Ruh-ul-Quran - Al-Hijr : 82
وَ كَانُوْا یَنْحِتُوْنَ مِنَ الْجِبَالِ بُیُوْتًا اٰمِنِیْنَ
وَكَانُوْا يَنْحِتُوْنَ : اور وہ تراشتے تھے مِنَ : سے الْجِبَالِ : پہاڑ (جمع) بُيُوْتًا : گھر اٰمِنِيْنَ : بےخوف وخطر
وہ پہاڑوں کو کھود کر اپنے گھر بناتے تھے ( اور) بےخوف و خطر رہا کرتے تھے۔
وَکَانُوْا یَنْحِتُوْنَ مِنَ الْجِبَالِ بُیُوْتًا اٰمِنِیْنَ ۔ (سورۃ الحجر : 82) (وہ پہاڑوں کو کھود کر اپنے گھر بناتے تھے ( اور) بےخوف و خطر رہا کرتے تھے۔ ) قومِ ثمود کا فنِ تعمیر اس دنیا میں ہمیشہ رہنے کے تصور نے انھیں یہ راستہ دکھایا تھا کہ پہاڑوں کو کھود کر گھر بنائے جائیں کیونکہ اس زمین پر اللہ تعالیٰ نے سب سے مضبوط کوئی مکان اگر تعمیر کیا ہے تو وہ پہاڑ ہیں جنھیں ان کی جگہ سے ہلانا آسان نہیں۔ صدیوں سے اپنی جگہ ایستادہ ہیں۔ مضبوط سے مضبوط مادہ تعمیر سے بنے ہوئے مکانات بھی کہنگی یا حوادث شکار ہو کر زمین بوس ہوجاتے ہیں لیکن جب تک پہاڑ قائم ہیں اس میں کھدا ہوا گھر بھی قائم ہے کیونکہ دونوں کی استواری ایک دوسرے کے ساتھ قائم ہے اور انھیں اپنے اس فنِ تعمیر پر بےحد ناز تھا۔ قرآن کریم نے شایدان کے اس فن کا بطور خاص ذکر کیا ہے۔ آٹھویں صدی ہجری میں ابن بطوطہ حج پر جاتے ہوئے یہاں سے گزرا تھا۔ وہ لکھتا ہے کہ یہاں سرخ رنگ کے پہاڑوں میں قوم ثمود کی عمارتیں موجود ہیں جو انھوں نے چٹانوں کو تراش خراش کر ان کے اندر بنائی تھیں۔ ان کے نقش و نگار اس وقت تک ایسے تازہ ہیں کہ جیسے آج بنائے گئے ہوں۔
Top