم نے تمہیں وعدے کے مطابق ارض مقدس عطا کی ہے اسی طرح ہم ایک دن قیامت بپا کریں گے اور تم سب کو حشر کے میدان میں جمع کردیں گے، لیکن افسوس کہ بنی اسرائیل اس وعدے کو بھول گئے، اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ اپنی تاریخ میں بار بار اللہ تعالیٰ کے عذاب کا شکار ہوتے رہے اور آج وہ دنیا میں عبرت کا نشان ہیں۔ بنی اسرائیل کی تاریخ کا حوالہ دے کر درحقیقت قریش کو یہ بات سمجھانا ہے کہ جس طرح فر عون نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو سرزمینِ مصر سے اکھاڑ پھینکنے کی کوشش کی اور اس کے نتیجے میں تباہ ہوگیا، تم بھی اسی طرح نبی کریم ﷺ اور مسلمانوں کو اکھاڑ پھینکنا چاہتے ہو۔ تمہیں تاریخ کے اس آئینہ میں اپنا انجام دیکھنا چاہیے۔
Top